الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
6. بَابُ إِطْعَامُ الطَّعَامِ مِنَ الإِسْلاَمِ:
6. باب: کھانا کھلانا (بھوکے ناداروں کو) بھی اسلام میں داخل ہے۔
(6) Chapter. To feed (others) is a part of Islam.
حدیث نمبر: 12
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمرو بن خالد، قال: حدثنا الليث، عن، يزيد، عن ابي الخير، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، ان رجلا سالا النبي صلى الله عليه وسلم، اي الإسلام خير؟ قال:" تطعم الطعام، وتقرا السلام على من عرفت ومن لم تعرف".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ، يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ:" تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ".
ہم سے حدیث بیان کی عمرو بن خالد نے، ان کو لیث نے، وہ روایت کرتے ہیں یزید سے، وہ ابوالخیر سے، وہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے کہ ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔


Hum se Hadees bayan ki Amr bin Khalid ne, un ko Laith ne, woh riwayat karte hain Yazeed se, woh Abul Khair se, woh Abdullah bin Amr bin Aas Radhiallahu Anhuma se ke ek din ek aadmi ne Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam se poocha ke kaun sa Islam behtar hai? Farmaaya ke tum khaana khilaao, aur jis ko pehchaano us ko bhi aur jis ko na pehchaano us ko bhi, al-gharz sab ko salaam karo.

Narrated 'Abdullah bin 'Amr: A man asked the Prophet , "What sort of deeds or (what qualities of) Islam are good?" The Prophet replied, 'To feed (the poor) and greet those whom you know and those whom you do not Know (See Hadith No. 27).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 12


   صحيح البخاري28عبد الله بن عمروتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف
   صحيح البخاري6236عبد الله بن عمروتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت وعلى من لم تعرف
   صحيح البخاري12عبد الله بن عمروتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف
   صحيح مسلم160عبد الله بن عمروتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف
   سنن أبي داود5194عبد الله بن عمروتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف
   سنن النسائى الصغرى5003عبد الله بن عمروتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف
   سنن ابن ماجه3253عبد الله بن عمروتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 12  
´بہتر و افضل اسلام`
«. . . أَنَّ رَجُلًا سَأَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ . . .»
. . . ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 12]

فہم الحدیث:
ان احادیث میں بہتر و افضل اسلام کا ذکر ہے لیکن ایک میں جس عمل کو افضل کہا گیا ہے دوسری میں اس کے علاوہ کسی اور کو بہتر کہا گیا ہے۔ اس اختلاف کا سبب اہل علم نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل یا حالات کے مطابق یہ فرامین ارشاد فرمائے ہیں، مثلاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل میں کسی عمل کی کوتاہی دیکھی تو اس کے سامنے اسی کو افضل قرار دے دیا اور یہ افضلیت اس خاص شخص کی نسبت سے تھی نہ کہ تمام مسلمانوں کے لیے۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حالات کسی خاص عمل کے متقاضی ہیں تو آپ نے سائل کے جواب میں اسی عمل کو افضل قرار دے دیا۔ «والله اعلم»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 25   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 12  
´ہر مسلمان کو سلام کرنا`
«. . . أَنَّ رَجُلًا سَأَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ . . .»
. . . ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 12]

تشریح:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «توكل الطعام» کی بجائے «تطعم الطعام» فرمایا۔ اس لیے کہ «اطعام» میں کھانا کھلانا، پانی پلانا، کسی چیز کا چکھانا اور کسی کی ضیافت کرنا اور علاوہ ازیں کچھ بطور عطا بخشش کرنا وغیرہ یہ سب داخل ہیں۔ ہر مسلمان کو سلام کرنا خواہ وہ آشنا ہو یا بیگانہ، یہ اس لیے کہ جملہ مومنین باہمی طور پر بھائی بھائی ہیں، وہ کہیں کے بھی باشندے ہوں، کسی قوم سے ان کا تعلق ہو مگر اسلامی رشتہ اور کلمہ توحید کے تعلق سے سب بھائی بھائی ہیں۔ «اطعام» «طعام» مکارم مالیہ سے اور اسلام مکارم بدنیہ سے متعلق ہیں۔ گویا مالی وبدنی طور پر جس قدر بھی مکارم اخلاق ہیں ان سب کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔ اس لیے یہ بھی ثابت ہوا کہ جملہ عبادات داخل اسلام ہیں اور اسلام و ایمان نتائج کے اعتبارسے ایک ہی چیز ہے اور یہ کہ جس میں جس قدربھی مکارم اخلاق بدنی و مالی ہوں گے، اس کا ایمان و اسلام اتنا ہی ترقی یافتہ ہو گا۔ پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں ان کا یہ قول سراسر ناقابل التفات ہے۔

اس روایت کی سند میں جس قدر راوی واقع ہوئے ہیں وہ سب مصری ہیں اور سب جلیل القدر ائمہ اسلام ہیں۔ اس حدیث کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اسی کتاب الایمان میں آگے چل کر ایک اور جگہ لائے ہیں۔ اور باب الاستیذان میں بھی اس کو نقل کیا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اور امام نسائی رحمہ اللہ نے اس کو کتاب الایمان میں نقل کیا ہے اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے باب الادب میں اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے باب الاطعمہ میں۔

غرباء و مساکین کو کھانا کھلانا اسلام میں ایک مہتم بالشان نیکی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں جنتی لوگوں کے ذکرمیں ہے «ويطعمون الطعام على حبه مسكينا و يتيما و اسيرا» [الدهر: 8] نیک بندے وہ ہیں جو اللہ کی محبت کے لیے مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اسلام کا منشا یہ ہے کہ بنی نوع انسان میں بھوک و تنگ دستی کا اتنا مقابلہ کیا جائے کہ کوئی بھی انسان بھوک کا شکار نہ ہو سکے اور سلامتی وامن کو اتنا وسیع کیا جائے کہ بدامنی کا ایک معمولی سا خدشہ بھی باقی نہ رہ جائے۔ اسلام کا یہ مشن خلفائے راشدین کے زمانہ خیرمیں پورا ہوا اور اب بھی جب اللہ کو منظور ہو گا یہ مشن پورا ہو گا۔ تاہم جزوی طور پر ہر مسلمان کے مذہبی فرائض میں سے ہے کہ بھوکوں کی خبر لے اور بدامنی کے خلاف ہر وقت جہاد کرتا رہے۔ یہی اسلام کی حقیقی غرض و غایت ہے۔
❀ اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی ٭ یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 12   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 28  
´اعمال صالحہ بھی ایمان میں شامل ہیں`
«. . . أَنَّ رَجُلًا سَأَل رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ:" تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ . . .»
. . . ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کھانا کھلائے اور ہر شخص کو سلام کرے خواہ اس کو تو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 28]

تشریح:
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں بھی مرجیہ کی تردید فرما رہے ہیں کہ اسلام کے معمولی اعمال صالحہ کو بھی ایمان میں شمار کیا گیا ہے۔ لہٰذا مرجیہ کا مذہب باطل ہے۔ کھانا کھلانا اور اہل اسلام کو عام طور پر سلام کرنا الغرض جملہ اعمال صالحہ کو ایمان کہا گیا ہے اور حقیقی اسلام بھی یہی ہے۔ ان اعمال صالحہ کے کم و بیش ہونے پر ایمان کی کمی و بیشی منحصر ہے۔

اپنے نفس سے انصاف کرنا یعنی اس کے اعمال کا جائزہ لیتے رہنا اور حقوق اللہ و حقوق العباد کے بارے میں اس کا محاسبہ کرتے رہنا مراد ہے اور اللہ کی عنایات کا شکر ادا کرنا اور ا س کی اطاعت و عبادت میں کوتاہی نہ کرنا بھی نفس سے انصاف کرنے میں داخل ہے۔ نیز ہر وقت، ہر حال میں انصاف مدنظر رکھنا بھی اسی ذیل میں شامل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 28   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3253  
´کھانا کھلانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا اسلام بہتر ہے ۱؎؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھلانا، ہر شخص کو سلام کرنا، چاہے اس کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3253]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
ہرو اقف اور ناواقف کو سلام کرنے کا مطلب عزیز دوست اور اجنبی یعنی ہر مسلمان کو سلام کرنا ہے۔
جس شخص کےبارے میں معلوم ہو کہ وہ غیر مسلم ہے اسے سلام نہیں کرنا چاہیے۔
یہ غیر مسلم کا فرض ہے کہ مسلمان کوسلام کرنے میں پہل کرے۔
جب وہ سلام کرے تو مسلمان کو چاہیے کہ اسے سلام کے جواب میں وعلیکم کہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3253   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:12  
12. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا، کون سا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا: تم کھانا کھلاؤ اور سب کو سلام کرو، (عام اس سے کہ) تم اسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:12]
حدیث حاشیہ:

اس سے پہلے مسلمان کی شان یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ تمام اہل اسلام کا خیر خواہ ہوتا ہے اور اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
اس حدیث میں ایصال نفع کا ذکر ہے کھانا کھلانا ہاتھ سے اور سلام کرنا زبان سے نفع پہنچانا ہے ایک مسلمان کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی خیر خواہی کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے۔

اطعام طعام میں کھانا کھلانا، پانی پلانا اور کسی کی ضیافت کرنا شامل ہیں۔
اس کا تعلق مالی مکارم سے ہے۔
اسی طرح مسلمان کو سلام کرنا، خواہ آشنا ہو یا بیگانہ، بدنی مکارم سے متعلق ہے، گویا مالی اور بدنی طور پر جس قدر بھی مکارم اخلاق ہیں ان سب کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ اسلام اورایمان نتیجے کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہے نیز جس انسان میں مکارم اخلاق، خواہ مالی ہوں یا بدنی، زیادہ ہوں گے اس کا ایمان اتنا ہی ترقی یافتہ ہوگا۔
اس سے مرجیہ کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اعمال کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں، نہ ان سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور نہ ان کے چھوڑنے سے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے۔

اطعام طعام میں مسلم یا غیر مسلم کی تخصیص نہیں ہے بلکہ جانوروں تک کے کھلانے میں اجر وثواب ہوتا ہے جیسا کہ بکثرت احادیث میں اس کی صراحت ہے، البتہ مسلمان کو کھلانے میں اجرزیادہ ہوگا، وہاں سلام کرنے میں مسلمان کی تخصیص کی جائے گی، کیونکہ کفار اور منکرین حق کو سلام کہنا درست نہیں ہے۔
اہل کتاب کو پہلے سلام نہیں کہنا چاہیے۔
اگر وہ سلام کہیں تو صرف وعلیکم سے جواب دیاجائے۔

ایک ہی سوال کے مختلف جوابات اس بنا پر ہیں کہ سائل کے احوال مختلف ہوتے ہیں، اس کی ضرورت کو دیکھ کر جواب دیاجاتا ہے مثلاً:
ایک شخص نماز کا پابند ہے روزے بھی رکھتا ہے لیکن طبیعت میں ذرا بخل ہے تو اس شخص کو ایسا عمل بتایا جائے گا جو اس کمی کا علاج کرسکے۔
اس طرح ایک شخص مہمان نواز ہے، رحمدل بھی ہے لیکن نماز میں کوتاہی کرتا ہے تو اسے نماز کے متعلق تلقین کی جائے گی کہ یہ افضل عمل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ روحانی مربی ہیں، اس لیے جس عمل کی کمی دیکھتے ہیں اسی کی ترغیب دلائی ہے۔

[أَيُّ الإِسْلامِ أَفْضَلُ] اور [أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ] میں افضل اورخیراگرچہ دونوں اسم تفضیل کے صیغے ہیں، تاہم افضل کے معنی کثرت ثواب کے ہیں جو قلت کے مقابلے میں ہے اور خیر کے معنی نفع ہیں جو شر کے مقابلے میں ہے۔
پہلا سوال مقدار سے متعلق ہے جبکہ دوسرے سوال کاتعلق میعار سے ہے۔
(شرح الکرماني: 92/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 12   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.