ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے۔“
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Allah said, 'I am to my slave as he thinks of Me, (i.e. I am able to do for him what he thinks I can do for him). (See Hadith No. 502)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 596
أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا ذكرني إن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي إن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم إن تقرب إلي بشبر تقربت إليه ذراعا إن تقرب إلي ذراعا تقربت إليه باعا إن أتاني يمشي أتيته هرولة
أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه حين يذكرني إن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي إن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ هم خير منهم إن تقرب مني شبرا تقربت إليه ذراعا إن تقرب إلي ذراعا تقربت منه باعا إن أتاني يمشي أتيته هرولة
أنا عند ظن عبدي وأنا معه حين يذكرني إن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي إن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم إن اقترب إلي شبرا تقربت إليه ذراعا إن اقترب إلي ذراعا اقتربت إليه باعا إن أتاني يمشي أتيته هرولة
أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه حيث يذكرني لله أفرح بتوبة عبده من أحدكم يجد ضالته بالفلاة من تقرب إلي شبرا تقربت إليه ذراعا من تقرب إلي ذراعا تقربت إليه باعا إذا أقبل إلي يمشي أقبلت إليه أهرول
أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه حين يذكرني إن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي إن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم إن اقترب إلي شبرا اقتربت منه ذراعا إن اقترب إلي ذراعا اقتربت إليه باعا إن أتاني يمشي أتيته هرولة
أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه حين يذكرني إن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي إن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم إن اقترب إلي شبرا اقتربت إليه ذراعا إن أتاني يمشي أتيته هرولة
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3822
´عمل کی فضیلت۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اگر وہ میرا دل میں ذکر کرتا ہے تو میں بھی دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ میرا ذکر لوگوں میں کرتا ہے تو میں ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں اس کی جانب دوڑ کر آتا ہوں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3822]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا چا ہیے۔ حسن ظن کا صحیح طریقہ یہ ہےکہ نیک اعمال کیے جائیں اور ان کی قبولیت کی امید رکھی جائے۔ گناہوں سے توبہ کی جائے اور بخشش کی امید رکھی جائے۔ گناہوں کے راستے پر بھاگتے چلے جانا اور اللہ کی رحمت کی امید رکھنا نادانی ہے۔
(3) اس میں بالواسطہ عمل کی تلقین ہے کیونکہ عمل کے بغیر کی امید نہیں رکھی جا سکتی، لہٰذا اچھے عمل کرنے والا ہی اللہ سے اچھی امید رکھ سکتا ہے۔ برے عمل کرنے والا بری امید ہی رکھ سکتا ہے۔
(4) جماعت میں ذکر کرنے سے مراد خود ساختہ اجتماعی ذکر نہیں بلکہ یا تو یہ مراد ہے کہ جیسے نماز کے بعد سب لوگ اپنے اپنے طور پر مسنون دعائیں اور اذکار پڑھتے ہیں یا اللہ کی رحمتوں، نعمتوں اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر ہے، یعنی ایک شخص بیان کرے اور دوسرے سنتے رہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3822
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2388
´اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2388]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی ترغیب ہے، لیکن عمل کے بغیرکسی بھی چیز کی امید نہیں کی جاسکتی ہے، گویا اللہ کا معاملہ بندوں کے ساتھ ان کے عمل کے مطابق ہوگا، بندے کا عمل اگر اچھا ہے تو اس کے ساتھ اچھا معاملہ اوربرے عمل کی صورت میں اس کے ساتھ برامعاملہ ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2388