الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book on Zakat
2. باب مَا جَاءَ إِذَا أَدَّيْتَ الزَّكَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ
2. باب: زکاۃ ادا کرنے سے اپنے اوپر عائد فریضہ کے ادا ہو جانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About: When You Pay The Zakat You Have Fulfilled What Is Required Of You
حدیث نمبر: 618
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عمر بن حفص الشيباني البصري، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرنا عمرو بن الحارث، عن دراج، عن ابن حجيرة، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا اديت زكاة مالك فقد قضيت ما عليك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير وجه انه ذكر الزكاة، فقال رجل: يا رسول الله هل علي غيرها؟ فقال: " لا إلا ان تتطوع ". وابن حجيرة هو عبد الرحمن بن حجيرة المصري.حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ ابْنِ حُجَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَدَّيْتَ زَكَاةَ مَالِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ أَنَّهُ ذَكَرَ الزَّكَاةَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ فَقَالَ: " لَا إِلَّا أَنْ تَتَطَوَّعَ ". وَابْنُ حُجَيْرَةَ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُجَيْرَةَ الْمَصْرِيُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کر دی تو جو تمہارے ذمہ فریضہ تھا اسے تم نے ادا کر دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری اور سندوں سے بھی مروی ہے کہ آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا، تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل کچھ دو (یہ حدیث آگے آ رہی ہے)۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزکاة 3 (1788)، (تحفة الأشراف: 13591) (حسن) (دیکھئے ”تراجع الالبانی“ حدیث رقم: 99)»

وضاحت:
۱؎: یعنی مال کے حق میں سے تمہارے اوپر مزید کوئی اور ضروری حق نہیں کہ اس کے نکالنے کا تم سے مطالبہ کیا جائے، رہے صدقہ فطر اور دوسرے ضروری نفقات تو یہ مال کے حقوق میں سے نہیں ہیں، ان کے وجوب کا سبب نفس مال نہیں بلکہ دوسری وقتی چیزیں ہیں مثلاً قرابت اور زوجیت وغیرہ بعض نے کہا کہ ان واجبات کا وجوب زکاۃ کے بعد ہوا ہے اس لیے ان سے اس پر اعتراض درست نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1788) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (396)، ضعيف الجامع الصغير (312) //
حدیث نمبر: 735
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا كثير بن هشام، حدثنا جعفر بن برقان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: كنت انا وحفصة صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فاكلنا منه، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبدرتني إليه حفصة، وكانت ابنة ابيها، فقالت: يا رسول الله إنا كنا صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فاكلنا منه، قال: " اقضيا يوما آخر مكانه ". قال ابو عيسى: وروى صالح بن ابي الاخضر، ومحمد بن ابي حفصة هذا الحديث، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة مثل هذا، ورواه مالك بن انس، ومعمر، وعبيد الله بن عمر، وزياد بن سعد، وغير واحد من الحفاظ، عن الزهري، عن عائشة مرسلا، ولم يذكروا فيه عن عروة، وهذا اصح لانه روي عن ابن جريج، قال: سالت الزهري، قلت له: احدثك عروة، عن عائشة، قال: لم اسمع من عروة في هذا شيئا، ولكني سمعت في خلافة سليمان بن عبد الملك من ناس، عن بعض من سال عائشة عن هذا الحديث. حدثنا بذلك94 علي بن عيسى بن يزيد البغدادي، حدثنا روح بن عبادة، عن ابن جريج فذكر الحديث. وقد ذهب قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا الحديث، فراوا عليه القضاء إذا افطر، وهو قول مالك بن انس.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ صَائِمَتَيْنِ، فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَدَرَتْنِي إِلَيْهِ حَفْصَةُ، وَكَانَتِ ابْنَةَ أَبِيهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا صَائِمَتَيْنِ، فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، قَالَ: " اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ مَكَانَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَ هَذَا، وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَمَعْمَرٌ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ عُرْوَةَ، وَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّهُ رُوِيَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ، قُلْتُ لَهُ: أَحَدَّثَكَ عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: لَمْ أَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ فِي هَذَا شَيْئًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ فِي خِلَافَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ مِنْ نَاسٍ، عَنْ بَعْضِ مَنْ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ94 عَلِيُّ بْنُ عِيسَى بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَأَوْا عَلَيْهِ الْقَضَاءَ إِذَا أَفْطَرَ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں اور حفصہ دونوں روزے سے تھیں، ہمارے پاس کھانے کی ایک چیز آئی جس کی ہمیں رغبت ہوئی، تو ہم نے اس میں سے کھا لیا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے، تو حفصہ مجھ سے سبقت کر گئیں - وہ اپنے باپ ہی کی بیٹی تو تھیں - انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم لوگ روزے سے تھے۔ ہمارے سامنے کھانا آ گیا، تو ہمیں اس کی خواہش ہوئی تو ہم نے اسے کھا لیا، آپ نے فرمایا: تم دونوں کسی اور دن اس کی قضاء کر لینا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- صالح بن ابی اخضر اور محمد بن ابی حفصہ نے یہ حدیث بسند «زہری عن عروہ عن عائشہ» اسی کے مثل روایت کی ہے۔ اور اسے مالک بن انس، معمر، عبیداللہ بن عمر، زیاد بن سعد اور دوسرے کئی حفاظ نے بسند «الزہری عن عائشہ» مرسلاً روایت کی ہے اور ان لوگوں نے اس میں عروہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے زہری سے پوچھا: کیا آپ سے اسے عروہ نے بیان کیا اور عروہ سے عائشہ نے روایت کی ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے اس سلسلے میں عروہ سے کوئی چیز نہیں سنی ہے۔ میں نے سلیمان بن عبدالملک کے عہد خلافت میں بعض ایسے لوگوں سے سنا ہے جنہوں نے ایسے شخص سے روایت کی ہے جس نے اس حدیث کے بارے میں عائشہ سے پوچھا،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی نفل روزہ توڑ دے تو اس پر قضاء لازم ہے ۱؎ مالک بن انس کا یہی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفة الأشراف: 16419) (ضعیف) (جعفر بن برقان زہری سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عروہ کا واسطہ غلط ہے سند میں عروہ ہیں ہی نہیں)»

وضاحت:
۱؎: لیکن جمہور نے اسے تخییر پر محمول کیا ہے کیونکہ ام ہانی کی ایک روایت میں ہے «وإن كان تطوعاً فإن شئت فأقضي وإن شئت فلا تقضي» اور اگر نفلی روزہ ہے تو چاہو تو تم اس کی قضاء کرو اور چاہو تو نہ کرو اس روایت کی تخریج احمد نے کی ہے اور ابوداؤد نے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (423) // عندنا برقم (531 / 2457) //

قال الشيخ زبير على زئي: (735) إسناده ضعيف
جعفر صدوق يھم فى حديث الزھري (تق:932) والزھري عنعن (تقدم: 440) وللحديث شواھد ضعيفة عند أبى داود (2457) وغيره وحديث ابن جريج أيضاً ضعيف، علته جھالة شيوخ الزھري

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.