الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
The Book of Al-Istisqa.
2. بَابُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ»:
2. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش کے کافروں پر بددعا کرنا کہ الٰہی ان کے سال ایسے کر دے جیسے یوسف علیہ السلام کے سال (قحط) کے گزرے ہیں۔
(2) Chapter. Invocation of the Prophet ﷺ: "O Allah! Send (drought-famine) years on them (pagans of Makkah) like the (drought-famine) years of (Prophet) Yusuf (Joseph)."
حدیث نمبر: 1007
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: كنا عند عبد الله، فقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم لما راى من الناس إدبارا، قال:" اللهم سبع كسبع يوسف، فاخذتهم سنة حصت كل شيء حتى اكلوا الجلود والميتة والجيف وينظر احدهم إلى السماء فيرى الدخان من الجوع"، فاتاه ابو سفيان، فقال: يا محمد إنك تامر بطاعة الله وبصلة الرحم، وإن قومك قد هلكوا فادع الله لهم، قال الله تعالى: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين إلى قوله إنكم عائدون يوم نبطش البطشة الكبرى سورة الدخان آية 10 - 16، فالبطشة: يوم بدر وقد مضت الدخان والبطشة واللزام وآية الروم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا، قَالَ:" اللَّهُمَّ سَبْعٌ كَسَبْعِ يُوسُفَ، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَالْجِيَفَ وَيَنْظُرَ أَحَدُهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى الدُّخَانَ مِنَ الْجُوعِ"، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى سورة الدخان آية 10 - 16، فَالْبَطْشَةُ: يَوْمَ بَدْرٍ وَقَدْ مَضَتِ الدُّخَانُ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَآيَةُ الرُّومِ.
ہم سے امام حمیدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، ان سے عبداللہ بن مسعود نے (دوسری سند) ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے منصور بن مسعود بن معتمر سے بیان کیا، اور ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کفار قریش کی سرکشی دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی «اللهم سبع كسبع يوسف» کہ اے اللہ! سات برس کا قحط ان پر بھیج جیسے یوسف علیہ السلام کے وقت میں بھیجا تھا چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز تباہ ہو گئی اور لوگوں نے چمڑے اور مردار تک کھا لیے۔ بھوک کی شدت کا یہ عالم تھا کہ آسمان کی طرف نظر اٹھائی جاتی تو دھویں کی طرح معلوم ہوتا تھا آخر مجبور ہو کر ابوسفیان حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ لوگوں کو اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اب تو آپ ہی کی قوم برباد ہو رہی ہے، اس لیے آپ اللہ سے ان کے حق میں دعا کیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن کا انتظار کر جب آسمان صاف دھواں نظر آئے گا آیت «انکم عائدون» تک (نیز) جب ہم سختی سے ان کی گرفت کریں گے (کفار کی) سخت گرفت بدر کی لڑائی میں ہوئی۔ دھویں کا بھی معاملہ گزر چکا (جب سخت قحط پڑا تھا) جس میں پکڑ اور قید کا ذکر ہے وہ سب ہو چکے اسی طرح سورۃ الروم کی آیت میں جو ذکر ہے وہ بھی ہو چکا۔

Narrated Masruq: We were with `Abdullah and he said, "When the Prophet saw the refusal of the people to accept Islam he said, "O Allah! Send (famine) years on them for (seven years) like the seven years (of famine during the time) of (Prophet) Joseph." So famine overtook them for one year and destroyed every kind of life to such an extent that the people started eating hides, carcasses and rotten dead animals. Whenever one of them looked towards the sky, he would (imagine himself to) see smoke because of hunger. So Abu Sufyan went to the Prophet and said, "O Muhammad! You order people to obey Allah and to keep good relations with kith and kin. No doubt the people of your tribe are dying, so please pray to Allah for them." So Allah revealed: "Then watch you For the day that The sky will bring forth a kind Of smoke Plainly visible ... Verily! You will return (to disbelief) On the day when We shall seize You with a mighty grasp. (44.10-16) Ibn Mas`ud added, "Al-Batsha (i.e. grasp) happened in the battle of Badr and no doubt smoke, Al-Batsha, Al-Lizam, and the verse of Surat Ar-Rum have all passed .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 17, Number 121


   صحيح البخاري1007عبد الله بن مسعوداللهم سبع كسبع يوسف أخذتهم سنة حصت كل شيء حتى أكلوا الجلود والميتة والجيف وينظر أحدهم إلى السماء فيرى الدخان من الجوع
   صحيح البخاري4693عبد الله بن مسعوداللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4821عبد الله بن مسعوددعا عليهم بسنين كسني يوسف أصابهم قحط وجهد حتى أكلوا العظام فجعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى ما بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد فأنزل الله فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب أليم قال فأتي رسول الله فقيل له يا رسول الله استسق الله
   صحيح البخاري4809عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4823عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4774عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف أخذتهم سنة حتى هلكوا فيها وأكلوا الميتة والعظام ويرى الرجل ما بين السماء والأرض كهيئة الدخان فجاءه أبو سفيان فقال يا محمد جئت تأمرنا بصلة الرحم وإن قومك قد هلكوا فادع الله فقرأ فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين
   صحيح البخاري4822عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4824عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح مسلم7067عبد الله بن مسعوددعا عليهم بسنين كسني يوسف أصابهم قحط وجهد حتى جعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد وحتى أكلوا العظام فأتى النبي رجل فقال يا رسول الله استغفر ال
   جامع الترمذي3254عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   مشكوة المصابيح272عبد الله بن مسعودقل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين
   مسندالحميدي116عبد الله بن مسعوداللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 272  
´لاعلمی کا اعتراف کوئی عیب نہیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أعلم فَإِن من الْعلم أَن يَقُول لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ (قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنا من المتكلفين) . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگو! جو شخص کسی بات کو جانتا ہو تو اسے بیان کر دینا چاہئے۔ اور جو نہیں جانتا (اس سے وہ دریافت کیا گیا) تو اسے یہ کہنا چاہئے «الله اعلم» اللہ خوب جانتا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا: «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» [بخاري و مسلم] ۔ یعنی آپ فرما دیجئے کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجرت نہیں طلب کرتا اور نہ میں بات بنانے والوں میں سے ہوں۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 272]

تخریج:
[صحيح بخاري 4809]، [صحيح مسلم 7066]

فقہ الحدیث:
➊ جس مسئلے کا علم نہ ہو تو صاف بتا دینا چاہئے کہ مجھے پتا نہیں ہے یا میں نہیں جانتا اور خواہ مخواہ تکلف کر کے اپنا دماغی و اختراعی فتویٰ جاری نہیں کرنا چاہئے۔
➋ کتاب و سنت، اجماع اور آثار سلف صالحین کی پیروی میں ہی نجات ہے۔
◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ اور جماعت اہل حدیث کے اعیان و ارکان (1322ھ) میں لاہور شہر میں جمع ہوئے، اس اجلاس میں اس امر پر بحث ہوئی کہ اہل حدیث کے نام سے کون شخص موسوم ہو سکتا ہے؟ طویل بحث و مباحثہ کے بعد یہ قرار دیا گیا کہ اہل حدیث وہ ہے جو اپنا دستور العمل و الاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کو بناوے اور جب اس کے نزدیک ثابت و متحقق ہو جائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یا اس سے قوی نہیں پایا جاتا تو وہ ان احادیث و آثار پر عمل کرنے کو مستعد ہو جاوے اور اس عمل سے اس کو کسی امام یا مجتہد کا قول بلا دلیل مانع نہ ہو۔ [تاريخ اهلِ حديث ج1 ص151، ازقلم ڈاكٹر محمد بهاؤالدين]
◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اس معیار کے دوسرے درجہ پر جہاں صحیح حدیث نبوی نہ پائی جاتی ہو، دوسرا معیار سلفیہ آثار صحابہ کبار و تابعین ابرار و محدثین اخیار ہیں، جس مسئلہ اعتقادیہ و عملیہ میں صریح سنت نبوی کا علم نہ ہو، اس مسئلے میں اہل حدیث کا متمسک آثار سلفیہ ہوتے ہیں اور وہی مذہب اہل حدیث کہلاتا ہے۔ [تاريخ اهلحديث ج 1 ص 157]
◄ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ نے فرمایا:
خلاصہ یہ کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں۔‏‏‏‏ [فتاويٰ اهلحديث ج 1 ص 111]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 272   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3254  
´سورۃ الدخان سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: ایک قصہ گو (واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا، جس سے کافروں کے کان بند ہو جائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہو جائے گا۔ مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہو گئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو تو اسے بتانی چاہیئے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے «اللہ اعلم» اللہ بہتر جانتا ہے کہنا چاہیئے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3254]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کہہ دو میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں،
اور میں خود سے باتیں بنانے والا بھی نہیں ہوں (ص: 86)

2؎:
جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا یہ (دھواں) لوگوں کو ڈھانپ لے گا،
یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے (الدخان: 10)

3؎:
اے ہمارے رب! ہم سے عذاب کو ٹال دے ہم ایمان لانے والے ہیں (الدخان: 12)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3254   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1007  
1007. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ نے لوگوں کی اسلام سے سرتابی دیکھی تو بددعا کی: اے اللہ! انہیں سات برس تک قحط سالی میں مبتلا کر دے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط پڑا تھا۔ چنانچہ قحط نے انہیں ایسا دبوچا کہ ہر چیز نیست و نابود ہو گئی یہاں تک کہ لوگوں نے چمڑے، مردار اور گلے سڑے جانور کھانے شروع کر دیے۔ اور ان میں سے اگر کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کی وجہ سے اسے دھواں سا دکھائی دیتا۔ آخر ابوسفیان نے آ کر آپ کی خدمت میں عرض کی: اے محمد! آپ اللہ کی اطاعت اور اقرباء پروری کا حکم دیتے ہیں، آپ کی قوم مری جا رہی ہے، آپ ان کے لیے اللہ سے دعا فرمائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ ﴿١٠﴾ ) تا ﴿يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ﴾ اے نبی! اس دن کا انتظار کرو جب آسمان سے ایک صاف دھواں ظاہر ہو گا اس فرمان الہٰی تک جب ہم انہیں سختی سے پکڑیں گے۔ حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1007]
حدیث حاشیہ:
یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے۔
حضور اکرم ﷺ مکہ میں تشریف رکھتے تھے۔
قحط کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قحط زدہ علاقے ویرانے بن گئے تھے۔
ابو سفیان نے اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور صلہ رحمی کا واسطہ دے کر رحم کی درخواست کی۔
حضور اکرم ﷺ نے پھر دعا فرمائی اور قحط ختم ہوا یہ حدیث امام بخاری ؒ استسقاء میں اس لیے لائے کہ جیسے مسلمانوں کے لیے بارش کی دعا کرنا مسنون ہے، اسی طرح کافروں پر قحط کی بد دعا کرنا جائز ہے۔
روایت میں جن مسلمان مظلوموں کا ذکر ہے یہ سب کافروں کی قید میں تھے۔
آپ کی دعا کی برکت سے اللہ نے ان کو چھوڑا دیا اور وہ مدینہ میں آپ کے پاس آگئے۔
سات سال تک حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط پڑا تھا جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔
غفار اور اسلم یہ دو قومیں مدینہ کے ارد گرد رہتی تھیں۔
غفار قدیم سے مسلمان تھے اور اسلم نے آپ سے صلح کر لی تھی۔
پوری آیت کا ترجمہ یہ ہےاس دن کا منتظر رہ جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لے کر آئے گا جو لوگوں کو گھیر ے گا۔
یہی تکلیف کا عذاب ہے اس وقت لوگ کہیں گے مالک ہمارے!یہ عذاب ہم پرسے اٹھا دے ہم ایمان لاتے ہیں آخرتک۔
یہاں سورۃ دخان میں بطش اور دخان کا ذکر ہے۔
اور سورۃ فرقان میں:
﴿فسوف یکون لزاما﴾ (الفرقان: 77)
لزام یعنی کافروں کے لیے قید ہونے کا ذکر ہے۔
یہ تینوں باتیں آپ کے عہد میں ہی پوری ہوگئی تھیں۔
دخان سے مراد قحط تھا جو اہل مکہ پر نازل ہوا جس میں بھوک کی وجہ سے آسمان دھواں نظر آتا تھا اور (بطشة الکبری) (بڑی پکڑ)
سے کافروں کا جنگ بدر میں مارا جانا مراد ہے اور لزام ان کا قید ہونا۔
سورۃ روم کی آیت میں یہ بیان تھا کہ رومی کافر ایرانیوں سے مغلوب ہوگئے لیکن چند سال میں رومی پھر غالب ہو جائیں گے۔
یہ بھی ہو چکا۔
آئندہ حدیث میں شعر (ستسقي الغمام الخ)
ابو طالب کے ایک طویل قصیدے کا ہے جو قصیدہ ایک سودس (110)
اشعار پر مشتمل ہے جسے ابو طالب نے آنحضرت ﷺ کی شان میں کہا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1007   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1007  
1007. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ نے لوگوں کی اسلام سے سرتابی دیکھی تو بددعا کی: اے اللہ! انہیں سات برس تک قحط سالی میں مبتلا کر دے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط پڑا تھا۔ چنانچہ قحط نے انہیں ایسا دبوچا کہ ہر چیز نیست و نابود ہو گئی یہاں تک کہ لوگوں نے چمڑے، مردار اور گلے سڑے جانور کھانے شروع کر دیے۔ اور ان میں سے اگر کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کی وجہ سے اسے دھواں سا دکھائی دیتا۔ آخر ابوسفیان نے آ کر آپ کی خدمت میں عرض کی: اے محمد! آپ اللہ کی اطاعت اور اقرباء پروری کا حکم دیتے ہیں، آپ کی قوم مری جا رہی ہے، آپ ان کے لیے اللہ سے دعا فرمائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ ﴿١٠﴾ ) تا ﴿يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ﴾ اے نبی! اس دن کا انتظار کرو جب آسمان سے ایک صاف دھواں ظاہر ہو گا اس فرمان الہٰی تک جب ہم انہیں سختی سے پکڑیں گے۔ حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1007]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جن چار چیزوں کے وقوع پذیر ہونے کا ذکر فرمایا ہے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ ﴿الم ﴿١﴾ غُلِبَتِ الرُّومُ ﴿٢﴾ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ﴿٣﴾ )
الم۔
رومی مغلوب ہو گئے، قریبی زمین میں، تاہم وہ مغلوب ہونے کے بعد پھر غالب آ جائیں گے۔
(الروم1: 30۔
3)

اس کے متعلق مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ واقعہ گزر چکا ہے۔
٭ ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ ﴿١٠﴾ )
آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان سے صاف دھواں ظاہر ہو گا۔
(الدخان: 10: 44)
جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دھواں علامات قیامت سے ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حقیقی دھواں نہیں بلکہ وہ ہے جو قریش کو قحط کے زمانے میں بھوک کی وجہ سے محسوس ہوتا تھا۔
٭ ﴿يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ﴾ جس دن ہم بڑی سخت گرفت کریں گے۔
(الدخان: 16: 44)
جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد قیامت کا دن ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس سے مراد بدر کے دن کفار کا شکست کھانا اور قتل ہونا ہے۔
٭ ﴿فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا ﴿٧٧﴾ )
تم نے اس کی تکذیب کر دی ہے، اب جلد ہی اس کی سزا پاؤ گے۔
(الفرقان77: 25)
جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد کفار کو پکڑ کر جہنم میں ڈالنا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف ہے کہ اس سے مراد بدر کے موقع پر کافروں کو قید کرنا ہے جو گزر چکا ہے۔
ان کی تفصیل آئندہ آیات کی تفسیر میں آئے گی۔
بإذن اللہ۔
(2)
اس حدیث میں ہجرت سے پہلے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
اس میں قحط کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قحط شدہ علاقے ویرانے کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔
بالآخر رسول اللہ ﷺ نے ابو سفیان ؓ کی درخواست پر دعا فرمائی، تب قحط ختم ہوا۔
(3)
یہ حدیث امام بخاری ؒ نے کتاب الاستسقاء میں اس لیے بیان کی ہے کہ جیسے مسلمانوں کے لیے بارش کی دعا کرنا مسنون ہے، ویسے ہی کافروں پر قحط اور خشک سالی کی دعا کرنا بھی مشروع ہے، لیکن جن کفار سے معاہدۂ صلح ہو ان کے لیے بددعا کرنا جائز نہیں الا یہ کہ وہ کسی عہد شکنی کے مرتکب ہوں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1007   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.