الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
حدیث نمبر: 1274
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبدة بن عبد الله الخزاعي البصري، حدثنا يحيى بن آدم، عن إبراهيم بن حميد الرؤاسي، عن هشام بن عروة، عن محمد بن إبراهيم التيمي، عن انس بن مالك، ان رجلا من كلاب سال النبي صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل " فنهاه "، فقال: يا رسول الله، إنا نطرق الفحل، فنكرم، " فرخص له في الكرامة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث إبراهيم بن حميد، عن هشام بن عروة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حُمَيْدٍ الرُّؤَاسِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ كِلَابٍ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ " فَنَهَاهُ "، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نُطْرِقُ الْفَحْلَ، فَنُكْرَمُ، " فَرَخَّصَ لَهُ فِي الْكَرَامَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ کلاب کے ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اسے منع کر دیا، پھر اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم مادہ پر نر چھوڑتے ہیں تو ہمیں بخشش دی جاتی ہے (تو اس کا حکم کیا ہے؟) آپ نے اسے بخشش لینے کی اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف ابراہیم بن حمید ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 94 (4676)، (تحفة الأشراف: 1450) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2866 / التحقيق الثانى)، أحاديث البيوع
46. باب مَا جَاءَ فِي ثَمَنِ الْكَلْبِ
46. باب: کتے کی قیمت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1275
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن يحيى بن ابي كثير، عن إبراهيم بن عبد الله بن قارظ، عن السائب بن يزيد، عن رافع بن خديج، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " كسب الحجام خبيث، ومهر البغي خبيث، وثمن الكلب خبيث ". قال: وفي الباب، عن عمر، وعلي، وابن مسعود، وابي مسعود، وجابر، وابي هريرة، وابن عباس، وابن عمر، وعبد الله بن جعفر. قال ابو عيسى: حديث رافع حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم، كرهوا ثمن الكلب، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقد رخص بعض اهل العلم في ثمن كلب الصيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَسْبُ الْحَجَّامِ خَبِيثٌ، وَمَهْرُ الْبَغِيِّ خَبِيثٌ، وَثَمَنُ الْكَلْبِ خَبِيثٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، كَرِهُوا ثَمَنَ الْكَلْبِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ثَمَنِ كَلْبِ الصَّيْدِ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پچھنا لگانے والے کی کمائی خبیث (گھٹیا) ہے ۱؎ زانیہ کی اجرت ناپاک ۲؎ ہے اور کتے کی قیمت ناپاک ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، علی، ابن مسعود، ابومسعود، جابر، ابوہریرہ، ابن عباس، ابن عمر اور عبداللہ ابن جعفر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے کتے کی قیمت کو ناجائز جانا ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ اور بعض اہل علم نے شکاری کتے کی قیمت کی اجازت دی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 9 (البیوع 30)، (1568)، سنن ابی داود/ البیوع 39 (3421)، سنن النسائی/الذبائح 15 (4299)، تحفة الأشراف: 3555)، و مسند احمد (3/464، 465)، و 4/141) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «كسب الحجام خبيث» میں «خبيث» کا لفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیا اور غیرشریفانہ ہونے کے معنی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا کہ پچھنا لگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اور غلام کو فائدہ پہنچاؤ، نیز آپ نے خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کو اس کی اجرت بھی دی، لہذا پچھنا لگانے والے کی کمائی کے متعلق خبیث کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے لہسن اور پیاز کو خبیث کہا باوجود یہ کہ ان دونوں کااستعمال حرام نہیں ہے، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ غیرشریفانہ ہے۔ یہاں «خبيث» بمعنی حرام ہے۔ ۲؎: چونکہ زنا فحش امور اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد ہو۔ ۳؎: کتا چونکہ نجس اور ناپاک جانور ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہو گی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے، الا یہ کہ کسی شدید ضرورت سے ہو مثلاً گھر جائداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔ پھر بھی قیمت لینا گھٹیا کام ہے، ہدیہ کر دینا چاہیے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
حدیث نمبر: 1276
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب. ح وحدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي، وغير واحد، قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن ابي بكر بن عبد الرحمن، عن ابي مسعود الانصاري، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب، ومهر البغي وحلوان الكاهن ". هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ. ح وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی مٹھائی سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1133 (تحفة الأشراف: 10010) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: علم غیب رب العالمین کے لیے خاص ہے اس کا دعویٰ کرنا گناہ عظیم ہے، اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی عوام سے باطل طریقے سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2159)
47. باب مَا جَاءَ فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ
47. باب: پچھنا لگانے والے کی کمائی کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1277
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن ابن محيصة اخا بني حارثة، عن ابيه، انه استاذن النبي صلى الله عليه وسلم في إجارة الحجام، فنهاه عنها، فلم يزل يساله، ويستاذنه، حتى قال: " اعلفه ناضحك، واطعمه رقيقك ". قال: وفي الباب، عن رافع بن خديج، وابي جحيفة، وجابر، والسائب بن يزيد. قال ابو عيسى: حديث محيصة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، وقال احمد: إن سالني حجام نهيته، وآخذ بهذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ مُحَيِّصَةَ أَخَا بَنِي حَارِثَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِجَارَةِ الْحَجَّامِ، فَنَهَاهُ عَنْهَا، فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُهُ، وَيَسْتَأْذِنُهُ، حَتَّى قَالَ: " اعْلِفْهُ نَاضِحَكَ، وَأَطْعِمْهُ رَقِيقَكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَجَابِرٍ، وَالسَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُحَيِّصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ أَحْمَدُ: إِنْ سَأَلَنِي حَجَّامٌ نَهَيْتُهُ، وَآخُذُ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
محیصہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنا لگانے والے کی اجرت کی اجازت طلب کی، تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا ۱؎ لیکن وہ باربار آپ سے پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: اسے اپنے اونٹ کے چارہ پر خرچ کرو یا اپنے غلام کو کھلا دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- محیصہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں رافع بن خدیج، جحیفہ، جابر اور سائب بن یزید سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- احمد کہتے ہیں: اگر مجھ سے کوئی پچھنا لگانے والا مزدوری طلب کرے تو میں نہیں دوں گا اور دلیل میں یہی حدیث پیش کروں گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 39 (3422)، سنن ابن ماجہ/التجارات 10 (2166)، (تحفة الأشراف: 11238)، و موطا امام مالک/الاستئذان 10 (28مرسلا) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ ممانعت اس وجہ سے تھی کہ یہ ایک گھٹیا اور غیر شریفانہ عمل ہے، جہاں تک اس کے جواز کا معاملہ ہے تو آپ نے خود ابوطیبہ کو پچھنا لگانے کی اجرت دی ہے جیسا کہ کہ اگلی روایت سے واضح ہے، جمہور اسی کے قائل ہیں اور ممانعت والی روایت کو نہیں تنزیہی پر محمول کرتے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ منسوخ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2166)، أحاديث البيوع
48. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ
48. باب: پچھنا لگانے والے کی کمائی کے جائز ہونے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1278
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، قال: سئل انس عن كسب الحجام، فقال انس: " احتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم وحجمه ابو طيبة، فامر له بصاعين من طعام، وكلم اهله، فوضعوا عنه من خراجه ". وقال: إن افضل ما تداويتم به الحجامة، او إن من امثل دوائكم الحجامة، قال: وفي الباب، عن علي، وابن عباس، وابن عمر. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، وقد رخص بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، في كسب الحجام، وهو قول: الشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ عَنْ كَسْبِ الْحَجَّامِ، فَقَالَ أَنَسٌ: " احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَجَمَهُ أَبُو طَيْبَةَ، فَأَمَرَ لَهُ بِصَاعَيْنِ مِنْ طَعَامٍ، وَكَلَّمَ أَهْلَهُ، فَوَضَعُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ ". وَقَالَ: إِنَّ أَفْضَلَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ الْحِجَامَةَ، أَوْ إِنَّ مِنْ أَمْثَلِ دَوَائِكُمُ الْحِجَامَةَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ.
حمید کہتے ہیں کہ انس رضی الله عنہ سے پچھنا لگانے والے کی کمائی کے بارے میں پوچھا گیا تو انس رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، اور آپ کو پچھنا لگانے والے ابوطیبہ تھے، تو آپ نے انہیں دو صاع غلہ دینے کا حکم دیا اور ان کے مالکوں سے بات کی، تو انہوں نے ابوطیبہ کے خراج میں کمی کر دی اور آپ نے فرمایا: جن چیزوں سے تم دوا کرتے ہو ان میں سب سے افضل پچھنا ہے یا فرمایا: تمہاری بہتر دواؤں میں سے پچھنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، ابن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے پچھنا لگانے والے کی اجرت کو جائز قرار دیا ہے۔ یہی شافعی کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 11 (البیوع 32) (1577)، (تحفة الأشراف: 580) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (309)، أحاديث البيوع
49. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ
49. باب: کتے اور بلی کی قیمت کی کراہت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1279
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، وعلي بن خشرم، قالا: انبانا عيسى بن يونس، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب، والسنور ". قال ابو عيسى: هذا حديث في إسناده اضطراب، ولا يصح في ثمن السنور. وقد روي هذا الحديث، عن الاعمش، عن بعض اصحابه، عن جابر واضطربوا على الاعمش في رواية هذا الحديث، وقد كره قوم من اهل العلم ثمن الهر، ورخص فيه بعضهم، وهو قول: احمد، وإسحاق، وروى ابن فضيل، عن الاعمش، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَالسِّنَّوْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ، وَلَا يَصِحُّ فِي ثَمَنِ السِّنَّوْرِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ، عَنْ جَابِرٍ وَاضْطَرَبُوا عَلَى الْأَعْمَشِ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ ثَمَنَ الْهِرِّ، وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُهُمْ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرَوَى ابْنُ فُضَيْلٍ، عنْ الْأَعْمَشِ، عنْ أَبِي حَازِمٍ، عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے۔ بلی کی قیمت کے بارے میں یہ صحیح نہیں ہے،
۲- یہ حدیث اعمش سے مروی ہے انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور اس نے جابر سے، یہ لوگ اعمش سے اس حدیث کی روایت میں اضطراب کا شکار ہیں،
۳- اور ابن فضل نے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بطریق: «الأعمش، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے،
۴- اہل علم کی ایک جماعت نے بلی کی قیمت کو ناجائز کہا ہے،
۵- اور بعض لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 64 (3479) (تحفة الأشراف: 2309) و انظر أیضا ما عند صحیح مسلم/المساقاة 9 (1569)، وسنن النسائی/الذبائح 61 (4300)، وسنن ابن ماجہ/التجارات 9 (2161)، و مسند احمد (3/339) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2161)
حدیث نمبر: 1280
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا عمر بن زيد الصنعاني، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: " نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن اكل الهر وثمنه ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وعمر بن زيد لا نعرف كبير احد روى عنه غير عبد الرزاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ زَيْدٍ الصَّنْعَانِيُّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الْهِرِّ وَثَمَنِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَعُمَرُ بْنُ زَيْدٍ لَا نَعْرِفُ كَبِيرَ أَحَدٍ رَوَى عَنْهُ غَيْرَ عَبْدِ الرَّزَّاقِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اور ہم عبدالرزاق کے علاوہ کسی بڑے محدث کو نہیں جانتے جس نے عمرو بن زید سے روایت کی ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 64 (3480)، سنن ابن ماجہ/الصید 20 (3250)، (تحفة الأشراف: 2894)، و مسند احمد (3/297) (ضعیف) (سند میں عمر بن زید صنعانی ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3250) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (700)، ضعيف أبي داود (816 / 3807)، الإرواء (2487)، ضعيف الجامع الصغير (6033) //
50. باب
50. باب: کتے کی قیمت کھانے سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1281
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا ابو كريب، اخبرنا وكيع، عن حماد بن سلمة، عن ابي المهزم، عن ابي هريرة، قال: " نهى عن ثمن الكلب إلا كلب الصيد ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا يصح من هذا الوجه، وابو المهزم اسمه يزيد بن سفيان، وتكلم فيه شعبة بن الحجاج وضعفه، وقد روي عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا ولا يصح إسناده ايضا.(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ إِلَّا كَلْبَ الصَّيْدِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو الْمُهَزِّمِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ، وَتَكَلَّمَ فِيهِ شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ وَضَعَّفَهُ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا وَلَا يَصِحُّ إِسْنَادُهُ أَيْضًا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کتے کی قیمت سے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) منع فرمایا ہے سوائے شکاری کتے کی قیمت کے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس طریق سے صحیح نہیں ہے،
۲- ابومہزم کا نام یزید بن سفیان ہے، ان کے سلسلہ میں شعبہ بن حجاج نے کلام کیا ہے اور ان کی تضعیف کی ہے،
۳- اور جابر سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اور اس کی سند بھی صحیح نہیں ہے (دیکھئیے الصحیحۃ رقم: ۲۹۷۱)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14834) (حسن) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”ابو المہزم“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: حسن التعليق على الروضة الندية (2 / 94)
51. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الْمُغَنِّيَاتِ
51. باب: گانے والی لونڈی کی بیع کی حرمت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1282
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، اخبرنا بكر بن مضر، عن عبيد الله بن زحر، عن علي بن يزيد، عن القاسم، عن ابي امامة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تبيعوا القينات، ولا تشتروهن، ولا تعلموهن، ولا خير في تجارة فيهن، وثمنهن حرام ". في مثل هذا انزلت هذه الآية: ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله سورة لقمان آية 6 إلى آخر الآية. قال: وفي الباب، عن عمر بن الخطاب. قال ابو عيسى: حديث ابي امامة إنما نعرفه مثل هذا من هذا الوجه، وقد تكلم بعض اهل العلم في علي بن يزيد وضعفه وهو شامي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَخْبَرَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَبِيعُوا الْقَيْنَاتِ، وَلَا تَشْتَرُوهُنَّ، وَلَا تُعَلِّمُوهُنَّ، وَلَا خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيهِنَّ، وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ ". فِي مِثْلِ هَذَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ سورة لقمان آية 6 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ وَضَعَّفَهُ وَهُوَ شَامِيٌّ.
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گانے والی لونڈیوں کو نہ بیچو اور نہ انہیں خریدو، اور نہ انہیں (گانا) سکھاؤ ۱؎، ان کی تجارت میں خیر و برکت نہیں ہے اور ان کی قیمت حرام ہے۔ اور اسی جیسی چیزوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے: «ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله» اور بعض لوگ ایسے ہیں جو لغو باتوں کو خرید لیتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں (لقمان: ۶)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوامامہ کی حدیث کو ہم اس طرح صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، اور بعض اہل علم نے علی بن یزید کے بارے میں کلام کیا ہے اور ان کی تضعیف کی ہے۔ اور یہ شام کے رہنے والے ہیں،
۲- اس باب میں عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 11 (2168)، (تحفة الأشراف: 4898) (ضعیف) (سند میں عبیداللہ بن زحر اور علی بن یزید بن جدعان دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن ابن ماجہ کی سند حسن درجے کی ہے)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ یہ فسق اور گناہ کے کاموں کی طرف لے جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2168)
52. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْفَرْقِ بَيْنَ الأَخَوَيْنِ أَوْ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا فِي الْبَيْعِ
52. باب: غلاموں کی بیع میں دو بھائیوں یا ماں اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کی حرام ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1283
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص الشيباني، اخبرنا عبد الله بن وهب، قال: اخبرني حيي بن عبد الله، عن ابي عبد الرحمن الحبلي، عن ابي ايوب، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من فرق بين الوالدة وولدها، فرق الله بينه وبين احبته يوم القيامة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا، فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو شخص ماں اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈالے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور اس کے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وأعادہ في السیر 17 (1566)، (تحفة الأشراف: 3468)، وانظر مسند احمد (5/413، 414) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث ماں اور بچے کے درمیان جدائی ڈالنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے، خواہ یہ بیع کے ذریعہ ہو یا ہبہ کے ذریعہ یا دھوکہ دھڑی کے ذریعہ، اور والدہ کا لفظ مطلق ہے اس میں والد بھی شامل ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (3361)

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.