الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
Chapters on Sacrifices
حدیث نمبر: 3139
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي ، حدثنا انس بن عياض ، حدثني محمد بن ابي يحيى مولى الاسلميين، عن امه ، قالت: حدثتني ام بلال بنت هلال ، عن ابيها : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يجوز الجذع من الضان اضحية".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَحْيَى مَوْلَى الْأَسْلَمِيِّينَ، عَنْ أُمِّهِ ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ بِلَالٍ بِنْتُ هِلَالٍ ، عَنْ أَبِيهَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَجُوزُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ أُضْحِيَّةً".
ہلال اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھیڑ کے ایک سالہ بچے کی قربانی جائز ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11737، ومصباح الزجاجة: 1088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/368) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (ام محمد بن أبی یحییٰ اور ام بلال دونوں مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 65)

وضاحت:
۱؎: جذعہ: بھیڑ کا بچہ جو ایک سال کا ہو جائے، ایک قول یہ ہے کہ جذعہ وہ بچہ ہے جو ایک سال سے کم ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 3140
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا الثوري ، عن عاصم بن كليب ، عن ابيه ، قال: كنا مع رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقال له: مجاشع من بني سليم، فعزت الغنم فامر مناديا، فنادى ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول:" إن الجذع يوفي مما توفي منه الثنية".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ: مُجَاشِعٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، فَعَزَّتِ الْغَنَمُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا، فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" إِنَّ الْجَذَعَ يُوفِي مِمَّا تُوفِي مِنْهُ الثَّنِيَّةُ".
کلیب کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بنی سلیم کے مجاشع نامی ایک شخص کے ساتھ تھے، بکریوں کی قلت ہو گئی، تو انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا، جس نے پکار کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: (قربانی کے لیے) بھیڑ کا ایک سالہ بچہ دانتی بکری کی جگہ پر کافی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الاضاحي 5 (2799)، (تحفة الأشراف: 11211)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الضحایا 12 (4389)، مسند احمد (5/368) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3141
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هارون بن حيان ، حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله ، انبانا زهير ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تذبحوا إلا مسنة إلا ان يعسر عليكم، فتذبحوا جذعة من الضان".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ حَيَّانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنْبَأَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف مسنہ (دانتا جانور) ذبح کرو، البتہ جب وہ تم پر دشوار ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سالہ بچہ) ذبح کرو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأضاحي 2 (1962)، سنن ابی داود/الأضاحي 5 (2797)، سنن النسائی/الضحایا 12 (4383)، (تحفة الأشراف: 2715)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/312، 327) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس سند میں ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے اس لئے البانی صاحب نے اس پر کلام کیا ہے، مزید بحث کے، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: 2/374 و سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 65 و الإرواء: 2145، وفتح الباری: 10/ 15)

وضاحت:
۱؎: مسنہ: وہ جانور جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں، یہ اونٹ میں عموماً اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ برس پورے کر کے چھٹے میں داخل ہو گیا ہو، گائے بیل اور بھینس جب وہ دو برس پورے کر کے تیسرے میں داخل ہو جائیں، بکری اور بھیڑ میں جب ایک برس پورا کر کے دوسرے میں داخل ہو جائیں، جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو چکا ہو، اہل لغت اور شارحین حدیث میں محققین کا یہی قول صحیح ہے، (دیکھئے مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح)
۲؎: جمہوکے نزدیک ایک سالہ بھیڑ کی قربانی جائز ہے، اور سلف کے ایک جماعت کے نزدیک جائز نہیں ہے، ابن حزم نے اس کو جائز کہنے والوں کی خوب تردید کی ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے، جمہور نے جابر کی اس حدیث کو فضل و استحباب پر محمول کیا ہے، مگر یہ بہتر ہے کہ مسنہ نہ ملنے کی صورت میں ذبح کرے، ورنہ نہیں علامہ البانی سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں فرماتے ہیں کہ ایک سال کی بکری کی قربانی جائز نہیں، اس کے برخلاف ایک سال کی بھیڑ کی قربانی صحیح احادیث کی وجہ سے کافی ہے (۶/۴۶۳) الأختیارات الفقہیۃ للإمام الألبانی (۱۶۲)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
8. بَابُ: مَا يُكْرَهُ أَنْ يُضَحَّى بِهِ
8. باب: کن جانوروں کی قربانی مکروہ ہے؟
Chapter: What is disliked to use for a sacrifice
حدیث نمبر: 3142
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن ابي إسحاق ، عن شريح بن النعمان ، عن علي ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يضحى بمقابلة، او مدابرة، او شرقاء، او خرقاء، او جدعاء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِمُقَابَلَةٍ، أَوْ مُدَابَرَةٍ، أَوْ شَرْقَاءَ، أَوْ خَرْقَاءَ، أَوْ جَدْعَاءَ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے جانور کی قربانی سے منع فرمایا جس کا کان آگے سے یا پیچھے سے کٹا ہو، یا وہ پھٹا ہو یا اس میں گول سوراخ ہو، یا ناک کان اور ہونٹ میں سے کوئی عضو کٹا ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأضاحي 6 (2804)، سنن الترمذی/الاضاحي 6 (1498)، سنن النسائی/الضحایا 7 (4377)، 8 (4378)، 9 (4379)، (تحفة الأشراف: 10125)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/80، 108، 128، 9 14)، سنن الدارمی/الأضاحي 3 (1995) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابواسحاق مختلط اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ان کے شیخ شریح سے ان کا سماع نہیں ہے اس لئے سند میں انقطاع بھی ہے، اور شریح شبیہ المجہول ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 3143
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن سلمة بن كهيل ، عن حجية بن عدي ، عن علي ، قال:" امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نستشرف العين، والاذن".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ، وَالْأُذُنَ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی کے جانور) کی آنکھ اور کان غور سے دیکھ لیں (آیا وہ سلامت ہیں یا نہیں)۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأضاحي 9 (1503)، سنن النسائی/الضحایا 10 (4381)، (تحفة الأشراف: 10064)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/95، 105، 125، 132، 152) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
حدیث نمبر: 3144
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا يحيى بن سعيد ، ومحمد بن جعفر ، وعبد الرحمن ، وابو داود ، وابن ابي عدي ، وابو الوليد ، قالوا: حدثنا شعبة ، سمعت سليمان بن عبد الرحمن ، قال: سمعت عبيد بن فيروز ، قال: قلت للبراء بن عازب حدثني بما كره او نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الاضاحي، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هكذا بيده ويدي اقصر من يده:" اربع، لا تجزئ في الاضاحي العوراء البين عورها، والمريضة البين مرضها، والعرجاء البين ظلعها، والكسيرة التي لا تنقي"، قال: فإني اكره ان يكون نقص في الاذن، قال: فما كرهت منه فدعه، ولا تحرمه على احد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، وَأَبُو دَاوُدَ ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، وأبو الوليد ، قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ فَيْرُوزَ ، قَالَ: قُلْتُ لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ حَدِّثْنِي بِمَا كَرِهَ أَوْ نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَضَاحِيِّ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَكَذَا بِيَدِهِ وَيَدِي أَقْصَرُ مِنْ يَدِهِ:" أَرْبَعٌ، لَا تُجْزِئُ فِي الْأَضَاحِيِّ الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرَةُ الَّتِي لَا تُنْقِي"، قَالَ: فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ نَقْصٌ فِي الْأُذُنِ، قَالَ: فَمَا كَرِهْتَ مِنْهُ فَدَعْهُ، وَلَا تُحَرِّمْهُ عَلَى أَحَدٍ.
عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے عرض کیا: مجھ سے قربانی کے ان جانوروں کو بیان کیجئیے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا، یا منع کیا ہے؟ تو براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہوئے (جب کہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے چھوٹا ہے) فرمایا: چار قسم کے جانوروں کی قربانی درست نہیں: ایک کانا جس کا کانا پن واضح ہو، دوسرے بیمار جس کی بیماری عیاں اور ظاہر ہو، تیسرے لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہو، چوتھا ایسا لاغر اور دبلا پتلا جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو ۱؎۔ عبید نے کہا: میں اس جانور کو بھی مکروہ جانتا ہوں جس کے کان میں نقص ہو تو براء رضی اللہ عنہ نے کہا: جسے تم ناپسند کرو اسے چھوڑ دو، لیکن دوسروں پر اسے حرام نہ کرو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأضاحي 6 (2802)، سنن الترمذی/الأضاحي 5 (1497)، سنن النسائی/الضحایا 4 (4374)، (تحفة الأشراف: 1790)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الضحایا 1 (1)، مسند احمد (4/284، 289، 300، 301)، سنن الدارمی/الأضاحي 3 (1992) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱ ؎: امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس حدیث پرعمل ہے کہ جس قربانی میں یہ چاروں عیب ہوں ان کی قربانی جائز نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3145
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا حميد بن مسعدة ، حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، انه ذكر انه سمع جري بن كليب ، يحدث انه سمع عليا ، يحدث:" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى ان، يضحى باعضب القرن والاذن".
(مرفوع) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ جُرَيَّ بْنَ كُلَيْبٍ ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا ، يُحَدِّثُ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ، يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ ٹوٹے اور کن کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأضاحي 6 (2805)، سنن الترمذی/الأضاحي 9 (1504)، سنن النسائی/الضحایا 11 (4382)، (تحفة الأشراف: 10031)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/83، 101، 109، 127، 129، 150) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (جری بن کلیب کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1149)

وضاحت:
۱؎: لیکن منڈا یعنی جس جانور کی سینگ اگی نہ ہو اس کی قربانی جائز ہے، اسی طرح اگر کان آدھا سے کم کٹا ہو تو امام ابوحنیفہ نے اس کو جائز کہا ہے، لیکن حدیث مطلق ہے، اور حدیث کی اتباع بہتر ہے، اور احمد، ابوداود، حاکم اور بخاری نے تاریخ میں تخریج کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا «مصفرہ» (جس کا کان کاٹا گیا ہو) سے اور «مستاصلہ» (جس کی سینگ ٹوٹی ہو) سے اور «بخقاء» سے (جس کی آنکھ میں نقش ہو) اور «مشعیہ» سے (جو اور بکریوں کے ساتھ چل نہ سکے کمزوری اور لاغری سے) اور «کسیرہ» سے (جس کی ہڈیوں میں مغز نہ رہا ہو)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
9. بَابُ: مَنِ اشْتَرَى أُضْحِيَّةً صَحِيحَةً فَأَصَابَهَا عِنْدَهُ شَيْءٌ
9. باب: آدمی نے قربانی کا جانور صحیح سالم خریدا، اس میں عیب پیدا ہو گیا تو کیا کرے؟
Chapter: One who buys a sound, healthy animal then something happens to it while it is in his care
حدیث نمبر: 3146
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، ومحمد بن عبد الملك ابو بكر ، قالا: حدثنا عبد الرزاق ، عن الثوري ، عن جابر بن يزيد ، عن محمد بن قرظة الانصاري ، عن ابي سعيد الخدري ، قال:" ابتعنا كبشا نضحي به، فاصاب الذئب من اليته او اذنه، فسالنا النبي صلى الله عليه وسلم، فامرنا ان نضحي به".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ أَبُو بكر ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَرَظَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ:" ابْتَعْنَا كَبْشًا نُضَحِّي بِهِ، فَأَصَابَ الذِّئْبُ مِنْ أَلْيَتِهِ أَوْ أُذُنِهِ، فَسَأَلْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَنَا أَنْ نُضَحِّيَ بِهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے قربانی کے لیے ایک مینڈھا خریدا، پھر بھیڑئیے نے اس کے سرین یا کان کو زخمی کر دیا، ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس سلسلے میں) سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اسی کی قربانی کریں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4298، ومصباح الزجاجة: 1089)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/32، 86) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (سند میں جابر بن یزید الجعفی کذاب، اور اس کے شیخ محمد بن قرظہ الانصاری غیر معروف راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا
10. بَابُ: مَنْ ضَحَّى بِشَاةٍ عَنْ أَهْلِهِ
10. باب: سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کا بیان۔
Chapter: One who offers a sheep on behalf of his family
حدیث نمبر: 3147
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم ، حدثنا ابن ابي فديك ، حدثني الضحاك بن عثمان ، عن عمارة بن عبد الله بن صياد ، عن عطاء بن يسار ، قال: سالت ابا ايوب الانصاري : كيف كانت الضحايا فيكم على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قال:" كان الرجل في عهد النبي صلى الله عليه وسلم يضحي بالشاة عنه، وعن اهل بيته، فياكلون ويطعمون ثم تباهى الناس فصار كما ترى".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيَّادٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ : كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا فِيكُمْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ:" كَانَ الرَّجُلُ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ ثُمَّ تَبَاهَى النَّاسُ فَصَارَ كَمَا تَرَى".
عطا بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ لوگوں کی قربانیاں کیسی ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا تو اسے سارے گھر والے کھاتے اور لوگوں کو کھلاتے، پھر لوگ فخر و مباہات کرنے لگے، تو معاملہ ایسا ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأضاحي 10 (1505)، (تحفة الأشراف: 3481) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3148
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا إسحاق بن منصور ، انبانا عبد الرحمن بن مهدي ، ومحمد بن يوسف ، ح وحدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، جميعا عن سفيان الثوري ، عن بيان ، عن الشعبي ، عن ابي سريحة ، قال:" حملني اهلي على الجفاء بعد ما علمت من السنة، كان اهل البيت يضحون بالشاة والشاتين، والآن يبخلنا جيراننا".
(موقوف) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، جَمِيعًا عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ ، قَالَ:" حَمَلَنِي أَهْلِي عَلَى الْجَفَاءِ بَعْدَ مَا عَلِمْتُ مِنَ السُّنَّةِ، كَانَ أَهْلُ الْبَيْتِ يُضَحُّونَ بِالشَّاةِ وَالشَّاتَيْنِ، وَالْآنَ يُبَخِّلُنَا جِيرَانُنَا".
ابوسریحہ کہتے ہیں کہ سنت کا طریقہ معلوم ہو جانے کے بعد بھی ہمارے اہل نے ہمیں زیادتی پر مجبور کیا، حال یہ تھا کہ ایک گھر والے ایک یا دو بکریوں کی قربانی کرتے تھے، اور اب (اگر ہم ایسا کرتے ہیں) تو ہمارے ہمسائے ہمیں بخیل کہتے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3301، ومصباح الزجاجة: 1090) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: تو ان کے طعنہ کے ڈر سے خلاف سنت بہت سی بکریاں قربانی کرنا پڑتی ہیں، لیکن اللہ تعالی کے خاص بندے کسی کے طعن و تشنیع سے نہیں ڈرتے، اور سنت کے موافق فی گھر ایک بکری ذبح کرتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

Previous    1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.