الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
35. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ} :
35. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفتح) ارشاد ”یہ گنوار چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام بدل دیں“۔
(35) Chapter. The Statement of Allah: “... They want to change Allah’s Words...” (V.48:15)
حدیث نمبر: 7506
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، حدثني مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قال:" رجل لم يعمل خيرا قط فإذا مات، فحرقوه واذروا نصفه في البر ونصفه في البحر، فوالله لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه احدا من العالمين، فامر الله البحر، فجمع ما فيه وامر البر، فجمع ما فيه، ثم قال: لم فعلت؟، قال: من خشيتك وانت اعلم فغفر له".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ:" رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ فَإِذَا مَاتَ، فَحَرِّقُوهُ وَاذْرُوا نِصْفَهُ فِي الْبَرِّ وَنِصْفَهُ فِي الْبَحْرِ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ لَيُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا لَا يُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ، فَأَمَرَ اللَّهُ الْبَحْرَ، فَجَمَعَ مَا فِيهِ وَأَمَرَ الْبَرَّ، فَجَمَعَ مَا فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: لِمَ فَعَلْتَ؟، قَالَ: مِنْ خَشْيَتِكَ وَأَنْتَ أَعْلَمُ فَغَفَرَ لَهُ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص نے جس نے (بنی اسرائیل میں سے) کوئی نیک کام کبھی نہیں کیا تھا، وصیت کی کہ جب وہ مر جائے تو اسے جلا ڈالیں اور اس کی آدھی راکھ خشکی میں اور آدھی دریا میں بکھیر دیں کیونکہ اللہ کی قسم اگر اللہ نے مجھ پر قابو پا لیا تو ایسا عذاب مجھ کو دے گا جو دنیا کے کسی شخص کو بھی وہ نہیں دے گا۔ پھر اللہ نے سمندر کو حکم دیا اور اس نے تمام راکھ جمع کر دی جو اس کے اندر تھی۔ پھر اس نے خشکی کو حکم دیا اور اس نے بھی اپنی تمام راکھ جمع کر دی جو اس کے اندر تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے عرض کیا اے رب! تیرے خوف سے میں نے ایسا کیا اور تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "A man who never did any good deed, said that if he died, his family should burn him and throw half the ashes of his burnt body in the earth and the other half in the sea, for by Allah, if Allah should get hold of him, He would inflict such punishment on him as He would not inflict on anybody among the people. But Allah ordered the sea to collect what was in it (of his ashes) and similarly ordered the earth to collect what was in it (of his ashes). Then Allah said (to the recreated man ), 'Why did you do so?' The man replied, 'For being afraid of You, and You know it (very well).' So Allah forgave him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 597


   صحيح البخاري3481عبد الرحمن بن صخرإذا أنا مت فأحرقوني ثم اطحنوني ثم ذروني في الريح فوالله لئن قدر علي ربي ليعذبني عذابا ما عذبه أحدا فلما مات فعل به ذلك فأمر الله الأرض فقال اجمعي ما فيك منه ففعلت فإذا هو قائم فقال ما حملك على ما صنعت ق
   صحيح البخاري7506عبد الرحمن بن صخرإذا مات فحرقوه واذروا نصفه في البر ونصفه في البحر فوالله لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه أحدا من العالمين فأمر الله البحر فجمع ما فيه وأمر البر فجمع ما فيه ثم قال لم فعلت قال من خشيتك وأنت أعلم فغفر له
   صحيح مسلم6984عبد الرحمن بن صخرإذا أنا مت فأحرقوني ثم اسحقوني ثم اذروني في الريح في البحر فوالله لئن قدر علي ربي ليعذبني عذابا ما عذبه به أحدا قال ففعلوا ذلك به فقال للأرض أدي ما أخذت فإذا هو قائم فقال له ما حملك على ما صنعت فقال
   صحيح مسلم6980عبد الرحمن بن صخرإذا مات فحرقوه ثم اذروا نصفه في البر ونصفه في البحر فوالله لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه أحدا من العالمين فلما مات الرجل فعلوا ما أمرهم فأمر الله البر فجمع ما فيه وأمر البحر فجمع ما فيه ثم قال لم فعلت هذا
   سنن النسائى الصغرى2081عبد الرحمن بن صخرإذا أنا مت فأحرقوني ثم اسحقوني ثم اذروني في الريح في البحر فوالله لئن قدر الله علي ليعذبني عذابا لا يعذبه أحدا من خلقه قال ففعل أهله ذلك قال الله لكل شيء أخذ منه شيئا أد ما أخذت فإذا هو قائم قال الله
   سنن ابن ماجه4255عبد الرحمن بن صخرإذا أنا مت فأحرقوني ثم اسحقوني ثم ذروني في الريح في البحر فوالله لئن قدر علي ربي ليعذبني عذابا ما عذبه أحدا قال ففعلوا به ذلك فقال للأرض أدي ما أخذت فإذا هو قائم فقال له ما حملك على ما صنعت قال خشيتك أ
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم226عبد الرحمن بن صخرقال رجل لم يعمل حسنة قط لاهله: إذا هو مات فاحرقوه، ثم اذروا نصفه فى البر ونصفه فى البحر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 226  
´عذاب قبر حق ہے`
«. . . 337- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال رجل لم يعمل حسنة قط لأهله: إذا هو مات فأحرقوه، ثم اذروا نصفه فى البر ونصفه فى البحر؛ فوالله، لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه أحدا من العالمين. فلما مات الرجل فعلوا ما أمرهم فأمر الله البر فجمع ما فيه، وأمر البحر فجمع ما فيه، ثم قال: لم فعلت هذا؟ فقال: من خشيتك يا رب، وأنت أعلم، قال: فغفر الله له. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، اپنے گھر والوں سے کہا: اگر وہ مر جائے تو اسے جلا دیں، پھر اس کی آدھی راکھ خشکی اور آدھی سمندر میں اڑا دیں کیونکہ اگر اللہ نے اس پر سختی (باز پرس) کی تو اسے ایسا عذاب دے گا جو اس نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر جب وہ آدمی مر گیا تو انہوں نے وہی کیا جس کا اس نے حکم دیا تھا پھر اللہ نے خشکی کو حکم دیا تو اس نے اس آدمی کے ذرات اکٹھے کر لئے اور سمندر کو حکم دیا تو اس نے (بھی) اس آدمی کے ذرات اکٹھے کر لئے پھر اللہ نے فرمایا: تو نے یہ کیوں کیا ہے؟ تو اس نے کہا: اے رب! تو جانتا ہے کہ میں نے یہ تیرے ڈر کی وجہ سے کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ نے اسے بخش دیا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 226]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7506، ومسلم 2756، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس روایت میں مذکورہ شخص نے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کوئی شک نہیں کیا تھا بلکہ یہ گمان کیا تھا کہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ اُس پر سختی نہیں کرے گا۔ دیکھئے [زاد المسير لابن الجوزي ص940، الانبياء: 87] اور [التمهيد 18/43]
➋ عذاب روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے۔
➌ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ قوانینِ قدرت کا محتاج نہیں بلکہ ہر چیز اسی کی محتاج ہے اور ہر چیز کو اُسی نے پیدا کیا ہے۔
➍ سچی توبہ سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
➎ میت کو جلانا جائز نہیں ہے بلکہ اسے قبر میں دفن کرنا ضروری ہے۔
➏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «کان رجل ممن کان قبلکم لم یعمل خیرًا قط إلا التوحید۔» تم سے پہلے ایک آدمی تھا جس نے توحید کے علاوہ نیکی کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ [مسند أحمد 2/304 ح8040 وسنده صحيح] پھر انہوں نے حدیثِ بالا کے مفہوم والی روایت بیان کی۔ معلوم ہوا کہ مذکورہ شخص موحد تھا لہٰذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس نے قدرت میں شک کیا ہو۔
➐ موحد (توحید ماننے والا) آخرکار جنت میں جائے گا بشرطیکہ اسلام کے مناقض اُمور میں سے کسی بات کا ارتکاب نہ کرے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 337   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7506  
7506. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی نے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا تھا۔ اس نے وصیت کی کہ جب ہو مر جائے تو اسے جلا دیں، پھر اس کی آدھی راکھ خشکی میں اڑا دیں اور باقی آدھی دریا میں بہا دیں اللہ کی قسم! اگر اللہ اس پر قادر ہوا تو وہ اسے ایسا عذاب دے گا جودنیا کے کسی شخص کو بھی وہ نہیں دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا تو اس نے تمام راکھ جمع کر دی جو اس کے اندر تھی پھر اس نے خشکی کو حکم دیا تو اس نے بھی وہ اپنی تمام راکھ جمع کر دی جو ا سکے اندر تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آدمی سے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے کہا: تیرے ڈر سے۔ اور تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7506]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ وہ شخص گو گنہگار تھا پرمؤحد تھا۔
اہل توحید کےلیے مغفرت کی بڑی امید ہے۔
آدی کو چاہیے کہ شرک سے ہمشہ بچتا رہے اور توحید پر قائم رہے اگرشرک پرمرا تومغفرت کی امید بالکل نہیں ہے۔
قبروں کو پوجنا، تعزیوں اور جھنڈوں کے آگےسر جھکانا، مزرات کا طواف کرنا، کسی خواجہ وقطب کی نذر ونیاز کرنا، یہ سارے شرکیہ افعال ہیں اللہ ان سب سے بچائے آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7506   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7506  
7506. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی نے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا تھا۔ اس نے وصیت کی کہ جب ہو مر جائے تو اسے جلا دیں، پھر اس کی آدھی راکھ خشکی میں اڑا دیں اور باقی آدھی دریا میں بہا دیں اللہ کی قسم! اگر اللہ اس پر قادر ہوا تو وہ اسے ایسا عذاب دے گا جودنیا کے کسی شخص کو بھی وہ نہیں دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا تو اس نے تمام راکھ جمع کر دی جو اس کے اندر تھی پھر اس نے خشکی کو حکم دیا تو اس نے بھی وہ اپنی تمام راکھ جمع کر دی جو ا سکے اندر تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آدمی سے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے کہا: تیرے ڈر سے۔ اور تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7506]
حدیث حاشیہ:
۔
وہ شخص بنی اسرائیل میں کفن چور تھا جو قبروں سے مُردوں کے کفن اتارلیا کرتا تھا۔
اگر سوال کیاجائے کہ وہ شخص مومن تھا یا کافر؟ اگر مومن تھا تو اس نے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک کیوں کیا؟ اگر کافر تھا تو اس کی مغفرت کس طرح ہوئی؟اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مومن تھا اور دہشت زدہ ہوکر اس نے یہ اقدام کیا۔
اس کے مومن ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس نے کہا:
اے اللہ! میں نے تیرے خوف سے ایسا کیا تھا۔
(عمدة القاري: 684/16)

بہرحال اہل توحید کے لیے مغفرت کی بڑی اُمید ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ شرک سے اپنا دامن بچائے رکھے اور توحید پر قائم رہے۔
شرک ایسی بدترین نحوست ہے کہ اگر اس پر موت آجائےتو بخشش کی بالکل امید نہیں۔
اس حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہوا، سمندر اور مرنے والے سے گفتگو کی اور یہ گفتگو بھی آواز و حروف پر مشتمل تھی اورقرآن کریم کے علاوہ تھی۔
افسوس ہے ان لوگوں پر جو اس کا انکار کرتے ہیں یا دو راز کار تاویلوں کا سہارا لیتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7506   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.