الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
31. باب مَا جَاءَ فِي الاِنْتِفَاعِ بِالرَّهْنِ
31. باب: رہن سے فائدہ اٹھانے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1254
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، ويوسف بن عيسى، قالا: حدثنا وكيع، عن زكريا، عن عامر، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الظهر يركب إذا كان مرهونا، ولبن الدر يشرب إذا كان مرهونا، وعلى الذي يركب ويشرب نفقته ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث عامر الشعبي، عن ابي هريرة، وقد روى غير واحد هذا الحديث، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة موقوفا، والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم، وهو قول: احمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: ليس له ان ينتفع من الرهن بشيء.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الظَّهْرُ يُرْكَبُ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ نَفَقَتُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ لَهُ أَنْ يَنْتَفِعَ مِنَ الرَّهْنِ بِشَيْءٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سواری کا جانور جب رہن رکھا ہو تو اس پر سواری کی جائے اور دودھ والا جانور جب گروی رکھا ہو تو اس کا دودھ پیا جائے، اور جو سواری کرے اور دودھ پیے جانور کا خرچ اسی کے ذمہ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ہم اسے بروایت عامر شعبی ہی مرفوع جانتے ہیں، انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا ہے اور اعمش نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے موقوفا روایت کی ہے،
۳- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ اور یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے،
۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رہن سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا درست نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرہن 4 (2511)، سنن ابی داود/ البیوع 78 (3526)، سنن ابن ماجہ/الرہون 2 (2440)، (تحفة الأشراف: 13540)، و مسند احمد 2/228) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «مرہون» گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا «مرتہن» رہن رکھنے والے کے لیے درست نہیں البتہ اگر «مرہون» جانور ہو تو اس حدیث کی رو سے اس پر اس کے چارے کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اور اس کا دودھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2440)
32. باب مَا جَاءَ فِي شِرَاءِ الْقِلاَدَةِ وَفِيهَا ذَهَبٌ وَخَرَزٌ
32. باب: سونے اور جواہرات جڑے ہوئے ہار خریدنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1255
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابي شجاع سعيد بن يزيد، عن خالد بن ابي عمران، عن حنش الصنعاني، عن فضالة بن عبيد، قال: اشتريت يوم خيبر قلادة باثني عشر دينارا فيها ذهب، وخرز ففصلتها، فوجدت فيها اكثر من اثني عشر دينارا. فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " لا تباع حتى تفصل ". حدثنا قتيبة، حدثنا ابن المبارك، عن ابي شجاع سعيد بن يزيد، بهذا الإسناد نحوه. قال ابو عيسى 12: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، لم يروا ان يباع السيف محلى، او منطقة مفضضة، او مثل هذا بدراهم حتى يميز ويفصل، وهو قول: ابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقد رخص بعض اهل العلم في ذلك من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: اشْتَرَيْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ قِلَادَةً بِاثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا فِيهَا ذَهَبٌ، وَخَرَزٌ فَفَصَلْتُهَا، فَوَجَدْتُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنَ اثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا. فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَا تُبَاعُ حَتَّى تُفْصَلَ ". حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى 12: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، لَمْ يَرَوْا أَنْ يُبَاعَ السَّيْفُ مُحَلًّى، أَوْ مِنْطَقَةٌ مُفَضَّضَةٌ، أَوْ مِثْلُ هَذَا بِدَرَاهِمَ حَتَّى يُمَيَّزَ وَيُفْصَلَ، وَهُوَ قَوْلُ: ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ.
فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے دن بارہ دینار میں ایک ہار خریدا، جس میں سونے اور جواہرات جڑے ہوئے تھے، میں نے انہیں (توڑ کر) جدا جدا کیا تو مجھے اس میں بارہ دینار سے زیادہ ملے۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: (سونے اور جواہرات جڑے ہوئے ہار) نہ بیچے جائیں جب تک انہیں جدا جدا نہ کر لیا جائے۔ اسی طرح مؤلف نے قتیبہ سے اسی سند سے حدیث روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ چاندی جڑی ہوئی تلوار یا کمر بند یا اسی جیسی دوسرے چیزوں کو درہم سے فروخت کرنا درست نہیں سمجھتے ہیں، جب تک کہ ان سے چاندی الگ نہ کر لی جائے۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔
۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 17 (البیوع 38)، سنن ابی داود/ البیوع 13 (3351)، سنن النسائی/البیوع (4577)، (تحفة الأشراف: 11027)، و مسند احمد (6/19، 21) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
33. باب مَا جَاءَ فِي اشْتِرَاطِ الْوَلاَءِ وَالزَّجْرِ عَنْ ذَلِكَ
33. باب: ولاء کی شرط لگانے اور اس پر سرزنش کرنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1256
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، انها ارادت ان تشتري بريرة، فاشترطوا الولاء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اشتريها فإنما الولاء لمن اعطى الثمن، او لمن ولي النعمة ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، قال: ومنصور بن المعتمر يكنى: ابا عتاب. حدثنا ابو بكر العطار البصري، عن ابن المديني، قال: سمعت يحيى بن سعيد، يقول: إذا حدثت عن منصور، فقد ملات يدك من الخير لا ترد غيره، ثم قال يحيى: ما اجد في إبراهيم النخعي، ومجاهد، اثبت من منصور، قال محمد: عن عبد الله بن ابي الاسود، قال: قال عبد الرحمن بن مهدي منصور، اثبت اهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، فَاشْتَرَطُوا الْوَلَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اشْتَرِيهَا فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ، أَوْ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ: وَمَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ يُكْنَى: أَبَا عَتَّابٍ. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ، عَنْ ابْنِ الْمَدِينِيِّ، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، يَقُولُ: إِذَا حُدِّثْتَ عَنْ مَنْصُورٍ، فَقَدْ مَلَأْتَ يَدَكَ مِنَ الْخَيْرِ لَا تُرِدْ غَيْرَهُ، ثُمّ قَالَ يَحْيَى: مَا أَجِدُ فِي إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، وَمُجَاهِدٍ، أَثْبَتَ مِنْ مَنْصُورٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ مَنْصُورٌ، أَثْبَتُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ (لونڈی) کو خریدنا چاہا، تو بریرہ کے مالکوں نے ولاء ۱؎ کی شرط لگائی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے فرمایا: تم اسے خرید لو، (اور آزاد کر دو) اس لیے کہ ولاء تو اسی کا ہو گا جو قیمت ادا کرے، یا جو نعمت (آزاد کرنے) کا مالک ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی حدیث مروی ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/کفارات الأیمان 8 (6717)، سنن النسائی/الطلاق 30 (3479)، (وانظر أیضا ما یقدم برقم: 1154، وما یأتي برقم: 2124 و2125) (تحفة الأشراف: 15992) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ولاء وہ ترکہ ہے جسے آزاد کیا ہوا غلام چھوڑ کر مرے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بائع کے لیے ولاء کی شرط لگانا صحیح نہیں، ولاء اسی کا ہو گا جو خرید کر آزاد کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2521)
34. باب
34. باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1257
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن ابي حصين، عن حبيب بن ابي ثابت، عن حكيم بن حزام، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: بعث حكيم بن حزام يشتري له اضحية بدينار، فاشترى اضحية، فاربح فيها دينارا، فاشترى اخرى مكانها، فجاء بالاضحية والدينار إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ضح بالشاة، وتصدق بالدينار ". قال ابو عيسى: حديث حكيم بن حزام لا نعرفه إلا من هذا الوجه، حبيب بن ابي ثابت لم يسمع عندي من حكيم بن حزام.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَعَثَ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ يَشْتَرِي لَهُ أُضْحِيَّةً بِدِينَارٍ، فَاشْتَرَى أُضْحِيَّةً، فَأُرْبِحَ فِيهَا دِينَارًا، فَاشْتَرَى أُخْرَى مَكَانَهَا، فَجَاءَ بِالْأُضْحِيَّةِ وَالدِّينَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " ضَحِّ بِالشَّاةِ، وَتَصَدَّقْ بِالدِّينَار ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ عِنْدِي مِنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ.
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک دینار میں قربانی کا جانور خریدنے کے لیے بھیجا، تو انہوں نے قربانی کا ایک جانور خریدا (پھر اسے دو دینار میں بیچ دیا)، اس میں انہیں ایک دینار کا فائدہ ہوا، پھر انہوں نے اس کی جگہ ایک دینار میں دوسرا جانور خریدا، قربانی کا جانور اور ایک دینار لے کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ نے فرمایا: بکری کی قربانی کر دو اور دینار کو صدقہ کر دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
حکیم بن حزام کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور میرے نزدیک جبیب بن ابی ثابت کا سماع حکیم بن حزام سے ثابت نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3423) (ضعیف) (مولف نے ضعف کی وجہ بیان کر سنن الدارمی/ ہے، یعنی حبیب کا سماع حکیم بن حزام سے آپ کے نزدیک ثابت نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف أحاديث البيوع
حدیث نمبر: 1258
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن سعيد الدارمي، حدثنا حبان، حدثنا هارون الاعور المقرئ، حدثنا الزبير بن الخريت، عن ابي لبيد، عن عروة البارقي، قال: دفع إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم دينارا لاشتري له شاة، فاشتريت له شاتين، فبعت إحداهما بدينار، وجئت بالشاة والدينار إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر له ما كان من امره، فقال له: " بارك الله لك في صفقة يمينك "، فكان يخرج بعد ذلك إلى كناسة الكوفة، فيربح الربح العظيم فكان من اكثر اهل الكوفة مالا. حدثنا احمد بن سعيد الدارمي، حدثنا حبان، حدثنا سعيد بن زيد، قال: حدثنا الزبير بن خريت فذكر نحوه، عن ابي لبيد. قال ابو عيسى: وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث، وقالوا به: وهو قول: احمد، وإسحاق، ولم ياخذ بعض اهل العلم بهذا الحديث منهم: الشافعي، وسعيد بن زيد اخو حماد بن زيد، وابو لبيد اسمه لمازة بن زبار.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ، حَدَّثَنَا هَارُونُ الْأَعْوَرُ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ الْخِرِّيتِ، عَنْ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ، قَالَ: دَفَعَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِينَارًا لِأَشْتَرِيَ لَهُ شَاةً، فَاشْتَرَيْتُ لَهُ شَاتَيْنِ، فَبِعْتُ إِحْدَاهُمَا بِدِينَارٍ، وَجِئْتُ بِالشَّاةِ وَالدِّينَارِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ لَهُ مَا كَانَ مِنْ أَمْرِهِ، فَقَالَ لَهُ: " بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي صَفْقَةِ يَمِينِكَ "، فَكَانَ يَخْرُجُ بَعْدَ ذَلِكَ إِلَى كُنَاسَةِ الْكُوفَةِ، فَيَرْبَحُ الرِّبْحَ الْعَظِيمَ فَكَانَ مِنْ أَكْثَرِ أَهْلِ الْكُوفَةِ مَالًا. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ خِرِّيتٍ فَذَكَرَ نَحْوَهُ، عَنْ أَبِي لَبِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالُوا بِهِ: وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَلَمْ يَأْخُذْ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِهَذَا الْحَدِيثِ مِنْهُمْ: الشَّافِعِيُّ، وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ أَخُو حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، وَأَبُو لَبِيدٍ اسْمُهُ لِمَازَةُ بْنُ زَبَّارٍ.
عروہ بارقی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری خریدنے کے لیے مجھے ایک دینار دیا، تو میں نے اس سے دو بکریاں خریدیں، پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اور ایک بکری اور ایک دینار لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے تمام معاملہ بیان کیا اور آپ نے فرمایا: اللہ تمہیں تمہارے ہاتھ کے سودے میں برکت دے، پھر اس کے بعد وہ کوفہ کے کناسہ کی طرف جاتے اور بہت زیادہ منافع کماتے تھے۔ چنانچہ وہ کوفہ کے سب سے زیادہ مالدار آدمی بن گئے۔ مؤلف نے احمد بن سعید دارمی کے طرق سے زبیر بن خریت سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور وہ اسی کے قائل ہیں اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کو نہیں لیا ہے، انہیں لوگوں میں شافعی اور حماد بن زید سعید بن زید کے بھائی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 28 (3642)، سنن ابی داود/ البیوع 28 (3384)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 7 (2402)، (تحفہ الأشراف: 9898) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الأحاديث........
35. باب مَا جَاءَ فِي الْمُكَاتَبِ إِذَا كَانَ عِنْدَهُ مَا يُؤَدِّي
35. باب: مکاتب غلام کا بیان جس کے پاس اتنا ہو کہ کتابت کی قیمت ادا کر سکے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1259
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هارون بن عبد الله البزاز، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا حماد بن سلمة، عن ايوب، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا اصاب المكاتب حدا، او ميراثا ورث بحساب ما عتق منه "، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: " يؤدي المكاتب بحصة ما ادى دية حر وما بقي دية عبد ". قال: وفي الباب، عن ام سلمة. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن. وهكذا روى يحيى بن ابي كثير، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم. وروى خالد الحذاء، عن عكرمة، عن علي قوله، والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وقال اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، المكاتب عبد ما بقي عليه درهم، وهو قول: سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَصَابَ الْمُكَاتَبُ حَدًّا، أَوْ مِيرَاثًا وَرِثَ بِحِسَابِ مَا عَتَقَ مِنْهُ "، وقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُؤَدِّي الْمُكَاتَبُ بِحِصَّةِ مَا أَدَّى دِيَةَ حُرٍّ وَمَا بَقِيَ دِيَةَ عَبْدٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَهَكَذَا رَوَى يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرَوَى خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَلِيٍّ قَوْلَهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، الْمُكَاتَبُ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ دِرْهَمٌ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مکاتب غلام کسی دیت یا میراث کا مستحق ہو تو اسی کے مطابق وہ حصہ پائے گا جتنا وہ آزاد کیا جا چکا ہے، نیز آپ نے فرمایا: مکاتب جتنا زر کتابت ادا کر چکا ہے اتنی آزادی کے مطابق دیت دیا جائے گا اور جو باقی ہے اس کے مطابق غلام کی دیت دیا جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے،
۲- اسی طرح یحییٰ بن ابی کثیر نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،
۳- اس باب میں ام سلمہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۴- لیکن خالد الحذاء نے بھی عکرمہ سے (روایت کی ہے مگر ان کے مطابق) عکرمہ نے علی رضی الله عنہ کے قول سے روایت کی ہے،
۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ جب تک مکاتب پر ایک درہم بھی باقی ہے وہ غلام ہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 22 (4581)، سنن النسائی/القسامة 38، 39 (4812-4816)، (تحفة الأشراف: 5993)، و مسند احمد (1/222، 226، 263) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1726)
حدیث نمبر: 1260
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الوارث بن سعيد، عن يحيى بن ابي انيسة، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يخطب يقول: " من كاتب عبده على مائة، اوقية فاداها إلا عشر اواق، او قال عشرة دراهم، ثم عجز فهو رقيق ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، والعمل عليه عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان المكاتب عبد ما بقي عليه شيء من كتابته، وقد روى الحجاج بن ارطاة، عن عمرو بن شعيب نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَخْطُبُ يَقُولُ: " مَنْ كَاتَبَ عَبْدَهُ عَلَى مِائَةِ، أُوقِيَّةٍ فَأَدَّاهَا إِلَّا عَشْرَ أَوَاقٍ، أَوْ قَالَ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ، ثُمَّ عَجَزَ فَهُوَ رَقِيقٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْمُكَاتَبَ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ شَيْءٌ مِنْ كِتَابَتِهِ، وَقَدْ رَوَى الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ نَحْوَهُ.
عبداللہ بن عمر و رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ کے دوران کہتے سنا: جو اپنے غلام سے سو اوقیہ (بارہ سو درہم) پر مکاتبت کرے اور وہ دس اوقیہ کے علاوہ تمام ادا کر دے پھر باقی کی ادائیگی سے وہ عاجز رہے تو وہ غلام ہی رہے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- حجاج بن ارطاۃ نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب تک مکاتب پر کچھ بھی زر کتابت باقی ہے وہ غلام ہی رہے گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العتق 1 (3926)، 3927 سنن ابن ماجہ/العتق 3 (2519) (تحفة الأشراف: 8814) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2519)
حدیث نمبر: 1261
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عبد الرحمن، قال: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن نبهان مولى ام سلمة، عن ام سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان عند مكاتب إحداكن ما يؤدي، فلتحتجب منه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ومعنى هذا الحديث عند اهل العلم على التورع، وقالوا: لا يعتق المكاتب، وإن كان عنده ما يؤدي حتى يؤدي.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ نَبْهَانَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ عِنْدَ مُكَاتَبِ إِحْدَاكُنَّ مَا يُؤَدِّي، فَلْتَحْتَجِبْ مِنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى التَّوَرُّعِ، وَقَالُوا: لَا يُعْتَقُ الْمُكَاتَبُ، وَإِنْ كَانَ عِنْدَهُ مَا يُؤَدِّي حَتَّى يُؤَدِّيَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے مکاتب غلام کے پاس اتنی رقم ہو کہ وہ زر کتابت ادا کر سکے تو اسے اس سے پردہ کرنا چاہیئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اس حدیث پر عمل ازراہ ورع و تقویٰ اور احتیاط ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ مکاتب غلام جب تک زر کتابت نہ ادا کر دے آزاد نہیں ہو گا اگرچہ اس کے پاس زر کتابت ادا کرنے کے لیے رقم موجود ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العتق 1 (3928)، سنن ابن ماجہ/العتق 3 (2520)، (تحفة الأشراف: 18221) (ضعیف) (سند میں ”نبہان“ لین الحدیث ہیں نیز ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کی روایت کے مطابق امہات المومنین کا عمل اس کے برعکس تھا، ملاحظہ ہو: الإرواء رقم 1769)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2520) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (549)، ضعيف أبي داود (848 / 3928)، المشكاة (3400)، الإرواء (1769) //
36. باب مَا جَاءَ إِذَا أَفْلَسَ لِلرَّجُلِ غَرِيمٌ فَيَجِدُ عِنْدَهُ مَتَاعَهُ
36. باب: قرض دار مفلس ہو جائے اور آدمی اس کے پاس اپنا سامان پائے تو اس کے حکم کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1262
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن يحيى بن سعيد، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن عمر بن عبد العزيز، عن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: " ايما امرئ افلس، ووجد رجل سلعته عنده بعينها فهو اولى بها من غيره ". قال: وفي الباب، عن سمرة، وابن عمر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: هو اسوة الغرماء، وهو قول: اهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " أَيُّمَا امْرِئٍ أَفْلَسَ، وَوَجَدَ رَجُلٌ سِلْعَتَهُ عِنْدَهُ بِعَيْنِهَا فَهُوَ أَوْلَى بِهَا مِنْ غَيْرِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَمُرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: هُوَ أُسْوَةُ الْغُرَمَاءِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَهْلِ الْكُوفَةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو (قرض دار) آدمی مفلس ہو جائے اور (قرض دینے والا) آدمی اپنا سامان اس کے پاس بعینہ پائے تو وہ اس سامان کا دوسرے سے زیادہ مستحق ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سمرہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، اور بعض اہل علم کہتے ہیں: وہ بھی دوسرے قرض خواہوں کی طرح ہو گا، یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستقراض 14 (2402)، صحیح مسلم/المساقاة 5 (البیوع 26)، (1559)، سنن ابی داود/ البیوع 76 (3519)، سنن النسائی/البیوع 95 (4680)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 26 (4358)، (تحفة الأشراف: 14861)، وط/البیوع 42 (88)، و مسند احمد (2/228)، 258، 410، 468، 484، 508) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2358)
37. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ لِلْمُسْلِمِ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى الذِّمِّيِّ الْخَمْرَ يَبِيعُهَا لَهُ
37. باب: مسلمان ذمی کو شراب بیچنے کے لیے دے یہ منع ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1263
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عيسى بن يونس، عن مجالد، عن ابي الوداك، عن ابي سعيد، قال: كان عندنا خمر ليتيم، فلما نزلت المائدة، سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عنه، وقلت: إنه ليتيم. فقال: " اهريقوه ". قال: وفي الباب، عن انس بن مالك. قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، وقال بهذا بعض اهل العلم: وكرهوا ان تتخذ الخمر خلا، وإنما كره من ذلك والله اعلم، ان يكون المسلم في بيته خمر، حتى يصير خلا، ورخص بعضهم في خل الخمر، إذا وجد قد صار خلا ابو الوداك اسمه: جبر بن نوف.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: كَانَ عِنْدَنَا خَمْرٌ لِيَتِيمٍ، فَلَمَّا نَزَلَتْ الْمَائِدَةُ، سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، وَقُلْتُ: إِنَّهُ لِيَتِيمٍ. فَقَالَ: " أَهْرِيقُوهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا، وقَالَ بِهَذَا بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: وَكَرِهُوا أَنْ تُتَّخَذَ الْخَمْرُ خَلَّا، وَإِنَّمَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، أَنْ يَكُونَ الْمُسْلِمُ فِي بَيْتِهِ خَمْرٌ، حَتَّى يَصِيرَ خَلَّا، وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي خَلِّ الْخَمْرِ، إِذَا وُجِدَ قَدْ صَارَ خَلًّا أَبُو الْوَدَّاكِ اسْمُهُ: جَبْرُ بْنُ نَوْفٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک یتیم کی شراب تھی، جب سورۃ المائدہ نازل ہوئی (جس میں شراب کی حرمت مذکور ہے) تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا اور عرض کیا کہ وہ ایک یتیم کی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اسے بہا دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور بھی سندوں سے یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح مروی ہے،
۳- اس باب میں انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے،
۴- بعض اہل علم اسی کے قائل ہیں، یہ لوگ شراب کا سرکہ بنانے کو مکروہ سمجھتے ہیں، اس وجہ سے اسے مکروہ قرار دیا گیا ہے کہ مسلمان کے گھر میں شراب رہے یہاں تک کہ وہ سرکہ بن جائے۔ «واللہ اعلم»،
۵- بعض لوگوں نے شراب کے سرکہ کی اجازت دی ہے جب وہ خود سرکہ بن جائے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3991) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح يشهد له الحديث الآتى (1316)

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.