الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال
Characteristics of the Day of Judgment, Paradise, and Hell
6. باب قَوْلِهِ: {إِنَّ الإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى}:
6. باب: آیت «إِنَّ الإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى» کا شانِ نزول۔
Chapter: The Words Of Allah: "Verily, Man Does Transgress Because He Considers Himself Self-Sufficient."
حدیث نمبر: 7065
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبيد الله بن معاذ ، ومحمد بن عبد الاعلى القيسي ، قالا: حدثنا المعتمر ، عن ابيه ، حدثني نعيم بن ابي هند ، عن ابي حازم ، عن ابي هريرة ، قال: قال ابو جهل: هل يعفر محمد وجهه بين اظهركم؟، قال: فقيل: نعم، فقال: واللات والعزى لئن رايته يفعل ذلك لاطان على رقبته، او لاعفرن وجهه في التراب، قال: فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي زعم ليطا على رقبته، قال: فما فجئهم منه إلا وهو ينكص على عقبيه، ويتقي بيديه، قال: فقيل له: ما لك؟، فقال: إن بيني وبينه لخندقا من نار وهولا واجنحة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو دنا مني لاختطفته الملائكة عضوا عضوا، قال: فانزل الله عز وجل لا ندري في حديث ابي هريرة او شيء بلغه كلا إن الإنسان ليطغى {6} ان رآه استغنى {7} إن إلى ربك الرجعى {8} ارايت الذي ينهى {9} عبدا إذا صلى {10} ارايت إن كان على الهدى {11} او امر بالتقوى {12} ارايت إن كذب وتولى {13} سورة العلق آية 6-13 يعني ابا جهل الم يعلم بان الله يرى {14} كلا لئن لم ينته لنسفعا بالناصية {15} ناصية كاذبة خاطئة {16} فليدع ناديه {17} سندع الزبانية {18} كلا لا تطعه سورة العلق آية 14-19 زاد عبيد الله في حديثه، قال: وامره بما امره به، وزاد ابن عبد الاعلى، فليدع ناديه: يعني قومه.حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: هَلْ يُعَفِّرُ مُحَمَّدٌ وَجْهَهُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ؟، قَالَ: فَقِيلَ: نَعَمْ، فَقَالَ: وَاللَّاتِ وَالْعُزَّى لَئِنْ رَأَيْتُهُ يَفْعَلُ ذَلِكَ لَأَطَأَنَّ عَلَى رَقَبَتِهِ، أَوْ لَأُعَفِّرَنَّ وَجْهَهُ فِي التُّرَابِ، قَالَ: فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي زَعَمَ لِيَطَأَ عَلَى رَقَبَتِهِ، قَالَ: فَمَا فَجِئَهُمْ مِنْهُ إِلَّا وَهُوَ يَنْكُصُ عَلَى عَقِبَيْهِ، وَيَتَّقِي بِيَدَيْهِ، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: مَا لَكَ؟، فَقَالَ: إِنَّ بَيْنِي وَبَيْنَهُ لَخَنْدَقًا مِنْ نَارٍ وَهَوْلًا وَأَجْنِحَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ دَنَا مِنِّي لَاخْتَطَفَتْهُ الْمَلَائِكَةُ عُضْوًا عُضْوًا، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا نَدْرِي فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ أَوْ شَيْءٌ بَلَغَهُ كَلَّا إِنَّ الإِنْسَانَ لَيَطْغَى {6} أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى {7} إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى {8} أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى {9} عَبْدًا إِذَا صَلَّى {10} أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى {11} أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى {12} أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى {13} سورة العلق آية 6-13 يَعْنِي أَبَا جَهْلٍ أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى {14} كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ {15} نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ {16} فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ {17} سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ {18} كَلَّا لا تُطِعْهُ سورة العلق آية 14-19 زَادَ عُبَيْدُ اللَّهِ فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: وَأَمَرَهُ بِمَا أَمَرَهُ بِهِ، وَزَادَ ابْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ: يَعْنِي قَوْمَهُ.
عبید اللہ بن معاذ اور محمد بن عبد الاعلی قیسی نے ہمیں حدیث بیان کی دونوں نے کہا: ہمیں معتمر نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: مجھے نعیم بن ابی ہندنےابوحازم سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: ابوجہل نے کہا: کیا محمدتم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ زمین پر رکھتے ہیں؟ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو کہا گیا: ہاں چنانچہ اس نے کہا: لات اور عزیٰ کی قسم!اگر میں نے ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں ان کی گردن کو روندوں گا یا ان کے چہرےکو مٹی میں ملاؤں گا (العیاذ باللہ!) کہا: پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے وہ آپ کے پاس آیا اور یہ ارادہ کیا کہ آپ کی گردن مبارک کوروندے (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: تووہ انھیں اچانک ایڑیوں کے بل پلٹتا ہوا اور اپنے دونوں ہاتھوں (کو آگے کر کے ان) سے اپنا بچاؤ کرتا ہوا نظر آیا۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو اس سے کہا کیا: تمھیں کیا ہوا؟تو اس نے کہا: میرے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق اور سخت ہول (پیدا کرنے والی مخلوق) اور بہت سے پر تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کے ایک ایک عضو کو اچک لیتے۔ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیاتنازل فرمائیں۔ (ابو حازم نے کہا۔ (ہمیں معلوم نہیں کہ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی) اپنی حدیث ہے یا انھیں (کسی کی طرف سے) پہنچی ہے۔ (وہ آیات یہ تھیں) "اس کے سواکوئی بات نہیں کہ انسان ہر صورت میں سر کشی کرتا ہے اس لیے کہ وہ خود کو دیکھتا ہے کہ وہ ہر ایک سے مستغنی ہے حقیقت یہ ہے کہ (اسے) آپ کے رب کی طرف واپس جانا ہے۔آپ نے اسے دیکھا جو روکتا ہے۔ (اللہ کے) بندے کو جب وہ نماز اداکرتا ہے۔کیا تم نے دیکھا کہ اگر وہ (اللہ کا بندہ) ہدایت پر ہو اور تقوی کا حکم دیتا ہو (تو روکنے والے کا کیا بنے گا؟) کیا آپ نے دیکھا کہ آکر اس یعنی ابو جہل نے جھٹلایا ہے اور ہدایت سے منہ پھیراہے۔ (تو) کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھتا ہے۔ہر گز نہیں!اگر وہ باز نہ آیا تو ہم (اسے) پیشانی سے پکڑ کر کھینچیں کے۔ (اس کی) جھوٹی گناہ کرنے والی پیشانی سے پھر وہ اپنی مجلس کو (مددکے لیے) پکارے ہم عذاب دینے والے فرشتوں کو بلائیں گے۔ ہر گز نہیں!آپ اس کی (کوئی بات بھی) نہ مانیں۔" عبید اللہ (بن معاذ) نے اپنی حدیث میں مزید کہا۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَیٰ کی تفسیر کرتے ہوئے) کہا: اور اس بات کا حکم دیتا ہو جس کا اس (اللہ) نے اسے حکم دیا ہے۔اور (محمد) بن عبد الاعلیٰ نے مزید یہ کہا: "وہ اپنی مجلس کو پکارے "یعنی اپنی قوم کو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:ابوجہل نے کہا: کیا محمدتم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ زمین پر رکھتے ہیں؟ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے)کہا: تو کہا گیا: ہاں چنانچہ اس نے کہا: لات اور عزیٰ کی قسم!اگر میں نے ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں ان کی گردن کو روندوں گا یا ان کے چہرےکو مٹی میں ملاؤں گا(العیاذ باللہ!)کہا: پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے وہ آپ کے پاس آیا اور یہ ارادہ کیا کہ آپ کی گردن مبارک کوروندے(ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: تووہ انھیں اچانک ایڑیوں کے بل پلٹتا ہوا اور اپنے دونوں ہاتھوں (کو آگے کر کے ان)سے اپنا بچاؤ کرتا ہوا نظر آیا۔(ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:تو اس سے کہا کیا:تمھیں کیا ہوا؟تو اس نے کہا: میرے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق اور سخت ہول (پیدا کرنے والی مخلوق)اور بہت سے پر تھے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کے ایک ایک عضو کو اچک لیتے۔(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے)کہا: اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیاتنازل فرمائیں۔(ابو حازم نے کہا۔(ہمیں معلوم نہیں کہ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی) اپنی حدیث ہے یا انھیں(کسی کی طرف سے) پہنچی ہے۔ (وہ آیات یہ تھیں)"اس کے سواکوئی بات نہیں کہ انسان ہر صورت میں سر کشی کرتا ہے اس لیے کہ وہ خود کو دیکھتا ہے کہ وہ ہر ایک سے مستغنی ہے حقیقت یہ ہے کہ(اسے)آپ کے رب کی طرف واپس جانا ہے۔آپ نے اسے دیکھا جو روکتا ہے۔(اللہ کے)بندے کو جب وہ نماز اداکرتا ہے۔کیا تم نے دیکھا کہ اگر وہ (اللہ کا بندہ)ہدایت پر ہو اور تقوی کا حکم دیتا ہو(تو روکنے والے کا کیا بنے گا؟)کیا آپ نے دیکھا کہ آکر اس یعنی ابو جہل نے جھٹلایا ہے اور ہدایت سے منہ پھیراہے۔(تو) کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھتا ہے۔ہر گز نہیں!اگر وہ باز نہ آیا تو ہم (اسے) پیشانی سے پکڑ کر کھینچیں کے۔ (اس کی)جھوٹی گناہ کرنے والی پیشانی سے پھر وہ اپنی مجلس کو(مددکے لیے) پکارے۔ہم عذاب دینے والے فرشتوں کو بلائیں گے۔ ہر گز نہیں!آپ اس کی(کوئی بات بھی) نہ مانیں۔"(سورہ علق۔آیت نمبر۔6تا19)عبیداللہ کی حدیث میں یہ اضافہ ہے،اللہ نے اسے حکم دیا،جو اس نے اپنے اعوان وانصار کو حکم دیا تھا،ابن عبدالاعلیٰ نے اضافہ کیا،وہ اپنی مجلس یعنی اپنی قوم کو بلالے۔
7. باب الدُّخَانِ:
7. باب: دھوئیں کے بیان میں۔
Chapter: The Smoke (Ad-Dukhan)
حدیث نمبر: 7066
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا جرير ، عن منصور ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، قال: كنا عند عبد الله جلوسا وهو مضطجع بيننا، فاتاه رجل، فقال يا ابا عبد الرحمن: إن قاصا عند ابواب كندة يقص ويزعم ان آية الدخان تجيء، فتاخذ بانفاس الكفار وياخذ المؤمنين منه كهيئة الزكام، فقال عبد الله : وجلس وهو غضبان: يا ايها الناس اتقوا الله من علم منكم شيئا، فليقل بما يعلم، ومن لم يعلم، فليقل: الله اعلم، فإنه اعلم لاحدكم، ان يقول: لما لا يعلم الله اعلم، فإن الله عز وجل، قال لنبيه صلى الله عليه وسلم: قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86 إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما راى من الناس إدبارا، فقال: " اللهم سبع كسبع يوسف "، قال: فاخذتهم سنة حصت كل شيء حتى اكلوا الجلود والميتة من الجوع، وينظر إلى السماء احدهم، فيرى كهيئة الدخان، فاتاه ابو سفيان، فقال يا محمد: إنك جئت تامر بطاعة الله وبصلة الرحم، وإن قومك قد هلكوا فادع الله لهم، قال الله عز وجل: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين {10} يغشى الناس هذا عذاب اليم {11} سورة الدخان آية 10-11 إلى قوله إنكم عائدون سورة الدخان آية 15 قال افيكشف عذاب الآخرة يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 16 فالبطشة يوم بدر، وقد مضت آية الدخان والبطشة واللزام وآية الروم ".أخبرنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ جُلُوسًا وَهُوَ مُضْطَجِعٌ بَيْنَنَا، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: إِنَّ قَاصًّا عِنْدَ أَبْوَابِ كِنْدَةَ يَقُصُّ وَيَزْعُمُ أَنَّ آيَةَ الدُّخَانِ تَجِيءُ، فَتَأْخُذُ بِأَنْفَاسِ الْكُفَّارِ وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : وَجَلَسَ وَهُوَ غَضْبَانُ: يَا أَيَّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ مَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ بِمَا يَعْلَمُ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّهُ أَعْلَمُ لِأَحَدِكُمْ، أَنْ يَقُولَ: لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86 إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ سَبْعٌ كَسَبْعِ يُوسُفَ "، قَالَ: فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ مِنَ الْجُوعِ، وَيَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ أَحَدُهُمْ، فَيَرَى كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ: إِنَّكَ جِئْتَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ {10} يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ {11} سورة الدخان آية 10-11 إِلَى قَوْلِهِ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15 قَالَ أَفَيُكْشَفُ عَذَابُ الْآخِرَةِ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16 فَالْبَطْشَةُ يَوْمَ بَدْرٍ، وَقَدْ مَضَتْ آيَةُ الدُّخَانِ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَآيَةُ الرُّومِ ".
منصور نے ابو ضحیٰ (مسلم بن صحیح) سے، انھوں نے مسروق سے روایت کی، کہا: ہم حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان (اپنے بستر یا بچھونے پر) لیٹے ہوئے تھے تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا: ابو عبدالرحمان!ابواب کندہ (کوفہ کا ایک محلہ) میں ایک قصہ گو (واعظ) آیا ہوا ہے، وہ وعظ کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ دھوئیں والی (اللہ کی) نشانی آئے گی اور (یہ د ھواں) کافروں کی روحیں قبض کرلے گا اور مومنوں کو یہ زکام جیسی کیفیت سے دو چار کرے گا۔حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے کہا اور وہ غصے کے عالم میں اٹھ کر بیٹھ گئے، لوگو! اللہ سے ڈرو، تم میں سے جو شخص کوئی چیز جانتا ہو، وہ اتنی ہی بیان کرے جتنی جانتاہو اور جو نہیں جانتا، وہ کہے: اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔بے شک وہ (اللہ تعالیٰ) تم میں سے اس کو (بھی) زیادہ جاننے والاہے۔جو اس بات کے بارے میں جو وہ نہیں جانتا، یہ کہتا ہے: اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔اللہ عزوجل نے ا پنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا؛"کہہ دیجئے: میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی دین سے روگردانی دیکھی تو آپ نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: "اے اللہ! (ان پر) یوسف علیہ السلام کےسات سالوں جیسے سات سال (بھیج دے۔) " (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو انھیں (قحط کے) ایک سال نے آلیا جس نے ہر چیز کاصفایاکرایا، یہاں تک کہ ان (مشرک) لوگوں نے بھوک سے چمڑے اور مردار تک کھائے۔ان میں سے کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے دھوئیں کے جیسی ایک چیز چھائی ہوئی نظر آتی۔چنانچہ ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ آئے ہیں، اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں، آپ کی قوم (قحط اور بھوک سے) ہلاک ہورہی ہے۔ان کےلیے اللہ سے دعا کریں۔اللہ عزوجل نے فرمایا: " آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان ایک نظر آنے والے دھوئیں کو لے آئے گا۔ (اور وہ) لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔یہ دردناک عذاب ہوگا، سے لے کر اس کے فرمان: "نے شک تم (کفر میں) لوٹ جانے والے ہوگئے"تک۔ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: کیا آخرت کا عذاب ہٹایا جائے گا؟"جس دن ہم تم پر بڑی گرفت کریں گے (اس دن) ہم انتقام لینے والے ہوں گے۔"وہ گرفت بدر کے دن تھی۔اب تک دھوئیں کی نشانی گرفت اور چمٹ جانےوالا عذاب (بدر میں شکست فاش اور قتل) اور روم (کی فتح) کی نشانی (سب) آکر گذر چکی ہیں۔
امام مسروق بیان کرتے ہیں،ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان(اپنے بستر یا بچھونے پر) لیٹے ہوئے تھے تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا:ابو عبدالرحمان!ابواب کندہ(کوفہ کا ایک محلہ) میں ایک قصہ گو(واعظ) آیا ہوا ہے،وہ وعظ کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ دھوئیں والی(اللہ کی)نشانی آئے گی اور(یہ د ھواں) کافروں کی روحیں قبض کرلے گا اور مومنوں کو یہ زکام جیسی کیفیت سے دو چار کرے گا۔حضرت عبداللہ(بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا اور وہ غصے کے عالم میں اٹھ کر بیٹھ گئے،لوگو! اللہ سے ڈرو،تم میں سے جو شخص کوئی چیز جانتا ہو،وہ اتنی ہی بیان کرے جتنی جانتاہو اور جو نہیں جانتا،وہ کہے:اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔بے شک وہ(اللہ تعالیٰ) تم میں سے اس کو(بھی) زیادہ جاننے والاہے۔جو اس بات کے بارے میں جو وہ نہیں جانتا،یہ کہتا ہے:اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔اللہ عزوجل نے ا پنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا؛"کہہ دیجئے:میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں۔"(سورہ ص:86) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی دین سے روگردانی دیکھی تو آپ نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا:"اے اللہ!(ان پر) یوسف ؑ کےسات سالوں جیسے سات سال(بھیج دے۔)"(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:تو انھیں (قحط کے) ایک سال نے آلیا جس نے ہر چیز کاصفایاکرایا،یہاں تک کہ ان(مشرک)لوگوں نے بھوک سے چمڑے اور مردار تک کھائے۔ان میں سے کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے دھوئیں کے جیسی ایک چیز چھائی ہوئی نظر آتی۔چنانچہ ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ آئے ہیں،اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں،آپ کی قوم(قحط اور بھوک سے) ہلاک ہورہی ہے۔ان کےلیے اللہ سے دعا کریں۔اللہ عزوجل نے فرمایا:" آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان ایک نظر آنے والے دھوئیں کو لے آئے گا۔جولوگوں پر چھا جائے گا،جوالمناک عذاب ہوگا،(کہیں گے) اے ہمارے رب!ہم سے اس عذاب کو دور کر دے،ہم ایمان لے آئیں گے،اس وقت انھیں نصیحت کہاں کارگرہوگی،حالانکہ ان کے پاس رسول مبین(کھول کر بیان کرنے والا)آچکا ہے،پھر انہوں نے اس سے منہ موڑا اور کہنے لگے،یہ تو سکھایا پڑھایا دیوانہ ہے۔"ہم تھوڑی دیر عذاب ہٹادیں گے،مگر تم پھر وہی کروگے جوپہلے کرتے رہے۔"(دخان آیت نمبر۔10تا 15)حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،کیا آخرت کا عذاب ہٹادیا جائےگا؟جس دن ہم سخت گرفت کریں گے،پھر انتقام لے کر رہیں گے۔"(آیت نمبر 16)۔سو پکڑے سے مراد،بدر کادن ہے،دھوئیں والی نشانی گزرچکی ہے،اس طرح پکڑ،لزام(قتل وقید) وروم کی فتح گزرچکی ہے۔"
حدیث نمبر: 7067
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا ابو معاوية ، ووكيع . ح وحدثني ابو سعيد الاشج ، اخبرنا وكيع . ح وحدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا جرير كلهم، عن الاعمش . ح وحدثنا يحيى بن يحيى ، وابو كريب واللفظ ليحيى، قالا: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن مسلم بن صبيح ، عن مسروق ، قال: جاء إلى عبد الله رجل، فقال: تركت في المسجد رجلا يفسر القرآن برايه يفسر هذه الآية يوم تاتي السماء بدخان مبين سورة الدخان آية 10، قال: ياتي الناس يوم القيامة دخان، فياخذ بانفاسهم حتى ياخذهم منه كهيئة الزكام، فقال عبد الله : من علم علما فليقل به، ومن لم يعلم فليقل الله اعلم من فقه الرجل، ان يقول: لما لا علم له به الله اعلم، إنما كان هذا ان قريشا لما استعصت على النبي صلى الله عليه وسلم دعا عليهم بسنين كسني يوسف، فاصابهم قحط وجهد حتى جعل الرجل ينظر إلى السماء، فيرى بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد وحتى اكلوا العظام، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: يا رسول الله، استغفر الله لمضر، فإنهم قد هلكوا، فقال: لمضر إنك لجريء، قال: فدعا الله لهم فانزل الله عز وجل إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون سورة الدخان آية 15، قال: فمطروا فلما اصابتهم الرفاهية، قال: عادوا إلى ما كانوا عليه، قال: فانزل الله عز وجل فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين {10} يغشى الناس هذا عذاب اليم {11} سورة الدخان آية 10-11 يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 16، قال: يعني يوم بدر ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ كُلُّهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: جَاءَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: تَرَكْتُ فِي الْمَسْجِدِ رَجُلًا يُفَسِّرُ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ يُفَسِّرُ هَذِهِ الْآيَةَ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10، قَالَ: يَأْتِي النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ دُخَانٌ، فَيَأْخُذُ بِأَنْفَاسِهِمْ حَتَّى يَأْخُذَهُمْ مِنْهُ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : مَنْ عَلِمَ عِلْمًا فَلْيَقُلْ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ، أَنْ يَقُولَ: لِمَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ اللَّهُ أَعْلَمُ، إِنَّمَا كَانَ هَذَا أَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهْدٌ حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ وَحَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَغْفِرِ اللَّهَ لِمُضَرَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَقَالَ: لِمُضَرَ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ، قَالَ: فَدَعَا اللَّهَ لَهُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15، قَالَ: فَمُطِرُوا فَلَمَّا أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ، قَالَ: عَادُوا إِلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ {10} يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ {11} سورة الدخان آية 10-11 يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16، قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ ".
ابو معاویہ، وکیع، اور جریر نے اعمش سے، انھوں نے مسلم بن صحیح سے اور انھوں نے مسروق سے روایت کی کہ حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میں مسجد میں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آرہا ہوں جو اپنی رائے سے قرآن مجید کی تفسیر کرتا ہے وہ (قرآن کی) آیت: "جب آسمان سے واضح دھواں اٹھے گا"کی تفسیر کرتا ہے، کہتا ہے: "قیامت کےدن لوگوں کے پاس ایک دھواں آئے گا جو لوگوں کی سانسوں کو گرفت میں لے لے گا، یہاں تک کہ لوگوں کو زکام جیسی کیفیت (جس میں سانس لینی مشکل ہوجاتی ہے) درپیش ہوگی، توحضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے کہا: جس کے پاس علم ہو وہ اس کے مطابق بات کہے اور جو نہ جانتا ہو، وہ کہے: اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔یہ بات انسان کے فہم (دین) کاحصہ ہے۔ کہ جس بات کو وہ نہیں جانتا اس کے بارے میں کہے: اللہ زیادہ جاننے والاہے۔اس (دھوئیں) کی حقیقت یہ تھی کہ قریش نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت نافرمانی سے کام لیا تو آپ نے ان کے خلاف یوسف علیہ السلام (کے زمانےوالے) قحط کے سالوں جیسی قحط سالی کی دعاکی۔انھیں قحط اور تنگ دستی نے آلیا یہاں تک کہ (ان میں سے) کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی شدت سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں ساچھایا ہوا نظرآتا یہاں تک کہ ان لوگوں نے (بھوک کی شدت سے) ہڈیاں تک کھائیں، چنانچہ (ان میں سے) ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ (قبیلہ) مضر کے لئے بخشش طلب فرمائیں۔وہ ہلاکت کا شکار ہیں، تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مضر کے لئے؟تو بہت جراءت والا ہے (کہ اللہ سے شرک اور اس کے رسول سے بغض کے باوجود د رخواست کررہا ہے کہ میں تمہارے لئے اللہ سے دعا کروں) "کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر بھی) ان کے حق میں دعا فرمادی۔اس پر اللہ عزوجل نے (آیت) نازل فرمائی: "ہم (تم سے) تھوڑے عرصے کے لئے عذاب ہٹادیتے ہیں۔تم (پھر کفر ہی میں) لوٹنے والا ہو۔" (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ان پر بارش برسائی گئی۔انھیں خوشحالی مل گئی، کہا: (تو پھر) وہ اپنی اسی روش پر لوٹ گئے جس سے پہلے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ حصہ) نازل فرمایا: "آپ انتظار کیجئے جب آسمان ظاہر دھواں لے آئے گا۔جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ دردناک عذاب ہوگا۔ (پھر یہ آیت نازل فرمائی) جس دن ہم بڑ ی گرفت میں لیں گے، ہم انتقام لینے والے ہوں گے۔"کہا: یعنی جنگ بدر کو۔
امام مسروق رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،حضرت عبداللہ(بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا:میں مسجد میں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آرہا ہوں جو اپنی رائے سے قرآن مجید کی تفسیر کرتا ہے وہ(قرآن کی) آیت:"جب آسمان سے واضح دھواں اٹھے گا"کی تفسیر کرتا ہے،کہتا ہے:"قیامت کےدن لوگوں کے پاس ایک دھواں آئے گا جو لوگوں کی سانسوں کو گرفت میں لے لے گا،یہاں تک کہ لوگوں کو زکام جیسی کیفیت(جس میں سانس لینی مشکل ہوجاتی ہے)درپیش ہوگی،توحضرت عبداللہ(بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے کہا:جس کے پاس علم ہو وہ اس کے مطابق بات کہے اور جو نہ جانتا ہو،وہ کہے:اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔یہ بات انسان کے فہم(دین) کاحصہ ہے۔ کہ جس بات کو وہ نہیں جانتا اس کے بارے میں کہے:اللہ زیادہ جاننے والاہے۔اس(دھوئیں) کی حقیقت یہ تھی کہ قریش نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت نافرمانی سے کام لیا تو آپ نے ان کے خلاف یوسف ؑ (کے زمانےوالے)قحط کے سالوں جیسی قحط سالی کی دعاکی۔انھیں قحط اور تنگ دستی نے آلیا یہاں تک کہ(ان میں سے) کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی شدت سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں ساچھایا ہوا نظرآتا یہاں تک کہ ان لوگوں نے(بھوک کی شدت سے)ہڈیاں تک کھائیں،چنانچہ(ان میں سے) ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ(قبیلہ) مضر کے لئے بخشش طلب فرمائیں۔وہ ہلاکت کا شکار ہیں،تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مضر کے لئے؟تو بہت جراءت والا ہے(کہ اللہ سے شرک اور اس کے رسول سے بغض کے باوجود د رخواست کررہا ہے کہ میں تمہارے لئے اللہ سے دعا کروں)"کہا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(پھر بھی) ان کے حق میں دعا فرمادی۔اس پر اللہ عزوجل نے(آیت) نازل فرمائی:"ہم(تم سے) تھوڑے عرصے کے لئے عذاب ہٹادیتے ہیں۔تم(پھر کفر ہی میں) لوٹنے والا ہو۔"(حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:پھر ان پر بارش برسائی گئی۔انھیں خوشحالی مل گئی،کہا:(تو پھر) وہ اپنی اسی روش پر لوٹ گئے جس سے پہلے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ حصہ) نازل فرمایا:"آپ انتظار کیجئے جب آسمان ظاہر دھواں لے آئے گا۔جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا،یہ دردناک عذاب ہوگا۔"(آیت نمبر 10تا12)"جس دن ہم بڑ ی گرفت میں لیں گے،ہم انتقام لینے والے ہوں گے۔(آیت نمبر16) اس سےمراد بدر کادن ہے۔
حدیث نمبر: 7068
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، عن عبد الله ، قال: " خمس قد مضين الدخان واللزام والروم والبطشة والقمر "،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " خَمْسٌ قَدْ مَضَيْنَ الدُّخَانُ وَاللِّزَامُ وَالرُّومُ وَالْبَطْشَةُ وَالْقَمَرُ "،
قتیبہ بن سعید نے ہمیں حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو ضحیٰ سے، انھوں نے مسروق سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: پانچ (نشانیاں گزر چکی ہیں: دھواں، چمٹ جانے والا عذاب (بدر کے دن شکست اور ہلاکتیں) روم کی فتح (بدر کےدن ستر مشرکوں کی گرفتاری) سخت گرفت اور چاند (کادو ٹکڑے ہونا۔)
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، پانچ پیشین گوئیاں گزر چکی ہیں، الدخان (دھواں)(جنگ بدر میں) الزام (قتل وقید)رومیوں کی فتح،بدر کی پکڑاور انشقاق قمر۔
حدیث نمبر: 7069
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو سعيد الاشج ، حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش بهذا الإسناد مثله.حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
وکیع نے کہا: ہمیں اعمش نے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی۔
یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 7070
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة . ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة واللفظ له، حدثنا غندر ، عن شعبة ، عن قتادة ، عن عزرة ، عن الحسن العرني ، عن يحيى بن الجزار ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن ابي بن كعب في قوله عز وجل: " ولنذيقنهم من العذاب الادنى دون العذاب الاكبر سورة السجدة آية 21، قال والروم والبطشة او الدخان شعبة الشاك، في البطشة او الدخان.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَزْرَةَ ، عَنْ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: " وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الأَكْبَرِ سورة السجدة آية 21، قَالَ وَالرُّومُ وَالْبَطْشَةُ أَوِ الدُّخَانُ شُعْبَةُ الشَّاكُّ، فِي الْبَطْشَةِ أَوِ الدُّخَانِ.
محمد بن جعفر نے شعبہ سے، انھوں نے قتادہ سے، انھوں نے عزرۃ سے انھوں نے حسن عرفی سے، انھوں نے یحییٰ بن جزار سے، انھوں نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے اور انھوں نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے اللہ عزوجل کے فرمان: "اور بڑے عذاب سے پہلے ہم انھیں قریب کا (چھوٹا) عذاب چکھائیں گے۔" (کی تفسیر) کے بارے میں روایت کی، انھوں نے کہا (اسی) دنیا میں پیش آنے والے مصائب، روم کی فتح، گرفت (جنگ بدر) یا دھواں (مراد) ہیں۔گرفت اور دھوئیں کے بارے میں شک کرنے والے شعبہ ہیں۔ (ان سے اوپر کے راویوں نے یقین سے بتایا۔شعبہ نے کہا: انھیں شک ہوا ہے)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کے فرمان،"ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے ہلکے عذاب سے دو چار کریں گے، ہلکے عذاب کا ذائقہ ضرورچکھائیں گے۔ سورۃ الم سجدہ آیت21۔فرماتے ہیں، اس سے مراد دنیا کی تکالیف و مصائب ہیں، فتح روم، پکڑیا دخان ہے، بطثہ ہے، یادخان شعبہ کو شک ہے۔
8. باب انْشِقَاقِ الْقَمَرِ:
8. باب: شق القمر کا بیان۔
Chapter: The Splitting Of The Moon
حدیث نمبر: 7071
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
مصائب الدنيا حدثنا عمرو الناقد ، وزهير بن حرب ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابن ابي نجيح ، عن مجاهد ، عن ابي معمر ، عن عبد الله ، قال: " انشق القمر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم بشقتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اشهدوا ".مَصَائِبُ الدُّنْيَا حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِقَّتَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اشْهَدُوا ".
مجاہد نے ابو معمر سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں چاند تقسیم ہوکر دوٹکڑے ہوگیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛" (لوگو! اس کو دیکھ لو اور) گواہ بن جاؤ۔"
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عہد مبارک میں چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" گواہ ہو جاؤ۔"
حدیث نمبر: 7072
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، وإسحاق بن إبراهيم جميعا، عن ابي معاوية . ح وحدثنا عمر بن حفص بن غياث ، حدثنا ابي كلاهما، عن الاعمش . ح وحدثنا منجاب بن الحارث التميمي واللفظ له اخبرنا ابن مسهر ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن ابي معمر ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: " بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى إذا انفلق القمر فلقتين، فكانت فلقة وراء الجبل وفلقة دونه فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: اشهدوا ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي كِلَاهُمَا، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ التَّمِيمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا ابْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: " بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى إِذَا انْفَلَقَ الْقَمَرُ فِلْقَتَيْنِ، فَكَانَتْ فِلْقَةٌ وَرَاءَ الْجَبَلِ وَفِلْقَةٌ دُونَهُ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اشْهَدُوا ".
ابو معاویہ، حفص بن غیاث اور (علی) ابن مسہر نے اعمش سے، انھوں نے ابراہیم (نخعی) سے، انھوں نے ابو معمر سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں موجودتھے کہ چاند دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا، ایک ٹکڑا پہاڑ کے پیچھے (نظر آتا) تھا اوردوسرا ٹکڑا اس سے آگے (دوسری طرف نظر آتا) تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: " (اس کے) گواہ بن جاؤ۔"
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں تھے تو چاند دو ٹکڑوں میں بٹ گیا، ایک ٹکڑاپہاڑ کے پیچھے تھا اور دوسرا ٹکڑا آگے تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا:"گواہ رہنا۔"
حدیث نمبر: 7073
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن ابي معمر ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: " انشق القمر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فلقتين، فستر الجبل فلقة، وكانت فلقة فوق الجبل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم اشهد "،حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: " انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِلْقَتَيْنِ، فَسَتَرَ الْجَبَلُ فِلْقَةً، وَكَانَتْ فِلْقَةٌ فَوْقَ الْجَبَلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اشْهَدْ "،
شعبہ نے اعمش سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے ابو معمر سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں چاند تقسیم ہوکردوٹکڑے ہوگیا، ایک ٹکڑے کو پہاڑ نے ڈھانپ لیا (اس پہاڑ کے پیچھے نظر آتا تھا) اورایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"اے اللہ! تو گواہ رہ۔"
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدور میں چاند دو حصوں میں بٹ گیا، ایک ٹکڑےکوپہاڑ نے(اپنے پیچھے)چھپالیا اور ایک ٹکڑاپہاڑکےاوپرتھاچنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے اللہ!گواہ رہنا۔"
حدیث نمبر: 7074
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن الاعمش ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل ذلك،حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ،
معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے مجاہد سے، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی روایت بیان کرتے ہیں۔

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.