● صحيح البخاري | 2380 | زيد بن ثابت | رخص النبي أن تباع العرايا بخرصها تمرا |
● صحيح البخاري | 2192 | زيد بن ثابت | رخص في العرايا أن تباع بخرصها كيلا |
● صحيح البخاري | 2188 | زيد بن ثابت | أرخص لصاحب العرية أن يبيعها بخرصها |
● صحيح مسلم | 3883 | زيد بن ثابت | رخص في بيع العرية بخرصها تمرا |
● صحيح مسلم | 3884 | زيد بن ثابت | رخص في العرايا أن تباع بخرصها كيلا |
● صحيح مسلم | 3879 | زيد بن ثابت | رخص لصاحب العرية أن يبيعها بخرصها من التمر |
● صحيح مسلم | 3880 | زيد بن ثابت | رخص في العرية يأخذها أهل البيت بخرصها تمرا يأكلونها رطبا |
● جامع الترمذي | 1302 | زيد بن ثابت | بيع العرايا بخرصها |
● سنن أبي داود | 3362 | زيد بن ثابت | رخص في بيع العرايا بالتمر والرطب |
● سنن النسائى الصغرى | 4543 | زيد بن ثابت | رخص في بيع العرية بخرصها تمرا |
● سنن النسائى الصغرى | 4541 | زيد بن ثابت | رخص في العرايا بالتمر والرطب |
● سنن النسائى الصغرى | 4540 | زيد بن ثابت | رخص في العرايا |
● سنن النسائى الصغرى | 4542 | زيد بن ثابت | رخص في بيع العرايا تباع بخرصها |
● سنن النسائى الصغرى | 4544 | زيد بن ثابت | رخص في بيع العرايا بالرطب وبالتمر |
● سنن ابن ماجه | 2269 | زيد بن ثابت | أرخص في بيع العرية بخرصها تمرا |
● سنن ابن ماجه | 2268 | زيد بن ثابت | رخص في العرايا |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 498 | زيد بن ثابت | ارخص لصاحب العرية ان يبيعها بخرصها |
● بلوغ المرام | 712 | زيد بن ثابت | رخص في العرايا ان تباع بخرصها كيلا |
● مسندالحميدي | 634 | زيد بن ثابت | نهى عن بيع الثمر حتى يبدو صلاحه، ونهى عن بيع الثمر بالتمر |
● مسندالحميدي | 689 | زيد بن ثابت | نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك إلا أنه رخص في العرايا |
● مسندالحميدي | 403 | زيد بن ثابت | أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رخص في بيع العرايا |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 498
´اندازے سے مال بیچنے کا حکم`
«. . . 237- وبه: عن ابن عمر عن زيد بن ثابت: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرخص لصاحب العرية أن يبيعها بخرصها. . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کے مالک کو اجازت دی ہے کہ وہ اندازے سے (اُکا) انہیں بیچ سکتا ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 498]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2188، و مسلم 1539/60، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ دیکھئے حدیث سابق: 157
➋ اگر دکاندار اور گاہک دونوں راضی ہوں تو مال کو اندازے سے یعنی اُکا بیچا جا سکتا ہے۔ ➌ دین اسلام مکمل دین ہے جس میں زندگی کے ہر مرحلے اور مسئلے کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ والحمد للہ
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 237
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2269
´عرایا کی بیع یعنی کھجور کے درخت کو انداز ے سے خشک کھجور کے بدلے خریدنے کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی بیع میں اجازت دی ہے کہ اندازہ سے اس کے برابر خشک کھجور کے بدلے خرید و فروخت کی جائے۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ عریہ یہ ہے کہ ایک آدمی کھجور کے کچھ درخت اپنے گھر والوں کے کھانے کے لیے اندازہ کر کے اس کے برابر خشک کھجور کے بدلے خریدے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2269]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عام قانون یہی ہے کہ کھجور کے بدلے میں کھجور کا تبادلہ دست بدست اور برابر برابر ہونا چاہیے لیکن ”عرایا“ کا مسئلہ اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے۔
(2)
امام مالک رحممۃ اللہ علیہ نے عرایا کی تفسیر یوں کی ہے:
”عریہ یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کھجور کا ایک درخت (پھل کھانے کے لیے)
دیتا ہے، پھر اس کے (بار بار)
باغ میں آنے سے تکلیف محسوس کرتا ہے تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ (اسے دیا ہوا وہ)
درخت خشک کھجوروں عوض خرید لے۔ (صحیح البخاري، البیوع، باب تفسیر العرایا، قبل حدیث: 2192)
اس کا طریقہ یہ کہ درخت کے پھل کا اندازہ لگایا جائے کہ خشک ہو کر اتنے من ہوگا، پھر اتنے من خشک کھجوریں اسے دے کر درخت واپس لے لیا جائے۔
اس صورت میں خشک کھجوروں کےعوض تازہ کھجوریں (درخت پر لگی ہوئی)
خریدی گئی ہیں اور خشک کھجوریں ماپ تول کر دی گئی ہیں۔
یہ جائز ہے بشرطیکہ ان کی مقدار پانج وسق (بیس من)
سے کم ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2269