الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
39. باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
(39) Chapter. Ghazwa of Khaibar.
حدیث نمبر: 4202
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا يعقوب، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم التقى هو والمشركون فاقتتلوا، فلما مال رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عسكره ومال الآخرون إلى عسكرهم، وفي اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل لا يدع لهم شاذة ولا فاذة إلا اتبعها يضربها بسيفه، فقيل: ما اجزا منا اليوم احد كما اجزا فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إنه من اهل النار"، فقال رجل من القوم: انا صاحبه، قال: فخرج معه، كلما وقف وقف معه، وإذا اسرع اسرع معه، قال: فجرح الرجل جرحا شديدا، فاستعجل الموت، فوضع سيفه بالارض وذبابه بين ثدييه، ثم تحامل على سيفه فقتل نفسه، فخرج الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: اشهد انك رسول الله، قال:" وما ذاك؟"، قال الرجل: الذي ذكرت آنفا انه من اهل النار فاعظم الناس ذلك، فقلت: انا لكم به، فخرجت في طلبه، ثم جرح جرحا شديدا فاستعجل الموت، فوضع نصل سيفه في الارض وذبابه بين ثدييه، ثم تحامل عليه فقتل نفسه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك:" إن الرجل ليعمل عمل اهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من اهل النار، وإن الرجل ليعمل عمل اهل النار فيما يبدو للناس وهو من اهل الجنة".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْتَقَى هُوَ وَالْمُشْرِكُونَ فَاقْتَتَلُوا، فَلَمَّا مَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَسْكَرِهِ وَمَالَ الْآخَرُونَ إِلَى عَسْكَرِهِمْ، وَفِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ لَا يَدَعُ لَهُمْ شَاذَّةً وَلَا فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا يَضْرِبُهَا بِسَيْفِهِ، فَقِيلَ: مَا أَجْزَأَ مِنَّا الْيَوْمَ أَحَدٌ كَمَا أَجْزَأَ فُلَانٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا صَاحِبُهُ، قَالَ: فَخَرَجَ مَعَهُ، كُلَّمَا وَقَفَ وَقَفَ مَعَهُ، وَإِذَا أَسْرَعَ أَسْرَعَ مَعَهُ، قَالَ: فَجُرِحَ الرَّجُلُ جُرْحًا شَدِيدًا، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ سَيْفَهُ بِالْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَى سَيْفِهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ:" وَمَا ذَاكَ؟"، قَالَ الرَّجُلُ: الَّذِي ذَكَرْتَ آنِفًا أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: أَنَا لَكُمْ بِهِ، فَخَرَجْتُ فِي طَلَبِهِ، ثُمَّ جُرِحَ جُرْحًا شَدِيدًا فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ فِي الْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:" إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے لشکر کے ساتھ) مشرکین (یعنی) یہود خیبر کا مقابلہ کیا۔ دونوں طرف سے لوگوں نے جنگ کی ‘ پھر جب آپ اپنے خیمے کی طرف واپس ہوئے اور یہودی بھی اپنے خیموں میں واپس چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے متعلق کسی نے ذکر کیا کہ یہودیوں کا کوئی بھی آدمی اگر انہیں مل جائے تو وہ اس کا پیچھا کر کے اسے قتل کئے بغیر نہیں رہتے۔ کہا گیا کہ آج فلاں شخص ہماری طرف سے جتنی بہادری اور ہمت سے لڑا ہے شاید اتنی بہادری سے کوئی بھی نہیں لڑا ہو گا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر میں ان کے ساتھ ساتھ رہوں گا، بیان کیا کہ پھر وہ ان کے پیچھے ہو لیے جہاں وہ ٹھہرتے یہ بھی ٹھہر جاتے اور جہاں وہ دوڑ کر چلتے یہ بھی دوڑنے لگتے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صاحب زخمی ہو گئے ‘ انتہائی شدید طور پر اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے۔ اس لیے انہوں نے اپنی تلوار زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک سینہ کے مقابل کر کے اس پر گر پڑے اور اس طرح خودکشی کر لی۔ اب دوسرے صحابی (جو ان کی جستجو میں لگے ہوئے تھے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پوچھا کیا بات ہے؟ ان صحابی نے عرض کیا کہ جن کے متعلق ابھی آپ نے فرمایا تھا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہیں تو لوگوں پر آپ کا یہ فرمانا بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں تمہارے لیے ان کے پیچھے پیچھے جاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ ایک موقع پر جب وہ شدید زخمی ہو گئے تو اس خواہش میں کہ موت جلدی آ جائے اپنی تلوار انہوں نے زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک کو اپنے سینہ کے سامنے کر کے اس پر گر پڑ ے اور اس طرح انہوں نے خود اپنی جان کو ہلاک کر دیا۔ اسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان زندگی بھر جنت والوں کے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرا شخص زندگی بھر اہل دوزخ کے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔

Narrated Sahl bin Sa`d As Saidi: Allah's Apostle (and his army) encountered the pagans and the two armies.,, fought and then Allah's Apostle returned to his army camps and the others (i.e. the enemy) returned to their army camps. Amongst the companions of the Prophet there was a man who could not help pursuing any single isolated pagan to strike him with his sword. Somebody said, "None has benefited the Muslims today more than so-and-so." On that Allah's Apostle said, "He is from the people of the Hell-Fire certainly." A man amongst the people (i.e. Muslims) said, "I will accompany him (to know the fact)." So he went along with him, and whenever he stopped he stopped with him, and whenever he hastened, he hastened with him. The (brave) man then got wounded severely, and seeking to die at once, he planted his sword into the ground and put its point against his chest in between his breasts, and then threw himself on it and committed suicide. On that the person (who was accompanying the deceased all the time) came to Allah's Apostle and said, "I testify that you are the Apostle of Allah." The Prophet said, "Why is that (what makes you say so)?" He said "It is concerning the man whom you have already mentioned as one of the dwellers of the Hell-Fire. The people were surprised by your statement, and I said to them, "I will try to find out the truth about him for you." So I went out after him and he was then inflicted with a severe wound and because of that, he hurried to bring death upon himself by planting the handle of his sword into the ground and directing its tip towards his chest between his breasts, and then he threw himself over it and committed suicide." Allah's Apostle then said, "A man may do what seem to the people as the deeds of the dwellers of Paradise but he is from the dwellers of the Hell-Fire and another may do what seem to the people as the deeds of the dwellers of the Hell- Fire, but he is from the dwellers of Paradise."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 514


   صحيح البخاري6607سهل بن سعدالعبد ليعمل عمل أهل النار وإنه من أهل الجنة ويعمل عمل أهل الجنة وإنه من أهل النار إنما الأعمال بالخواتيم
   صحيح البخاري6493سهل بن سعدالعبد ليعمل فيما يرى الناس عمل أهل الجنة وإنه لمن أهل النار ويعمل فيما يرى الناس عمل أهل النار وهو من أهل الجنة وإنما الأعمال بخواتيمها
   صحيح البخاري4207سهل بن سعدالرجل ليعمل بعمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وإنه لمن أهل النار ويعمل بعمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة
   صحيح البخاري4202سهل بن سعدالرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة
   صحيح البخاري2898سهل بن سعدالرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة
   صحيح مسلم306سهل بن سعدالرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة
   صحيح مسلم6741سهل بن سعدالرجل ليعمل عمل أهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة
   مشكوة المصابيح83سهل بن سعدإن العبد ليعمل عمل اهل النار وإنه من اهل الجنة ويعمل عمل اهل الجنة وإنه من اهل النار وإنما العمال بالخواتيم
   المعجم الصغير للطبراني31سهل بن سعد إن المرء ليعمل بعمل أهل النار البرهة من دهره ، ثم تعرض له الجادة من جواد أهل الجنة ، فيعمل بها حتى يموت عليها وذلك ما كتب له ، وإن الرجل ليعمل بعمل أهل الجنة البرهة من دهره ، ثم تعرض له الجادة من جواد أهل النار ، فيعمل بها حتى يموت وذلك ما كتب له

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 83  
´تقدیر کا غالب آنا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن سهل بن سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجنَّة وَإنَّهُ من أهل النَّار وَإِنَّمَا الْعمَّال بالخواتيم» . . .»
. . . سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق بندہ جہنمیوں کا کام کرتا ہے اور دراصل وہ جنتی لوگوں میں سے ہوتا ہے اور (بعض لوگ) جنتیوں کے سے کام کرتے ہیں اور وہ درحقیقت دوزخی لوگوں میں سے ہوتے ہیں، پس اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔ مسلم بخاری نے روایت کیا ہے۔ (یعنی مرنے کے وقت اگر جنتیوں کے کام پر مرا ہے تو جنتی لوگوں میں سے ہے اور اگر مرنے کے وقت دوزخیوں کے کام پر مرا ہے تو دوزخی لوگوں میں سے ہے۔) واللہ اعلم . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 83]

تخریج:
[صحيح بخاري 6607]،
[صحيح مسلم 306]

فقہ الحدیث:
➊ جس کا خاتمہ بالخیر ہو گا وہی کامیاب اور اللہ کے فضل و کرم سے جنت کا حقدار ہے۔
➋ کفر و شرک سے تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔
➌ اعمال کا اعتبار خاتمے پر ہے، والے الفاظ صحیح مسلم میں نہیں ہیں، بلکہ صرف صحیح بخاری میں ہیں۔
➍ تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وقت نیک اعمال اور صحیح عقیدے والا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں ہے کہ کب موت کا فرشتہ آ جائے اور دنیا سے روانگی ہو جائے۔
➎ تقدیر کا سہارا لے کر گناہ کا ارتکاب کرنا، عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے۔
➏ اللہ سے ہر وقت خاتمہ بالخیر کی دعا مانگنی چاہئیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ اپنے فضل و کرم سے دعا مانگنے والے کی تقدیر کو بدل سکتا ہے۔
➐ اپنی نیکیوں پر کبھی فخر نہیں کرنا چاہئیے۔
➑ مومن کی پوری زندگی خوف اور امید کے درمیان ہوتی ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 83   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4202  
4202. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ جنگ حنین میں تھے۔ ابن مبارک نے یونس کے ذریعے سے امام زہری سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ صالح نے زہری سے روایت کرنے میں ابن مبارک کی متابعت کی ہے۔ زبیدی نے کہا: مجھے زہری نے خبر دی کہ عبدالرحمٰن بن کعب نے ان سے بیان کیا، ان سے عبیدالہ بن کعب نے، انہوں نے کہا: مجھے اس صحابی نے بتایا جو غزوہ خیبر میں نبی ﷺ کے ساتھ موجود تھے۔ زہری نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ اور سعید بن مسیب نے نبی ﷺ سے خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4202]
حدیث حاشیہ:
جنگ خیبر کے لیے اسلامی فوج کی روانگی کا ایک منظر اس روایت میں پیش کیا گیا ہے اور باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ ذکر الہی کے لیے چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔
نام نہاد صوفیوں میں ذکر باجہر کا ایک وظیفہ مروج ہے۔
زور زور سے کلمہ کی ضرب لگاتے ہیں۔
اس قدر چیخ کر کہ سننے والوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اس حدیث سے ان کی بھی مذمت ثابت ہوئی۔
جس جگہ شارع ؑ نے جہر کی اجازت دی ہے وہاں جہر ہی افضل ہے جیسے اذان پنچ وقتہ جہری کے ساتھ مطلوب ہے یا جہری نمازوں میں سورة فاتحہ کے بعد مقتدی اور امام ہر دو کے لیے آمین بالجہر کہنا۔
یہ رسول کریم ﷺ کی سنت ہے غرض ہر جگہ تعلیمات محمدی کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4202   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4202  
4202. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ جنگ حنین میں تھے۔ ابن مبارک نے یونس کے ذریعے سے امام زہری سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ صالح نے زہری سے روایت کرنے میں ابن مبارک کی متابعت کی ہے۔ زبیدی نے کہا: مجھے زہری نے خبر دی کہ عبدالرحمٰن بن کعب نے ان سے بیان کیا، ان سے عبیدالہ بن کعب نے، انہوں نے کہا: مجھے اس صحابی نے بتایا جو غزوہ خیبر میں نبی ﷺ کے ساتھ موجود تھے۔ زہری نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ اور سعید بن مسیب نے نبی ﷺ سے خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4202]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اس کلمے کو بطور وظیفہ پڑھ رہے تھے، یا لوگوں کے چلانے اور شور مچانے کی وجہ سے اسے پڑھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کلمے کو جنت کا خزانہ قراردیاہے کیونکہ اس میں اپنی قوت واستطاعت کی مطلق طورپر نفی ہے اوراللہ کی طرف اس کی نسبت بطورحصر ہے کہ زمین وآسمان کی بادشاہت میں اللہ کی قوت کےعلاوہ اور کوئی چیز ہی نہیں ہے۔
بندے کی طرف سے اس قسم کا اعتراف وہ مقام عبودیت ہے جو بندے کے لیے خصوصی مقام اور اعلیٰ عبادت ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں تمام اُمور اللہ تعالیٰ کےسپرد کیے جاتے ہیں اور بندہ انتہائی عاجزی کے ساتھ اقرارکرتا ہے کہ وہ اپنے کسی کام کا مالک نہیں۔
اس کلمے کو بطور مجاز جنت کا خزانہ قراردیاگیا ہے کہ اسے پڑھنے سے جنت کے خزانے حاصل ہوں گے یا حقیقی معنی ہیں کہ یہ کلمہ قیامت کے دن جنت کا خزانہ بن جائے گا کیونکہ جو چیز دنیا میں مرغوب فیہا ہے وہ آخرت کے اعتبار سے خزانہ ہے، اس لیے ممکن ہے کہ یہ کلمہ ہی خزانہ ہو۔

اس حدیث کےسیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ واقعہ خیبر جاتے ہوئے پیش آیا، حالانکہ یہ واقعہ خیبر سے واپسی کا ہے کیونکہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ فتح خیبر کے بعد حضرت جعفر طیار ؓ کے ہمراہ حبشے سےواپس آئے تھے جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے، گویا مذکورہ حدیث میں کچھ عبارت حذف ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ خیبر کی طرف متوجہ ہوئے، اس کا محاصرہ کیا، پھر اس فتح کرنے کے بعد واپس لوٹے تو لوگ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھے اور انھوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔
۔
۔
(فتح الباري: 587/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4202   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.