English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

سنن ابن ماجه سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

سنن ابن ماجہ میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (4341)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
10. بَابُ: بِمَا يُسْتَحْلَفُ أَهْلُ الْكِتَابِ
باب: اہل کتاب کو کن الفاظ میں قسم دلائی جائے گی اس کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2328
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، أَنْبَأَنَا عَامِرٌ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِيَهُودِيَّيْنِ:" نَشَدْتُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یہودیوں سے فرمایا: میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دلاتا ہوں جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات اتاری۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2328]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الحدود 26 (4452، 4453، 4454 مختصراً)، (تحفة الأشراف: 2346)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/387) (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (4452)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 462

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
11. بَابُ: الرَّجُلاَنِ يَدَّعِيَانِ السِّلْعَةَ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ
باب: ایک چیز کے دو دعوے دار ہوں اور کسی کے پاس گواہ نہ ہوں تو اس کی حکم کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2329
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ خِلَاسٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّ رَجُلَيْنِ ادَّعَيَا دَابَّةً وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ فَأَمَرَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْ يَسْتَهِمَا عَلَى الْيَمِينِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ذکر کیا کہ ایک جانور پر دو آدمیوں نے دعویٰ کیا، اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم پر قرعہ اندازی کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2329]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الأقضیة 22 (3616، 3617)، (تحفة الأشراف: 14662)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الشہادات 24 (2674)، مسند احمد (2/489، 524) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہے کہ جانور ایک تیسرے شخص کے پاس ہو اور دو شخص اس کا دعوی کریں، اور تیسرا شخص کہے کہ میں اصل مالک کو نہیں پہچانتا، علی رضی اللہ عنہ کا یہی قول ہے، اور شافعی کے نزدیک وہ جانور تیسرے کے پاس رہے گا، اور ابوحنیفہ کے نزدیک دونوں دعوے داروں کو آدھا آدھا بانٹ دیں گے، اسی طرح اگر دو شخص ایک چیز کا دعوی کریں، اور دونوں گواہ پیش کریں اور کوئی ترجیح کی وجہ نہ ہو تو اس چیز کو آدھا آدھا بانٹ دیں گے، (ابوداود، حاکم، بیہقی)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (3616) والحديث الآتي (2346)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 462

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2330
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اخْتَصَمَ إِلَيْهِ رَجُلَانِ بَيْنَهُمَا دَابَّةٌ وَلَيْسَ لِوَاحِدٍ مِنْهُمَا بَيِّنَةٌ فَجَعَلَهَا بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی جھگڑا لے کر آئے، اور ان دونوں کے درمیان ایک جانور تھا (جس پر دونوں اپنا اپنا دعویٰ کر رہے تھے) اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ نہ تھا، تو آپ نے اسے دونوں کو آدھا آدھا بانٹ دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2330]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الأقضیة 22 (3613، 3614، 3615)، سنن النسائی/آداب القضاة 34 (5426)، (تحفة الأشراف: 9088)، مسند احمد (4/403) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (قتادہ سے مروی ان احادیث میں روایت ابوموسیٰ اشعری سے ہے، اور بعض رواة نے اسے سعید بن ابی بردہ عن أبیہ مرسلاً روایت کیا ہے، اور بعض حفاظ نے اسے سماک بن حرب سے مرسلاً صحیح مانا ہے، ملاحظہ ہو: تحفة الأشراف: 9088 و الإرواء: 2656)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي:حسن

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
12. بَابُ: مَنْ سُرِقَ لَهُ شَيْءٌ فَوَجَدَهُ فِي يَدِ رَجُلٍ اشْتَرَاهُ
باب: کسی آدمی کے یہاں چوری ہو گئی اور چوری کا مال کسی نے خرید لیا تو اس کا مال کا حقدار کون ہے؟
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2331
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا ضَاعَ لِلرَّجُلِ مَتَاعٌ أَوْ سُرِقَ لَهُ مَتَاعٌ فَوَجَدَهُ فِي يَدِ رَجُلٍ يَبِيعُهُ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ وَيَرْجِعُ الْمُشْتَرِي عَلَى الْبَائِعِ بِالثَّمَنِ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی کا کوئی سامان کھو جائے یا چوری ہو جائے، پھر وہ کسی آدمی کو اسے بیچتے ہوئے پائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، اور جس نے خریدا وہ اس کے بیچنے والے سے قیمت واپس لے لے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2331]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف: 4629، ومصباح الزجاجة: 816)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/13، 18) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (حجاج بن أرطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی اصل مالک جس کا مال چوری ہو گیا تھا، وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي:ضعيف
إسناده ضعيف
حجاج بن أرطاة: ضعيف
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 462

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
13. بَابُ: الْحُكْمِ فِيمَا أَفْسَدَتِ الْمَوَاشِي بِاللَّيْلِ
باب: مویشیوں نے اگر کسی کے کھیت اور باغ کو نقصان پہنچا دیا ہو تو اس کے حکم کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2332
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ ابْنَ مُحَيِّصَةَ الْأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ" أَنَّ نَاقَةً لِلْبَرَاءِ كَانَتْ ضَارِيَةً دَخَلَتْ فِي حَائِطِ قَوْمٍ فَأَفْسَدَتْ فِيهِ فَكُلِّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقَضَى أَنَّ حِفْظَ الْأَمْوَالِ عَلَى أَهْلِهَا بِالنَّهَارِ، وَعَلَى أَهْلِ الْمَوَاشِي مَا أَصَابَتْ مَوَاشِيهِمْ بِاللَّيْلِ".
ابن محیصہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ براء رضی اللہ عنہ کی ایک اونٹنی کو لوگوں کا کھیت چرنے کی عادی تھی، وہ لوگوں کے باغ میں چلی گئی، اور اسے نقصان پہنچا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ دن کو اپنے مال کی حفاظت کی ذمہ داری مال والوں کی ہے، اور رات کو جانور جو نقصان پہنچا جائیں اسے جانوروں کے مالکوں کو دینا ہو گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2332]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 92 (3570)، (تحفة الأشراف: 1753)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاقضیة 28 ((37)، مسند احمد (4/295، 5/436) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ رات کو جانور والوں کو چاہئے کہ اپنے جانور باندھ کر رکھیں، جب انہوں نے چھوڑ دیا اور کسی کا نقصان کیا تو نقصان ان کو بھرنا پڑے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (3570)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 463

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2332M
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةَ بْنُ هِشَامٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حَرَامِ بْنِ مُحَيِّصَةَ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، أَنَّ نَاقَةً لِآلِ الْبَرَاءِ أَفْسَدَتْ شَيْئًا فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ براء کے گھر والوں کی ایک اونٹنی نے کسی کا نقصان کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ اسی کے برابر واپس لوٹانے کا فرمایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2332M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏انظرماقبلہ (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح

14. بَابُ: الْحُكْمِ فِيمَنْ كَسَرَ شَيْئًا
باب: اگر کسی نے کوئی چیز توڑ دی تو اس کے حکم کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2333
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سُوءَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ : أَخْبِرِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" أَوَ مَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ سورة القلم آية 4 قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَصْحَابِهِ فَصَنَعْتُ لَهُ طَعَامًا وَصَنَعَتْ لَهُ حَفْصَةُ طَعَامًا، قَالَتْ: فَسَبَقَتْنِي حَفْصَةُ، فَقُلْتُ لِلْجَارِيَةِ: انْطَلِقِي فَأَكْفِئِي قَصْعَتَهَا فَلَحِقَتْهَا وَقَدْ هَمَّتْ أَنْ تَضَعَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكْفَأَتْهَا فَانْكَسَرَتِ الْقَصْعَةُ وَانْتَشَرَ الطَّعَامُ، قَالَتْ: فَجَمَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا فِيهَا مِنَ الطَّعَامِ عَلَى النِّطَعِ فَأَكَلُوا ثُمَّ بَعَثَ بِقَصْعَتِي فَدَفَعَهَا إِلَى حَفْصَةَ، فَقَالَ:" خُذُوا ظَرْفًا مَكَانَ ظَرْفِكُمْ وَكُلُوا مَا فِيهَا"، قَالَتْ: فَمَا رَأَيْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
قبیلہ بنی سوءۃ کے ایک شخص کا بیان ہے کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا حال بیان کیجئیے، تو وہ بولیں: کیا تم قرآن (کی آیت): «وإنك لعلى خلق عظيم» یقیناً آپ بڑے اخلاق والے ہیں نہیں پڑھتے؟ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، میں نے آپ کے لیے کھانا تیار کیا، اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی آپ کے لیے کھانا تیار کیا، حفصہ رضی اللہ عنہا مجھ سے پہلے کھانا لے آئیں، میں نے اپنی لونڈی سے کہا: جاؤ ان کے کھانے کا پیالہ الٹ دو، وہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، اور جب انہوں نے اپنا پیالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھنا چاہا، تو اس نے اسے الٹ دیا جس سے پیالہ ٹوٹ گیا، اور کھانا بکھر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گرے ہوئے کھانے کو اور پیالہ میں جو بچا تھا سب کو دستر خوان پر اکٹھا کیا، اور سب نے اسے کھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا پیالہ اٹھایا، اور اسے حفصہ کو دے دیا، اور فرمایا: اپنے برتن کے بدلے میں برتن لے لو، اور جو کھانا اس میں ہے وہ کھا لو، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر اس کا کوئی اثر نہیں دیکھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2333]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف: 17813، ومصباح الزجاجة: 817)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/111) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (سند میں «رجل من بنی سوء ة» مبہم ہے، لیکن ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوسری روایت نبوی میں اخلاق والا ٹکڑا ثابت ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 1213)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي:ضعيف
إسناده ضعيف
ضعفه البوصيري لجھالة ’’رجل من بني سوأة ‘‘
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 463

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2334
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ فَأَرْسَلَتْ أُخْرَى بِقَصْعَةٍ فِيهَا طَعَامٌ فَضَرَبَتْ يَدَ الرَّسُولِ فَسَقَطَتِ الْقَصْعَةُ فَانْكَسَرَتْ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِسْرَتَيْنِ فَضَمَّ إِحْدَاهُمَا إِلَى الْأُخْرَى فَجَعَلَ يَجْمَعُ فِيهَا الطَّعَامَ وَيَقُولُ:" غَارَتْ أُمُّكُمْ كُلُوا"، فَأَكَلُوا حَتَّى جَاءَتْ بِقَصْعَتِهَا الَّتِي فِي بَيْتِهَا فَدَفَعَ الْقَصْعَةَ الصَّحِيحَةَ إِلَى الرَّسُولِ وَتَرَكَ الْمَكْسُورَةَ فِي بَيْتِ الَّتِي كَسَرَتْهَا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں سے ایک کے پاس تھے، آپ کی کسی دوسری بیوی نے ایک کھانے کا پیالہ بھیجا، پہلی بیوی نے (غصہ سے کھانا لانے والے) کے ہاتھ پر مارا، اور پیالہ گر کر ٹوٹ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا کر ایک کو دوسرے سے جوڑا اور اس میں کھانا اکٹھا کرنے لگے اور فرماتے جاتے تھے: تمہاری ماں کو غیرت آ گئی ہے (کہ میرے گھر اس نے کھانا کیوں بھیجا)، تم کھانا کھاؤ، لوگوں نے کھایا، پھر جن کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اپنا پیالہ لائیں، تو آپ نے یہ صحیح سالم پیالہ قاصد کو عنایت کر دیا، اور ٹوٹا ہوا پیالہ اس بیوی کے گھر میں رکھ چھوڑا جس نے اسے توڑا تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2334]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 91 (3567)، سنن الترمذی/الأحکام 23 (1359)، سنن النسائی/عشرة النکاح 4 (3407)، (تحفة الأشراف: 633، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المظالم 34 (2481)، النکاح 107 (5225)، مسند احمد (3/105، 263)، سنن الدارمی/البیوع 58 (2640) (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:إسناده صحيح

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
15. بَابُ: الرَّجُلِ يَضَعُ خَشَبَةً عَلَى جِدَارِ جَارِهِ
باب: پڑوسی کی دیوار پر دھرن (شہتیر) رکھنے کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2335
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدَكُمْ جَارُهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَةً فِي جِدَارِهِ فَلَا يَمْنَعْهُ"، فَلَمَّا حَدَّثَهُمْ أَبُو هُرَيْرَةَ طَأْطَئُوا رُءُوسَهُمْ فَلَمَّا رَآهُمْ قَالَ: مَا لِي أَرَاكُمْ عَنْهَا مُعْرِضِينَ وَاللَّهِ لَأَرْمِيَنَّ بِهَا بَيْنَ أَكْتَافِكُمْ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی سے اس کا پڑوسی اس کی دیوار پر شہ تیر (دھرن یا کڑی) رکھنے کی اجازت مانگے، تو اس کو منع نہ کرے، جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث لوگوں سے بیان کی تو لوگوں نے اپنے سروں کو جھکا لیا، یہ دیکھ کر ابوہریرہ رضی اللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیوں، کیا ہوا؟ میں دیکھتا ہوں کہ تم اس حدیث سے منہ پھیر رہے ہو، اللہ کی قسم! میں تو اس کو تمہارے شانوں کے درمیان مار کر رہوں گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2335]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المظالم 20 (2463)، صحیح مسلم/المساقاة 29 (1609)، سنن ابی داود/الأقضیة 31 (3634)، سنن الترمذی/الأحکام 18 (1353)، (تحفة الأشراف: 13954)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 26 (32)، مسند احمد (2/396، 240، 274، 396، 463) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: یعنی ہر وقت تم کو سناؤں گا، یا تمہارے مونڈھوں کے بیچ میں اس حدیث کو لکھ کر لگا دوں گا، تاکہ ہر وقت ہر شخص دیکھے، یا تم اس کو چھپا نہ سکو، یا یہ مطلب ہے کہ تم تو دیوار پر کڑی رکھنے اور لکڑی گاڑ لینے کو گوارہ نہیں کرتے، میں تمہارے کندھوں پر بھی رکھوں گا، بعض روایتوں میں «اکنافکم» نون سے ہے یعنی تمہارے ہر طرف اس حدیث کو پھیلا دوں گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:متفق عليه

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2336
حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، أَنَّ هِشَامَ بْنَ يَحْيَى أَخْبَرَهُ، أَنَّ عِكْرِمَةَ بْنَ سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَخَوَيْنِ مِنْ بَلْمُغِيرَةِ أَعْتَقَ أَحَدَهُمَا أَنْ لَا يَغْرِزَ خَشَبًا فِي جِدَارِهِ، فَأَقْبَلَ مُجَمِّعُ بْنُ يَزِيدَ وَرِجَالٌ كَثِيرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَمْنَعْ أَحَدُكُمْ جَارَهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَةً فِي جِدَارِهِ". فَقَالَ: يَا أَخِي إِنَّكَ مَقْضِيٌّ لَكَ عَلَيَّ وَقَدْ حَلَفْتُ فَاجْعَلْ أُسْطُوَانًا دُونَ حَائِطِي أَوْ جِدَارِي فَاجْعَلْ عَلَيْهِ خَشَبَكَ.
عکرمہ بن سلمہ کہتے ہیں بلمغیرہ (بنی مغیرہ) کے دو بھائیوں میں سے ایک نے یہ شرط لگائی کہ اگر میری دیوار میں تم دھرن لگاؤ تو میرا غلام آزاد ہے، پھر مجمع بن یزید رضی اللہ عنہ اور بہت سے انصار آئے اور کہنے لگے: ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی (دھرن) گاڑنے سے منع نہ کرے، یہ سن کر وہ کہنے لگا: میرے بھائی! شریعت کا فیصلہ تمہارے موافق نکلا لیکن چونکہ میں قسم کھا چکا ہوں اس لیے تم میری دیوار کے ساتھ ایک ستون کھڑا کر کے اس پر لکڑی رکھ لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2336]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11217، ومصباح الزجاجة: 808)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/479، 480) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں ابن جریج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور ھشام بن یحییٰ مستور لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، اور عکرمہ بن سلمہ مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: «بلمغیرة» یعنی «بني المغیرة» اس میں ایک لغت یہ بھی ہے۔ تاکہ تمہارا کام نکل جائے اور میرا نقصان نہ ہو، ورنہ میرا غلام آزاد ہو جائے گا۔
قال الشيخ الألباني: حسن لغيره
قال الشيخ زبير على زئي:ضعيف
إسناده ضعيف
عكرمة بن سلمة: مجھول (تقريب:4670)
وأصل الحديث صحيح،انظر الحديث السابق (الأصل: 2335) وھو يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 463

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں