الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
The Book of Witnesses
22. بَابُ الْيَمِينِ بَعْدَ الْعَصْرِ:
22. باب: عصر کی نماز کے بعد (جھوٹی) قسم کھانا اور زیادہ گناہ ہے۔
(22) Chapter. The taking of an oath after the Asr prayer.
حدیث نمبر: 2672
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا جرير بن عبد الحميد، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب اليم: رجل على فضل ماء بطريق يمنع منه ابن السبيل، ورجل بايع رجلا لا يبايعه إلا للدنيا فإن اعطاه ما يريد وفى له وإلا لم يف له، ورجل ساوم رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لقد اعطى بها كذا وكذا فاخذها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِطَرِيقٍ يَمْنَعُ مِنْهُ ابْنَ السَّبِيلِ، وَرَجُلٌ بَايَعَ رَجُلًا لَا يُبَايِعُهُ إِلَّا لِلدُّنْيَا فَإِنْ أَعْطَاهُ مَا يُرِيدُ وَفَى لَهُ وَإِلَّا لَمْ يَفِ لَهُ، وَرَجُلٌ سَاوَمَ رَجُلًا بِسِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ بِاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَى بِهَا كَذَا وَكَذَا فَأَخَذَهَا".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا اعمش سے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین طرح کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا نہ ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ انہیں سخت درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ شخص جو سفر میں ضرورت سے زیادہ پانی لے جا رہا ہے اور کسی مسافر کو (جسے پانی کی ضرورت ہو) نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو کسی (خلیفۃ المسلمین) سے بیعت کرے اور صرف دنیا کے لیے بیعت کرے کہ جس سے اس نے بیعت کی اگر وہ اس کا مقصد پورا کر دے تو یہ بھی وفاداری سے کام لے، ورنہ اس کے ساتھ بیعت و عہد کے خلاف کرے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی سے عصر کے بعد کسی سامان کا بھاؤ کرے اور اللہ کی قسم کھا لے کہ اسے اس کا اتنا اتنا روپیہ مل رہا تھا اور خریدار اس سامان کو (اس کی قسم کی وجہ سے) لے لے۔ حالانکہ وہ جھوٹا ہے۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "There are three persons whom Allah will neither talk to nor look at, nor purify from (the sins), and they will have a painful punishment. (They are): (1) A man possessed superfluous water on a way and he withheld it from the travelers. (2) a man who gives a pledge of allegiance to a Muslim ruler and gives it only for worldly gains. If the ruler gives him what he wants, he remains obedient to It, otherwise he does not abide by it, and (3) a man bargains with another man after the `Asr prayer and the latter takes a false oath in the Name of Allah) claiming that he has been offered so much for the thing and the former (believes him and) buys it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 838


   صحيح البخاري2672عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بطريق يمنع منه ابن السبيل رجل بايع رجلا لا يبايعه إلا للدنيا فإن أعطاه ما يريد وفى له وإلا لم يف له رجل ساوم رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لقد أعطى بها كذا وكذا فأخذها
   صحيح البخاري2358عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل كان له فضل ماء بالطريق فمنعه من ابن السبيل رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها رضي وإن لم يعطه منها سخط رجل أقام سلعته بعد العصر
   صحيح البخاري7212عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالطريق يمنع منه ابن السبيل رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنياه إن أعطاه ما يريد وفى له وإلا لم يف له رجل يبايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لقد أعطي بها كذا وكذا فصدقه فأ
   صحيح مسلم297عبد الرحمن بن صخرثلاث لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل رجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف له بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها و
   جامع الترمذي1595عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل بايع إماما فإن أعطاه وفى له وإن لم يعطه لم يف له
   سنن أبي داود3474عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة رجل منع ابن السبيل فضل ماء عنده رجل حلف على سلعة بعد العصر يعني كاذبا رجل بايع إماما فإن أعطاه وفى له وإن لم يعطه لم يف له
   سنن النسائى الصغرى4467عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالطريق يمنع ابن السبيل منه رجل بايع إماما لدنيا إن أعطاه ما يريد وفى له وإن لم يعطه لم يف له رجل ساوم رجلا على سلعة بعد العصر فحلف له بالله لقد أعطي بها
   سنن ابن ماجه2207عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه ابن السبيل رجل بايع رجلا سلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها
   سنن ابن ماجه2870عبد الرحمن بن صخرثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل رجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها وفى
   بلوغ المرام1216عبد الرحمن بن صخر ثلاث لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم : رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل ورجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك ورجل بايع إماما لا يبايعه إلا للدنيا فإن أعطاه منها وفى وإن لم يعطه منها لم يف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2358  
´اس شخص کا گناہ جس نے کسی مسافر کو پانی سے روک دیا`
«. . . سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ كَانَ لَهُ فَضْلُ مَاءٍ بِالطَّرِيقِ فَمَنَعَهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین طرح کے لوگ وہ ہوں گے جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر بھی نہیں اٹھائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور اس نے کسی مسافر کو اس کے استعمال سے روک دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2358]

لغوی توضیح:
«فَضْلُ مَاءٍ» زائد، بچا ہوا پانی۔
«سِلعْتَهُ» اپنا سامان، سودا، سامان تجارت۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 68   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2207  
´خرید و فروخت میں حلف اٹھانے اور قسمیں کھانے کی کراہت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے اس قدر ناراض ہو گا کہ نہ تو ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا: ایک وہ شخص جس کے پاس چٹیل میدان میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ اسے مسافر کو نہ دے، دوسرے وہ شخص جو اپنا مال نماز عصر کے بعد بیچے اور اللہ کی قسم کھائے کہ اسے اس نے اتنے اتنے میں خریدا ہے، اور خریدار اسے سچا جانے حالانکہ وہ اس کے برعکس تھا، تیسرے وہ شخص جس نے کسی امام سے بیعت کی، اور اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2207]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کلام نہ کرنے اور نظر نہ کرنے سے مراد رحمت سے کلام کرنا اور رحمت کی نظر کرنا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ ہر نیک و بد سے حساب تو ضرور لے گا، اس کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ بھی نہیں ہو سکتی۔
ارشاد نبویﷺ ہے:
تم میں سے ہر شخص سے اس کا رب (براہ راست)
ہم کلام ہوگا، اس کے اور رب کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔
۔
۔ (صحيح البخاري، التوحيد، باب كلام الرب تعاليٰ يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم، حديث: 7512، وصحيح مسلم، الزكاة، باب الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة۔
۔
۔
، حديث: 1016)


(2)
  پاک نہ کرنے سے مراد گناہ معاف نہ کرنا ہے۔

(3)
پیاسے کو پانی بلانا بڑی نیکی ہے، خاص طور پر جہاں پانی آسانی سے نہ ملتا ہو، وہاں دوسرے کو پانی پلا دینا بہت بڑے ثواب کا باعث ہے۔

(4)
  صحرا میں پانی کا چشمہ اللہ کا فضل ہے، کسی کا اس پر قبضہ کرکے بیٹھ رہنا اور ضرورت مندوں کو پانی لینے سے روکنا انتہائی کم ظرفی ہے۔

(5)
جھوٹی قسم کھانا گناہ ہے۔
عصر کے بعد جھوٹی قسم کھانا زیادہ بڑا گناہ ہے۔
اور پھر انتا بڑا گناہ چند پیسوں کے متوقع مفاد کے لیے کیا گیا ہے کیونکہ یہ بات یقینی نہیں کہ گاہک اس کی جھوٹی قسم سے متاثر ہو کر اس سے سودا خرید ہی لے گا۔
ایسی صورت میں جھوٹی قسم انتہائی بری حرکت ہے، اس لیے اس کی سزا بھی شدید ہے۔

(6)
مسلمان خلیفہ کی بیعت اسلامی سلطنت کے تحفظ اور ترقی کے لیے کی جاتی ہے اور اس میں تمام مسلمانوں کا دینی اور دنیوی فائدہ ہے۔
ایسے عظیم عمل میں دنیا کو سامنے رکھنا اور دنیا کا مال نہ ملنے پر بیعت توڑ کر بغاوت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کو آخرت کی کوئی پروا نہیں اور دنیا کےذاتی مفاد کے کے لیے وہ مسلمانوں کا اجتماعی مفاد خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
ایسی حرکت کی برائی محتاج وضاحت نہیں۔

(7)
کفر و شرک سے کم تر کبیرہ گناہ بھی ایسے شدید ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے جہنم کا طویل اور شدید عذاب برداشت کرنا پڑے، تاہم دائمی عذاب صرف کافر اور شرک اکبر کے مرتکب مشرک ہی کے لیے ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2207   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1216  
´دعویٰ اور دلائل کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کی جانب نظر (رحمت) کرے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا بلکہ ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا پہلا وہ آدمی جو ایک مسافر کو جنگل میں بچے ہوئے پانی سے روکتا ہے اور دوسرا وہ آدمی جو عصر کے بعد کسی چیز کا دوسرے سے سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم کھاتا ہے کہ اس نے اس چیز کو اتنے اتنے میں خریدا ہے حالانکہ حقیقت ایسے نہ تھی اور وہ خریدار اس کو سچ مان گیا اور تیسرا وہ شخص جس نے دنیاوی غرض کے لئے کسی بادشاہ کی بیعت کی اگر بادشاہ اس کو کچھ دیتا ہے تو وہ وفا کرتا ہے اور اگر وہ اس کو کچھ نہیں دیتا (یعنی دنیا کا مال) تو وہ وفا نہیں کرتا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1216»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب من بايع رجلاً لا يبايعه إلا للدنيا، حديث:7212، ومسلم، الإيمان، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار والمن بالعطية...، حديث:108.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے زائد از ضرورت پانی کو روک لینا اور ضرورت مندوں کو لینے نہ دینا‘ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھا کر مال فروخت کرنا اور دنیوی غرض کے لیے حاکم وقت کی تائید کرنا‘ رب کائنات کی سخت ناراضی کے موجب اعمال ہیں اور رحمت الٰہی سے محرومی کا باعث ہیں۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کی سزا جس طرح کسی افضل جگہ کی وجہ سے دوچند ہو جاتی ہے اسی طرح افضل وقت کے لحاظ سے بھی اس کی سزا میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1216   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1595  
´بیعت توڑنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے: ایک وہ آدمی جس نے کسی امام سے بیعت کی پھر اگر امام نے اسے (اس کی مرضی کے مطابق) دیا تو اس نے بیعت پوری کی اور اگر نہیں دیا تو بیعت پوری نہیں کی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1595]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
باقی دو آدمی جن کا اس حدیث میں ذکر نہیں ہے وہ یہ ہیں:
ایک وہ آدمی جس کے پاس لمبے چوڑے صحراء میں اس کی ضرورتوں سے زائد پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے،
دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے،
پھر خریدار نے اس کی بات کا یقین کر لیا حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1595   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3474  
´چارہ روکنے کے لیے پانی کو روکنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا: ایک تو وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ مسافر کو دینے سے انکار کر دے، دوسرا وہ شخص جو اپنا سامان بیچنے کے لیے عصر بعد جھوٹی قسم کھائے، تیسرا وہ شخص جو کسی امام (و سربراہ) سے (وفاداری کی) بیعت کرے پھر اگر امام اسے (دنیاوی مال و جاہ) سے نوازے تو اس کا وفادار رہے، اور اگر اسے کچھ نہ دے تو وہ بھی عہد کی پاسداری نہ کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3474]
فوائد ومسائل:

بقیہ پانی کو مسافروں سے روک لینا انتہائی شقاوت اور بے مروتی ہے۔


عصر سے مغرب تک کا وقت قربت الٰہی کا محبوب وقت ہے۔
اس وقت میں جھوٹی قسم کی جوکہ کبیرہ گنا ہے۔
برائی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔


امام المسلمین سے حق وعدل کے امور میں ہرحال میں وفا کرنا واجب ہے۔
خواہ اس کی طرف سے کچھ ملےنہ ملے۔
موجودہ دور میں سیاسی غیر سیاسی اور بعض مذہبی لوگوں میں بھی وابستگیاں بدلنے کا رواج عام ہوگیا ہے، اب سیاسی وابستگی کی بنیاد نہ اس بات پر ہے کہ مقصد اور نظریہ ایک ہے نہ اس بات پر کہ پختہ عہد معاہدے ہوچکے ہیں۔
جن کو چھوڑنا برائی ہے۔
اب صرف مفادات کو پیش نظر رکھ کر لوگ خود کومنڈی میں پیش کردیتے ہیں۔


صحیحین کی روایت ہے کہ جھوٹی قسم سے مال تو بک جاتا ہے۔
مگر برکت اٹھ جاتی ہے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2087 و صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 1606)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3474   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2672  
2672. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نہ تو ہم کلام ہوگا اور نہ انھیں نظر رحمت ہی سے دیکھے گا، نیز انھیں گناہ سے پاکیزہ قرار نہیں دے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں فالتو پانی ہو اوروہ مسافروں کو نہ دے، دوسرا وہ شخص جو کسی دوسرے سے صرف دنیا کی خاطر بیعت کرے، اگر اس کامطلب پورا ہوتو وفا کرتا ہے اگر مطلب پورا نہ ہوتو وفا نہیں کرتا، تیسرا وہ آدمی جو کسی کے ساتھ عصر کے بعد اپنے سامان وغیرہ کا سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اسے اس مال کے اتنے اتنے ملتے تھے وہ اس کی قسم پر اعتبار کرکے سامان خرید لیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2672]
حدیث حاشیہ:
تینوں گناہ جو یہاں مذکورہ ہوئے اخلاقی اعتبار سے بھی بہت ہی برے ہیں کہ ان کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ مذکورہ تیسرے شخص کی وجہ سے یہاں اس حدیث کو لائے۔
تجارت میں جھوٹ بول کر مال فروخت کرنا ہر وقت ہی گناہ ہے، مگر عصر کے بعد ایسی قسم کھانا اور بھی بدتر گناہ ہے کہ دن کے اس آخری حصہ میں بھی وہ جھوٹ بولنے سے باز نہ رہ سکا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2672   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2672  
2672. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نہ تو ہم کلام ہوگا اور نہ انھیں نظر رحمت ہی سے دیکھے گا، نیز انھیں گناہ سے پاکیزہ قرار نہیں دے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں فالتو پانی ہو اوروہ مسافروں کو نہ دے، دوسرا وہ شخص جو کسی دوسرے سے صرف دنیا کی خاطر بیعت کرے، اگر اس کامطلب پورا ہوتو وفا کرتا ہے اگر مطلب پورا نہ ہوتو وفا نہیں کرتا، تیسرا وہ آدمی جو کسی کے ساتھ عصر کے بعد اپنے سامان وغیرہ کا سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اسے اس مال کے اتنے اتنے ملتے تھے وہ اس کی قسم پر اعتبار کرکے سامان خرید لیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2672]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بیان کردہ تینوں گناہ اخلاقی اعتبار سے بہت ہی گھٹیا اور گھناؤنے ہیں۔
ان کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔
امام بخاری ؒ تیسرے شخص کی وجہ سے اس جگہ یہ حدیث لائے ہیں۔
(2)
خریدوفروخت میں جھوٹ بولنا اور جھوٹی قسم اٹھا کر سودا فروخت کرنا ہر وقت گناہ ہے مگر عصر کے بعد ایسی قسم اٹھانا بدتر گناہ ہے کیونکہ اس وقت رات دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نیز اس وقت لوگوں کے اعمال بھی آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، ایسے وقت میں جھوٹ بولنا یا جھوٹی قسم اٹھانا سخت گناہ ہے کہ دن کے اس آخری اور بابرکت حصے میں وہ جھوٹ بولنے سے باز نہ رہ سکا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2672   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.