الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
22. باب مَا جَاءَ فِي الصَّوْمِ عَنِ الْمَيِّتِ
22. باب: میت کی طرف سے روزہ رکھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Fasting On Behalf Of The Dead
حدیث نمبر: 717
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو خالد الاحمر، عن الاعمش بهذا الإسناد نحوه. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، قال: وسمعت محمدا، يقول: جود ابو خالد الاحمر هذا الحديث، عن الاعمش. قال محمد: وقد روى غير ابي خالد، عن الاعمش مثل رواية ابي خالد. قال ابو عيسى: وروى ابو معاوية وغير واحد هذا الحديث، عن الاعمش، عن مسلم البطين، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يذكروا فيه سلمة بن كهيل، ولا عن عطاء، ولا عن مجاهد، واسم ابي خالد سليمان بن حبان.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: جَوَّدَ أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الْأَعْمَشِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رَوَى غَيْرُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي خَالِدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى أَبُو مُعَاوِيَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ سَلَمَةَ بْنَ كُهَيْلٍ، وَلَا عَنْ عَطَاءٍ، وَلَا عَنْ مُجَاهِدٍ، وَاسْمُ أَبِي خَالِدٍ سُلَيْمَانُ بْنُ حَبَّانَ.
اس سند سے بھی اعمش سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوخالد احمر نے اعمش سے یہ حدیث بہت عمدہ طریقے سے روایت کی ہے،
۳- ابوخالد الاحمر کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی اسے اعمش سے ابوخالد کی روایت کے مثل روایت کیا ہے، ابومعاویہ نے اور دوسرے کئی اور لوگوں نے یہ حدیث بطریق: «الأعمش عن مسلم البطين عن سعيد بن جبير عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، اس میں ان لوگوں نے سلمہ بن کہیل کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور نہ ہی عطاء اور مجاہد کے واسطے کا، ابوخالد کا نام سلیمان بن حیان ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: *
حدیث نمبر: 36
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هناد، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن محمد بن عجلان، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " مسح براسه واذنيه ظاهرهما وباطنهما ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن الربيع. قال ابو عيسى: وحديث ابن عباس حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم يرون مسح الاذنين ظهورهما وبطونهما.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ ظَاهِرِهِمَا وَبَاطِنِهِمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ الرُّبَيِّعِ. قال أبو عيسى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ مَسْحَ الْأُذُنَيْنِ ظُهُورِهِمَا وَبُطُونِهِمَا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا اور اپنے دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی حصوں کا مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ربیع رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں کی رائے ہے کہ دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی دونوں حصوں کا مسح کیا جائے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 7 (140)، سنن ابی داود/ الطہارة 52 (137)، سنن النسائی/الطہارة 84 (101، 102)، (تحفة الأشراف: 5978) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس باب اور حدیث سے مؤلف کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ کانوں کے اندورنی حصے کو چہرہ کے ساتھ دھونے اور بیرونی حصے کو سر کے ساتھ مسح کرنے کے قائلین کا رد کریں، اس قول کے قائلین کی دلیل والی حدیث ضعیف ہے، اور نص کے مقابلہ میں قیاس جائز نہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (439)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.