الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
4. بَابُ قَوْلِهِ: {وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ} :
4. باب: آیت کی تفسیر ”اور جس عورت کے گھر میں وہ تھے وہ اپنا مطلب نکالنے کو انہیں پھسلانے لگی اور دروازے بند کر لیے اور بولی کہ بس آ جا“۔
(4) Chapter. The Statement of Allah: “And she, in whose house he was, sought to seduce him (to do an evil act). She closed the doors and said, ’Come on, O you.’ He said: ’I seek refuge in Allah (or Allah forbid)’...” (V.12:23)
حدیث نمبر: 4693
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن مسلم، عن مسروق، عن عبد الله رضي الله عنه: ان قريشا لما ابطئوا على النبي صلى الله عليه وسلم بالإسلام، قال:" اللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف"، فاصابتهم سنة حصت كل شيء، حتى اكلوا العظام، حتى جعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى بينه وبينها مثل الدخان، قال الله: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين سورة الدخان آية 10، قال الله: إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون سورة الدخان آية 15، افيكشف عنهم العذاب يوم القيامة، وقد مضى الدخان، ومضت البطشة؟.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا أَبْطَئُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْإِسْلَامِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ، حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا مِثْلَ الدُّخَانِ، قَالَ اللَّهُ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10، قَالَ اللَّهُ: إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15، أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ، وَمَضَتِ الْبَطْشَةُ؟.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ قریش نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کا سا قحط نازل فرما۔ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور وہ ہڈیوں کے کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ لوگوں کی اس وقت یہ کیفیت تھی کہ آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھتے تھے تو بھوک و پیاس کی شدت سے دھواں سا نظر آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين‏» تو آپ انتظار کیجئے اس روز کا جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔ اور فرمایا «إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون‏» بیشک ہم اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی (اپنی پہلی حالت پر) لوٹ آؤ گے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ آخرت کا عذاب کافروں سے ٹلنے والا نہیں ہے۔

Narrated `Abdullah (bin Mas`ud): When the Prophet realized that the Quraish had delayed in embracing Islam, he said, "O Allah! Protect me against their evil by afflicting them with seven (years of famine) like the seven years of (Prophet) Joseph." So they were struck with a year of famine that destroyed everything till they had to eat bones, and till a man would look towards the sky and see something like smoke between him and it. Allah said:-- "Then watch you (O Muhammad) for the day when the sky will produce a kind of smoke plainly visible." (44.10) And Allah further said:-- "Verily! We shall withdraw the punishment a little, Verily you will return (to disbelief)." (44.15) (Will Allah relieve them from torture on the Day of Resurrection?) (The punishment of) the smoke had passed and Al-Baltsha (the destruction of the pagans in the Badr battle) had passed too.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 215


   صحيح البخاري1007عبد الله بن مسعوداللهم سبع كسبع يوسف أخذتهم سنة حصت كل شيء حتى أكلوا الجلود والميتة والجيف وينظر أحدهم إلى السماء فيرى الدخان من الجوع
   صحيح البخاري4693عبد الله بن مسعوداللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4821عبد الله بن مسعوددعا عليهم بسنين كسني يوسف أصابهم قحط وجهد حتى أكلوا العظام فجعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى ما بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد فأنزل الله فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب أليم قال فأتي رسول الله فقيل له يا رسول الله استسق الله
   صحيح البخاري4809عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4823عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4774عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف أخذتهم سنة حتى هلكوا فيها وأكلوا الميتة والعظام ويرى الرجل ما بين السماء والأرض كهيئة الدخان فجاءه أبو سفيان فقال يا محمد جئت تأمرنا بصلة الرحم وإن قومك قد هلكوا فادع الله فقرأ فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين
   صحيح البخاري4822عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4824عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح مسلم7067عبد الله بن مسعوددعا عليهم بسنين كسني يوسف أصابهم قحط وجهد حتى جعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد وحتى أكلوا العظام فأتى النبي رجل فقال يا رسول الله استغفر ال
   جامع الترمذي3254عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   مشكوة المصابيح272عبد الله بن مسعودقل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين
   مسندالحميدي116عبد الله بن مسعوداللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 272  
´لاعلمی کا اعتراف کوئی عیب نہیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أعلم فَإِن من الْعلم أَن يَقُول لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ (قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنا من المتكلفين) . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگو! جو شخص کسی بات کو جانتا ہو تو اسے بیان کر دینا چاہئے۔ اور جو نہیں جانتا (اس سے وہ دریافت کیا گیا) تو اسے یہ کہنا چاہئے «الله اعلم» اللہ خوب جانتا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا: «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» [بخاري و مسلم] ۔ یعنی آپ فرما دیجئے کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجرت نہیں طلب کرتا اور نہ میں بات بنانے والوں میں سے ہوں۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 272]

تخریج:
[صحيح بخاري 4809]، [صحيح مسلم 7066]

فقہ الحدیث:
➊ جس مسئلے کا علم نہ ہو تو صاف بتا دینا چاہئے کہ مجھے پتا نہیں ہے یا میں نہیں جانتا اور خواہ مخواہ تکلف کر کے اپنا دماغی و اختراعی فتویٰ جاری نہیں کرنا چاہئے۔
➋ کتاب و سنت، اجماع اور آثار سلف صالحین کی پیروی میں ہی نجات ہے۔
◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ اور جماعت اہل حدیث کے اعیان و ارکان (1322ھ) میں لاہور شہر میں جمع ہوئے، اس اجلاس میں اس امر پر بحث ہوئی کہ اہل حدیث کے نام سے کون شخص موسوم ہو سکتا ہے؟ طویل بحث و مباحثہ کے بعد یہ قرار دیا گیا کہ اہل حدیث وہ ہے جو اپنا دستور العمل و الاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کو بناوے اور جب اس کے نزدیک ثابت و متحقق ہو جائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یا اس سے قوی نہیں پایا جاتا تو وہ ان احادیث و آثار پر عمل کرنے کو مستعد ہو جاوے اور اس عمل سے اس کو کسی امام یا مجتہد کا قول بلا دلیل مانع نہ ہو۔ [تاريخ اهلِ حديث ج1 ص151، ازقلم ڈاكٹر محمد بهاؤالدين]
◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اس معیار کے دوسرے درجہ پر جہاں صحیح حدیث نبوی نہ پائی جاتی ہو، دوسرا معیار سلفیہ آثار صحابہ کبار و تابعین ابرار و محدثین اخیار ہیں، جس مسئلہ اعتقادیہ و عملیہ میں صریح سنت نبوی کا علم نہ ہو، اس مسئلے میں اہل حدیث کا متمسک آثار سلفیہ ہوتے ہیں اور وہی مذہب اہل حدیث کہلاتا ہے۔ [تاريخ اهلحديث ج 1 ص 157]
◄ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ نے فرمایا:
خلاصہ یہ کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں۔‏‏‏‏ [فتاويٰ اهلحديث ج 1 ص 111]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 272   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3254  
´سورۃ الدخان سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: ایک قصہ گو (واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا، جس سے کافروں کے کان بند ہو جائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہو جائے گا۔ مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہو گئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو تو اسے بتانی چاہیئے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے «اللہ اعلم» اللہ بہتر جانتا ہے کہنا چاہیئے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3254]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کہہ دو میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں،
اور میں خود سے باتیں بنانے والا بھی نہیں ہوں (ص: 86)

2؎:
جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا یہ (دھواں) لوگوں کو ڈھانپ لے گا،
یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے (الدخان: 10)

3؎:
اے ہمارے رب! ہم سے عذاب کو ٹال دے ہم ایمان لانے والے ہیں (الدخان: 12)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3254   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4693  
4693. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے خلاف بد دعا کی: اے اللہ! ان پر حضرت یوسف ؑ کے زمانے کا سا قحط نازل فرما۔ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز ملیا میٹ ہو گئی، کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور اہل مکہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے تھے، حتی کہ ان کی یہ کیفیت ہو گئی کہ کوئی شخص آسمان کی طرف نظر اٹھاتا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: آپ اس دن کے منتظر رہیں جبکہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔ اور فرمایا: بےشک ہم عذاب کو تھوڑا سا دور کر دیں گے تو تم پھر اپنی اسی حالت پر آ جاؤ گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ قیامت کے دن کا عذاب تو ٹلنے والا نہیں۔ الغرض دخان اور بطشہ جن کا ذکر سورہ دخان میں ہے، وہ آ چکا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4693]
حدیث حاشیہ:
اس روایت کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس میںحضرت یوسف ؑ کا ذکر ہے، قسطلانی نے کہا اس حدیث کی دوسری روایت میں یوں ہے کہ جب قریش پر قحط کی سختی ہوئی تو ابو سفیان آنحضرت ﷺ کے پاس آیا کہنے لگا آپ کنبہ پروری کا حکم دیتے ہیں اور آپ کی قوم کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کے لئے دعا فرمایئے۔
آپ نے دعا کی اور قریش کا قصور معاف کر دیا جیسے حضرت یوسف ؑ نے بھائیوں کا قصور معاف کردیا تھا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4693   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4693  
4693. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے خلاف بد دعا کی: اے اللہ! ان پر حضرت یوسف ؑ کے زمانے کا سا قحط نازل فرما۔ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز ملیا میٹ ہو گئی، کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور اہل مکہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے تھے، حتی کہ ان کی یہ کیفیت ہو گئی کہ کوئی شخص آسمان کی طرف نظر اٹھاتا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: آپ اس دن کے منتظر رہیں جبکہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔ اور فرمایا: بےشک ہم عذاب کو تھوڑا سا دور کر دیں گے تو تم پھر اپنی اسی حالت پر آ جاؤ گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ قیامت کے دن کا عذاب تو ٹلنے والا نہیں۔ الغرض دخان اور بطشہ جن کا ذکر سورہ دخان میں ہے، وہ آ چکا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4693]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایات میں ہے کہ جب قریش پر قحط کی سختی ہوئی تو ابو سفیان نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی:
آپ کنبہ پروری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور آپ کی قوم کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کے لیے دعا فرمائیں کہ قحط سالی کا عذاب ٹل جائے۔
(صحیح البخاری، الاستسقاء، حدیث: 1007)
آپ نے دعا فرمائی اور قریش کا قصور معاف کردیا جیسے یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں اور عزیز مصر کی بیوی کو معاف کردیا تھا۔
عنوان اور اس حدیث میں یہی مناسبت ہے۔
(فتح الباری: 463/8)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4693   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.