كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی 2. بَابُ مَا جَاءَ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ: باب: سات زمینوں کا بیان۔
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الطلاق میں) فرمایا «الله الذي خلق سبع سموات ومن الأرض مثلهن يتنزل الأمر بينهن لتعلموا أن الله على كل شىء قدير وأن الله قد أحاط بكل شىء علما» ”اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے پیدا کئے سات آسمان اور آسمان ہی کی طرح سات زمینیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام ان کے درمیان اترتے ہیں۔ یہ اس لیے تاکہ تم کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے علم کے اعتبار سے گھیر رکھا ہے۔“ اور سورۃ الطور میں «والسقف المرفوع» سے مراد آسمان ہے اور سورۃ والنازعات میں جو «رفع سمكها» ہے «سمك» کے معنی بناء عمارت کے ہیں۔ اور سورۃ والذاریات میں جو «حبك» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی برابر ہونا یعنی ہموار اور خوبصورت ہونا۔ سورۃ اذا السماء انشقت میں جو لفظ «أذنت» ہے اس کا معنی سن لیا اور مان لیا، اور لفظ «ألقت» کا معنی جتنے مردے اس میں تھے ان کو نکال کر باہر ڈال دیا، خالی ہو گئی۔ اور سورۃ والیل میں جو لفظ «طحاها» ہے اس کے معنی بچھایا۔ اور سورۃ والنازعات میں جو «ساهرة» کا لفظ ہے اس کے معنی روئے زمین کے ہیں، وہیں جاندار رہتے سوتے اور جاتے ہیں۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، انہیں علی بن مبارک نے کہا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن حارث نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ان کا ایک دوسرے صاحب سے ایک زمین کے بارے میں جھگڑا تھا۔ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے (جواب میں) فرمایا: ابوسلمہ! کسی کی زمین (کے ناحق لینے) سے بچو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر ایک بالشت کے برابر بھی کسی نے (زمین کے بارے میں) ظلم کیا تو (قیامت کے دن) ساتھ زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا۔
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ ناحق لے لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔“
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابوبکرہ کے صاحبزادے (عبدالرحمٰن) نے بیان کیا اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کی تھی۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، چار مہینے اس میں سے حرمت کے ہیں۔ تین تو پے در پے۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور (چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔“
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ نے کہ ارویٰ بنت ابی اوس سے ان کا ایک (زمین کے) بارے میں جھگڑا ہوا۔ جس کے متعلق ارویٰ کہتی تھی کہ سعید نے میری زمین چھین لی۔ یہ مقدمہ مروان خلیفہ کے یہاں فیصلہ کے لیے گیا جو مدینہ کا حاکم تھا۔ سعید رضی اللہ عنہ نے کہا بھلا کیا میں ان کا حق دبا لوں گا، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس نے ایک بالشت زمین بھی ظلم سے کسی کی دبا لی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔ ابن ابی الزناد نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، اور ان سے سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے (تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تھی)۔
|