الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
25. باب مَا جَاءَ فِي ابْتِيَاعِ النَّخْلِ بَعْدَ التَّأْبِيرِ وَالْعَبْدِ وَلَهُ مَالٌ
25. باب: پیوند کاری کے بعد کھجور کے درخت کو بیچنے کا اور ایسے غلام کو بیچنے کا بیان جس کے پاس مال ہو۔
حدیث نمبر: 1244
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من ابتاع نخلا بعد ان تؤبر فثمرتها للذي باعها، إلا ان يشترط المبتاع، ومن ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه، إلا ان يشترط المبتاع ". قال: وفي الباب، عن جابر، وحديث ابن عمر حديث حسن صحيح، هكذا روي من غير وجه، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " من ابتاع نخلا بعد ان تؤبر فثمرتها للبائع إلا ان يشترط المبتاع، ومن باع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا ان يشترط المبتاع "، وقد روي عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من ابتاع نخلا قد ابرت فثمرتها للبائع إلا ان يشترط المبتاع "، وقد روي عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر انه قال: " من باع عبدا وله مال فماله للبائع إلا ان يشترط المبتاع ". هكذا رواه عبيد الله بن عمر، وغيره، عن نافع، الحديثين. وقد روى بعضهم هذا الحديث، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم ايضا. وروى عكرمة بن خالد، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث سالم، والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، قال محمد بن إسماعيل: حديث الزهري، عن سالم، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم اصح ما جاء في هذا الباب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلَّذِي بَاعَهَا، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ، وَمَنِ ابْتَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلَّذِي بَاعَهُ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، هَكَذَا رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ، وَمَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلَّذِي بَاعَهُ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ "، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ "، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ ". هَكَذَا رَوَاهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَغَيْرُهُ، عَنْ نافع، الحديثين. وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا. وَرَوَى عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ سَالِمٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل: حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَحُّ مَا جَاءَ فِي هَذَا الْبَابِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے «تأبیر» ۱؎ (پیوند کاری) کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا ۲؎ الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت پھل کی) شرط لگا لے۔ اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت مال کی) شرط لگا لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی طرح اور بھی طرق سے بسند «عن الزهري عن سالم عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» سے روایت ہے آپ نے فرمایا: جس نے پیوند کاری کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (درخت کے ساتھ پھل کی بھی) شرط لگا لے اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (غلام کے ساتھ مال کی بھی) شرط لگا لے،
۳- یہ نافع سے بھی مروی ہے انہوں نے ابن عمر سے اور ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے کھجور کا کوئی درخت خریدا جس کی پیوند کاری کی جا چکی ہو تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (درخت کے ساتھ پھل کی بھی) شرط لگا لے،
۴- نافع سے مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جس نے کوئی غلام بیچا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (غلام کے ساتھ مال کی بھی) شرط لگا لے،
۵- اسی طرح عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے نافع سے دونوں حدیثیں روایت کی ہیں،
۶- نیز بعض لوگوں نے یہ حدیث نافع سے، نافع نے ابن عمر سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،
۷- عکرمہ بن خالد نے ابن عمر سے ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سالم کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔
۸- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: «عن سالم عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ہے،
۹- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۱۰- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرب والمساقاة 17 (2379)، صحیح مسلم/البیوع 15 (1543)، سنن ابن ماجہ/التجارات 31 (2211)، (تحفة الأشراف: 6907) (صحیح) و أخرجہ کل من: صحیح البخاری/البیوع 90 (2203)، و 92 (2206)، والشروط 2 (2716)، صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکو ر)، سنن ابی داود/ البیوع 44 (3433)، سنن النسائی/البیوع 75 (4639)، و76 (4640)، سنن ابن ماجہ/التجارات 31 (2210)، موطا امام مالک/البیوع 7 (9)، مسند احمد (2/6، 9، 54، 63، 78)، من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: «تأبیر»: پیوند کاری کرنے کو کہتے ہیں، اس کی صورت یہ ہے کہ نر کھجور کا گابھا لے کر مادہ کھجور کے خوشے میں رکھ دیتے ہیں، جب وہ گابھا کھلتا اور پھٹتا ہے تو باذن الٰہی وہ پھل زیادہ دیتا ہے۔
۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ اگر پیوند کاری نہ کی گئی ہو تو پھل کھجور کے درخت کی بیع میں شامل ہو گا اور وہ خریدار کا ہو گا، جمہور کی یہی رائے ہے، جب کہ امام ابوحنیفہ کا یہ قول ہے کہ دونوں صورتوں میں بائع کا حق ہے، اور ابن ابی لیلیٰ کا کہنا ہے کہ دونوں صورتوں میں خریدار کا حق ہے، مگر یہ دونوں اقوال احادیث کے خلاف ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2210 - 2212)
26. باب مَا جَاءَ فِي الْبَيِّعَيْنِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا
26. باب: بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔
حدیث نمبر: 1245
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا واصل بن عبد الاعلى، حدثنا الكوفي بن فضيل، عن يحيى بن سعيد، عن نافع، عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا " او " يختارا "، قال: فكان ابن عمر إذا ابتاع بيعا وهو قاعد، قام ليجب له البيع. قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابي برزة، وحكيم بن حزام، وعبد الله بن عباس، وعبد الله بن عمرو، وسمرة، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقالوا: الفرقة بالابدان لا بالكلام، وقد قال بعض اهل العلم: معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم: " ما لم يتفرقا يعني الفرقة بالكلام "، والقول الاول اصح لان ابن عمر هو روى عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهو اعلم بمعنى ما روى. وروي عنه انه كان إذا اراد ان يوجب البيع مشى ليجب له.(مرفوع) حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا الْكوِفِيُّ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا " أَوْ " يَخْتَارَا "، قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا ابْتَاعَ بَيْعًا وَهُوَ قَاعِدٌ، قَامَ لِيَجِبَ لَهُ الْبَيْعُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، وَحَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَسَمُرَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَالُوا: الْفُرْقَةُ بِالْأَبْدَانِ لَا بِالْكَلَامِ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا يَعْنِي الْفُرْقَةَ بِالْكَلَامِ "، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ لِأَنَّ ابْنَ عُمَرَ هُوَ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَعْنَى مَا رَوَى. وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوجِبَ الْبَيْعَ مَشَى لِيَجِبَ لَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے ۱؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کر لیں ۲؎۔ نافع کہتے ہیں: جب ابن عمر رضی الله عنہما کوئی چیز خریدتے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہو جائے (اور اختیار باقی نہ رہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبرزہ، حکیم بن حزام، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمرو، سمرہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ تفرق سے مراد جسمانی جدائی ہے نہ کہ قولی جدائی، یعنی مجلس سے جدائی مراد ہے گفتگو کا موضوع بدلنا مراد نہیں،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «مالم يتفرقا» سے مراد قولی جدائی ہے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے ہی اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ اور وہ اپنی روایت کردہ حدیث کا معنی زیادہ جانتے ہیں اور ان سے مروی ہے کہ جب وہ بیع واجب (پکی) کرنے کا ارادہ کرتے تو (مجلس سے اٹھ کر) چل دیتے تاکہ بیع واجب ہو جائے،
۵- ابوبرزہ رضی الله عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 42 (2107)، صحیح مسلم/البیوع 10 (1531)، سنن النسائی/البیوع 9 (4478)، (تحفة الأشراف: 8522) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/البیوع 43 (2109)، و 44 (2111)، و45 (2112)، و46 (2113)، صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکور)، سنن ابی داود/ البیوع 53 (3454)، سنن النسائی/البیوع 9 (4470-4477)، سنن ابن ماجہ/التجارات 17 (2181)، موطا امام مالک/البیوع 38 (79)، مسند احمد (2/4، 9، 52، 54، 73، 119، 135) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: یعنی عقد کو فسخ کرنے سے پہلے مجلس عقد سے اگر بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا) دونوں جسمانی طور پر جدا ہو گئے تو بیع پکی ہو جائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیار حاصل نہیں ہو گا۔
۲؎: اس صورت میں جدا ہونے کے بعد بھی شرط کے مطابق اختیار کا حق رہے گا، یعنی خیار کی شرط کر لی ہو تو مجلس سے علاحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیار باقی رہے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2181)
حدیث نمبر: 1246
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن شعبة، عن قتادة، عن صالح ابي الخليل، عن عبد الله بن الحارث، عن حكيم بن حزام، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما "، هذا حديث صحيح وهكذا روي، عن ابي برزة الاسلمي وهكذا روي عن ابي برزة الاسلمي، ان رجلين اختصما إليه في فرس بعد ما تبايعا، وكانوا في سفينة، فقال: لا اراكما افترقتما، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا ". وقد ذهب بعض اهل العلم من اهل الكوفة وغيرهم، إلى ان الفرقة بالكلام، وهو قول: سفيان الثوري. وهكذا روي عن مالك بن انس، وروي عن ابن المبارك، انه قال: كيف ارد هذا؟ والحديث فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم صحيح وقوى هذا المذهب، ومعنى قول النبي صلى الله عليه وسلم: " إلا بيع الخيار " معناه: ان يخير البائع المشتري بعد إيجاب البيع، فإذا خيره فاختار البيع، فليس له خيار بعد ذلك في فسخ البيع، وإن لم يتفرقا هكذا فسره الشافعي، وغيره، ومما يقوي قول: من يقول الفرقة بالابدان، لا بالكلام حديث عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَهَكَذَا رُوِيَ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ فِي فَرَسٍ بَعْدَ مَا تَبَايَعَا، وَكَانُوا فِي سَفِينَةٍ، فَقَالَ: لَا أَرَاكُمَا افْتَرَقْتُمَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا ". وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ، إِلَى أَنَّ الْفُرْقَةَ بِالْكَلَامِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: كَيْفَ أَرُدُّ هَذَا؟ وَالْحَدِيثُ فِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَحِيحٌ وَقَوَّى هَذَا الْمَذْهَبَ، وَمَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا بَيْعَ الْخِيَارِ " مَعْنَاهُ: أَنْ يُخَيِّرَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِيَ بَعْدَ إِيجَابِ الْبَيْعِ، فَإِذَا خَيَّرَهُ فَاخْتَارَ الْبَيْعَ، فَلَيْسَ لَهُ خِيَارٌ بَعْدَ ذَلِكَ فِي فَسْخِ الْبَيْعِ، وَإِنْ لَمْ يَتَفَرَّقَا هَكَذَا فَسَّرَهُ الشَّافِعِيُّ، وَغَيْرُهُ، وَمِمَّا يُقَوِّي قَوْلَ: مَنْ يَقُولُ الْفُرْقَةُ بِالْأَبْدَانِ، لَا بِالْكَلَامِ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) جب تک جدا نہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ کہیں اور سامان خوبی اور خرابی واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کر دی جائے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- اسی طرح ابوبرزہ اسلمی سے بھی مروی ہے کہ دو آدمی ایک گھوڑے کی بیع کرنے کے بعد اس کا مقدمہ لے کر ان کے پاس آئے، وہ لوگ ایک کشتی میں تھے۔ ابوبرزہ نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ تم دونوں جدا ہوئے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بائع اور مشتری کو جب تک (مجلس سے) جدا نہ ہوں اختیار ہے،
۳- اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ جدائی قول سے ہو گی، یہی سفیان ثوری کا قول ہے، اور اسی طرح مالک بن انس سے بھی مروی ہے،
۴- اور ابن مبارک کا کہنا ہے کہ میں اس مسلک کو کیسے رد کر دوں؟ جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد حدیث صحیح ہے،
۵- اور انہوں نے اس کو قوی کہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «إلا بيع الخيار» کا مطلب یہ ہے کہ بائع مشتری کو بیع کے واجب کرنے کے بعد اختیار دیدے، پھر جب مشتری بیع کو اختیار کر لے تو اس کے بعد اس کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہو گا، اگرچہ وہ دونوں جدا نہ ہوئے ہوں۔ اسی طرح شافعی وغیرہ نے اس کی تفسیر کی ہے،
۶- اور جو لوگ جسمانی جدائی (تفرق بالابدان) کے قائل ہیں ان کے قول کو عبداللہ بن عمرو کی حدیث تقویت دے رہی ہے جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں (آگے ہی آ رہی ہے)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 19 (2079)، و22 (2082)، و42 (2108)، و 44 (2110)، و 46 (2114)، صحیح مسلم/البیوع 1 (1532)، سنن ابی داود/ البیوع 53 (3459)، سنن النسائی/البیوع 5 (4462)، (تحفة الأشراف: 3427) و مسند احمد (3/402، 403، 434) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جدا نہ ہوں سے مراد مجلس سے ادھر ادھر چلے جانا ہے، خود راوی حدیث ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی یہی تفسیر مروی ہے، بعض نے بات چیت ختم کر دینا مراد لیا ہے جو ظاہر کے خلاف ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1281)، أحاديث البيوع
حدیث نمبر: 1247
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا بذلك قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث بن سعد، عن ابن عجلان، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا إلا ان تكون صفقة خيار، ولا يحل له ان يفارق صاحبه خشية ان يستقيله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، ومعنى هذا ان يفارقه بعد البيع خشية ان يستقيله، ولو كانت الفرقة بالكلام، ولم يكن له خيار بعد البيع لم يكن لهذا الحديث معنى حيث قال صلى الله عليه وسلم: " ولا يحل له ان يفارقه خشية ان يستقيله ".(مرفوع) أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَفْقَةَ خِيَارٍ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَ صَاحِبَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمَعْنَى هَذَا أَنْ يُفَارِقَهُ بَعْدَ الْبَيْعِ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ، وَلَوْ كَانَتِ الْفُرْقَةُ بِالْكَلَامِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خِيَارٌ بَعْدَ الْبَيْعِ لَمْ يَكُنْ لِهَذَا الْحَدِيثِ مَعْنًى حَيْثُ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ ".
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں ان کو اختیار ہے الا یہ کہ بیع خیار ہو (تب جدا ہونے کے بعد بھی واپسی کا اختیار باقی رہتا ہے)، اور بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے ساتھی (مشتری) سے اس ڈر سے جدا ہو جائے کہ وہ بیع کو فسخ کر دے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اور اس کا معنی یہی ہے کہ بیع کے بعد وہ مشتری سے جدا ہو جائے اس ڈر سے کہ وہ اسے فسخ کر دے گا اور اگر جدائی صرف کلام سے ہو جاتی، اور بیع کے بعد مشتری کو اختیار نہ ہوتا تو اس حدیث کا کوئی معنی نہ ہو گا جو کہ آپ نے فرمایا ہے: بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مشتری سے اس ڈر سے جدا ہو جائے کہ وہ اس کی بیع کو فسخ کر دے گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 53 (3458)، (تحفة الأشراف: 8797)، و مسند احمد (2/183) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (1311)، أحاديث البيوع
27. باب
27. باب: بائع اور مشتری کی رضا مندی اور اختیار سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 1248
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، حدثنا ابو احمد، حدثنا يحيى بن ايوب وهو البجلي الكوفي، قال: سمعت ابا زرعة بن عمرو بن جرير يحدث، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يتفرقن عن بيع إلا عن تراض ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَهُوَ الْبَجَلِيُّ الكوفي، قَال: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَتَفَرَّقَنَّ عَنْ بَيْعٍ إِلَّا عَنْ تَرَاضٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع اور مشتری بیع (کی مجلس) سے رضا مندی کے ساتھ ہی جدا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 53 (3458)، (تحفة الأشراف: 14924)، و مسند احمد (2/536) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الإرواء (5 / 125 - 126)، أحاديث البيوع
حدیث نمبر: 1249
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص الشيباني، حدثنا ابن وهب، عن ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " خير اعرابيا بعد البيع ". وهذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيَّرَ أَعْرَابِيَّا بَعْدَ الْبَيْعِ ". وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع کے بعد ایک اعرابی کو اختیار دیا۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 18 (2184)، (تحفة الأشراف: 2834) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن أحاديث البيوع
28. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُخْدَعُ فِي الْبَيْعِ
28. باب: جسے بیع میں دھوکہ دے دیا جاتا ہو وہ کیا کرے؟
حدیث نمبر: 1250
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن حماد البصري، حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى، عن سعيد، عن قتادة، عن انس، ان رجلا كان في عقدته ضعف، وكان يبايع، وان اهله اتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، احجر عليه، فدعاه نبي الله صلى الله عليه وسلم فنهاه، فقال: يا رسول الله، إني لا اصبر عن البيع، فقال: " إذا بايعت فقل: هاء وهاء، ولا خلابة ". قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابن عمر. وحديث انس حديث حسن صحيح غريب، والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم، وقالوا: الحجر على الرجل الحر في البيع والشراء إذا كان ضعيف العقل، وهو قول: احمد، وإسحاق، ولم ير بعضهم ان يحجر على الحر البالغ.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ فِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ، وَكَانَ يُبَايِعُ، وَأَنَّ أَهْلَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، احْجُرْ عَلَيْهِ، فَدَعَاهُ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنِ الْبَيْعِ، فَقَالَ: " إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ: هَاءَ وَهَاءَ، وَلَا خِلَابَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَحَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَالُوا: الْحَجْرُ عَلَى الرَّجُلِ الْحُرِّ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ إِذَا كَانَ ضَعِيفَ الْعَقْلِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُحْجَرَ عَلَى الْحُرِّ الْبَالِغِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی خرید و فروخت کرنے میں بودا ۱؎ تھا اور وہ (اکثر) خرید و فروخت کرتا تھا، اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کو (خرید و فروخت سے) روک دیجئیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور اسے اس سے منع فرما دیا۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بیع سے باز رہنے پر صبر نہیں کر سکوں گا، آپ نے فرمایا: (اچھا) جب تم بیع کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو اور کوئی دھوکہ دھڑی نہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ آزاد شخص کو خرید و فروخت سے اس وقت روکا جا سکتا ہے جب وہ ضعیف العقل ہو، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۴- اور بعض لوگ آزاد بالغ کو بیع سے روکنے کو درست نہیں سمجھتے ہیں ۳؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 68 (3501)، سنن النسائی/البیوع 12 (4490)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 24 (2354)، (تحفة الأشراف: 1175)، و مسند احمد 3/217) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حبان بن منقذ بن عمرو انصاری تھے اور ایک قول کے مطابق اس سے مراد ان کے والد تھے ان کے سر میں ایک غزوے کے دوران جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑا تھا پتھر سے شدید زخم آ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے حافظے اور عقل میں کمزوری آ گئی تھی اور زبان میں بھی تغیر آ گیا تھا لیکن ابھی تمیز کے دائرہ سے خارج نہیں ہوئے تھے۔
۲؎: مطلب یہ ہے کہ دین میں دھوکہ و فریب نہیں کیونکہ دین تو نصیحت وخیر خواہی کا نام ہے۔
۳؎: ان کا کہنا ہے کہ یہ حبان بن منقذ کے ساتھ خاص تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2354)
29. باب مَا جَاءَ فِي الْمُصَرَّاةِ
29. باب: جس جانور کا دودھ تھن میں روک دیا گیا ہو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1251
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا وكيع، عن حماد بن سلمة، عن محمد بن زياد، عن ابي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " من اشترى مصراة فهو بالخيار إذا حلبها إن شاء ردها ورد معها صاعا من تمر ". قال ابو عيسى: وفي الباب، عن انس، ورجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ اشْتَرَى مُصَرَّاةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ إِذَا حَلَبَهَا إِنْ شَاءَ رَدَّهَا وَرَدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی ایسا جانور خریدا جس کا دودھ تھن میں (کئی دنوں سے) روک دیا گیا ہو، تو جب وہ اس کا دودھ دو ہے تو اسے اختیار ہے اگر وہ چاہے تو ایک صاع کھجور کے ساتھ اس کو واپس کر دے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں انس اور ایک اور صحابی سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14365)، ولہ طریق آخر انظر الحدیث الآتی (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ایک صاع کھجور کی واپسی کا جو حکم دیا گیا ہے اس لیے ہے کہ اس جانور سے حاصل کردہ دودھ کا معاوضہ ہو جائے کیونکہ کچھ دودھ تو خریدار کی ملکیت میں نئی چیز ہے اور کچھ دودھ اس نے خریدا ہے اب چونکہ خریدار کو یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ کتنا دودھ خریدا ہوا ہے اور کتنا نیا داخل ہے چنانچہ عدم تمیز کی بنا پر اسے واپس کرنا یا اس کی قیمت واپس کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے شارع نے ایک صاع مقرر فرما دیا کہ فروخت کرنے والے اور خریدار کے مابین تنازع اور جھگڑا پیدا نہ ہو خریدار نے جو دودھ حاصل کیا ہے اس کا معاوضہ ہو جائے قطع نظر اس سے کہ دودھ کی مقدار کم تھی یا زیادہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2239)
حدیث نمبر: 1252
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر، حدثنا قرة بن خالد، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من اشترى مصراة فهو بالخيار ثلاثة ايام، فإن ردها رد معها صاعا من طعام لا سمراء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا الحديث عند اصحابنا منهم: الشافعي، واحمد، وإسحاق، ومعنى قوله: " لا سمراء " يعني: لا بر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنِ اشْتَرَى مُصَرَّاةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنْ رَدَّهَا رَدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ طَعَامٍ لَا سَمْرَاءَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا مِنْهُمْ: الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " لَا سَمْرَاءَ " يَعْنِي: لَا بُرَّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی ایسا جانور خریدا جس کا دودھ تھن میں روک دیا گیا ہو تو اسے تین دن تک اختیار ہے۔ اگر وہ اسے واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کوئی غلہ بھی واپس کرے جو گیہوں نہ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ہمارے اصحاب کا اسی پر عمل ہے۔ ان ہی میں شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔ آپ کے قول «لا سمراء» کا مطلب «لابُرّ» ہے یعنی گیہوں نہ ہو (کھانے کی کوئی اور چیز ہو، پچھلی حدیث میں کھجور کا تذکرہ ہے)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 64 (2148)، صحیح مسلم/البیوع 4 (1515)، سنن النسائی/البیوع 14 (4493، 4494)، سنن ابن ماجہ/التجارات 42 (2239)، (تحفة الأشراف: 14500) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2239)
30. باب مَا جَاءَ فِي اشْتِرَاطِ ظَهْرِ الدَّابَّةِ عِنْدَ الْبَيْعِ
30. باب: جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1253
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا وكيع، عن زكريا، عن الشعبي، عن جابر بن عبد الله، " انه باع من النبي صلى الله عليه وسلم بعيرا، واشترط ظهره إلى اهله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه، عن جابر، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، يرون الشرط في البيع جائزا، إذا كان شرطا واحدا، وهو قول:، احمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: لا يجوز الشرط في البيع ولا يتم البيع إذا كان فيه شرط.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، " أَنَّهُ بَاعَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعِيرًا، وَاشْتَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى أَهْلِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ جَابِرٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَرَوْنَ الشَّرْطَ فِي الْبَيْعِ جَائِزًا، إِذَا كَانَ شَرْطًا وَاحِدًا، وَهُوَ قَوْلُ:، أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يَجُوزُ الشَّرْطُ فِي الْبَيْعِ وَلَا يَتِمُّ الْبَيْعُ إِذَا كَانَ فِيهِ شَرْطٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ اور بھی سندوں سے جابر سے مروی ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ بیع میں شرط کو جائز سمجھتے ہیں جب شرط ایک ہو۔ یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ بیع میں شرط جائز نہیں ہے اور جب اس میں شرط ہو تو بیع تام نہیں ہو گی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 43 (2097)، والاستقراض 1 (2385)، و 18 (2406)، والمظالم 26 (2470)، والشروط4 (2718)، والجہاد 49 (2861)، و 113 (2967)، صحیح مسلم/البیوع 42 (المساقاة 21)، (215)، والرضاع 16 57 و 58)، سنن ابی داود/ البیوع 77 (4641)، سنن ابن ماجہ/التجارات 29 (2205)، (تحفہ الأشراف: 2341)، و مسند احمد (3/299) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگر جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں درست ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2205)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.