الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن
The Book of the Adhan and the Sunnah Regarding It
2. بَابُ : التَّرْجِيعِ فِي الأَذَانِ
2. باب: اذان میں ترجیع کا بیان۔
حدیث نمبر: 708
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، ومحمد بن يحيى ، قالا: حدثنا ابو عاصم ، انبانا ابن جريج ، اخبرني عبد العزيز بن عبد الملك بن ابي محذورة ، عن عبد الله بن محيريز ، وكان يتيما في حجر ابي محذورة بن معير حين جهزه إلى الشام، فقلت لابي محذورة: اي عم إني خارج إلى الشام وإني عن تاذينك، فاخبرني ان ابا محذورة، قال: خرجت في نفر، فكنا ببعض الطريق فاذن مؤذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصلاة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسمعنا صوت المؤذن ونحن عنه متنكبون، فصرخنا حكيه نهزا به، فسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم فارسل إلينا قوما، فاقعدونا بين يديه، فقال:" ايكم الذي سمعت صوته قد ارتفع؟" فاشار إلي القوم كلهم وصدقوا، فارسل كلهم وحبسني وقال لي:" قم فاذن"، فقمت ولا شيء اكره إلي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا مما يامرني به، فقمت بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فالقى علي رسول الله صلى الله عليه وسلم التاذين هو بنفسه، فقال:" قل: الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، ثم قال لي:" ارفع من صوتك: اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله"، ثم دعاني حين قضيت التاذين، فاعطاني صرة فيها شيء من فضة، ثم وضع يده على ناصية ابي محذورة، ثم امرها على وجهه من بين يديه ثم على كبده، ثم بلغت يد رسول الله صلى الله عليه وسلم سرة ابي محذورة، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بارك الله لك، وبارك عليك"، فقلت: يا رسول الله، امرتني بالتاذين بمكة؟ قال:" نعم، قد امرتك"، فذهب كل شيء كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم من كراهية، وعاد ذلك كله محبة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقدمت على عتاب بن اسيد عامل رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة، فاذنت معه بالصلاة عن امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: واخبرني ذلك من ادرك ابا محذورة على ما اخبرني عبد الله بن محيريز.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ ، وَكَانَ يَتِيمًا فِي حِجْرِ أَبِي مَحْذُورَةَ بْنِ مِعْيَرٍ حِينَ جَهَّزَهُ إِلَى الشَّامِ، فَقُلْتُ لِأَبِي مَحْذُورَةَ: أَيْ عَمِّ إِنِّي خَارِجٌ إِلَى الشَّامِ وَإِنِّي عَنْ تَأْذِينِكَ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَا مَحْذُورَةَ، قَالَ: خَرَجْتُ فِي نَفَرٍ، فَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْنَا صَوْتَ الْمُؤَذِّنِ وَنَحْنُ عَنْهُ مُتَنَكِّبُونَ، فَصَرَخْنَا َحْكِيهِ نَهْزَأُ بِهِ، فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَيْنَا قَوْمًا، فَأَقْعَدُونَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" أَيُّكُمُ الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ قَدِ ارْتَفَعَ؟" فَأَشَارَ إِلَيَّ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَصَدَقُوا، فَأَرْسَلَ كُلَّهُمْ وَحَبَسَنِي وَقَالَ لِي:" قُمْ فَأَذِّنْ"، فَقُمْتُ وَلَا شَيْءَ أَكْرَهُ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا مِمَّا يَأْمُرُنِي بِهِ، فَقُمْتُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّأْذِينَ هُوَ بِنَفْسِهِ، فَقَالَ:" قُلْ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ لِي:" ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ"، ثُمَّ دَعَانِي حِينَ قَضَيْتُ التَّأْذِينَ، فَأَعْطَانِي صُرَّةً فِيهَا شَيْءٌ مِنْ فِضَّةٍ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى نَاصِيَةِ أَبِي مَحْذُورَةَ، ثُمَّ أَمَرَّهَا عَلَى وَجْهِهِ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ ثُمَّ عَلَى كَبِدِهِ، ثُمَّ بَلَغَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُرَّةَ أَبِي مَحْذُورَةَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَرْتَنِي بِالتَّأْذِينِ بِمَكَّةَ؟ قَالَ:" نَعَمْ، قَدْ أَمَرْتُكَ"، فَذَهَبَ كُلُّ شَيْءٍ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَرَاهِيَةٍ، وَعَادَ ذَلِكَ كُلُّهُ مَحَبَّةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمْتُ عَلَى عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ عَامِلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، فَأَذَّنْتُ مَعَهُ بِالصَّلَاةِ عَنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ذَلِكَ مَنْ أَدْرَكَ أَبَا مَحْذُورَةَ عَلَى مَا أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَيْرِيزٍ.
عبداللہ بن محیریز جو یتیم تھے اور ابومحذورہ بن معیر کے زیر پرورش تھے، کہتے ہیں کہ جس وقت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے ان کو سامان تجارت دے کر شام کی جانب روانہ کیا، تو انہوں نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے کہا: چچا جان! میں ملک شام جا رہا ہوں، اور لوگ مجھ سے آپ کی اذان کے سلسلے میں پوچھیں گے، ابومحذورہ نے مجھ سے کہا کہ میں ایک جماعت کے ہمراہ نکلا، ہم راستے ہی میں تھے کہ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے نماز کے لیے اذان دی ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم نے مؤذن کی آواز سنی چونکہ ہم اس (اذان یا اسلام) سے متنفر تھے (کیونکہ ہم کفر کی حالت میں تھے) اس لیے ہم چلا چلا کر اس کی نقلیں اتارنے اور اس کا ٹھٹھا کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو بھیجا، انہوں نے ہمیں پکڑ کر آپ کے سامنے حاضر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں وہ کون شخص ہے جس کی آواز ابھی میں نے سنی کافی بلند تھی، سب لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، اور وہ سچ بولے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو چھوڑ دیا اور صرف مجھے روک لیا، اور مجھ سے کہا: کھڑے ہو اذان دو، میں اٹھا لیکن اس وقت میرے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس چیز سے جس کا آپ مجھے حکم دے رہے تھے زیادہ بری کوئی اور چیز نہ تھی، خیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا، آپ نے خود مجھے اذان سکھانی شروع کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  کہو: «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله»، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: بآواز بلند کہو: «أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الصلاة حي على الفلاح حي على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله»، جب میں اذان دے چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی، پھر اپنا ہاتھ ابومحذورہ کی پیشانی پر رکھا اور اسے ان کے چہرہ، سینہ، پیٹ اور ناف تک پھیرا، پھر فرمایا: اللہ تمہیں برکت دے اور تم پر برکت نازل فرمائے، پھر میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے مکہ میں اذان دینے کا حکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تمہیں حکم دیا ہے بس اس کے ساتھ ہی جتنی بھی نفرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی وہ جاتی رہی، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بدل گئی، ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عامل عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، ان کی گورنری کے زمانہ میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نماز کے لیے اذان دی۔ عبدالعزیز بن عبدالملک کہتے ہیں کہ جس طرح عبداللہ بن محیریز نے یہ حدیث مجھ سے بیان کی اسی طرح اس شخص نے بھی بیان کی جو ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے ملا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 3 (379)، سنن ابی داود/الصلاة 28 (502)، سنن الترمذی/الصلاة 26 (191، 192)، سنن النسائی/الأذان 3 (630)، 4 (631)، (تحفة الأشراف: 12169)، مسند احمد (3/408، 409)، سنن الدارمی/الصلاة 7 (1232) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے نبی اکرم ﷺ کے اخلاق حسنہ کا حال معلوم ہوتا ہے کہ آپ مخالفین کے ساتھ کس طرح نرمی اور شفقت سے برتاؤ کرتے تھے کہ ان کا دل خود پسیج جاتا، اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہوتے، جو کوئی برائی کرے اس کے ساتھ بھلائی کرنا یہی اس کو شرمندہ کرنا ہے۔

Ibn Juraij narrated: "Abdul-'Aziz bin 'Abdul-Malik bin Abu Mahdhurah narrated from 'Abdullah bin muhairiz who was an orphan under the care of Abu Mahdhurah bin mi'yar that when he was preparing him to travel to Sham, he said: 'O my uncle, I am going out to Sham, and I will be asked about how you started the Adhan.' So he informed me that. Abu Mahdhurah said: 'I went out with a group of people, and we were somewhere on the road, when the Mu'adh-dhin of the Messenger of Allah gave the call to prayer in the presence of the Messenger of Allah. We heard the voice of the Mu'adh-dhin, and we were shunning it (the Adhan), so we started yelling, imitating it and mocking it. The Messenger of Allah heard us, so he sent some people who brought us to sit in front of him. He said: 'Who is the one whose voice I heard so loud?' The people all pointed to me, and they were telling the truth. He sent them all away, but kept me there and said to me: 'Stand up and give the call to prayer.' I stood up and there was nothing more hateful to me than the Messenger of Allah and what he was telling me to do. I stood up in front of the Messenger of Allah and the Messenger of Allah himself taught me the call. He said: "Say: 'Allahu Akbar Allahu Akbar, Allahu Akbar Allahu Akbar; Ash-hadu an la ilaha illallah, Ash-hadu an la ilaha illallah; Ash-hadu anna Muhammadan Rasulullah, Ash-hadu anna Muhammadan Rasulullah (Allah is the Most great, Allah is the most Great, Allah is the most Great, Allah is the most Great; I bear witness that none has the right to be worshipped but Allah, I bear witness that none has the right to be worshipped but Allah; I bear witness that Muhammad is the Messenger of Allah, I bear witness that Muhammad is the Messenger of Allah).'" Then he said: "Raise your voice (and say). Ash-hadu an la ilaha illallah, Ash-hadu an la ilaha illallah; Ash-hadu anna Muhammadan Rasulullah, Ash-hadu anna Muhammadan Rasulullah; Hayya 'alal-salah, Hayya 'alal-salah; Hayya 'alal-falah, Hayya 'alal-falah; Allahu Akbar Allahu Akbar; La ilaha illallah (I bear witness that none has the right to be worshipped but Allah, I bear witness that none has the right to be worshipped but Allah; I bear witness that Muhammad is the Messenger of Allah, I bear witness that Muhammad is the Messenger of Allah; Come to the Prayer, Come to the Prayer; Come to the prosperity, Come to the prosperity; Allah is the Most great, Allah is the Most Great; None has the right to be worshipped but Allah).'" Then he called me when I had finished saying the Adhan, and gave me a small bag in which there was some silver. Then he put his hand on the forelock of Abu Mahdhurah, then passed it over his face, then over his chest, and over his heart, until the hand of the Messenger of Allah reached his navel. Then the Messenger of Allah said: 'May Allah bless you and send blessings upon you.' I said: 'O Messenger of Allah, do you command me to give the call to prayer in Makkah?' He said: 'Yes, I command you (to do so).' Then all the hatred I had felt towards the Messenger of Allah disappeared, and was replaced with love for the Messenger of Allah. I came to 'Attab bin Asid, the governor of the Messenger of Allah in Makkah, and gave the call to prayer with him by command of the Messenger of Allah." (Sahih)He ('Abdul-'Aziz) said: "Someone who met Abu Mahdhurah told me the same as 'Abdullah bin Muhairiz told me."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن ابن ماجه708سمرة بن معيربارك الله لك وبارك عليك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن نسائي 633  
´اذان پر اجرت کا جواز`
«. . . ثُمَّ دَعَانِي حِينَ قَضَيْتُ التَّأْذِينَ، فَأَعْطَانِي صُرَّةً فِيهَا شَيْءٌ مِنْ فِضَّةٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مُرْنِي بِالتَّأْذِينِ بِمَكَّةَ . . .»
. . . پھر جس وقت میں نے اذان پوری کر لی تو آپ نے مجھے بلایا، اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے مکہ میں اذان دینے پر مامور فرما دیجئیے . . . [سنن نسائي/كتاب الأذان: 633]

فقہ الحدیث:
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [379] اور امام ابن حبان [1680] رحمہما اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث میں اذان کہنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے چاندی دینے کا ذکر ہے۔
امام، ابوبکر، احمد بن حسین، بیہقی رحمہ اللہ [384۔ 458ھ] نے اس حدیث کو مؤذن کی اجرت کے جواز کی دلیل بنایا ہے۔ [السنن الكبريٰ:631/1، دارالكتب العلمية، بيروت، 2003ء]
شاید کوئی اس استدلال سے اختلاف کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عنایت کی گئی چاندی کو تالیف قلب قرار دے، لیکن صریح دلائل کی روشنی میں اذان کی اجرت کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔

یار رہے کہ بغیر اجرت موذن مقرر کرنے والی جس حدیث سے بعض لوگوں نے دینی امور پر اجرت کے ناجائز و حرام ہونے کا استدلال کیا ہے، اسلاف امت و فقہائے اسلام نے اسے بھی کراہت پر محمول کیا ہے، حرمت پر نہیں، کیوں کہ اس میں حرمت والا کوئی اشارہ بھی نہیں۔
وہ حدیث اور اس کے حوالے سے اسلاف امت کا فہم ملاحظہ فرمائیں: [سنن ابی داود:531]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 79، حدیث\صفحہ نمبر: 32   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث708  
´اذان میں ترجیع کا بیان۔`
عبداللہ بن محیریز جو یتیم تھے اور ابومحذورہ بن معیر کے زیر پرورش تھے، کہتے ہیں کہ جس وقت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے ان کو سامان تجارت دے کر شام کی جانب روانہ کیا، تو انہوں نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے کہا: چچا جان! میں ملک شام جا رہا ہوں، اور لوگ مجھ سے آپ کی اذان کے سلسلے میں پوچھیں گے، ابومحذورہ نے مجھ سے کہا کہ میں ایک جماعت کے ہمراہ نکلا، ہم راستے ہی میں تھے کہ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے نماز کے لیے اذان دی ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم نے مؤذن کی آواز سنی چونکہ ہم اس (اذان یا اسلام) سے متنفر تھے (کیونکہ ہم کفر کی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 708]
اردو حاشہ:
(1)
یتیم بچوں کی کفالت ایک عظیم نیکی ہے جس پر جنت میں رسول اللہ ﷺ کا پڑوس ملنے کی بشارت دی گئی ہے۔
کفالت میں جس طرح جسمانی ضروریات خوراک، لباس وغیرہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔
اسی طرح روحانی ضروریات یعنی دین کی تعلیم اور اخلاق حسنہ کی تربیت بھی ضروری ہے۔

(2)
یہ نبی ﷺ کی حکمت کا کمال ہے کہ جہاں بھی جوہر قابل نظر آیا اس کی صلاحیتوں کو نکھار کر اس سے دین کا کام لے لیا۔
ایک اچھے داعی کو بھی عوام میں جوہر قابل کی پہچان کا ملکہ حاصل ہونا چاہیے اور ایسے افراد کی مناسب تربیت کرکے انھیں اسلام کا خادم بنانا چاہیے۔

(3)
رسول اللہ ﷺ  نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی بلند آواز سن کر یہ فیصلہ کیا کہ اسے مؤذن بنادیا جائے۔
اس طرح نادان بچوں اور غافل نوجوانوں کو بھی قریب کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ان کی اصلاح وتربیت کی جائے تاکہ دوبارہ غلطی نہ کریں اور ان کا کردار بہتر ہوجائے۔

(5)
بچوں کے جسم پر شفقت سے ہاتھ پھیرنا ان کے دل میں محبت پیداکرنا ہے۔
بشرطیکہ کسی قسم کی غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو جیسے بڑے اور چھوٹے کی عمر میں کافی فرق نہ ہونے کی صورت میں ایسے شکوک وشبہات پیدا ہوسکتے ہیں جن کا نتیجہ الزامات اور بدنامی کی صورت میں نکلا کرتا ہے۔

(6)
تربیت میں انفرادی توجہ کی بھی خاص اہمیت ہے تاکہ ہر فرد کی صلاحیتیں پروان چڑھ سکیں۔

(7)
بچوں کو حوصلہ افزائی کے لیے مناسب انعام دینا بھی بہت مفید ہے یہ انعام نقد بھی ہوسکتا ہے کسی عام استعما ل کی چیز کی صورت میں اور دعا یا حوصلہ افزائی اور تعریف کے چند کلمات کی صورت میں بھی۔

(8)
اگر کسی عہدے کی اہلیت رکھنے والا اس عہدے کی درخواست پیش کرے تو اسے وہ ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے اگر چہ عہدے کا لالچ رکھنا اچھی بات نہیں،
(9)
اذان میں شہادتین کے کلمات دودوبار کہنے کے بعد دوسری بار پھر دوبار کہنا ترجیع کہلاتا ہے۔
اور یہ سنت ہے۔
عرف عام میں اسے دوہری اذان کہتے ہیں۔
مؤذن چاہے اکہری اذان (بلا ترجیع)
کہ لے، چاہے دہری اذان (ترجیع کے ساتھ)
کہہ لے، دونوں طرح جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 708   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.