Narrated Anas bin Malik: Abu Talha said to Um Sulaim, "I have heard the voice of Allah's Apostle which was feeble, and I think that he is hungry. Have you got something (to eat)?" She took out some loaves of barley bread, then took her face-covering sheet and wrapped the bread in part of it, and pushed it under my garment and turned the rest of it around my body and sent me to Allah's Apostle . I went with that, and found Allah's Apostle in the mosque with some people. I stood up near them, and Allah's Apostle asked me, "Have you been sent by Abu Talha?" I said, "Yes." He asked, "With some food (for us)?" I said, "Yes." Then Allah's Apostle said to all those who were with him, "Get up!" He set out (and all the people accompanied him) and I proceeded ahead of them till I came to Abu Talha. Abu Talha then said, "O Um Sulaim! Allah's Apostle has arrived along with the people, and we do not have food enough to feed them all." She said, "Allah and His Apostle know better." So Abu Talha went out till he met Allah's Apostle. Then Abu Talha and Allah's Apostle came and entered the house. Allah's Apostle said, "Um Sulaim ! Bring whatever you have." She brought that very bread. The Prophet ordered that it be crushed into small pieces, and Um Sulaim pressed a skin of butter on it. Then Allah's Apostle said whatever Allah wished him to say (to bless the food) and then added, "Admit ten (men)." So they were admitted, ate their fill and went out. The Prophet then said, "Admit ten (more)." They were admitted, ate their full, and went out. He then again said, "Admit ten more!" They were admitted, ate their fill, and went out. He admitted ten more, and so all those people ate their fill, and they were eighty men.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 65, Number 293
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 626
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا بیان`
«. . . 119- وبه: أنه سمع أنس بن مالك يقول: قال أبو طلحة لأم سليم: لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا أعرف فيه الجوع، هل عندك من شيء؟ فقالت: نعم. فأخرجت أقراصا من شعير، ثم أخذت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه، ثم دسته تحت يدي وردتني ببعضه، ثم أرسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا فى المسجد ومعه الناس فقمت عليهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”آرسلك أبو طلحة؟“ فقلت: نعم. فقال: ”لطعام؟“ فقلت: نعم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه: ”قوموا.“ قال: فانطلق وانطلقت بين أيديهم حتى جئت أبا طلحة فأخبرته. فقال أبو طلحة: يا أم سليم، قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا من الطعام ما نطعمهم. فقالت: الله ورسوله أعلم. قال: فانطلق أبو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو طلحة حتى دخلا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هلم يا أم سليم ما عندك.“ فأتت بذلك الخبز. قال: فأمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ففت، وعصرت عليه أم سليم عكة لها فآدمته، ثم قال فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله أن يقول. ثم قال: ”إئذن لعشرة“ فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم قال: ”إئذن لعشرة“ فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا. ثم قال: ”إئذن لعشرة“ فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا. ثم أذن لعشرة حتى أكل القوم كلهم وشبعوا، والقوم سبعون رجلا أو ثمانون رجلا. . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ انہوں (اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ) نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: ابوطلحہ نے(اپنی بیوی) ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کمزور سنی ہے اس میں بھوک کا اثر محسوس کرتا ہوں، کیا تمہارے پاس (کھانے کے لئے) کوئی چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! پھر انہوں نے جوَ کی کچھ روٹیاں نکالیں، پھر اپنا ایک دوپٹہ لے کر اس میں روٹیاں اوپر نیچے ڈھانپ دیں پھر انہیں میری بغل میں دبا دیا اور بعض حصے کو میری چادر بنا دیا پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا گیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد لوگ بیٹھے ہیں، میں ان کے قریب کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا کھانے کے لئے؟ میں نے کہا: جی ہاں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اٹھو (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا:! پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور میں آگے آگے چلا حتی ٰ کہ جا کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بتایا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس انہیں کھلانے کے لئے کھانا نہیں ہے اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں، پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ دونوں تشریف لائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُم سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آو تو وہ روٹیاں لائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان روٹیوں کے ٹکڑے کر کے چُوری بنائی گئی اور اُم سلیم نے اس پر ایک برتن سے گھی نچوڑا تو یہ چُوری نما سالن بن گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دعا پڑھی جو اللہ نے چاہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس آدمیوں کو لے آؤ۔“ دس آ دمی بلائے گئے حتیٰ کہ انہوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس آ دمیوں کو بلاؤ“ دس آدمی بلائے گئے تو انہوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس آ دمیوں کو بلاؤ“ دس آ دمی بلائے گئے تو انہوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمی بلائے حتیٰ کہ سارے آدمیوں نے جو ستر یا اسی تھے خوب پیٹ پھر کر سیر ہو کر کھانا کھایا۔ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 626]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5381، و مسلم 2040، من حديث مالك به]، [من رواية يحيٰ بن يحيٰ]، [من رواية يحيٰ و جاء فى الاصل: هَلُمَّ]
تفقه:
① یہ روایت بھی دلائل نبوت میں سے ہے اور عظیم الشان معجزہ تھا کہ تھوڑا سا کھانا ستر (70) اشخاص نے سیر ہو کر کھایا۔
② وصال کے روزوں کی تخصیص کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض اوقات بھوک بھی لگ جاتی تھی۔ وصال کی حالت میں اللہ تعالیٰ آپ کو کھلاتا پلاتا تھا جیسا کہ دوسری حدیثوں سے ثابت ہے۔
③ اہل ایمان کو ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے رہنا چاہئے تاکہ محبت میں اضافہ ہوتا رہے۔
④ وہ دوست جس پر کُلی اعتماد ہوتا ہو، اس کی دعوتِ طعام پر بعض اوقات ایسے افراد کو ساتھ لے جانا بھی جائز ہے جنھیں دعوت نہیں ملی لیکن یاد رہے کہ کسی بھائی کو ذہنی، اخلاقی یا مالی تکلیف دینا جائز نہیں ہے۔
⑤ صحابہ کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول سب سے زیادہ جانتے (علم رکھتے) ہیں لیکن واضح رہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم الغیب سمجھنے کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے کیونکہ عالم الغیب ہونا اللہ کی صفت خاصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم الغیب نہ ہونے کے بارے میں قرآن و حدیث میں بہت سے دلائل ہیں جن میں سے کچھ اسی کتاب میں موجود ہیں۔
⑥ اگر مکان میں مناسب جگہ نہ ہو تو گروہ در گروہ کھانا کھلانا جائز ہے۔
⑦ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام نے بہت مشکلات میں زندگی گزاری ہے۔ کئی کئی دن کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ملتا تھا مگر پھر بھی صابر وشاکر تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
⑧ کوشش کرکے مہمان اور مدعو شخص کو بہترین کھانا کھلانا چاہئے۔
⑨ مہمان اور دوست کا گھر سے باہر نکل کر استقبال کرنا جائز ہے۔
⑩ گھر والے کو اپنے گھر میں داخلے کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اور اسی طرح اس کے بلانے پر آنے والوں کو کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے علاوہ چند مزید فوائد بھی پیش خدمت ہیں۔
➊ کھانے پر کھانے سے پہلے برکت کی دعا کرنا جائز ہے۔
➋ جس دوست پر کُلی اعتماد ہو تو آدمی اس کے گھر میں ضروری حکم چلا سکتا ہے۔
➌ اگر کبھی کبھار کھانا ملے تو پیٹ بھر کر کھانا جائز ہے وگرنا اس کے تین حصے کرنے چاہئیں۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ فرمایا اس پر ہر وقت سرِ تسلیم خم کرنا چاہئے چاہے ہماری اپنی محدود سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
➎ کھانے کی تمام اقسام مثلاً چُوری وغیرہ سب مباح ہیں سوائے اس کھانے کے جس کی شریعت میں ممانعت ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 119
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5381
5381. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا ابو طلحہ ؓ نے سیدنا ام سلیم ؓ سے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی آواز میں نقاہت محسوس کرتا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقے سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جوکی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ لیا اور اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹ دی، پھراسے میرے کپڑے کے نیچے میرى بغل میں چھپا دیا اور اس کا کچھ حصہ (چادر کی طرح) مجھے اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ جب وہ لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓم بھی تھے۔ میں ان حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا تجھے ابو طلحہ نے بھیجا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کھانے کے لیے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے سب ساتھیوں سے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5381]
حدیث حاشیہ:
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سمجھ گئی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اتنے لوگوں کو ہمراہ تشریف لا رہے ہیں تو کھانے میں ضرور آپ کی دعا سے بر کت ہوگی۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر تشریف لائے تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے چپ سے کہا کہ یا رسول اللہ! گھر میں اتنے آدمیوں کے کھانے کا انتظام نہیں ہے۔
آپ نے فرمایا کہ چلو اندر گھر میں چلو اللہ برکت کرے گا۔
چنانچہ یہی ہوا، حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کویہاں اس لیے لائے کہ اس میں سب کا شکم سیر ہو کر کھانا مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5381
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5381
5381. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا ابو طلحہ ؓ نے سیدنا ام سلیم ؓ سے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی آواز میں نقاہت محسوس کرتا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقے سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جوکی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ لیا اور اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹ دی، پھراسے میرے کپڑے کے نیچے میرى بغل میں چھپا دیا اور اس کا کچھ حصہ (چادر کی طرح) مجھے اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ جب وہ لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓم بھی تھے۔ میں ان حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا تجھے ابو طلحہ نے بھیجا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کھانے کے لیے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے سب ساتھیوں سے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5381]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے پیٹ بھر کے کھانا کھانے کو ثابت کیا ہے اور یہ حدیث اپنے مقصود میں واضح ہے، اگرچہ ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو لوگ دنیا میں پیٹ بھر کے کھائیں گے وہ آخرت میں لمبی بھوک سے دوچار ہوں گے۔
“ (سنن ابن ماجة، الأطعمة، حدیث: 3550، 3551، و السلسلة الصحیحة للألباني، حدیث: 343)
اس سے مراد وہ پیٹ بھرنا ہے جو انسان کو سست کر دے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رکاوٹ کا باعث بنے اور جس سے معدے میں گرانی آ جائے۔
(فتح الباري: 654/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5381