الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
14. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ
14. باب: محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1224
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن الإسكندراني، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المحاقلة، والمزابنة "، قال: وفي الباب، عن ابن عمر، وابن عباس، وزيد بن ثابت، وسعد، وجابر، ورافع بن خديج، وابي سعيد. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والمحاقلة بيع الزرع بالحنطة، والمزابنة بيع الثمر على رءوس النخل بالتمر، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم كرهوا بيع المحاقلة والمزابنة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْإِسْكَنْدَرَانِيُّ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَسَعْدٍ، وَجَابِرٍ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْمُحَاقَلَةُ بَيْعُ الزَّرْعِ بِالْحِنْطَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ بَيْعُ الثَّمَرِ عَلَى رُءُوسِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا بَيْعَ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، زید بن ثابت، سعد، جابر، رافع بن خدیج اور ابوسعید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بالیوں میں کھڑی کھیتی کو گیہوں سے بیچنے کو محاقلہ کہتے ہیں، اور درخت پر لگے ہوئی کھجور توڑی گئی کھجور سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں،
۴- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ محاقلہ اور مزابنہ کو مکروہ سمجھتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 17 (1545)، (تحفة الأشراف: 12768)، مسند احمد (2/419) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/المزارعة 2 (3915)، مسند احمد (2/392، 484) من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع، الإرواء (2354)
حدیث نمبر: 1225
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا مالك بن انس، عن عبد الله بن يزيد، ان زيدا ابا عياش، سال سعدا، عن البيضاء بالسلت، فقال: ايهما افضل؟، قال البيضاء: فنهى عن ذلك، وقال سعد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسال عن اشتراء التمر بالرطب؟، فقال: " لمن حوله، اينقص الرطب إذا يبس؟ "، قالوا: نعم، فنهى عن ذلك. حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن مالك، عن عبد الله بن يزيد، عن زيد ابي عياش، قال: سالنا سعدا فذكر نحوه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، وهو قول: الشافعي، واصحابنا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ زَيْدًا أَبَا عَيَّاشٍ، سَأَلَ سَعْدًا، عَنِ الْبَيْضَاءِ بِالسُّلْتِ، فَقَالَ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ؟، قَالَ الْبَيْضَاءُ: فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ، وَقَالَ سَعْدٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ عَنْ اشْتِرَاءِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ؟، فَقَالَ: " لِمَنْ حَوْلَهُ، أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ؟ "، قَالُوا: نَعَمْ، فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ. حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ زَيْدٍ أَبِي عَيَّاشٍ، قَالَ: سَأَلْنَا سَعْدًا فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَصْحَابِنَا.
عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ ابوعیاش زید نے سعد رضی الله عنہ سے گیہوں کو چھلکا اتارے ہوئے جو سے بیچنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے پوچھا: ان دونوں میں کون افضل ہے؟ انہوں نے کہا: گیہوں، تو انہوں نے اس سے منع فرمایا۔ اور سعد رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ سے تر کھجور سے خشک کھجور خریدنے کا مسئلہ پوچھا جا رہا تھا۔ تو آپ نے قریب بیٹھے لوگوں سے پوچھا: کیا تر کھجور خشک ہونے پر کم ہو جائے گا؟ ۱؎ لوگوں نے کہا ہاں (کم ہو جائے گا)، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ مؤلف نے بسند «وكيع عن مالك» اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی شافعی اور ہمارے اصحاب کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 18 (3359)، سنن النسائی/البیوع 36 (4549)، سنن ابن ماجہ/التجارات 45 (2464)، (تحفة الأشراف: 3854)، موطا امام مالک/البیوع 12 (22)، مسند احمد (1/115، 171) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ مفتی کے علم و تجربہ میں اگر کوئی بات پہلے سے نہ ہو تو فتوی دینے سے پہلے وہ مسئلہ کے بارے میں تحقیق کر لے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2264)
15. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الثَّمَرَةِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلاَحُهَا
15. باب: پختگی ظاہر ہونے سے پہلے پھل کو بیچنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1226
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع النخل حتى يزهو ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ النَّخْلِ حَتَّى يَزْهُوَ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے کھجور کے درخت کی بیع سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ خوش رنگ ہو جائے (پختگی کو پہنچ جائے)۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 13 (1535)، سنن ابی داود/ البیوع 23 (3368)، سنن النسائی/البیوع 40 (4555)، (تحفة الأشراف: 5715)، مسند احمد (2/5) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الزکاة 58 (1486)، والبیوع 82 (2183)، و85 (2194)، و87 (2199)، والسلم 4 (2247 و2249)، صحیح مسلم/البیوع 13 (المصدر المذکور)، سنن ابی داود/ البیوع 23 (3367)، سنن النسائی/البیوع 28 (4523)، سنن ابن ماجہ/التجارات 32 (2214)، موطا امام مالک/البیوع 8 (10)، مسند احمد (2/7، 46، 56، 61، 80، 123)، سنن الدارمی/البیوع 21 (2597) من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
حدیث نمبر: 1227
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(موقوف) وبهذا الإسناد، وبهذا الإسناد، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " نهى عن بيع السنبل، حتى يبيض، ويامن العاهة نهى البائع، والمشتري ". قال: وفي الباب، عن انس، وعائشة، وابي هريرة، وابن عباس، وجابر، وابي سعيد، وزيد بن ثابت. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، كرهوا بيع الثمار قبل ان يبدو صلاحها وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق.(موقوف) وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنْ بَيْعِ السُّنْبُلِ، حَتَّى يَبْيَضَّ، وَيَأْمَنَ الْعَاهَةَ نَهَى الْبَائِعَ، وَالْمُشْتَرِيَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، كَرِهُوا بَيْعَ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهَا وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (گیہوں اور جو وغیرہ کے) خوشے بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ پختہ ہو جائیں اور آفت سے مامون ہو جائیں، آپ نے بائع اور مشتری دونوں کو منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس، عائشہ، ابوہریرہ، ابن عباس، جابر، ابو سعید خدری اور زید بن ثابت رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ پھل کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے اس کے بیچنے کو مکروہ سمجھتے ہیں، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
حدیث نمبر: 1228
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا ابو الوليد، وعفان، وسليمان بن حرب، قالوا: حدثنا حماد بن سلمة، عن حميد، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نهى عن بيع العنب حتى يسود، وعن بيع الحب حتى يشتد ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب لا نعرفه مرفوعا، إلا من حديث حماد بن سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، وَعَفَّانُ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعِنَبِ حَتَّى يَسْوَدَّ، وَعَنْ بَيْعِ الْحَبِّ حَتَّى يَشْتَدَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کو بیچنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ سیاہ (پختہ) ہو جائے۔ اور دانے (غلے) کو بیچنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ سخت ہو جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف بروایت حماد بن سلمہ ہی مرفوع جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 23 (3371)، سنن ابن ماجہ/التجارات 32 (2217)، (تحفة الأشراف: 613) (صحیح) وأخرجہ: مسند احمد (3/115)، من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح حه (2217)
16. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ بَيْعِ، حَبَلِ الْحَبَلَةِ
16. باب: حمل کے حمل کو بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1229
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " نهى عن بيع حبل الحبلة ". قال: وفي الباب، عن عبد الله بن عباس، وابي سعيد الخدري. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، وحبل الحبلة نتاج النتاج وهو بيع مفسوخ عند اهل العلم وهو من بيوع الغرر، وقد روى شعبة هذا الحديث، عن ايوب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس وروى عبد الوهاب الثقفي وغيره، عن ايوب، عن سعيد بن جبير، ونافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم وهذا اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَحَبَلُ الْحَبَلَةِ نِتَاجُ النِّتَاجِ وَهُوَ بَيْعٌ مَفْسُوخٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ مِنْ بَيُوعِ الْغَرَرِ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَرَوَى عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ وَغَيْرُهُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَنَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذَا أَصَحُّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- شعبہ نے اس حدیث کو بطریق: «عن أيوب عن سعيد بن جبير عن ابن عباس» روایت کیا ہے۔ اور عبدالوھاب ثقفی وغیرہ نے بطریق: «عن أيوب عن سعيد بن جبير ونافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور یہ زیادہ صحیح ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ «حبل الحبلة» (حمل کے حمل) سے مراد اونٹنی کے بچے کا بچہ ہے۔ اہل علم کے نزدیک یہ بیع منسوخ ہے اور یہ دھوکہ کی بیع میں سے ایک بیع ہے،
۴- اس باب میں عبداللہ بن عباس اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبریٰ) (تحفة الأشراف: 7552) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حمل کے حمل کو بیچنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی کہے کہ میں تم سے اس حاملہ اونٹنی کے پیٹ کے اندر جو مادہ بچہ ہے اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے پیٹ سے جو بچہ ہو گا اس کو اتنے میں بیچتا ہوں، تو یہ بیع جائز نہ ہو گی کیونکہ یہ معدوم اور مجہول کی بیع ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2197)
17. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الْغَرَرِ
17. باب: بیع غرر (دھوکہ) کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1230
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، انبانا ابو اسامة، عن عبيد الله بن عمر، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر، وبيع الحصاة ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر، وابن عباس، وابي سعيد، وانس. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم كرهوا بيع الغرر، قال الشافعي: ومن بيوع الغرر بيع السمك في الماء، وبيع العبد الآبق، وبيع الطير في السماء ونحو ذلك من البيوع، ومعنى بيع الحصاة: ان يقول البائع للمشتري: إذا نبذت إليك بالحصاة، فقد وجب البيع فيما بيني وبينك وهذا شبيه ببيع المنابذة، وكان هذا من بيوع اهل الجاهلية.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، أَنْبَأَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ، وَبَيْعِ الْحَصَاةِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا بَيْعَ الْغَرَرِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَمِنْ بُيُوعِ الْغَرَرِ بَيْعُ السَّمَكِ فِي الْمَاءِ، وَبَيْعُ الْعَبْدِ الْآبِقِ، وَبَيْعُ الطَّيْرِ فِي السَّمَاءِ وَنَحْوُ ذَلِكَ مِنَ الْبُيُوعِ، وَمَعْنَى بَيْعِ الْحَصَاةِ: أَنْ يَقُولَ الْبَائِعُ لِلْمُشْتَرِي: إِذَا نَبَذْتُ إِلَيْكَ بِالْحَصَاةِ، فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكَ وَهَذَا شَبِيهٌ بِبَيْعِ الْمُنَابَذَةِ، وَكَانَ هَذَا مِنْ بُيُوعِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع غرر ۱؎ اور بیع حصاۃ سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، ابوسعید اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ بیع غرر کو مکروہ سمجھتے ہیں،
۴- شافعی کہتے ہیں: مچھلی کی بیع جو پانی میں ہو، بھاگے ہوئے غلام کی بیع، آسمان میں اڑتے پرندوں کی بیع اور اسی طرح کی دوسری بیع، بیع غرر کی قبیل سے ہیں،
۵- اور بیع حصاۃ سے مراد یہ ہے کہ بیچنے والا خریدنے والے سے یہ کہے کہ جب میں تیری طرف کنکری پھینک دوں تو میرے اور تیرے درمیان میں بیع واجب ہو گئی۔ یہ بیع منابذہ کے مشابہ ہے۔ اور یہ جاہلیت کی بیع کی قسموں میں سے ایک قسم تھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 2 (1513)، سنن ابی داود/ البیوع 25 (3376)، سنن النسائی/البیوع 27 (4522)، سنن ابن ماجہ/التجارات 23 (2194)، (تحفة الأشراف: 13794)، مسند احمد (2/250، 436، 439، 496) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (2/376) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: بیع غرر: معدوم و مجہول کی بیع ہے، یا ایسی چیز کی بیع ہے جسے مشتری کے حوالہ کرنے پر بائع کو قدرت نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2194)
18. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ بَيْعَتَيْنِ، فِي بَيْعَةٍ
18. باب: ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 1231
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ". وفي الباب: عن عبد الله بن عمرو، وابن عمر، وابن مسعود. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقد فسر بعض اهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة، ان يقول: ابيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على احد البيعين، فإذا فارقه على احدهما فلا باس، إذا كانت العقدة على احد منهما، قال الشافعي: ومن معنى نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ان يقول: ابيعك داري هذه بكذا، على ان تبيعني غلامك بكذا، فإذا وجب لي غلامك، وجبت لك داري، وهذا يفارق عن بيع بغير ثمن معلوم، ولا يدري كل واحد منهما، على ما وقعت عليه صفقته.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، أَنْ يَقُولَ: أَبِيعُكَ هَذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَةٍ وَبِنَسِيئَةٍ بِعِشْرِينَ، وَلَا يُفَارِقُهُ عَلَى أَحَدِ الْبَيْعَيْنِ، فَإِذَا فَارَقَهُ عَلَى أَحَدِهِمَا فَلَا بَأْسَ، إِذَا كَانَتِ الْعُقْدَةُ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمَا، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَمِنْ مَعْنَى نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ أَنْ يَقُولَ: أَبِيعَكَ دَارِي هَذِهِ بِكَذَا، عَلَى أَنْ تَبِيعَنِي غُلَامَكَ بِكَذَا، فَإِذَا وَجَبَ لِي غُلَامُكَ، وَجَبَتْ لَكَ دَارِي، وَهَذَا يُفَارِقُ عَنْ بَيْعٍ بِغَيْرِ ثَمَنٍ مَعْلُومٍ، وَلَا يَدْرِي كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، عَلَى مَا وَقَعَتْ عَلَيْهِ صَفْقَتُهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابن عمر اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- بعض اہل علم نے ایک بیع میں دو بیع کی تفسیر یوں کی ہے کہ ایک بیع میں دو بیع یہ ہے کہ مثلاً کہے: میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور مشتری دونوں بیعوں میں سے کسی ایک پر جدا نہ ہو، (بلکہ بغیر کسی ایک کی تعیین کے مبہم بیع ہی پر وہاں سے چلا جائے) جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر جدا ہو تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بیع منعقد ہو گئی ہو،
۵- شافعی کہتے ہیں: ایک بیع میں دو بیع کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی کہے: میں اپنا یہ گھر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچ رہا ہوں کہ تم اپنا غلام مجھ سے اتنے روپے میں بیچ دو۔ جب تیرا غلام میرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا تو میرا گھر تیرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا، یہ بیع بغیر ثمن معلوم کے واقع ہوئی ہے ۲؎ اور بائع اور مشتری میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا سودا کس چیز پر واقع ہوا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15050) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/البیوع 73 (4636)، موطا امام مالک/البیوع 33 (72) (بلاغا) مسند احمد (2/432، 475، 503) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: امام ترمذی نے دو قول ذکر کئے اس کے علاوہ بعض علماء نے ایک تیسری تفسیر بھی ذکر کی ہے کہ کوئی کسی سے ایک ماہ کے وعدے پر ایک دینار کے عوض گیہوں خرید لے اور جب ایک ماہ گزر جائے تو جا کر اس سے گیہوں کا مطالبہ کرے اور وہ کہے کہ جو گیہوں تیرا میرے ذمہ ہے اسے تو مجھ سے دو مہینے کے وعدے پر دو بوری گیہوں کے بدلے بیچ دے تو یہ ایک بیع میں دو بیع ہوئی۔
۲؎: اور یہی جہالت بیع کے جائز نہ ہونے کی وجہ ہے گو ظاہر میں دونوں کی قیمت متعین معلوم ہوتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2868)، الإرواء (5 / 149)، أحاديث البيوع
19. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ
19. باب: جو چیز موجود نہ ہو اس کی بیع جائز نہیں۔
حدیث نمبر: 1232
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا هشيم، عن ابي بشر، عن يوسف بن ماهك، عن حكيم بن حزام، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: ياتيني الرجل، يسالني من البيع ما ليس عندي ابتاع له من السوق، ثم ابيعه، قال: " لا تبع ما ليس عندك ". قال: وفي الباب، عن عبد الله بن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَأْتِينِي الرَّجُلُ، يَسْأَلُنِي مِنَ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي أَبْتَاعُ لَهُ مِنَ السُّوقِ، ثُمَّ أَبِيعُهُ، قَالَ: " لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ". قال: وفَي البْابِ، عَنْ عَبْدِ اللهَ بْنِ عُمَرَ.
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میرے پاس کچھ لوگ آتے ہیں اور اس چیز کو بیچنے کے لیے کہتے ہیں جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو کیا میں اس چیز کو ان کے لیے بازار سے خرید کر لاؤں پھر فروخت کروں؟ آپ نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے- حکم ۱۲۳۴ میں آ رہا ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 70 (3503)، سنن النسائی/البیوع 60 (4617)، سنن ابن ماجہ/التجارات 20 (2187)، (تحفة الأشراف: 3436)، مسند احمد (3/402، 434) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2187)
حدیث نمبر: 1233
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن يوسف بن ماهك، عن حكيم بن حزام، قال: " نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان ابيع ما ليس عندي ". قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن، قال إسحاق بن منصور: قلت لاحمد: ما معنى نهى عن سلف، وبيع، قال: ان يكون يقرضه قرضا، ثم يبايعه عليه بيعا، يزداد عليه، ويحتمل ان يكون يسلف إليه في شيء، فيقول: إن لم يتهيا عندك فهو بيع عليك، قال إسحاق: يعني ابن راهويه، كما قال: قلت لاحمد: وعن بيع ما لم تضمن، قال: لا يكون عندي إلا في الطعام، ما لم تقبض، قال إسحاق، كما قال: في كل ما يكال او يوزن، قال احمد: إذا قال ابيعك هذا الثوب، وعلي خياطته وقصارته، فهذا من نحو شرطين في بيع، وإذا قال: ابيعكه وعلي خياطته، فلا باس به، او قال: ابيعكه وعلي قصارته، فلا باس به، إنما هو شرط واحد.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: " نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ: مَا مَعْنَى نَهَى عَنْ سَلَفٍ، وَبَيْعٍ، قَالَ: أَنْ يَكُونَ يُقْرِضُهُ قَرْضًا، ثُمَّ يُبَايِعُهُ عَلَيْهِ بَيْعًا، يَزْدَادُ عَلَيْهِ، وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ يُسْلِفُ إِلَيْهِ فِي شَيْءٍ، فَيَقُولُ: إِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ عِنْدَكَ فَهُوَ بَيْعٌ عَلَيْكَ، قَالَ إِسْحَاق: يَعْنِي ابْنَ رَاهَوَيْهِ، كَمَا قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ: وَعَنْ بَيْعِ مَا لَمْ تَضْمَنْ، قَالَ: لَا يَكُونُ عِنْدِي إِلَّا فِي الطَّعَامِ، مَا لَمْ تَقْبِضْ، قَالَ إِسْحَاق، كَمَا قَالَ: فِي كُلِّ مَا يُكَالُ أَوْ يُوزَنُ، قَالَ أَحْمَدُ: إِذَا قَالَ أَبِيعُكَ هَذَا الثَّوْبَ، وَعَلَيَّ خِيَاطَتُهُ وَقَصَارَتُهُ، فَهَذَا مِنْ نَحْوِ شَرْطَيْنِ فِي بَيْعٍ، وَإِذَا قَالَ: أَبِيعُكَهُ وَعَلَيَّ خِيَاطَتُهُ، فَلَا بَأْسَ بِهِ، أَوْ قَالَ: أَبِيعُكَهُ وَعَلَيَّ قَصَارَتُهُ، فَلَا بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا هُوَ شَرْطٌ وَاحِدٌ.
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس چیز کے بیچنے سے منع فرمایا جو میرے پاس نہ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اسحاق بن منصور کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: بیع کے ساتھ قرض سے منع فرمانے کا کیا مفہوم ہے؟ انہوں نے کہا: اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی کو قرض دے پھر اس سے بیع کرے اور سامان کی قیمت زیادہ لے اور یہ بھی احتمال ہے کہ کوئی کسی سے کسی چیز میں سلف کرے اور کہے: اگر تیرے پاس روپیہ فراہم نہیں ہو سکا تو تجھے یہ سامان میرے ہاتھ بیچ دینا ہو گا۔ اسحاق (ابن راھویہ) نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمد نے کہی ہے،
۳- اسحاق بن منصور نے کہا: میں نے احمد سے ایسی چیز کی بیع کے بارے میں پوچھا جس کا بائع ضامن نہیں تو انہوں نے جواب دیا، (یہ ممانعت) میرے نزدیک صرف طعام کی بیع کے ساتھ ہے جب تک قبضہ نہ ہو یعنی ضمان سے قبضہ مراد ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمد نے کہی ہے لیکن یہ ممانعت ہر اس چیز میں ہے جو ناپی یا تولی جاتی ہو۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں: جب بائع یہ کہے: میں آپ سے یہ کپڑا اس شرط کے ساتھ بیچ رہا ہوں کہ اس کی سلائی اور دھلائی میرے ذمہ ہے۔ تو بیع کی یہ شکل ایک بیع میں دو شرط کے قبیل سے ہے۔ اور جب بائع یہ کہے: میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہا ہوں کہ اس کی سلائی میرے ذمہ ہے۔ یا بائع یہ کہے: میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہا ہوں کہ اس کی دھلائی میرے ذمہ ہے، تو اس بیع میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ ایک ہی شرط ہے۔ اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمد نے کہی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (1232)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.