الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
Chapters On Al-Fitan
حدیث نمبر: 2183M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا ابو النعمان الحكم بن عبد الله العجلي، عن شعبة، عن فرات، نحو حديث ابي داود، عن شعبة، وزاد فيه، قال: " والعاشرة إما ريح تطرحهم في البحر، وإما نزول عيسى ابن مريم "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن علي، وابي هريرة، وام سلمة، وصفية بنت حيي، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعِجْلِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ فُرَاتٍ، نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، وَزَادَ فِيهِ، قَالَ: " وَالْعَاشِرَةُ إِمَّا رِيحٌ تَطْرَحُهُمْ فِي الْبَحْرِ، وَإِمَّا نُزُولُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے جیسی ابوداؤد نے شعبہ سے روایت کی ہے، اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دسویں نشانی ہوا کا چلنا ہے جو انہیں سمندر میں پھینک دے گی یا عیسیٰ بن مریم کا نزول ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، ابوہریرہ، ام سلمہ اور صفیہ بنت حي رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر رقم 2183 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: دس نشانیوں یہ ہیں: ۱- پچھم سے سورج کا نکلنا،
۲- یاجوج ماجوج کا نکلنا،
۳- دابہ (جانور) کا نکلنا،
۶- تین بار زمین کا دھنسنا، (پورب میں، پچھم میں اور جزیرہ عرب میں)،
۷- عدن سے آگ کا نکلنا،
۸- دھواں نکلنا،
۹- دجال کا نکلنا،
۱۰ - عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان دنیا سے نزول یعنی زمین پر اترنا، ایک اور نشانی کا ذکر ہے یعنی ہوا کا شاید اس سے مراد «دخان» (دھواں) ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2184
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن سلمة بن كهيل، عن ابي إدريس المرهبي، عن مسلم بن صفوان، عن صفية، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا ينتهي الناس عن غزو هذا البيت حتى يغزو جيش، حتى إذا كانوا بالبيداء او ببيداء من الارض، خسف باولهم وآخرهم، ولم ينج اوسطهم "، قلت: يا رسول الله، فمن كره منهم، قال: " يبعثهم الله على ما في انفسهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْمُرْهِبِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ صَفِيَّةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَنْتَهِي النَّاسُ عَنْ غَزْوِ هَذَا الْبَيْتِ حَتَّى يَغْزُوَ جَيْشٌ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ، خُسِفَ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ، وَلَمْ يَنْجُ أَوْسَطُهُمْ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَنْ كَرِهَ مِنْهُمْ، قَالَ: " يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین صفیہ بنت حی رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ (اللہ کے) اس گھر پر حملہ کرنے سے باز نہیں آئیں گے، یہاں تک کہ ایک ایسا لشکر لڑائی کرنے کے لیے آئے گا کہ جب اس لشکر کے لوگ مقام بیدا میں ہوں گے، تو ان کے آگے والے اور پیچھے والے دھنسا دے جائیں گے اور ان کے بیچ والے بھی نجات نہیں پائیں گے (یعنی تمام لوگ دھنسا دے جائیں گے)۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان میں سے جو ناپسند کرتے رہے ہوں ان کے افعال کو وہ بھی؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کے مطابق انہیں اٹھائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 30 (4064) (تحفة الأشراف: 15902) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4064)
حدیث نمبر: 2185
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا صيفي بن ربعي، عن عبد الله بن عمر، عن عبيد الله بن عمر، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يكون في آخر الامة خسف، ومسخ، وقذف "، قالت: قلت: يا رسول الله، انهلك وفينا الصالحون؟ قال: " نعم، إذا ظهر الخبث "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من حديث عائشة، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وعبد الله بن عمر تكلم فيه يحيى بن سعيد من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا صَيْفِيُّ بْنُ رِبْعِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَكُونُ فِي آخِرِ الْأُمَّةِ خَسْفٌ، وَمَسْخٌ، وَقَذْفٌ "، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ؟ قَالَ: " نَعَمْ، إِذَا ظَهَرَ الْخُبْثُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ تَكَلَّمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس امت کے آخری عہد میں یہ واقعات ظاہر ہوں گے زمین کا دھنسنا، صورت تبدیل ہونا اور آسمان سے پتھر برسنا، عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک کر دئیے جائیں گے حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، جب فسق و فجور عام ہو جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث عائشہ کی روایت سے غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- راوی عبداللہ بن عمر عمری کے حفظ کے تعلق سے یحییٰ بن سعید نے کلام کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17542) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (987)، الروض النضير (2 / 394)
22. باب مَا جَاءَ فِي طُلُوعِ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا
22. باب: مغرب (پچھم) سے سورج نکلنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2186
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم التيمي، عن ابيه، عن ابي ذر، قال: دخلت المسجد حين غابت الشمس والنبي صلى الله عليه وسلم جالس، فقال: يا ابا ذر، " اتدري اين تذهب هذه؟ " قال: قلت: الله ورسوله اعلم، قال: " فإنها تذهب تستاذن في السجود، فيؤذن لها وكانها قد قيل لها اطلعي من حيث جئت، فتطلع من مغربها، قال: ثم قرا 0 وذلك مستقر لها 0 "، قال: وذلك قراءة عبد الله بن مسعود، قال ابو عيسى: وفي الباب عن صفوان بن عسال، وحذيفة بن اسيد، وانس، وابي موسى، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ، " أَتَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ هَذِهِ؟ " قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّهَا تَذْهَبُ تَسْتَأْذِنُ فِي السُّجُودِ، فَيُؤْذَنُ لَهَا وَكَأَنَّهَا قَدْ قِيلَ لَهَا اطْلُعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا، قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ 0 وَذَلِكَ مُسْتَقَرٌّ لَهَا 0 "، قَالَ: وَذَلِكَ قِرَاءَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي مُوسَى، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سورج ڈوبنے کے بعد میں مسجد میں داخل ہوا، اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابوذر! جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: وہ سجدے کی اجازت لینے جاتا ہے، اسے اجازت مل جاتی ہے لیکن ایک وقت اس سے کہا جائے گا: اسی جگہ سے نکلو جہاں سے آئے ہو، لہٰذا وہ پچھم سے نکلے گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «وذلك مستقر لها» یہ اس کا ٹھکانا ہے، راوی کہتے ہیں: عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی قرأت یہی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں صفوان بن عسال، حذیفہ، اسید، انس اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 4 (3199)، والتوحید 22 (7424)، صحیح مسلم/الإیمان 72 (159)، ویأتي في تفسیر یسین برقم: 3227) (تحفة الأشراف: 11993) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
23. باب مَا جَاءَ فِي خُرُوجِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ
23. باب: یاجوج ماجوج کے خروج کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2187
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي، وابو بكر بن نافع، وغير واحد، قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن زينب بنت ابي سلمة، عن حبيبة، عن ام حبيبة، عن زينب بنت جحش، قالت: استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم من نوم محمرا وجهه وهو يقول: " لا إله إلا الله "، يرددها ثلاث مرات، " ويل للعرب من شر قد اقترب، فتح اليوم من ردم ياجوج وماجوج مثل هذه "، وعقد عشرا، قالت زينب: قلت: يا رسول الله، افنهلك وفينا الصالحون؟ قال: " نعم، إذا كثر الخبث "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد جود سفيان هذا الحديث، هكذا روى الحميدي، وعلي بن المديني، وغير واحد من الحفاظ، عن سفيان بن عيينة نحو هذا، وقال الحميدي: قال سفيان بن عيينة: حفظت من الزهري في هذا الحديث اربع نسوة: زينب بنت ابي سلمة، عن حبيبة، وهما ربيبتا النبي صلى الله عليه وسلم، عن ام حبيبة، عن زينب بنت جحش، زوجي النبي صلى الله عليه وسلم، وهكذا روى معمر، وغيره هذا الحديث، عن الزهري، ولم يذكروا فيه عن حبيبة، وقد روى بعض اصحاب ابن عيينة هذا الحديث، عن ابن عيينة، ولم يذكروا فيه عن ام حبيبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ حَبِيبَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَتْ: اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَوْمٍ مُحْمَرًّا وَجْهُهُ وَهُوَ يَقُولُ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ "، يُرَدِّدُهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، " وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ، فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ "، وَعَقَدَ عَشْرًا، قَالَتْ زَيْنَبُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَنَهْلَكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ؟ قَالَ: " نَعَمْ، إِذَا كَثُرَ الْخُبْثُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ جَوَّدَ سُفْيَانُ هَذَا الْحَدِيثَ، هَكَذَا رَوَى الْحُمَيْدِيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ نَحْوَ هَذَا، وَقَالَ الْحُمَيْدِيُّ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: حَفِظْتُ مِنَ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَرْبَعَ نِسْوَةٍ: زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ حَبِيبَةَ، وَهُمَا رَبِيبَتَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، زَوْجَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَكَذَا رَوَى مَعْمَرٌ، وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ حَبِيبَةَ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ ابْنِ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ.
زینب بنت جحش رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو کر اٹھے تو آپ کا چہرہ مبارک سرخ تھا اور آپ فرما رہے تھے: «لا إله إلا الله» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں آپ نے اسے تین بار دہرایا، پھر فرمایا: اس شر (فتنہ) سے عرب کے لیے تباہی ہے جو قریب آ گیا ہے، آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے اور آپ نے (ہاتھ کی انگلیوں سے) دس کی گرہ لگائی ۱؎، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک کر دئیے جائیں گے حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، جب برائی زیادہ ہو جائے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- (سند میں چار عورتوں کا تذکرہ کر کے) سفیان بن عیینہ نے یہ حدیث اچھی طرح بیان کی ہے، حمیدی، علی بن مدینی اور دوسرے کئی محدثین نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے اسی طرح روایت کی ہے،
۳- حمیدی کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ نے کہا: میں نے اس حدیث کی سند میں زہری سے چار عورتوں کا واسطہ یاد کیا ہے: «عن زينب بنت أبي سلمة، عن حبيبة، عن أم حبيبة، عن زينب بنت جحش»، زینب بنت ابی سلمہ اور حبیبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوتیلی لڑکیاں ہیں اور ام حبیبہ اور زینب بنت جحش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں،
۴- معمر اور کئی لوگوں نے یہ حدیث زہری سے اسی طرح روایت کی ہے مگر اس میں حبیبہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ابن عیینہ کے بعض شاگردوں نے ابن عیینہ سے یہ حدیث روایت کرتے وقت اس میں ام حبیبہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 7 (3346)، والمناقب 25 (3598)، والفتن 4 (7059)، و 28 (7135)، صحیح مسلم/الفتن 1 (2880)، سنن ابن ماجہ/الفتن 9 (3952) (تحفة الأشراف: 15880)، و مسند احمد (6/428، 429) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے اس سوراخ کی مقدار بتائی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3953)
24. باب فِي صِفَةِ الْمَارِقَةِ
24. باب: خوارج کی پہچان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2188
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم، عن زر، عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يخرج في آخر الزمان قوم احداث الاسنان، سفهاء الاحلام، يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، يقولون من قول خير البرية، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن علي، وابي سعيد، وابي ذر، وهذا حديث حسن صحيح، وقد روي في غير هذا الحديث، عن النبي صلى الله عليه وسلم حيث وصف هؤلاء القوم الذين يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، إنما هم الخوارج الحرورية، وغيرهم من الخوارج.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَقُولُونَ مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ وَصَفَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، إِنَّمَا هُمْ الْخَوَارِجُ الْحَرُورِيَّةُ، وَغَيْرُهُمْ مِنَ الْخَوَارِجِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ ۱؎ میں ایک قوم نکلے گی جس کے افراد نوعمر اور سطحی عقل والے ہوں گے، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، قرآن کی بات کریں گے لیکن وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے شکار سے تیر آر پار نکل جاتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- دوسری حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے جس میں آپ نے انہیں لوگوں کی طرح اوصاف بیان کیا کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے، مگر ان کے گلے کے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے، ان سے مقام حروراء کی طرف منسوب خوارج اور دوسرے خوارج مراد ہیں،
۳- اس باب میں علی، ابوسعید اور ابوذر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 12 (168) (تحفة الأشراف: 9210)، و مسند احمد (1/404) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے مراد خلافت راشدہ کا اخیر زمانہ ہے، اس خلافت کی مدت تیس سال ہے، خوارج کا ظہور علی رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ہوا، جب خلافت راشدہ کے دو سال باقی تھے تو علی رضی الله عنہ نے نہروان کے مقام پر ان سے جنگ کی، اور انہیں قتل کیا، خوارج میں نوعمر اور غیر پختہ عقل کے لوگ تھے جو پرفریب نعروں کا شکار ہو گئے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی ہر زمانہ میں ظاہر ہو رہے ہیں آج کے پرفتن دور میں اس کا مظاہرہ جگہ جگہ نظر آ رہا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ دے اور ہر طرح کے فتنوں سے محفوظ رکھے، آمین۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (168)
25. باب فِي الأَثَرَةِ وَمَا جَاءَ فِيهِ
25. باب: ترجیح دینے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2189
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، حدثنا شعبة، عن قتادة، حدثنا انس بن مالك، عن اسيد بن حضير، ان رجلا من الانصار، قال: يا رسول الله، استعملت فلانا ولم تستعملني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم سترون بعدي اثرة، فاصبروا حتى تلقوني على الحوض "، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، عَنِ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَعْمَلْتَ فُلَانًا وَلَمْ تَسْتَعْمِلْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اسید بن حضیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں کو عامل بنا دیا اور مجھے عامل نہیں بنایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے بعد (غلط) ترجیح دیکھو گے، لہٰذا تم اس پر صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 8 (3792)، والفتن 2 (7057)، صحیح مسلم/الإمارة 11 (1845)، سنن النسائی/آداب القضاة 4 (5385) (تحفة الأشراف: 148)، و مسند احمد (4/351، 352) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الظلال (752 و 753)
حدیث نمبر: 2190
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن الاعمش، عن زيد بن وهب، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إنكم سترون بعدي اثرة وامورا تنكرونها "، قالوا: فما تامرنا يا رسول الله؟ قال: " ادوا إليهم حقهم وسلوا الله الذي لكم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً وَأُمُورًا تُنْكِرُونَهَا "، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " أَدُّوا إِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ وَسَلُوا اللَّهَ الَّذِي لَكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے بعد عنقریب (غلط) ترجیح اور ایسے امور دیکھو گے جنہیں تم برا جانو گے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایسے وقت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تم حکام کا حق ادا کرنا (ان کی اطاعت کرنا) اور اللہ سے اپنا حق مانگو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 25 (3603)، والفتن 2 (7052)، صحیح مسلم/الإمارة 10 (1843) (تحفة الأشراف: 9229)، و مسند احمد (1/384، 387، 433) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی حکام اگر ایسے لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دیں جو قابل ترجیح نہیں ہیں تو تم صبر سے کام لیتے ہوئے ان کی اطاعت کرو اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالہ کرو، کیونکہ اللہ نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
26. باب مَا جَاءَ مَا أَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
26. باب: قیامت تک واقع ہونے والی چیزوں کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیش گوئی۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2191
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عمران بن موسى القزاز البصري، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا علي بن زيد بن جدعان القرشي، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما صلاة العصر بنهار، ثم قام خطيبا فلم يدع شيئا يكون إلى قيام الساعة إلا اخبرنا به، حفظه من حفظه، ونسيه من نسيه، وكان فيما قال: " إن الدنيا حلوة خضرة، وإن الله مستخلفكم فيها، فناظر كيف تعملون، الا فاتقوا الدنيا واتقوا النساء ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وكان فيما قال: " الا لا يمنعن رجلا هيبة الناس ان يقول بحق إذا علمه "، قال: فبكى ابو سعيد، فقال: قد والله راينا اشياء فهبنا. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فكان فيما قال: " الا إنه ينصب لكل غادر لواء يوم القيامة بقدر غدرته، ولا غدرة اعظم من غدرة إمام عامة يركز لواؤه عند استه ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فكان فيما حفظنا يومئذ: " الا إن بني آدم خلقوا على طبقات شتى، فمنهم من يولد مؤمنا ويحيا مؤمنا ويموت مؤمنا، ومنهم من يولد كافرا ويحيا كافرا ويموت كافرا، ومنهم من يولد مؤمنا ويحيا مؤمنا ويموت كافرا، ومنهم من يولد كافرا ويحيا كافرا ويموت مؤمنا، الا وإن منهم البطيء الغضب سريع الفيء، ومنهم سريع الغضب سريع الفيء فتلك بتلك، الا وإن منهم سريع الغضب بطيء الفيء، الا وخيرهم بطيء الغضب سريع الفيء، الا وشرهم سريع الغضب بطيء الفيء، الا وإن منهم حسن القضاء حسن الطلب، ومنهم سيئ القضاء حسن الطلب، ومنهم حسن القضاء سيئ الطلب فتلك بتلك، الا وإن منهم السيئ القضاء السيئ الطلب، الا وخيرهم الحسن القضاء الحسن الطلب، الا وشرهم سيئ القضاء سيئ الطلب، الا وإن الغضب جمرة في قلب ابن آدم، اما رايتم إلى حمرة عينيه وانتفاخ اوداجه فمن احس بشيء من ذلك فليلصق بالارض ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وجعلنا نلتفت إلى الشمس هل بقي منها شيء؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا إنه لم يبق من الدنيا فيما مضى منها إلا كما بقي من يومكم هذا فيما مضى منه "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن حذيفة، وابي مريم، وابي زيد بن اخطب، والمغيرة بن شعبة، وذكروا ان النبي صلى الله عليه وسلم حدثهم بما هو كائن إلى ان تقوم الساعة، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ الْقُرَشِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا صَلَاةَ الْعَصْرِ بِنَهَارٍ، ثُمَّ قَامَ خَطِيبًا فَلَمْ يَدَعْ شَيْئًا يَكُونُ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلَّا أَخْبَرَنَا بِهِ، حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ، وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ، وَكَانَ فِيمَا قَالَ: " إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا، فَنَاظِرٌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ، أَلَا فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَكَانَ فِيمَا قَالَ: " أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ "، قَالَ: فَبَكَى أَبُو سَعِيدٍ، فَقَالَ: قَدْ وَاللَّهِ رَأَيْنَا أَشْيَاءَ فَهِبْنَا. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَكَانَ فِيمَا قَالَ: " أَلَا إِنَّهُ يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَدْرِ غَدْرَتِهِ، وَلَا غَدْرَةَ أَعْظَمُ مِنْ غَدْرَةِ إِمَامِ عَامَّةٍ يُرْكَزُ لِوَاؤُهُ عِنْدَ اسْتِهِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَكَانَ فِيمَا حَفِظْنَا يَوْمَئِذٍ: " أَلَا إِنَّ بَنِي آدَمَ خُلِقُوا عَلَى طَبَقَاتٍ شَتَّى، فَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ مُؤْمِنًا وَيَحْيَا مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيَحْيَا كَافِرًا وَيَمُوتُ كَافِرًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ مُؤْمِنًا وَيَحْيَا مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ كَافِرًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيَحْيَا كَافِرًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمُ الْبَطِيءَ الْغَضَبِ سَرِيعَ الْفَيْءِ، وَمِنْهُمْ سَرِيعُ الْغَضَبِ سَرِيعُ الْفَيْءِ فَتِلْكَ بِتِلْكَ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمْ سَرِيعَ الْغَضَبِ بَطِيءَ الْفَيْءِ، أَلَا وَخَيْرُهُمْ بَطِيءُ الْغَضَبِ سَرِيعُ الْفَيْءِ، أَلَا وَشَرُّهُمْ سَرِيعُ الْغَضَبِ بَطِيءُ الْفَيْءِ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمْ حَسَنَ الْقَضَاءِ حَسَنَ الطَّلَبِ، وَمِنْهُمْ سَيِّئُ الْقَضَاءِ حَسَنُ الطَّلَبِ، وَمِنْهُمْ حَسَنُ الْقَضَاءِ سَيِّئُ الطَّلَبِ فَتِلْكَ بِتِلْكَ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمُ السَّيِّئَ الْقَضَاءِ السَّيِّئَ الطَّلَبِ، أَلَا وَخَيْرُهُمُ الْحَسَنُ الْقَضَاءِ الْحَسَنُ الطَّلَبِ، أَلَا وَشَرُّهُمْ سَيِّئُ الْقَضَاءِ سَيِّئُ الطَّلَبِ، أَلَا وَإِنَّ الْغَضَبَ جَمْرَةٌ فِي قَلْبِ ابْنِ آدَمَ، أَمَا رَأَيْتُمْ إِلَى حُمْرَةِ عَيْنَيْهِ وَانْتِفَاخِ أَوْدَاجِهِ فَمَنْ أَحَسَّ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ فَلْيَلْصَقْ بِالْأَرْضِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَجَعَلْنَا نَلْتَفِتُ إِلَى الشَّمْسِ هَلْ بَقِيَ مِنْهَا شَيْءٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا فِيمَا مَضَى مِنْهَا إِلَّا كَمَا بَقِيَ مِنْ يَوْمِكُمْ هَذَا فِيمَا مَضَى مِنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ حُذَيْفَةَ، وَأَبِي مَرْيَمَ، وَأَبِي زَيْدِ بْنِ أَخْطَبَ، وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَذَكَرُوا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کچھ پہلے پڑھائی پھر خطبہ دینے کھڑے ہوئے، اور آپ نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کے بارے میں ہمیں خبر دی، یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھا اور بھولنے والے بھول گئے، آپ نے جو باتیں بیان فرمائیں اس میں سے ایک بات یہ بھی تھی: دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا ۱؎، پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کرتے ہو؟ خبردار! دنیا سے اور عورتوں سے بچ کے رہو ۲؎، آپ نے یہ بھی فرمایا: خبردار! حق جان لینے کے بعد کسی آدمی کو لوگوں کا خوف اسے بیان کرنے سے نہ روک دے، ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے روتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے بہت ساری چیزیں دیکھی ہیں اور (بیان کرنے سے) ڈر گئے آپ نے یہ بھی بیان فرمایا: خبردار! قیامت کے دن ہر عہد توڑنے والے کے لیے اس کے عہد توڑنے کے مطابق ایک جھنڈا ہو گا اور امام عام کے عہد توڑنے سے بڑھ کر کوئی عہد توڑنا نہیں، اس عہد کے توڑنے والے کا جھنڈا اس کے سرین کے پاس نصب کیا جائے گا، اس دن کی جو باتیں ہمیں یاد رہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی: جان لو! انسان مختلف درجہ کے پیدا کیے گئے ہیں کچھ لوگ پیدائشی مومن ہوتے ہیں، مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، کچھ لوگ کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کفر کی حالت میں مرتے ہیں، کچھ لوگ مومن پیدا ہوتے ہیں، مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کفر کی حالت میں ان کی موت آتی ہے، کچھ لوگ کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر بن کر زندہ رہتے ہیں، اور ایمان کی حالت میں ان کی موت آتی ہے، کچھ لوگوں کو غصہ دیر سے آتا ہے اور جلد ٹھنڈا ہو جاتا ہے، کچھ لوگوں کو غصہ جلد آتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے، یہ دونوں برابر ہیں، جان لو! کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں جلد غصہ آتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے، جان لو! ان میں سب سے بہتر وہ ہیں جو دیر سے غصہ ہوتے ہیں اور جلد ٹھنڈے ہو جاتے ہیں، اور سب سے برے وہ ہیں جو جلد غصہ ہوتے ہیں اور دیر سے ٹھنڈے ہوتے ہیں، جان لو! کچھ لوگ اچھے ڈھنگ سے قرض ادا کرتے ہیں اور اچھے ڈھنگ سے قرض وصول کرتے ہیں، کچھ لوگ بدسلوکی سے قرض ادا کرتے ہیں، اور بدسلوکی سے وصول کرتے ہیں، جان لو! ان میں سب سے اچھا وہ ہے جو اچھے ڈھنگ سے قرض ادا کرتا ہے اور اچھے ڈھنگ سے وصول کرتا ہے، اور سب سے برا وہ ہے جو برے ڈھنگ سے ادا کرتا ہے، اور بدسلوکی سے وصول کرتا ہے، جان لو! غصہ انسان کے دل میں ایک چنگاری ہے کیا تم غصہ ہونے والے کی آنکھوں کی سرخی اور اس کی گردن کی رگوں کو پھولتے ہوئے نہیں دیکھتے ہو؟ لہٰذا جس شخص کو غصہ کا احساس ہو وہ زمین سے چپک جائے، ابو سعید خدری کہتے ہیں: ہم لوگ سورج کی طرف مڑ کر دیکھنے لگے کہ کیا ابھی ڈوبنے میں کچھ باقی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جان لو! دنیا کے گزرے ہوئے حصہ کی بہ نسبت اب جو حصہ باقی ہے وہ اتنا ہی ہے جتنا حصہ آج کا تمہارے گزرے ہوئے دن کی بہ نسبت باقی ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں حذیفہ، ابومریم، ابوزید بن اخطب اور مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ان لوگوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قیامت تک ہونے والی چیزوں کو بیان فرمایا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 19 (4000) (تحفة الأشراف: 4366) (ضعیف) (سند میں ”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف ہیں، اس لیے یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، لیکن اس حدیث کے کئی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے: الصحیحہ: 486، و911)»

وضاحت:
۱؎: یعنی تم کو پچھلی قوموں کا وارث و نائب بنائے گا، یہ نہیں کہ انسان اللہ کا خلفیہ و نائب ہے یہ غلط بات ہے، بلکہ اللہ خود انسان کا خلیفہ ہے جیسا کہ خضر کی دعا میں ہے «والخلیفۃ بعد» ۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن بعض فقراته صحيح. فانظر مثلا ابن ماجة (4000) الرد على بليق (86)، ابن ماجة (4000) // ضعيف سنن ابن ماجة (865) //
27. باب مَا جَاءَ فِي الشَّامِ
27. باب: سر زمین شام کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2192
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، حدثنا شعبة، عن معاوية بن قرة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا فسد اهل الشام فلا خير فيكم، لا تزال طائفة من امتي منصورين لا يضرهم من خذلهم حتى تقوم الساعة "، قال محمد بن إسماعيل، قال علي بن المديني، هم اصحاب الحديث، قال ابو عيسى: وفي الباب عن عبد الله بن حوالة، وابن عمر، وزيد بن ثابت، وعبد الله بن عمرو، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ، لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ "، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، هُمْ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوَالَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
قرہ بن ایاس المزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ملک شام والوں میں خرابی پیدا ہو جائے گی تو تم میں کوئی اچھائی باقی نہیں رہے گی، میری امت کے ایک گروہ کو ہمیشہ اللہ کی مدد سے حاصل رہے گی، اس کی مدد نہ کرنے والے قیامت تک اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن حوالہ، ابن عمر، زید بن ثابت اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا کہ علی بن مدینی نے کہا: ان سے مراد اہل حدیث ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 1 (6) (تحفة الأشراف: 11081)، و مسند احمد (5/34، 35) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی یہ گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، اللہ کی نصرت و مدد سے سرفراز رہے گا، اس کی نصرت و تائید نہ کرنے والے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، امام نووی کہتے ہیں: یہ گروہ اقطار عالم میں منتشر ہو گا، جس میں بہادر قسم کے جنگجو، فقہاء، محدثین، زہداء اور معروف و منکر کا فریضہ انجام دینے والے لوگ ہوں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (6)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.