الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
The Book of Muharibin, Qasas (Retaliation), and Diyat (Blood Money)
حدیث نمبر: 4382
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي . ح وحدثني يحيى بن حبيب ، حدثنا خالد يعني ابن الحارث . ح وحدثني بشر بن خالد ، حدثنا محمد بن جعفر . ح وحدثنا ابن المثنى ، وابن بشار ، قالا: حدثنا ابن ابي عدي كلهم، عن شعبة ، عن الاعمش ، عن ابي وائل ، عن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله، غير ان بعضهم، قال: عن شعبة يقضى وبعضهم، قال: يحكم بين الناس.حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ . ح وحَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ كُلُّهُمْ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّ بَعْضَهُمْ، قَالَ: عَنْ شُعْبَةَ يُقْضَى وَبَعْضُهُمْ، قَالَ: يُحْكَمُ بَيْنَ النَّاسِ.
معاذ بن معاذ، خالد بن حارث، محمد بن جعفر اور ابن ابی عدی سب نے شعبہ سے روایت کی، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے ابووائل سے، انہوں نے حضرت عبداللہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی، البتہ ان میں سے بعض نے شعبہ سے روایت کرتے ہوئے یقضی کا لفظ کہا اور بعض نے یحکم بین الناس کہا (معنی وہی ہے
امام صاحب اپنے پانچ اساتذہ کی چار سندوں سے، شعبہ کے واسطے سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ شعبہ کے بعض تلامذہ نے يُقضٰى
9. باب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالأَعْرَاضِ وَالأَمْوَالِ:
9. باب: خون اور عزت اور مال کا حق کیسا سخت ہے۔
Chapter: Emphasis on the sanctity of Blood, Honor and Wealth
حدیث نمبر: 4383
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ويحيى بن حبيب الحارثي وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا عبد الوهاب الثقفي ، عن ايوب ، عن ابن سيرين ، عن ابن ابي بكرة ، عن ابي بكرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السماوات والارض السنة اثنا عشر شهرا، منها اربعة حرم، ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب شهر مضر الذي بين جمادى وشعبان، ثم قال: اي شهر هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس ذا الحجة؟، قلنا: بلى، قال: فاي بلد هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: فسكت، حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس البلدة؟، قلنا: بلى، قال: فاي يوم هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: فسكت، حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس يوم النحر؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فإن دماءكم واموالكم، قال محمد: واحسبه قال واعراضكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا، وستلقون ربكم، فيسالكم عن اعمالكم، فلا ترجعن بعدي كفارا او ضلالا يضرب بعضكم رقاب بعض، الا ليبلغ الشاهد الغائب، فلعل بعض من يبلغه يكون اوعى له من بعض من سمعه، ثم قال: الا هل بلغت؟ "، قال ابن حبيب في روايته: ورجب مضر، وفي رواية ابي بكر فلا ترجعوا بعدي ,حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَيَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبٌ شَهْرُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ ذَا الْحِجَّةِ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ، فَلَا تَرْجِعُنَّ بَعْدِي كُفَّارًا أَوْ ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَلَعَلَّ بَعْضَ مَنْ يُبَلِّغُهُ يَكُونُ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ "، قَالَ ابْنُ حَبِيبٍ فِي رِوَايَتِهِ: وَرَجَبُ مُضَرَ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي ,
ابوبکر بن ابی شیبہ اور یحییٰ بن حبیب حارثی۔۔ دونوں کے الفاظ قریب قریب ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابن سیرین سے، انہوں نے ابن ابی بکرہ سے، انہوں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ زمانہ گھوم کر اپنی اسی حالت پر آ گیا ہے (جو اس دن تھی) جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، تین لگاتار ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور (ان کے علاوہ) رجب جو مضر کا مہینہ ہے، (جس کی حرمت کا قبیلہ مضر قائل ہے) جو جمادیٰ اور شعبان کے درمیان ہے۔" اس کے بعد آپ نے پوچھا: " (آج) یہ کون سا مہینہ ہے؟" ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ کہا: آپ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اسے اس کے (معروف) نام کے بجائے کوئی اور نام دیں گے۔ (پھر) آپ نے فرمایا: "کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟" ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں! (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ کون سا شہر ہے؟" ہم نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں۔ کہا: آپ خاموش رہے حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کے (معروف) نام سے ہٹ کر اسے کوئی اور نام دیں گے، (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا یہ البلدہ (حرمت والا شہر) نہیں؟" ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں! (پھر) آپ نے پوچھا: "یہ کون سا دن ہے؟" ہم نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں ہے؟" ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ تمہارے خون، تمہارے مال۔۔ محمد (بن سیرین) نے کہا: میرا خیال ہے، انہوں نے کہا:۔۔ اور تمہاری عزت تمہارے لیے اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح اس مہینے میں، اس شہر میں تمہارا یہ دن حرمت والا ہے، اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا، تم میرے بعد ہرگز دوبارہ گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، سنو! جو شخص یہاں موجود ہے وہ اس شخص تک یہ پیغام پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں، ممکن ہے جس کو یہ پیغام پہنچایا جائے وہ اسے اس آدمی سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو جس نے اسے (خود مجھ سے) سنا ہے۔" پھر فرمایا: "سنو! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) ٹھیک طور پر پہنچا دیا ہے؟" ابن حبیب نے اپنی روایت میں "مضر کا رجب" کہا: اور ابوبکر کی روایت میں ("تم میرے بعد ہرگز دوبارہ" کے بجائے) "میرے بعد دوبارہ" (تاکید کے بغیر) ہے
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمانہ گھوم کر اپنی اس حالت کی طرف آ گیا ہے، جس پر اس وقت تھا، جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا، سال کے بارہ (12) ماہ ہیں، جن میں سے چار محترم (عزت و احترام والے) ہیں، تین متواتر ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجۃ، محرم اور رجب مضریوں کا مہینہ جو جمادی ثانی اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون سا ماہ ہے؟ ہم نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کا کوئی اور نام رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا، کیوں نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار کیا حتی کہ ہم نے خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ البلدہ (مکہ مکرمہ) نہیں ہے؟ ہم نے کہا، کیوں نہیں! وہی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تو یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے کہا، اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کا نام کوئی اور رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ، تمہارے خون، تمہارے اموال، (محمد بن سیرین کہتے ہیں)، میرا خیال ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: تمہاری عزتیں، تمہارے لیے محترم ہیں، جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارے اس شہر میں، تمہارے اس ماہ میں محترم ہے اور تم یقینا اپنے رب سے ملو گے، وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا تو میرے بعد تم کافر یا گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگے، خبردار! موجود، غیر موجود تک پیغام پہنچا دے، ہو سکتا ہے، جن کو بات پہنچائی جائے، ان میں سے بعض سننے والوں میں سے اس کو زیادہ یاد رکھے پھر آپ نے فرمایا: خبردار! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ ابن حبیب نے اپنی روایت میں رجب مضر کہا ہے اور ابوبکر کی روایت میں ہے، فلا ترجعوا،
حدیث نمبر: 4384
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا عبد الله بن عون ، عن محمد بن سيرين ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابيه ، قال: لما كان ذلك اليوم قعد على بعيره واخذ إنسان بخطامه، فقال " اتدرون اي يوم هذا؟، قالوا: الله ورسوله اعلم، حتى ظننا انه سيسميه سوى اسمه، فقال: اليس بيوم النحر؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فاي شهر هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: اليس بذي الحجة؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فاي بلد هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: حتى ظننا انه سيسميه سوى اسمه، قال: اليس بالبلدة؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فإن دماءكم، واموالكم، واعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، فليبلغ الشاهد الغائب "، قال: ثم انكفا إلى كبشين املحين فذبحهما، وإلى جزيعة من الغنم، فقسمها بيننا،حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ قَعَدَ عَلَى بَعِيرِهِ وَأَخَذَ إِنْسَانٌ بِخِطَامِهِ، فَقَالَ " أَتَدْرُونَ أَيَّ يَوْمٍ هَذَا؟، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، فَقَالَ: أَلَيْسَ بِيَوْمِ النَّحْرِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَلَيْسَ بِذِي الْحِجَّةِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ بِالْبَلْدَةِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ "، قَالَ: ثُمَّ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَذَبَحَهُمَا، وَإِلَى جُزَيْعَةٍ مِنَ الْغَنَمِ، فَقَسَمَهَا بَيْنَنَا،
یزید بن زریع نے کہا: ہمیں عبداللہ بن عون نے محمد بن سیرین سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب وہ دن تھا، (جس کا آگے ذکر ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے اور ایک انسان نے اس کی لگام پکڑ لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے؟" لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کے نام کے سوا اسے کوئی اور نام دیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟" ہم نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں، فرمایا: "کیا یہ ذوالحجہ نہیں؟" ہم نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ کون سا شہر ہے؟" ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ کہا: ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کے (معروف) نام کے سوا اسے کوئی اور نام دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا یہ البلدہ (حرمت والا شہر) نہیں؟" ہم نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ تمہارے خوب، تمہارے مال اور تمہاری ناموس (عزتیں) تمہارے لیے اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح اس شہر میں، اس مہینے میں تمہارا یہ دن حرمت والا ہے، یہاں موجود شخص غیر موجود کو یہ پیغام پہنچا دے۔" کہا: پھر آپ دو چتکبرے (سفید و سیاہ) مینڈھوں کی طرف مڑے، انہیں ذبح کیا اور بکریوں کے گلے کی طرف (آئے) اور انہیں ہمارے درمیان تقسیم فرمایا۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب وہ دن (قربانی کا دن) آیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھ گئے اور ایک انسان نے اس کی نکیل پکڑ لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے جواب دیا، اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں حتی کہ ہم نے یہ خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا نام، اس کے نام کے علاوہ رکھیں گے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے کہا، ضرور، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تو یہ مہینہ کون سا ہے؟ ہم نے کہا، اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تو یہ کون سا شہر ہے؟ حتی کہ ہم نے خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا البلدہ (مکہ) نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تمہارے خون، مال اور عزتیں تم پر حرام ہیں، جس طرح یہ دن، تمہارے اس ماہ میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے تو موجود، غیر موجود تک پہنچا دے۔ راوی کہتے ہیں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم دو سرمئی مینڈھوں کی طرف پلٹے اور انہیں ذبح کیا اور بکریوں کے ایک گلے (گروہ) کی طرف پلٹے اور انہیں ہمارے درمیان تقسیم فرمایا۔
حدیث نمبر: 4385
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا حماد بن مسعدة ، عن ابن عون ، قال: قال محمد ، قال عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابيه ، قال: لما كان ذلك اليوم جلس النبي صلى الله عليه وسلم على بعير، قال: ورجل آخذ بزمامه او قال بخطامه فذكر نحو. حديث يزيد بن زريع،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدٌ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ جَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَعِيرٍ، قَالَ: وَرَجُلٌ آخِذٌ بِزِمَامِهِ أَوَ قَالَ بِخِطَامِهِ فَذَكَرَ نَحْوَ. حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ،
حماد بن مسعدہ نے ہمیں ابن عون سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: محمد (بن سیرین) نے کہا: عبدالرحمان بن ابی بکرہ نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا: جب وہ دن تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے۔ کہا: اور ایک آدمی نے اس کی باگ۔۔ یا کہا: لگام۔۔ تھام لی۔۔۔ آگے یزید بن زریع کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
امام صاحب ایک دوسرے استاد سے، ابن عون ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ جب وہ دن آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ پر بیٹھے، اور ایک آدمی نے مہار یا نکیل پکڑی ہوئی تھی، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
حدیث نمبر: 4386
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني محمد بن حاتم بن ميمون ، حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا قرة بن خالد ، حدثنا محمد بن سيرين ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، وعن رجل آخر هو في نفسي افضل من عبد الرحمن بن ابي بكرة، وحدثنا محمد بن عمرو بن جبلة ، واحمد بن خراش ، قالا: حدثنا ابو عامر عبد الملك بن عمرو ، حدثنا قرة بإسناد يحيى بن سعيد، وسمى الرجل حميد بن عبد الرحمن ، عن ابي بكرة ، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم النحر، فقال: " اي يوم هذا؟ "، وساقوا الحديث بمثل حديث ابن عون، غير انه لا يذكر واعراضكم، ولا يذكر ثم انكفا إلى كبشين وما بعده، وقال في الحديث " كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، إلى يوم تلقون ربكم الا هل بلغت؟ " قالوا: نعم، قال: " اللهم اشهد ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، وَعَنْ رَجُلٍ آخَرَ هُوَ فِي نَفْسِي أَفْضَلُ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ ، وَأَحْمَدُ بْنُ خِرَاشٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بِإِسْنَادِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَسَمَّى الرَّجُلَ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ، فَقَالَ: " أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ "، وَسَاقُوا الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ عَوْنٍ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَذْكُرُ وَأَعْرَاضَكُمْ، وَلَا يَذْكُرُ ثُمَّ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ وَمَا بَعْدَهُ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ " كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، إِلَى يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ " قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: " اللَّهُمَّ اشْهَدْ ".
یحییٰ بن سعید نے کہا: ہمیں قرہ بن خالد نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں محمد بن سیرین نے عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے اور ایک اور آدمی سے، جو میرے خیال میں عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے افضل ہے، حدیث بیان کی، نیز ابو عامر عبدالملک بن عمرو نے کہا: ہمیں قرہ نے یحییٰ بن سعید کی (مذکورہ) سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔۔ اور انہوں (ابو عامر) نے اس آدمی کا نام حمید بن عبدالرحمان بتایا (یہ بصرہ کے فقیہ ترین راوی ہیں)۔۔ انہوں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قربانی کے دن خطبہ دیا اور پوچھا: "یہ کون سا دن ہے؟"۔۔ اور انہوں (قرہ) نے ابن عون کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی، البتہ انہوں نے "عزت و ناموس" کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی: "پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی طرف مڑے" اور اس کے بعد والا حصہ بیان کیا۔ انہوں نے (اپنی) حدیث میں کہا: "جیسے تمہارے اس شہر میں، تمہارے اس مہینے میں تمہارا یہ دن اس وقت تک قابل احترام ہے جب تم اپنے رب سے ملو گے۔ سنو! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا؟" لوگوں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! گواہ رہنا"
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ کی سند سے قرۃ بن خالد کے واسطے سے محمد بن سیرین سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرۃ اور بقول ابن سیرین عبدالرحمٰن بن ابی بکرۃ سے ایک دوسرا بہتر آدمی حمید بن عبدالرحمٰن، دونوں حضرت ابوبکرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قربانی کے دن خطبہ ارشاد فرمایا اور پوچھا،: یہ کون سا دن ہے؟ آگے ابن عون کی روایت کی طرح حدیث بیان کی، لیکن اعراضكم
10. باب صِحَّةِ الإِقْرَارِ بِالْقَتْلِ وَتَمْكِينِ وَلِيِّ الْقَتِيلِ مِنَ الْقِصَاصِ وَاسْتِحْبَابِ طَلَبِ الْعَفْوِ مِنْهُ:
10. باب: قتل کا اقرار صحیح ہے اور قاتل کو مقتول کے ولی کے حوالہ کر دیں گے اور اس سے معافی کی درخواست کرنا مستحب ہے۔
Chapter: A confession to murder is valid and the heir of the victim is entitled to Qisas, but it is recommended to ask him to let him go
حدیث نمبر: 4387
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا ابو يونس ، عن سماك بن حرب ، ان علقمة بن وائل حدثه: ان اباه حدثه، قال: " إني لقاعد مع النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاء رجل يقود آخر بنسعة، فقال: يا رسول الله، هذا قتل اخي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتلته، فقال: إنه لو لم يعترف اقمت عليه البينة؟، قال: نعم قتلته، قال: كيف قتلته؟، قال: كنت انا وهو نختبط من شجرة، فسبني، فاغضبني، فضربته بالفاس على قرنه فقتلته، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: هل لك من شيء تؤديه عن نفسك؟، قال: ما لي مال إلا كسائي وفاسي، قال: فترى قومك يشترونك؟، قال: انا اهون على قومي من ذاك، فرمى إليه بنسعته، وقال: دونك صاحبك، فانطلق به الرجل، فلما ولى قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن قتله فهو مثله، فرجع فقال: يا رسول الله، إنه بلغني انك قلت إن قتله فهو مثله، واخذته بامرك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما تريد ان يبوء بإثمك وإثم صاحبك؟، قال: يا نبي الله، لعله، قال: بلى، قال: فإن ذاك كذاك "، قال: فرمى بنسعته وخلى سبيله.حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ حَدَّثَهُ: أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: " إِنِّي لَقَاعِدٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ يَقُودُ آخَرَ بِنِسْعَةٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا قَتَلَ أَخِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَتَلْتَهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَوْ لَمْ يَعْتَرِفْ أَقَمْتُ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةَ؟، قَالَ: نَعَمْ قَتَلْتَهُ، قَالَ: كَيْفَ قَتَلْتَهُ؟، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَهُوَ نَخْتَبِطُ مِنْ شَجَرَةٍ، فَسَبَّنِي، فَأَغْضَبَنِي، فَضَرَبْتُهُ بِالْفَأْسِ عَلَى قَرْنِهِ فَقَتَلْتُهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لَكَ مِنْ شَيْءٍ تُؤَدِّيهِ عَنْ نَفْسِكَ؟، قَالَ: مَا لِي مَالٌ إِلَّا كِسَائِي وَفَأْسِي، قَالَ: فَتَرَى قَوْمَكَ يَشْتَرُونَكَ؟، قَالَ: أَنَا أَهْوَنُ عَلَى قَوْمِي مِنْ ذَاكَ، فَرَمَى إِلَيْهِ بِنِسْعَتِهِ، وَقَالَ: دُونَكَ صَاحِبَكَ، فَانْطَلَقَ بِهِ الرَّجُلُ، فَلَمَّا وَلَّى قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ، فَرَجَعَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ قُلْتَ إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ، وَأَخَذْتُهُ بِأَمْرِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا تُرِيدُ أَنْ يَبُوءَ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ؟، قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَعَلَّهُ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّ ذَاكَ كَذَاكَ "، قَالَ: فَرَمَى بِنِسْعَتِهِ وَخَلَّى سَبِيلَهُ.
سماک بن حرب نے علقمہ بن وائل سے حدیث بیان کی کہ ان کے والد نے انہیں حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص دوسرے کو مینڈھی کی طرح بنی ہوئی چمڑے کی رسی سے کھینچتے ہوئے لایا اور کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرے بھائی کو قتل کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تم نے اسے قتل کیا ہے؟" تو اس (کھینچنے والے) نے کہا: اگر اس نے اعتراف نہ کیا تو میں اس کے خلاف شہادت پیش کروں گا۔ اس نے کہا: جی ہاں، میں نے اُسے قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "تم نے اسے کیسے قتل کیا؟" اس نے کہا: میں اور وہ ایک درخت سے پتے چھاڑ رہے تھے، اس نے مجھے گالی دی اور غصہ دلایا تو میں نے کلہاڑی سے اس کے سر کی ایک جانب مارا اور اسے قتل کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے جو تم اپنی طرف سے (بطور فدیہ) ادا کر سکو؟" اس نے کہا: میرے پاس تو اوڑھنے کی چادر اور کلہاڑی کے سوا اور کوئی مال نہیں ہے۔ آپ نے پوچھا: "تم سمجھتے ہو کہ تمہاری قوم (تمہاری طرف سے دیت ادا کر کے) تمہیں خرید لے گی؟" اس نے کہا: میں اپنی قوم کے نزدیک اس سے حقیر تر ہوں۔ آپ نے اس (ولی) کی طرف رسہ پھینکتے ہوئے فرمایا: "جسے ساتھ لائے تھے اسے پکڑ لو۔" وہ آدمی اسے لے کر چل پڑا۔ جب اس نے رخ پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس آدمی نے اسے قتل کر دیا تو وہ بھی اسی جیسا ہے۔" اس پر وہ شخص واپس ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو وہ بھی اسی جیسا ہے" حالانکہ میں نے اسے آپ کے حکم سے پکڑا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرامای: "کیا تم نہیں چاہتے کہ وہ تمہارے اور تمہارے ساتھی (بھائی) دونوں کے گناہ کو (اپنے اوپر) لے کر لوٹے؟" اس نے کہا: اللہ کے نبی!۔۔ غالبا اس نے کہا۔۔ کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو یقینا وہ (قاتل) یہی کرے گا۔" کہا: اس پر اس نے رسہ پھینکا اور اس کا راستہ چھوڑ دیا
علقمہ بن وائل اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو ایک تسمہ سے کھینچتے ہوئے لایا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول! اس نے میرا بھائی قتل کر ڈالا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو نے اسے قتل کیا ہے؟ تو پہلے آدمی نے کہا اگر یہ اعتراف نہیں کرے گا تو میں اس کے خلاف شہادت پیش کروں گا، قاتل نے کہا، جی ہاں، میں نے اسے قتل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے اسے کیسے قتل کیا ہے؟ اس نے کہا، میں اور وہ ایک درخت سے پتے جھاڑ رہے تھے تو اس نے مجھے گالی دے کر غضبناک کر دیا، (اشتعال میں آ کر) میں نے اس کے سر پر کلہاڑی مار دی اور اسے قتل کر ڈالا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تیرے پاس اپنی جان بچانے کے لیے کچھ دینے کے لیے موجود ہے؟ اس نے کہا، میرے پاس میری لوئی اور کلہاڑی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیری قوم تیرا فدیہ دینے کے لیے تیار ہو جائے گی؟ اس نے کہا، میری قوم میں میری اتنی عزت و مقام نہیں ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تسمہ مقتول کے وارث کی طرف پھینکا اور فرمایا: اپنے مجرم کو لے لو۔ تو وہ آدمی اسے لے کر چل پڑا جب وہ پشت پھیر کر چل دیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو یہ بھی اس جیسا ہو گا۔ وارث واپس لوٹ آیا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول! مجھے خبر ملی ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، اگر اس نے قتل کر دیا تو یہ بھی اس جیسا ہے۔ حالانکہ میں نے اسے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر پکڑا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ یہ تیرا اور تیرے ساتھی کا گناہ اٹھائے؟ اس نے کہا، اے اللہ کے نبی! ایسے ہو گا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، یہ ایسے ہی ہے۔ تو اس نے اس کا تسمہ پھینک دیا اور اسے آزاد کر دیا۔
حدیث نمبر: 4388
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا سعيد بن سليمان ، حدثنا هشيم ، اخبرنا إسماعيل بن سالم ، عن علقمة بن وائل ، عن ابيه ، قال: " اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم برجل قتل رجلا، فاقاد ولي المقتول منه، فانطلق به، وفي عنقه نسعة يجرها، فلما ادبر، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: القاتل والمقتول في النار "، فاتى رجل الرجل، فقال له: مقالة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخلى عنه، قال إسماعيل بن سالم: فذكرت ذلك لحبيب بن ابي ثابت، فقال: حدثني ابن اشوع ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما ساله ان يعفو عنه فابى.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَتَلَ رَجُلًا، فَأَقَادَ وَلِيَّ الْمَقْتُولِ مِنْهُ، فَانْطَلَقَ بِهِ، وَفِي عُنُقِهِ نِسْعَةٌ يَجُرُّهَا، فَلَمَّا أَدْبَرَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ "، فَأَتَى رَجُلٌ الرَّجُلَ، فَقَالَ لَهُ: مَقَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَلَّى عَنْهُ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِحَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَشْوَعَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا سَأَلَهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُ فَأَبَى.
اسماعیل بن سالم نے علقمہ بن وائل سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا جس نے کسی شخص کو قتل کیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی کو اس سے قصاص لینے کا حق دیا، وہ اسے لے کر چلا جبکہ اس کی گردن میں چمڑے کا ایک مینڈھی نما رسہ تھا جسے وہ کھینچ رہا تھا، جب اس نے پشت پھیری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قاتل اور مقتول (دونوں) آگ میں ہیں۔" (یہ سن کر) ایک آدمی اس (ولی) کے پاس آیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتائی تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔ اسماعیل بن سالم نے کہا: میں نے یہ حدیث حبیب بن ثابت سے بیان کی تو انہوں نے کہا: مجھے ابن اشوع نے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (ولی) سے مطالبہ کیا تھا کہ اسے معاف کر دے تو اس نے انکار کر دیا تھا
حضرت وائل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا، جس نے دوسرے آدمی کو قتل کر ڈالا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی کو اس سے قصاص لینے کا حکم دے دیا، وہ اسے لے کر چلا اور قاتل کی گردن میں ایک تسمہ تھا، جس سے وہ اسے کھینچ رہا تھا، جب وارث نے پشت پھیر لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں ہوں گے۔ تو ایک آدمی نے آ کر وارث آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتائی تو اس نے اس کو چھوڑ دیا، اسماعیل بن سالم بیان کرتے ہیں میں نے یہ حدیث حبیب بن ابی ثابت کو بتائی تو اس نے کہا، مجھے ابن اشوع نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولی مقتول سے معاف کرنے کی سفارش کی تھی اور اس نے انکار کر دیا تھا۔
11. باب دِيَةِ الْجَنِينِ وَوُجُوبِ الدِّيَةِ فِي قَتْلِ الْخَطَإِ وَشِبْهِ الْعَمْدِ عَلَى عَاقِلَةِ الْجَانِي:
11. باب: پیٹ کے بچے کی دیت اور قتل خطا اور شبہ عمد کی دیت کا بیان۔
Chapter: The Diyah for a fetus; and the Diyah for accidental killing and the ambiguous killing must be paid by the shahiqilah of the killer
حدیث نمبر: 4389
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة " ان امراتين من هذيل رمت إحداهما الاخرى فطرحت جنينها فقضى فيه النبي صلى الله عليه وسلم بغرة عبد او امة ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ " أَنَّ امْرَأَتَيْنِ مِنْ هُذَيْلٍ رَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى فَطَرَحَتْ جَنِينَهَا فَقَضَى فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ ".
امام مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے ابوسلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ (قبیلہ) ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو (پتھر) مارا اور اس کے پیٹ کے بچے کا اسقاط کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک غلام، مرد یا عورت (بطور تاوان) دینے کا فیصلہ فرمایا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ایک نے دوسری کو مارا، جس سے اس کے پیٹ کا بچہ مردہ پیدا ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے، اس میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ دیا۔
حدیث نمبر: 4390
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن ابن شهاب ، عن ابن المسيب ، عن ابي هريرة ، انه قال: " قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنين امراة من بني لحيان سقط ميتا بغرة عبد او امة، ثم إن المراة التي قضي عليها بالغرة توفيت، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم: بان ميراثها لبنيها وزوجها وان العقل على عصبتها ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: " قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنِينِ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي لَحْيَانَ سَقَطَ مَيِّتًا بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ، ثُمَّ إِنَّ الْمَرْأَةَ الَّتِي قُضِيَ عَلَيْهَا بِالْغُرَّةِ تُوُفِّيَتْ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِأَنَّ مِيرَاثَهَا لِبَنِيهَا وَزَوْجِهَا وَأَنَّ الْعَقْلَ عَلَى عَصَبَتِهَا ".
لیث نے ابن شہاب سے، انہوں نے ابن مسیب سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو لحیان (جو قبیلہ ہذیل کی شاخ ہے) کی ایک عورت کے پیٹ کے بچے کے بارے میں، جو مردہ ضائع ہوا تھا، ایک غلام یا لونڈی دیے جانے کا فیصلہ کیا، پھو رہ عورت (بھی) فوت ہو گئی جس کے خلاف آپ نے غلام (بطور دیت دینے) کا فیصلہ کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی وراثت (جو بھی ہے) اس کے بیٹوں اور شوہر کے لیے ہے اور (اس کی طرف سے) دیت (کی ادائیگی) اس کے باپ کی طرف سے مرد رشتہ داروں پر ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو لحیان کی ایک عورت کے جنین کا تاوان جو مردہ پیدا ہوا تھا، ایک غرة یعنی غلام یا لونڈی ٹھہرایا تھا، پھر وہ عورت جس کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غرة کا حکم دیا تھا، فوت ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کی وراثت اس کی اولاد اور اس کے خاوند کو ملے گی اور دیت اس کے عصبات ادا کریں گے۔
حدیث نمبر: 4391
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، حدثنا ابن وهب . ح وحدثنا حرملة بن يحيى التجيبي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن ابن المسيب ، وابي سلمة بن عبد الرحمن ، ان ابا هريرة ، قال: " اقتتلت امراتان من هذيل فرمت إحداهما الاخرى بحجر، فقتلتها وما في بطنها، فاختصموا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم: ان دية جنينها غرة عبد او وليدة، وقضى بدية المراة على عاقلتها وورثها ولدها ومن معهم، فقال حمل بن النابغة الهذلي: يا رسول الله كيف اغرم من لا شرب ولا اكل ولا نطق ولا استهل فمثل ذلك يطل؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما هذا من إخوان الكهان من اجل سجعه الذي سجع "،وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ . ح وحَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، وَأَبِي سَلَمَةَ بَنِ عَبَدِ الرَّحْمَنِ ، أن أبا هريرة ، قَالَ: " اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ مِنْ هُذَيْلٍ فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِحَجَرٍ، فَقَتَلَتْهَا وَمَا فِي بَطْنِهَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ دِيَةَ جَنِينِهَا غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ وَلِيدَةٌ، وَقَضَى بِدِيَةِ الْمَرْأَةِ عَلَى عَاقِلَتِهَا وَوَرَّثَهَا وَلَدَهَا وَمَنْ مَعَهُمْ، فَقَالَ حَمَلُ بْنُ النَّابِغَةِ الْهُذَلِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أَغْرَمُ مَنْ لَا شَرِبَ وَلَا أَكَلَ وَلَا نَطَقَ وَلَا اسْتَهَلَّ فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا هَذَا مِنْ إِخْوَانِ الْكُهَّانِ مِنْ أَجْلِ سَجْعِهِ الَّذِي سَجَعَ "،
یونس نے ابن شہاب سے، انہوں نے ابن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے روایت کی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہذیل کی دو عورتیں باہم لڑ پڑیں تو ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا اور اسے قتل کر دیا اور اس بچے کو بھی جو اس کے پیٹ میں تھا، چنانچہ وہ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ جنین کی دیت ایک غلام، مرد یا عورت ہے اور آپ نے فیصلہ کیا کہ عورت کی دیت اس (قاتلہ) کے عاقلہ کے ذمے ہے اور اس کا وارث اس کے بیٹے اور ان کے ساتھ موجود دوسرے حقداروں کو بنایا۔ اس پر حمل بن نابغہ ہذلی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس کا تاوان کیسے دوں جس نے نہ پیا، نہ کھایا، نہ بولا، نہ آواز نکالی، ایسا (خون) تو رائیگاں ہوتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تو کاہنوں کے بھائیوں میں سے ہے۔" اس کی سجع (قافیہ دار کلام) کی وجہ سے، جو اس نے جوڑی تھی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر مارا جس سے وہ مر گئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر گیا تو ان کے ورثاء مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا کہ اس کے پیٹ کا بچہ کا تاوان ایک غرة غلام یا لونڈی ہے اور عورت کی دیت اس قاتلہ کے خاندان پر پڑے گی اور اس قاتلہ کی وارث اس کی اولاد اور دوسرے موجود وارث ہیں (یعنی قاتلہ کا خاوند) تو حمل بن نابغہ ہذلی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کا تاوان میں کیسے ادا کروں، جس نے نہ کھایا، نہ پیا اور نہ بولا نہ چیخا؟ یعنی مردہ حالت میں پیدا ہوا، ایسے کا خون تو رائیگاں جاتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو کاہنوں کا ساتھی ہے۔ اس مسجع (قافیہ والی عبارت) بندی کی بنا پر جو اس نے کی۔

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.