الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
104. بَابُ الْقِرَاءَةِ فِي الْفَجْرِ:
104. باب: نماز فجر میں قرآن شریف پڑھنا۔
(104) Chapter. The recitation of the Quran in the Fajr prayer.
حدیث نمبر: 772
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، قال: اخبرنا ابن جريج، قال: اخبرني عطاء، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه يقول:" في كل صلاة يقرا فما اسمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم اسمعناكم وما اخفى عنا اخفينا عنكم، وإن لم تزد على ام القرآن اجزات، وإن زدت فهو خير".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ:" فِي كُلِّ صَلَاةٍ يُقْرَأُ فَمَا أَسْمَعَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْمَعْنَاكُمْ وَمَا أَخْفَى عَنَّا أَخْفَيْنَا عَنْكُمْ، وَإِنْ لَمْ تَزِدْ عَلَى أُمِّ الْقُرْآنِ أَجْزَأَتْ، وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبدالملک ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبر دی کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ ہر نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کی جائے گی۔ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرآن سنایا تھا ہم بھی تمہیں ان میں سنائیں گے اور جن نمازوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ قرآت کی ہم بھی ان میں آہستہ ہی قرآت کریں گے اور اگر سورۃ فاتحہ ہی پڑھو جب بھی کافی ہے، لیکن اگر زیادہ پڑھ لو تو اور بہتر ہے۔

Narrated Abu Huraira: The Qur'an is recited in every prayer and in those prayers in which Allah's Apostle recited aloud for us, we recite aloud in the same prayers for you; and the prayers in which the Prophet recited quietly, we recite quietly. If you recite "Al-Fatiha" only it is sufficient but if you recite something else in addition, it is better.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 739


   صحيح البخاري772عبد الرحمن بن صخرفي كل صلاة يقرأ فما أسمعنا رسول الله أسمعناكم وما أخفى عنا أخفينا عنكم وإن لم تزد على أم القرآن أجزأت وإن زدت فهو خير
   صحيح مسلم884عبد الرحمن بن صخرفي كل صلاة قراءة فما أسمعنا النبي أسمعناكم وما أخفى منا أخفيناه منكم ومن قرأ بأم الكتاب فقد أجزأت عنه ومن زاد فهو أفضل
   صحيح مسلم882عبد الرحمن بن صخرلا صلاة إلا بقراءة
   صحيح مسلم883عبد الرحمن بن صخرفي كل الصلاة يقرأ فما أسمعنا رسول الله أسمعناكم وما أخفى منا أخفينا منكم فقال له رجل إن لم أزد على أم القرآن فقال إن زدت عليها فهو خير وإن انتهيت إليها أجزأت عنك
   سنن أبي داود821عبد الرحمن بن صخرمن صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج غير تمام
   سنن أبي داود820عبد الرحمن بن صخرلا صلاة إلا بقراءة فاتحة الكتاب فما زاد
   سنن أبي داود819عبد الرحمن بن صخرلا صلاة إلا بقرآن ولو بفاتحة الكتاب فما زاد
   سنن أبي داود797عبد الرحمن بن صخرفي كل صلاة يقرأ فما أسمعنا رسول الله أسمعناكم وما أخفى علينا أخفينا عليكم
   سنن النسائى الصغرى971عبد الرحمن بن صخرفي كل صلاة قراءة فما أسمعنا رسول الله أسمعناكم وما أخفاها أخفينا منكم
   سنن النسائى الصغرى970عبد الرحمن بن صخركل صلاة يقرأ فيها فما أسمعنا رسول الله أسمعناكم وما أخفاها أخفينا منكم
   سنن ابن ماجه838عبد الرحمن بن صخرمن صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج غير تمام
   المعجم الصغير للطبراني333عبد الرحمن بن صخر فى كل الصلاة ، الصلوات ، يقرأ ، فما أسمعنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أسمعناكم ، ومما أخفى علينا أخفينا عليكم
   مسندالحميدي1003عبد الرحمن بن صخر
   مسندالحميدي1004عبد الرحمن بن صخركل صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب فهي خداج، فهي خداج
   مسندالحميدي1020عبد الرحمن بن صخرفي كل الصلاة اقرأ، فما أسمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أسمعناكم، وما أخفى منا أخفينا منكم، كل صلاة لا يقرأ فيها بأم القرآن، فهي خداج

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 797  
´ظہر کی قرآت کا بیان۔`
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہر نماز میں قرآت کی جاتی ہے تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بالجہر سنایا ہم نے بھی تمہیں (جہراً) سنا دیا اور جسے آپ نے چھپایا ہم نے بھی اسے تم سے چھپایا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 797]
797۔ اردو حاشیہ:
➊ مقصد یہ ہے کہ جو قرأت جہری تھی، ہم جہری کرتے ہیں اور جو سری تھی ہم بھی سری کرتے ہیں۔
➋ امت کا اجماع ہے کہ فجر، مغرب، عشاء (پہلی دو رکعتیں) جمعہ، عید اور استسقاء میں قرأت جہری ہوتی ہے اور ظہر، عصر اور مغرب کی تیسری اور عشاء کی آخری دونوں رکعتوں میں سری۔
➌ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین امت کا وہ پہلا عظیم طبقہ ہے، جس نے دین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا اور ان سے بعد کے لوگوں نے ان سے حاصل کیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 797   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 820  
´جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ اعلان کر دوں کہ سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورت پڑھے بغیر نماز نہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 820]
820۔ اردو حاشیہ:
مذکورہ روایات سنداً ضعیف ہیں۔ لیکن اس میں بیان کردہ باتیں دوسری روایات سے ثابت ہیں۔ یعنی منفرد شخص کے لئے سورت فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت یا قرآن سے کچھ حصہ پڑھنے کا حکم ہے۔ لیکن جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 820   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 821  
´جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں۔‏‏‏‏ راوی ابوسائب کہتے ہیں: اس پر میں نے کہا: ابوہریرہ! کبھی کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا کروں!) تو انہوں نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ۱؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دی ہے، اس کا نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ بھی ہے جو وہ مانگے۔‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑھو: بندہ «الحمد لله رب العالمين» کہتا ہے تو اللہ عزوجل کہتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی، بندہ «الرحمن الرحيم» کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری توصیف کی، بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی، بندہ «إياك نعبد وإياك نستعين» کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر بندہ «اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: یہ سب میرے بندے کے لیے ہیں اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 821]
821۔ اردو حاشیہ:
➊ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز بالکل ناقص اور ناتمام رہتی ہے، جس کی تعبیر دوسری احادیث میں کچھ یوں ہے:
«لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب» [صحيح بخاري۔ حديث 756۔ وصحيح مسلم۔ حديث 394]
اسماعیلی کی روایت میں جناب سفیان سے مروی ہے:
«لا تجزي صلوة لايقرا فيها بفاتحة الكتاب» [سنن دار قطني۔ حديث 1212]
جس نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ کافی نہیں ہوتی
فتح الباری، ابن خذیمہ، ابن حبان اور احمد میں ہے:
«لا تقبل صلوة لا يقرا فيها بام القران» (فتح الباری۔ شرح حدیث 756)
جس نماز میں ام القرآن فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ قبول نہیں ہوتی، اس قسم کے مختلف الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے۔ اس کا پڑھنا فرض اور واجب ہے۔ الا یہ کہ کوئی پڑھنے سے عاجز ہو۔
➋ اس حکم میں تمام قسم کی نمازیں (فرض، نفل، جنازہ، عید اور کسوف وغیرہ) اور تمام طرح کے نمازی (منفرد، امام، مقتدی، حاضر اور مسافر) شامل ہیں۔
➌ نفس میں پڑھنا اس سے مراد آواز نکالے بغیر زبان سے پڑھنا ہے، صرف ان الفاظ کا خیال اور تصور صحیح نہیں، اسے کسی طرح قراءت (پڑھنا) نہیں کہا جاتا۔ نیز یہ مسئلہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مذہب اور رائے محض نہیں۔ بلکہ ان کا استدلال صریح اور صحیح فرمان نبوی سے ہے۔
➍ سورہ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کرتے ہوئے صرف اسی کی تقسیم کی گئی ہے اور اس تقسیم میں بسم اللہ کو شمار نہیں کیا گیا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جزو نہیں ہے۔
➎ امام کے پیچھے ہونے کا اشکال آج کا نیا اشکال نہیں ہے بلکہ تابعین کے دور سے ہے، مگر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کے پڑھنے کا فتویٰ اور اس کی دلیل پیش فرما کر تمام اوہام کا ازالہ فرما دیا ہے۔
نیز آیت کریمہ:
«وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا» [اعراف۔ 104]
جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو کا مفہوم بھی واضح کر دیا کہ آہستہ سے پڑھو یعنی آواز نہ نکاؤ، اس میں انصات بھی ہے اور قرأت پر عمل بھی، نیز حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تفعلوا الا بام القران» یعنی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی قرأت کرو۔
➏ سورۃ فاتحہ نماز کی سب رکعات میں پڑھی جائے، جیسا کہ حضرت خلاد بن رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث «مسئي الصلواة» میں آیا کہ «ثم افعل ذلك فى صلوتك كلها» اور پوری نماز میں ایسا ہی کرو۔ [صحيح بخاري۔ حديث 793وصحيح مسلم حديث 397]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 821   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 971  
´دن کی نمازوں میں قرأت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہر نماز میں قرآت ہے، تو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سنایا ہم تمہیں سنا رہے ہیں، اور جسے آپ نے ہم سے چھپایا ہم تم سے چھپا رہے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 971]
971 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اشارہ ہے کہ نماز ظہر اور عصر میں آہستہ قرأت ہے۔ یہ نہیں کہ ان میں قرأت ہے ہی نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ دن کی نمازوں میں آہستہ قرأت کا راز شاید یہ ہے کہ دن میں شور و غل ہوتا ہے، جماعت بڑی ہو تو سماع مشکل ہو گا، جب کہ رات میں سکون ہوتا ہے، اس لیے رات کی نازوں میں قرأت بلند آواز سے ہوتی ہے۔ جس نماز میں زیادہ سکون ہوتا ہے، اس میں قرأت بھی طویل رکھی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ حدیث کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہر رکعت میں قرأت ہے اگرچہ پہلی دو میں قرأت اونچی کی جاتی ہے اور آخری رکعتوں میں آہستہ تاکہ نماز یادہ لمبی نہ ہو جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 971   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث838  
´امام کے پیچھے قرات کا حکم۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص و ناتمام ہے، ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا پھر بھی سورۃ فاتحہ پڑھوں) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 838]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ نماز کارکن ہے۔
مقتدی اور اکیلے دونوں پر فرض ہے۔
کہ سورۃ فاتحہ پڑھیں۔

(2)
نقص دو طرح کا ہوتا ہے۔
مثلا ایک انسان کا بازو یا پاؤں کٹ جائے تو انسان زندہ رہ سکتاہے۔
اگرچہ وہ ناقص ہوگا۔
لیکن اگر کسی کا سر کاٹ دیا جائے۔
یا دل نکال دیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔
سورہ فاتحہ نہ پڑھنے سے ہونے واے نقص کو عام طور پر پہلی قسم کا نقص قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ مرفوع حدیث سے ثابت ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا۔ (لَاتَجْزِي صَلَاةٌ لَايُقْرَاءُ فِيْهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)
جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے۔
وہ کفایت نہیں کرتی۔
 (صحیح ابن خذیمة، الصلاۃ، جماع أبواب الأذان والإقامة، با ب الذکر الدلیل علی أن الخداج۔
۔
۔
ھو النقص الذی لاتجزیٔ الصلواۃ معه، حدیث: 490)

 کفایت نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی پڑھی ہوئی نماز کافی نہیں دوبارہ پڑھنے پڑے گی۔

(3) (پڑھنا) (إِقْرَاء بِهَا فِي نَفْسِكَ)
دل میں پڑھ لے۔
اس کا مطلب زبان کو حرکت دیے بغیر دل میں سوچنا نہیں۔
کیونکہ اسے قراءت (پڑھنا)
نہیں کہا جاتا۔
بلکہ اس طرح پڑھنا مراد ہے۔
کہ ساتھ کھڑا ہوا نمازی آواز نہ سنے۔
اس طرح پڑھنا استماع اور انصات کے خلاف بھی نہیں ہے۔
جیسا کہ قراۃ فاتحہ خلف الامام کو استماع اور انصات کے خلاف باور کرا کے اس حکم نبویﷺسے انکار کیا جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 838   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:772  
772. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہر نماز میں قراءت کرنی چاہئے، پھر جن نمازوں میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بآواز بلند سنایا ہے ہم ان میں تمہیں بآواز بلند سناتے ہیں اور جن میں آپ نے ہم سے قراءت کو پشیدہ رکھا ہے، ان میں ہم بھی تم سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔ اور اگر تو سورہ فاتحہ سے زیادہ قراءت نہ کرے تو بھی کافی ہے اور اگر زیادہ پڑھ لے تو اچھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:772]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض روایات میں حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اس حدیث کو مرفوعاً بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ نماز قراءت کے بغیر نہیں ہوتی۔
مسند ابی عوانہ میں یہ روایت بایں الفاظ ہے کہ میں نے آپ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، بہر حال یہ روایت مرفوع کے حکم میں ہے۔
امام بخاری ؒ کا مدعا بایں طور ثابت ہے کہ ہر نماز میں قراءت ہے، نماز فجر بھی انھی نمازوں میں سے ہے، لہٰذا اس میں بھی قراءت ہے۔
روایت کے آخری حصے میں یہ اضافہ ہے کہ اگر تو امام ہے تو مقتدی حضرات کا خیال رکھتے ہوئے نماز میں تخفیف کر اور اگر تو اکیلا ہے تو جس قدر تو چاہے نماز کو لمبا کر اور ہر نماز میں قراءت ہے جیسا کہ مسند ابی یعلی میں ہے۔
(2)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جو شخص نماز میں فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی اور فاتحہ کے علاوہ زائد پڑھنا مستحب ہے۔
اگرچہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں فاتحہ کے علاوہ دیگر آیات کا پڑھنا بھی ضروری ہے۔
حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ کا یہی موقف ہے۔
بہر حال حضرت ابو ہریرہ ؓ کی اس روایت کا بظاہر تقاضا یہ ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور اس کے علاوہ یگر آیات کا تمام رکعات میں پڑھنا مستحب ہے، ضروری نہیں۔
(فتح الباري: 327/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 772   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.