الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
Chapters On Zuhd
25. باب مَا جَاءَ فِي قِصَرِ الأَمَلِ
25. باب: آرزوئیں کم رکھنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2333
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد، حدثنا سفيان، عن ليث، عن مجاهد، عن ابن عمر، قال: اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم ببعض جسدي بمنكبي، فقال: " كن في الدنيا كانك غريب او عابر سبيل، وعد نفسك في اهل القبور "، فقال لي ابن عمر: إذا اصبحت فلا تحدث نفسك بالمساء، وإذا امسيت فلا تحدث نفسك بالصباح، وخذ من صحتك قبل سقمك، ومن حياتك قبل موتك، فإنك لا تدري يا عبد الله ما اسمك غدا، قال ابو عيسى: وقد روى هذا الحديث الاعمش، عن مجاهد، عن ابن عمر، نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ جَسَدِي بِمِنْكَبِي، فَقَالَ: " كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ، وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي أَهْلِ الْقُبُورِ "، فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ: إِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْمَسَاءِ، وَإِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ غَدًا، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، نَحْوَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بدن کے بعض حصے کو پکڑ کر فرمایا: تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافر یا راہ گیر ہو، اور اپنا شمار قبر والوں میں کرو۔ مجاہد کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما نے مجھ سے کہا: جب تم صبح کرو تو شام کا یقین مت رکھو اور جب شام کرو تو صبح کا یقین نہ رکھو، اور بیماری سے قبل صحت و تندرستی کی حالت میں اور موت سے قبل زندگی کی حالت میں کچھ کر لو اس لیے کہ اللہ کے بندے! تمہیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہو گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اعمش نے مجاہد سے، مجاہد نے ابن عمر رضی الله عنہما سے اس حدیث کی اسی طرح سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 3 (6416)، سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4114) (تحفة الأشراف: 7386)، و مسند احمد (2/24، 131) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں دنیا سے بے رغبتی اور دنیاوی آرزوئیں کم رکھنے کا بیان ہے، مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ایک مسافر دوران سفر کچھ وقت کے لیے کسی جگہ قیام کرتا ہے، تم دنیا کو اپنے لیے ایسا ہی سمجھو، بلکہ اپنا شمار قبر والوں میں کرو، گویا تم دنیا سے جا چکے، اسی لیے آگے فرمایا: صبح پا لینے کے بعد شام کا انتظار مت کرو اور شام پا لینے کے بعد صبح کا انتظار مت کرو بلکہ اپنی صحت و تندرستی کے وقت مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے کچھ تیاری کر لو، کیونکہ تمہیں کچھ خبر نہیں کہ کل تمہارا شمار مردوں میں ہو گا یا زندوں میں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1157)
26. باب مَا جَاءَ أَنَّ فِتْنَةَ هَذِهِ الأُمَّةِ فِي الْمَالِ
26. باب: امت محمدیہ کا فتنہ مال ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2333M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي البصري، حدثنا حماد بن زيد، عن ليث، عن مجاهد، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1157)
حدیث نمبر: 2334
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن حماد بن سلمة، عن عبيد الله بن ابي بكر بن انس، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هذا ابن آدم وهذا اجله " ووضع يده عند قفاه ثم بسطها، فقال: " وثم امله وثم امله وثم امله "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن ابي سعيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَذَا ابْنُ آدَمَ وَهَذَا أَجَلُهُ " وَوَضَعَ يَدَهُ عِنْدَ قَفَاهُ ثُمَّ بَسَطَهَا، فَقَالَ: " وَثَمَّ أَمَلُهُ وَثَمَّ أَمَلُهُ وَثَمَّ أَمَلُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ابن آدم ہے اور یہ اس کی موت ہے، اور آپ نے اپنا ہاتھ اپنی گدی پر رکھا پھر اسے دراز کیا اور فرمایا: یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 27 (4232) (تحفة الأشراف: 1079) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مفہوم یہ ہے کہ ابن آدم کی زندگی کی مدت بہت مختصر ہے، موت اس سے قریب ہے، لیکن اس کی خواہشیں اور آرزوئیں لامحدود ہیں، اس لیے آدمی کو چاہیئے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی مختصر زندگی کو پیش نظر رکھے، اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی فکر کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4232)
حدیث نمبر: 2335
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي السفر، عن عبد الله بن عمرو، قال: مر علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نعالج خصا لنا، فقال: " ما هذا؟ " فقلنا: قد وهى فنحن نصلحه، قال: " ما ارى الامر إلا اعجل من ذلك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو السفر اسمه سعيد بن يحمد، ويقال: ابن احمد الثوري.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُعَالِجُ خُصًّا لَنَا، فَقَالَ: " مَا هَذَا؟ " فَقُلْنَا: قَدْ وَهَى فَنَحْنُ نُصْلِحُهُ، قَالَ: " مَا أَرَى الْأَمْرَ إِلَّا أَعْجَلَ مِنْ ذَلِكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ يُحْمِدَ، وَيُقَالُ: ابْنُ أَحْمَدَ الثَّوْرِيُّ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے، ہم اپنا چھپر کا مکان درست کر رہے تھے، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ گھر بوسیدہ ہو چکا ہے، لہٰذا ہم اس کو ٹھیک کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا: میں تو معاملے (موت) کو اس سے بھی زیادہ قریب دیکھ رہا ہوں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 169 (5235)، سنن ابن ماجہ/الزہد 13 (4160) (تحفة الأشراف: 8650) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: آپ کے ارشاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مکان کی لیپا پوتی اور اس کی اصلاح و مرمت نہ کی جائے بلکہ مراد اس سے موت کی یاد دہانی ہے، تاکہ موت ہر وقت انسان کے سامنے رہے اور کسی وقت بھی اس سے غفلت نہ برتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (5275 / التحقيق الثانى)
حدیث نمبر: 2336
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا الحسن بن سوار، حدثنا ليث بن سعد، عن معاوية بن صالح، ان عبد الرحمن بن جبير بن نفير حدثه، عن ابيه، عن كعب بن عياض، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إن لكل امة فتنة، وفتنة امتي المال "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، إنما نعرفه من حديث معاوية بن صالح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عِيَاضٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً، وَفِتْنَةُ أُمَّتِي الْمَالُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ.
کعب بن عیاض رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیز میں ہے اور میری امت کی آزمائش مال میں ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس حدیث کو ہم معاویہ بن صالح کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 11129)، و مسند احمد (4/160) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: فتنہ سے مراد آزمائش ہے، اس حدیث میں اس امت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ مال کی محبت میں اعتدال سے کام لے، ورنہ وہ اس آزمائش میں ناکام ہو سکتی ہے اور یہ مال جو اللہ کی نعمت ہے اس کے لیے شدید عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (594)
27. باب مَا جَاءَ لَوْ كَانَ لاِبْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لاَبْتَغَى ثَالِثًا
27. باب: آدمی کے پاس دو وادی بھر مال ہو تو وہ تیسری وادی کا خواہشمند ہو گا۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2337
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا ابي، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو كان لابن آدم واديا من ذهب لاحب ان يكون له ثانيا، ولا يملا فاه إلا التراب، ويتوب الله على من تاب "، وفي الباب عن ابي بن كعب، وابي سعيد، وعائشة، وابن الزبير، وابي واقد، وجابر، وابن عباس، وابي هريرة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ ذَهَبٍ لَأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ لَهُ ثَانِيًا، وَلَا يَمْلَأُ فَاهُ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ، وَأَبِي وَاقِدٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر آدمی کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو اسے ایک تیسری وادی کی خواہش ہو گی اور اس کا پیٹ کسی چیز سے نہیں بھرے گا سوائے مٹی سے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس سے توبہ کرے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابی بن کعب، ابو سعید خدری، عائشہ، ابن زبیر، ابوواقد، جابر، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 10 (6439)، صحیح مسلم/الزکاة 39 (1048) (تحفة الأشراف: 1508)، و مسند احمد (3/122، 176، 192، 198، 238، 272)، وسنن الدارمی/الرقاق 62 (2820) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ ابن آدم کے اندر دنیاوی حرص اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کہ اس کے پاس مال کی بہتات ہو پھر بھی اسے آسودگی نہیں ہوتی یہاں تک کہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے پھر قبر کی مٹی سے ہی وہ آسودہ ہوتا ہے، لیکن اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں دنیا سے بے رغبتی ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ انہیں دنیاوی حرص سے محفوظ رکھتا ہے، اور قناعت کی دولت سے وہ سب مالا مال ہوتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج مشكلة الفقر (14)
28. باب مَا جَاءَ فِي قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَى حُبِّ اثْنَتَيْنِ
28. باب: دو چیزوں کی محبت میں بوڑھے کا دل جوان ہوتا ہے: عمر اور مال۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2338
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن القعقاع بن حكيم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " قلب الشيخ شاب على حب اثنتين: طول الحياة وكثرة المال "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَى حُبِّ اثْنَتَيْنِ: طُولُ الْحَيَاةِ وَكَثْرَةُ الْمَالِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو چیزوں کی محبت میں بوڑھے کا دل جوان رہتا ہے: لمبی زندگی کی محبت، دوسرے مال کی محبت ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 27 (4233) (تحفة الأشراف: 12869)، و مسند احمد (2/317، 335، 338، 339، 358، 379، 394، 443، 447) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ بوڑھے کا دل لمبی عمر کی خواہش اور کثرت مال کی محبت سے سرشار ہوتا ہے، یعنی بوڑھا ہونے کے باوجود اس کے اندر مال کی ہوس اور عمر کی زیادتی کی تمنا یہ دونوں خواہشیں جوان ہوتی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (4233)
حدیث نمبر: 2339
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " يهرم ابن آدم ويشب منه اثنتان: الحرص على العمر، والحرص على المال "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ: الْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے البتہ اس کے اندر دو چیزیں جوان رہتی ہیں ایک (لمبی) زندگی کی خواہش، دوسرے مال کی حرص۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 39 (1047)، سنن ابن ماجہ/الزہد 27 (4234) (تحفة الأشراف: 1434)، و مسند احمد (3/115، 119، 169، 192، 256، 275) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4234)
29. باب مَا جَاءَ فِي الزَّهَادَةِ فِي الدُّنْيَا
29. باب: دنیا سے بے رغبتی کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2340
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا محمد بن المبارك، حدثنا عمرو بن واقد، حدثنا يونس بن حلبس، عن ابي إدريس الخولاني، عن ابي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الزهادة في الدنيا ليست بتحريم الحلال ولا إضاعة المال، ولكن الزهادة في الدنيا ان لا تكون بما في يديك اوثق مما في يدي الله، وان تكون في ثواب المصيبة إذا انت اصبت بها ارغب فيها لو انها ابقيت لك " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وابو إدريس الخولاني اسمه عائذ الله بن عبد الله، وعمرو بن واقد منكر الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ حَلْبَسٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا لَيْسَتْ بِتَحْرِيمِ الْحَلَالِ وَلَا إِضَاعَةِ الْمَالِ، وَلَكِنَّ الزَّهَادَةَ فِي الدُّنْيَا أَنْ لَا تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِمَّا فِي يَدَيِ اللَّهِ، وَأَنْ تَكُونَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ إِذَا أَنْتَ أُصِبْتَ بِهَا أَرْغَبَ فِيهَا لَوْ أَنَّهَا أُبْقِيَتْ لَكَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ اسْمُهُ عَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
ابوذر غفاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے اور مال کو برباد کر دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مال تمہارے ہاتھ میں ہے، اس پر تم کو اس مال سے زیادہ بھروسہ نہ ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمہیں مصیبت کے ثواب کی اس قدر رغبت ہو کہ جب تم مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو خواہش کرو کہ یہ مصیبت باقی رہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- راوی حدیث عمرو بن واقد منکرالحدیث ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 1 (4100) (تحفة الأشراف: 11925) (ضعیف جداً) (سند میں عمرو بن واقد متروک الحدیث راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، ابن ماجة (4100) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (894)، المشكاة (5301 / التحقيق الثاني)، ضعيف الجامع الصغير (3194) //
30. باب مِنْهُ
30. باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2341
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا حريث بن السائب، قال: سمعت الحسن , يقول: حدثني حمران بن ابان، عن عثمان بن عفان، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ليس لابن آدم حق في سوى هذه الخصال بيت يسكنه، وثوب يواري عورته، وجلف الخبز والماء " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وهو حديث الحريث بن السائب، وسمعت ابا داود سليمان بن سلم البلخي يقول: قال النضر بن شميل: جلف الخبز يعني: ليس معه إدام.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا حُرَيْثُ بْنُ السَّائِبِ، قَال: سَمِعْتُ الْحَسَنَ , يَقُولُ: حَدَّثَنِي حُمْرَانُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ حَدِيثُ الْحُرَيْثِ بْنِ السَّائِبِ، وَسَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنَ سَلْمٍ الْبَلْخِيَّ يَقُولُ: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: جِلْفُ الْخُبْزِ يَعْنِي: لَيْسَ مَعَهُ إِدَامٌ.
عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا کی چیزوں میں سے ابن آدم کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کے لیے ایک گھر ہو جس میں وہ زندگی بسر کر سکے اور اتنا کپڑا ہو جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے، اور روٹی اور پانی کے لیے برتن ہوں جن سے وہ کھانے پینے کا جتن کر سکے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث حریث بن سائب کی روایت سے ہے،
۳- میں نے ابوداؤد سلیمان بن سلم بلخی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نضر بن شمیل نے کہا: «جلف الخبز» کا مطلب ہے وہ روٹی ہے جس کے ساتھ سالن نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9790)، وانظر مسند احمد (1/62) (ضعیف) (سند میں حریث وہم کے شکار ہو جایا کرتے تھے، اسی لیے اسرائیلی روایات کو انہوں نے مرفوع سمجھ کر روایت کر دیا ہے، دیکھیے: الضعیفة رقم 1063)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1063)، نقد الكتاني ص (22) // ضعيف الجامع الصغير (4914) //

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.