الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
حج اور عمرہ کے بیان میں
1. باب: «مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْيَتَعَجَّلْ» .
1. جس کا حج کرنے کا ارادہ ہو وہ جلدی کرے
حدیث نمبر: 1822
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو معاوية، حدثنا الحسن بن عمرو الفقيمي، عن مهران ابي صفوان، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من اراد الحج فليتعجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو الْفُقَيْمِيُّ، عَنْ مِهْرَانَ أَبِي صَفْوَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْيَتَعَجَّلْ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ جلدی کرے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1825]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1732]، [ابن ماجه 2883]، [أحمد 225/1]، [بيهقي 340/4]، [الحاكم 448/1]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1822)
ایک روایت ہے مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی: حج میں جلدی کرو، تم میں سے کوئی نہیں جانتا اس کو کیا پیش آجائے، اور ابن ماجہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مذکورہ بالا حدیث میں یہ اضافہ موجود ہے: آدمی کبھی بیمار ہو جاتا ہے، کبھی کوئی چیز گم ہو جاتی ہے اور کبھی کوئی حاجت پیش آجاتی ہے، انسان مشغول ہو جاتا ہے اس لئے استطاعت ہونے پر حج کرنے میں جلدی کرنی چاہیے کیونکہ حج اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور بڑا خوش نصیب ہے جو اسلام کے تمام ارکان پورے کر لے، فرمان الٰہی ہے: « ﴿وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾ [آل عمران: 97] » ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو استطاعت رکھتے ہیں، حج فرض کیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج مبرور کا بدلہ جنّت کے سوا کچھ نہیں۔
ایک اور حدیثِ صحیح میں ہے: جس شخص نے صحیح طریقے سے حج کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہو جاتا ہے جیسے حال کا پیدا شدہ بچہ جو معصوم ہوتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
2. باب مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ:
2. جو شخص استطاعت کے باوجود بنا حج کئے مر جائے اس کی سزا
حدیث نمبر: 1823
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، عن شريك، عن ليث، عن عبد الرحمن بن سابط، عن ابي امامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من لم يمنعه عن الحج حاجة ظاهرة، او سلطان جائر، او مرض حابس، فمات ولم يحج، فليمت إن شاء يهوديا، وإن شاء نصرانيا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ لَمْ يَمْنَعْهُ عَنْ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ، أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ، أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ، فَمَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ، فَلْيَمُتْ إِنْ شَاءَ يَهُودِيًّا، وَإِنْ شَاءَ نَصْرَانِيًّا".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو حج کرنے سے ظاہری ضرورت یا ظالم حاکم، یا روک دینے والی بیماری نہ روکے اور وہ بغیر حج کئے ہوئے مر جائے، تو چاہے تو وہ یہودی کی موت مرے اور چاہے نصرانی کی موت مرے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 1826]»
مذکور بالا حدیث کی سند لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 251/9]، [اللآلي المصنوعة 118/2]، [الموضوعات لابن الجوزي 210/2]، [ابن أبى شيبه 247، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1823)
ترمذی میں ہے کہ جو شخص زاد و راحلہ کا مالک ہو جو بیت الله تک اس کو پہنچا دے پھر بھی وہ حج نہ کرے تو الله تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ یہودی یا نصرانی ہو کر مرے، اس حدیث کی سند میں کلام ہے۔
یعنی جو شخص بنا حج کئے فوت ہو جائے تو گویا وہ یہودی یا نصرانی ہوکر مرا۔
حجۃ اللہ البالغہ میں ہے کہ تارک حج کو یہود اور نصاریٰ سے تشبیہ دی کیونکہ عرب کے مشرک حج کرتے تھے اور یہود و نصاریٰ نہیں کرتے تھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم
3. باب في حَجِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةً وَاحِدَةً:
3. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے حج اور عمرے کئے
حدیث نمبر: 1824
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا زهير، عن ابي إسحاق، قال: سمعت زيد بن ارقم، يقول: "حج النبي صلى الله عليه وسلم بعد هجرته حجة". قال: وقال ابو إسحاق: "حج قبل هجرته حجة"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، يَقُولُ: "حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هِجْرَتِهِ حَجَّةً". قَالَ: وَقَالَ أَبُو إِسْحَاق: "حَجَّ قَبْلَ هِجْرَتِهِ حَجَّةً"..
ابواسحاق نے کہا: میں نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد صرف ایک مرتبہ حج کیا، راوی نے کہا: اور ابواسحاق نے کہا: ہجرت سے پہلے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1827]»
پہلے جزء کی سند صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4404]، [مسلم 1254]، [أبويعلی 1693]، [ابن حبان 7174]، اور دوسرا جز ء ابواسحاق کا قول بھی موصولاً مروی ہے۔ دیکھئے: [بخاري و مسلم نفس الرقم] و [فتح الباري 107/8]، [دلائل النبوة 453/5]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1825
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا همام، حدثنا قتادة، قال: قلت لانس: كم حج النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: "حجة واحدة، واعتمر اربعا: عمرته الاولى التي صده المشركون عن البيت، وعمرته الثانية حين صالحوه فرجع من العام المقبل، وعمرته من الجعرانة حين قسم غنيمة حنين في ذي القعدة، وعمرته مع حجته".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: كَمْ حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: "حَجَّةً وَاحِدَةً، وَاعْتَمَرَ أَرْبَعًا: عُمْرَتُهُ الْأُولَى الَّتِي صَدَّهُ الْمُشْرِكُونَ عَنْ الْبَيْتِ، وَعُمْرَتُهُ الثَّانِيَةُ حِينَ صَالَحُوهُ فَرَجَعَ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ، وَعُمْرَتُهُ مِنْ الْجِعْرَانَةِ حِينَ قَسَّمَ غَنِيمَةَ حُنَيْنٍ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَعُمْرَتُهُ مَعَ حَجَّتِهِ".
قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے حج کئے؟ کہا: صرف ایک مرتبہ حج کیا، اور چار عمرے کئے، پہلا عمره جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین نے عمرہ کرنے سے روک دیا (یعنی عمرة الحدیبيۃ)، دوسرا عمره اس وقت کیا جب آئندہ سال کے لئے صلح ہوئی (یعنی صلح الحدیبیہ کے اگلے سال ذی القعدہ میں)، اور تیسرا عمرہ اس وقت کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے مال غنیمت کی تقسیم ذی القعدہ میں کی، اور چوتھا عمرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج کے ساتھ کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1828]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1778]، [مسلم 1253]، [أبوداؤد 1994]، [ترمذي 815]، [الموصلي 2872]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1823 سے 1825)
ان احادیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج اور عمرے کی تعداد معلوم ہوئی، حج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد صرف ایک مرتبہ کیا، کسی بھی مسئلہ کے ثبوت اور حجیت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بار ہی عمل کرنا کافی ہے۔
اور حج عمر میں صرف ایک بار ہی فرض ہے باقی جتنی بار حج کرنا چاہے وہ نفل ہوگا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے چار بار کئے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، بعض روایات میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین عمرے کئے، انہوں نے پہلا عمرہ شمار نہیں کیا کیونکہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے لئے مدینہ سے نکلے تھے لیکن مشرکینِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا اور پھر اگلے سال صلح حدیبیہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
4. باب كَيْفَ وُجُوبُ الْحَجِّ:
4. حج کے ایک بار واجب (فرض) ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 1826
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، حدثنا سليمان بن كثير، عن الزهري، عن سنان، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كتب عليكم الحج". فقيل: يا رسول الله في كل عام؟ قال:"لا، ولو قلتها لوجبت، الحج مرة فما زاد فهو تطوع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سِنَانٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْحَجُّ". فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي كُلِّ عَامٍ؟ قَالَ:"لَا، وَلَوْ قُلْتُهَا لَوَجَبَتْ، الْحَجُّ مَرَّةٌ فَمَا زَادَ فَهُوَ تَطَوُّعٌ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہر سال میں فرض ہے؟ فرمایا: نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال میں واجب ہو جاتا ہے، (حج عمر میں) صرف ایک مرتبہ فرض ہے، اس سے زیادہ نفل ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1829]»
اس روایت کی سند میں کچھ کلام ہے، لیکن متعدد طرق سے مروی ہے اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1721]، [نسائي 2619]، [ابن ماجه 2886]، [أحمد 256/1]، [الحاكم 293/2]، [بيهقي 326/4]، [أبويعلی 517، 542]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 1827
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن شريك، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس، نحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، نَحْوَهُ.
اس طریق سے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حسب سابق روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1830]»
تخریج اور تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1825 سے 1827)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت سوال نہیں کرنا چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کہا کہ تم پر حج فرض ہے۔
ایک روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر فرمایا کہ اگر میں کہہ دیتا کہ ہر سال حج فرض ہے تو واجب ہو جاتا اور پھر تم ہر سال حج ادا نہ کر سکتے، اور ہر سال حج ادا نہ کرتے تو (ترکِ حج کے) عذاب دیئے جاتے، فرض اور واجب کرنا الله تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاں کہہ دیتے تو الله کی طرف سے ویسا ہی حکم صادر ہو جاتا، یہ بھی رحمۃ للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امّت پر رحمت و مہربانی کی اعلیٰ مثال ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
5. باب الْمَوَاقِيتِ في الْحَجِّ:
5. حج کی مواقیت کا بیان
حدیث نمبر: 1828
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله بن يونس، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال: "وقت رسول الله صلى الله عليه وسلم لاهل المدينة ذا الحليفة، ولاهل الشام الجحفة، ولاهل نجد قرنا". قال: قال ابن عمر: اما هذه الثلاث فإني سمعتهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبلغني انه وقت لاهل اليمن يلملم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنًا". قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَمَّا هَذِهِ الثَّلَاثُ فَإِنِّي سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَلَغَنِي أَنَّهُ وَقَّتَ لِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا اور اہل شام کے لئے جحفہ کو، نجد والوں کے لئے قرن کو، راوی نے کہا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ان تینوں مواقیت کا ذکر میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور مجھ کو خبر لگی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن والوں کے لئے یلملم کو میقات مقرر فرمایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1831]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1525]، [مسلم 1182]، [أبوداؤد 1737]، [ترمذي 831]، [نسائي 2653]، [ابن ماجه 2914]، [أبويعلی 5423]، [ابن حبان 3759]، [الحميدي 635]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1827)
مواقیت میقات کی جمع ہے اور یہ دو طرح کی ہیں، زمانیہ اور مکانیہ، یعنی حج کرنے کا زمانہ اور جگہ۔
مواقيتِ زمانیہ سے مراد حج کے مہینے ہیں (شوال، ذوالقعده، ۱۰ ذوالحجہ تک)، اور مواقیت مکانیہ وہ اماکن و مقامات ہیں جہاں سے احرام باندھا جاتا ہے، اور یہ مقامات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چہار جانب سے آنے والوں کے لئے مقرر کر دی ہے، جہاں سے حاجی اور معتمر بنا احرام باندھے اگر گذر جائے تو یا تو اسے واپس آ کر اپنی میقات سے احرام باندھنا ہوگا یا پھر اس پر دم واجب ہوگا، تفصیل آگے آ رہی ہے۔
اس حدیث میں روایتِ حدیث میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی شدتِ احتیاط کا ثبوت اور ان کی سچائی اور فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ بتایا چوتھی میقات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نہیں بلکہ کسی صحابی سے سنا (رضی اللہ عنہ و ارضاه)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1829
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) خبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، مثله.(حديث مرفوع) خْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مثل سابق مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1832]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1830
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم "وقت لاهل المدينة ذا الحليفة، ولاهل الشام الجحفة، ولاهل نجد قرن المنازل، ولاهل اليمن يلملم، هن لاهلهن، ولكل آت اتى عليهن من غيرهن ممن اراد الحج والعمرة، ومن كان دون ذلك فمن حيث انشا، حتى اهل مكة من مكة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "وَقَّتَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ، هُنَّ لِأَهْلِهِنَّ، وَلِكُلِّ آتٍ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِهِنَّ مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، وَمَنْ كَانَ دُونَ ذَلِكَ فَمِنْ حَيْثُ أَنْشَأَ، حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ مِنْ مَكَّةَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے (احرام کے) لئے ذوالحلیفہ، شام والوں کے لئے جحفہ، نجد والوں کے لئے قرن المنازل، یمن والوں کے لئے یلملم متعین کیا، یہاں سے ان مقامات پر بسنے والے بھی احرام باندھیں اور وہ لوگ بھی جو ان راستوں سے گزریں اور وہ حج یا عمرے کا ارادہ رکھتے ہوں، لیکن جن کا قیام میقات اور مکہ کے درمیان ہے تو وہ احرام اسی جگہ سے باندھیں جہاں سے انہیں سفر شروع کرنا ہے، یہاں تک کہ مکہ کے لوگ مکہ سے ہی احرام باندھیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1833]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ [بخاري 1524، 1526]، [مسلم 1181]، [أبوداؤد 1738]، [نسائي 2653]، [أحمد 252/1]، [الطيالسي 994]، [ابن الجارود 413]، [دارقطني 237/2]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1828 سے 1830)
ان احادیث سے مواقیت کا علم ہوا، یعنی وہ مقامات جہاں سے حاجی یا معتمر کے لئے احرام باندھنا ضروری ہوتا ہے، مدینہ والوں کی میقات ذوالحلیفہ و آبار علی کے نام سے مشہور ہے، ریاض اور نجد سے جانے والوں کے لئے قرن المنازل ہے جو السیل الکبیر کے نام سے مشہور ہے، جحفہ اور یلملم بھی مشہور ومعروف ہیں اور سعودی حکومت نے وہاں پر خوبصورت اور عالیشان مساجد بنادی ہیں، نہانے کے لئے غسل خانے اور پاک صاف جگہیں تعمیر کرا دی ہیں جن کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے ہر جگہ ہر میقات پر بیسیوں ملازم کام کرتے ہیں اور چوبیس گھنٹے وہاں چہل پہل رہتی ہے «وفق اللّٰه ولاة امور المسلمين ورزقهم مزيدا من التوفيق وحرسها اللّٰه هذه المملكة من كيد الكائدين وأيدي العابثين، آمين يارب العالمين.»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
6. باب في الاِغْتِسَالِ في الإِحْرَامِ:
6. احرام کی حالت میں غسل کا بیان
حدیث نمبر: 1831
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا ابن عيينة، عن زيد بن اسلم، عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين، عن ابيه، قال: امترى المسور بن مخرمة، وابن عباس في غسل المحرم راسه، فارسلوني إلى ابي ايوب الانصاري: كيف رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يغسل راسه وهو محرم؟ فاتيت ابا ايوب وهو بين قرني البئر وقد ستر عليه بثوب، فسلمت عليه فضم الثوب إليه، فقلت: ارسلني إليك ابن اخيك ابن عباس: كيف رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يغسل راسه؟ "فامر يديه على راسه مقبلا ومدبرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: امْتَرَى الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ فِي غَسْلِ الْمُحْرِمِ رَأْسَهُ، فَأَرْسَلُونِي إِلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيّ: كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟ فَأَتَيْتُ أَبَا أَيُّوبَ وَهُوَ بَيْنَ قَرْنَيْ الْبِئْرِ وَقَدْ سُتِرَ عَلَيْهِ بِثَوْبٍ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَضَمَّ الثَّوْبَ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ ابْنُ أَخِيكَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ؟ "فَأَمَرَّ يَدَيْهِ عَلَى رَأْسِهِ مُقْبِلًا وَمُدْبِرًا".
عبدالله بن حنین نے کہا: سیدنا مسور بن مخرمہ اور سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہم کے درمیان محرم کا اپنے سر کو دھونے کے بارے میں اختلاف ہو گیا، چنانچہ انہوں نے مجھے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ ان سے پوچھوں کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت احرام میں کس طرح اپنا سر دھوتے ہوئے دیکھا ہے؟ لہٰذا میں سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا جو کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان بیٹھے ایک کپڑے کی آڑ میں غسل کر رہے تھے، میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے پردہ نیچے کیا، میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ کے چچا زاد بھائی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کے پاس بھیجا ہے (یہ پوچھنے کے لئے) کہ آپ نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں اپنا سر کیسے دھوتے تھے؟ سو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو سر پر پھیرا، آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1834]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1840]، [مسلم 1205]، [ابوداؤد 1840]، [نسائي 2664]، [ابن ماجه 2934]، [أحمد 416/5]، [ابن ابي شيبه 12846]، [ابن حبان 3948]، [الحميدي 383]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1830)
دوسری روایات میں ہے کہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے پانی ڈالنے کو کہا، اس نے پانی ڈالا اور پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے پیچھے سر پر پھیرا۔
اس سے معلوم ہوا کہ احرام کی حالت میں سر دھونا جائز ہے لیکن بالوں کو رگڑنا نہیں چاہیے، مولانا داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں: اس حدیث کے فوائد میں سے صحابہ کرام کا باہمی طور پر مسائلِ احکام سے متعلق مناظرہ کرنا، پھر نص کی طرف رجوع کرنا اور پھر ان کا خبرِ واحد کو قبول کر لینا بھی ہے ..... انتہیٰ شرح بخاری شریف (1840)۔
ایک روایت میں ہے: مسئلہ معلوم ہوجانے پر سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ اب میں کسی مسئلہ میں آپ سے جھگڑا (فی روایۃ مخالفۃ) نہیں کروں گا۔
کما فی مسلم (1205)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.