الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
39. بَابُ ذِكْرِ الْحَجَّامِ:
39. باب: پچھنا لگانے والے کا بیان۔
(39) Chapter. The mentioning of Al-Hajjam (i.e., the one who practises cupping).
حدیث نمبر: 2103
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا خالد هو ابن عبد الله، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال:" احتجم النبي صلى الله عليه وسلم، واعطى الذي حجمه، ولو كان حراما لم يعطه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَعْطَى الَّذِي حَجَمَهُ، وَلَوْ كَانَ حَرَامًا لَمْ يُعْطِهِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد نے جو عبداللہ کے بیٹے ہیں بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور جس نے پچھنا لگایا اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجرت بھی دی، اگر اس کی اجرت حرام ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ہرگز نہ دیتے۔

Narrated Ibn `Abbas: Once the Prophet got his blood out (medically) and paid that person who had done it. If it had been illegal, the Prophet would not have paid him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 316


   صحيح البخاري5701عبد الله بن عباساحتجم النبي في رأسه وهو محرم من وجع كان به بماء يقال له لحي جمل
   صحيح البخاري2278عبد الله بن عباساحتجم النبي أعطى الحجام أجره
   صحيح البخاري5694عبد الله بن عباساحتجم النبي وهو صائم
   صحيح البخاري5695عبد الله بن عباساحتجم النبي وهو محرم
   صحيح البخاري2279عبد الله بن عباساحتجم النبي أعطى الحجام أجره
   صحيح البخاري5691عبد الله بن عباساحتجم أعطى الحجام أجره استعط
   صحيح البخاري2103عبد الله بن عباساحتجم النبي أعطى الذي حجمه
   صحيح البخاري1938عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم واحتجم وهو صائم
   صحيح البخاري1835عبد الله بن عباساحتجم رسول الله وهو محرم
   صحيح البخاري1939عبد الله بن عباساحتجم النبي وهو صائم
   صحيح مسلم2885عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم
   صحيح مسلم5749عبد الله بن عباساحتجم أعطى الحجام أجره استعط
   صحيح مسلم4041عبد الله بن عباساحتجم أعطى الحجام أجره استعط
   صحيح مسلم4042عبد الله بن عباسحجم النبي عبد لبني بياضة أعطاه النبي أجره كلم سيده فخفف عنه من ضريبته
   جامع الترمذي839عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم
   جامع الترمذي777عبد الله بن عباساحتجم فيما بين مكة والمدينة وهو محرم صائم
   جامع الترمذي776عبد الله بن عباساحتجم وهو صائم
   جامع الترمذي775عبد الله بن عباساحتجم رسول الله وهو محرم صائم
   سنن أبي داود3423عبد الله بن عباساحتجم رسول الله أعطى الحجام أجره
   سنن أبي داود2372عبد الله بن عباساحتجم وهو صائم
   سنن أبي داود1835عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم
   سنن أبي داود2373عبد الله بن عباساحتجم وهو صائم محرم
   سنن أبي داود1836عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم في رأسه من داء كان به
   سنن أبي داود3867عبد الله بن عباساستعط
   سنن النسائى الصغرى2849عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم
   سنن النسائى الصغرى2848عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم
   سنن النسائى الصغرى2850عبد الله بن عباساحتجم النبي وهو محرم
   سنن ابن ماجه3081عبد الله بن عباساحتجم وهو صائم محرم
   سنن ابن ماجه1682عبد الله بن عباساحتجم رسول الله وهو صائم محرم
   سنن ابن ماجه2162عبد الله بن عباساحتجم أعطاه أجره
   بلوغ المرام540عبد الله بن عباس ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم احتجم وهو محرم واحتجم وهو صائم
   بلوغ المرام602عبد الله بن عباس احتجم وهو محرم
   بلوغ المرام770عبد الله بن عباساحتجم رسول الله واعطى الذي حجمه اجره ولو كان حراما لم يعطه
   مسندالحميدي508عبد الله بن عباساحتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو محرم
   مسندالحميدي509عبد الله بن عباساحتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو محرم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5694  
´ کس وقت پچھنا لگوایا جائے`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ: 5694]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5694کا باب: «بَابُ أَيَّ سَاعَةٍ يَحْتَجِمُ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب قائم فرمایا کہ کون سے وقت پچھنا لگوانا چاہے؟ اس مسئلے کو سوالیہ رکھا اور تحت الباب ایک اثر اور ایک مرفوع حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اثر میں رات کے وقت پچھنے لگانے کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں دن کا ذکر ہے اب یہاں پر وقت کا تعین کس طرح ہو گا؟ اور ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت کیسے ہو گی؟

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ظاهر صنع الامام البخاري رحمه الله: أن الحجامة تصنع عند الاحتياج ولا تقييد بوقت دون وقت، لأنه ذكر الاحتجام ليلاً، وذكر حديث ابن عباس، وهو يقتضي كون ذالك وقع منه نهارا .»
یعنی حجامہ ضرورت کے وقت کبھی بھی لگائے جا سکتے ہیں اس کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں کیوں کہ اثر میں ہے کہ رات کے وقت پچھنے لگائے اور حدیث جو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اس میں دن کا ذکر ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ احتجام پچھنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں۔۔۔ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بعد سیدنا ابوموسٰی رضی اللہ عنہ کا تعلیق ذکر فرمائی کہ انہوں نے رات کے وقت پچھنے لگائے اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگائے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے۔

محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کی ترجمۃ الباب کے ذریعے مطلق زمانے کا ذکر ہے، کسی مخصوص وقت کو متعارف کروانا نہیں ہے، جو احادیث اوقات لائقہ میں حجامہ کرنے پر دلالت کرتی ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہیں، گویا کہ آپ رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت پچھنے لگوا لیے جائیں (یعنی وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔)

بعض حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوداؤد وغیرہ کی احادیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس میں پچھنے لگانے کے دنوں کی تفصیل ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«لعل البخاري يشير إلى حديث عند ابي داؤد، فيه تفصيل الأيام للاحتجام .»

ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لم يصح فيه شيئي عند البخاري فذالك لم يتعرض لها وقد وردت فيها احاديث .»
یعنی دنوں اور وقتوں کے تعین کے بارے میں بھی روایات ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک درست نہیں جس کی وجہ سے آپ نے ان روایات کو پیش نہیں کیا۔

یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا پہلا رجحان تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ مطلق حجامہ لگانے کو جائز قرار دیتے ہیں بغیر کسی وقت و دن کے قید کے لہٰذا ایک حدیث اور ایک اثر کو پیش کرنے کی غرض ہی یہی ہے کہ دن و رات پچھنے لگانے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں، یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔

اور جہاں تک پچھنے لگانے والی دوسری روایات کا تعلق ہے جن میں دنوں کا تعین ہے تو اس کا ذکر ہم کر دیتے ہیں تاکہ مزید مسئلے کی وضاحت ہو جائے مثلاً:
«عن انس رضى الله عنه أنه عليه السلام كان يحتجم فى الأخدعين والكاهل، وكان يحتجم لسبع عشرة وتسع عشرة واحدىٰ وعشرين .»
اس حدیث سے سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کو جامہ لگانا ثابت ہوتا ہے۔
«عن ابي هريرة رضى الله عنه مرفوعاً من احتج لسبع عشرة وتسع عشرة وإحدى وعشرين كان شفاء من كل داء .» [ابوداؤد رقم: 3861۔ وقال النووي في المجموع اسناده حسن على شرط مسلم]

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
«من احتجم يوم الأربعاء ويوم السبت فأصابه وضح فلا يلومن الا نفسه .» [رواه الحاكم: 409/4، البيهقي: 340/9 - وقال البيهقي: سليمان بن ارقم ضعيف۔ قال الذهبي رحمه الله فى التلخيص سليمان ضعيف: 409/4]
اس روایت میں بدھ اور ہفتہ کے روز حجامت کرنے کی ممانعت ہے مگر یہ سنداً ضعیف ہے۔

ایک اور روایت جسے امام عقیلی رحمہ اللہ نے الضعفاء میں ذکر فرمایا کہ:
«عن كبشة بنت ابي بكرة عن أبيها انه كان ينهٰى أهله عن الحجابة يوم الثلاثة، ويزعم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بأن يوم الثلاثاء يوم الدم وفيه ساعة لا يرقا .» [الضعفاء للعقيلي: 150/1، والألباني فى الضعيفة: 2251] اس روایت سے منگل کے روز حجامہ لگانے کی ممانعت ہے لیکن یہ بھی ضعیف سند کے ساتھ ہے۔

ابن الجوزی رحمہ اللہ کی العلل المتناہیۃ میں ہے کہ:
«عليكم بالحجامة يوم الخميس فإنها تذير فى العقل .» [العلل المتناهية: 394/2]
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعرات کے روز حجامہ لگانا چاہیے مگر یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے۔
«وقال لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم»

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس روایت کے بارے میں جسے ابن ماجہ اور طبرانی نے نقل فرمایا کہ:
«نعم العبد الحجام يذهب الدم ويخفف الصلب ويجلو عن البصر وان خير ما تحتجمون فيه يوم سبع عشرة ويوم تسع عشرة وأحد وعشرين .
قال الحافظ فيإتحاف المهرة 619/7
قال على بن مديني: سمعت يحيىٰ بن سعيد القطان يقول: قلت لعباد بن منصور، سمعت هذا الحديث ممن؟ قال حدثني ابن ابي يحيىٰ عن داؤد بن الحصين عن عكرمة، فعلٰى هذا فالحديث معلول»
[وضعفه الألباني فى الضعيفة: 2036]
جامع الاصول میں سیدنا عمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
«أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحتجم يوم سبعة عشرة وتسعة عشرة وأحد وعشرين .» [جامع الأصول: 7/ 544]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامہ لگایا سترہ تاریخ کو، انیس کو اور اکیس تاریخ کو۔

ایک اور روایت ابوداؤد کی ہے کہ:
«عن سلمٰى خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: ما كان أحد يشتكي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وجعاً فى رأسه الا قال: احتجم ولا وجعاً فى رجليه الا قالاخضبهما [ابوداؤد، رقم: 3858 - الصحيحة للالباني: 2059]
یعنی جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سر درد کی شکایت لے کر آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرماتے: حجامہ لگواؤ؟ اور جو کوئی پاؤں کے درد کی شکایت بتاتا تو آپ فرماتے: مہندی لگاؤ سند کے اعتبار سے یہ روایت ضعیف ہے۔

ابونعیم رحمہ اللہ کی الطب میں ہے کہ:
«عن ابن عباس مرفوعاً: الحجامة فى الرأس شفاء من سبع الجنون والجذام والبرص والنعاس ووجع الاضراس والظلمة يجدها فى عينيه .» [الطب النبوي: 359/1- الطبراني فى الكبير: 21/29 - المجروحين لابن حبان: 86/2]
ان احادیث میں دن، تاریخ، دونوں بتائے گئے ہیں کہ سترہ، انیس، اکیس، تاریخ کو پچھنے لگانا چاہے، اسی طرح جمعرات، جمعہ، ہفتہ، اتوار، پیر کے دن لگانا چاہیے، بدھ اور ایک روایت میں منگل کے دن کی ممانعت آئی ہے، یہ تمام روایات امام بخاری رحمہ اللہ کی شرائط پر نہیں تھیں، اسی لیے ذکر نہیں فرمایا، صرف خفیف سا اشارہ فرما دیا ہے،

چنانچہ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وعند الأطباء أن أنفع الحجامة ما يقع فى الساعة الثانية أو الثالثة، وأن لا يقع عقب استفراع من حمام أو جماع ولا عقب بشبع ولا جوع وإنها تعجل فى النصف الثاني من الشهر، ثم فى الربع الثالث من أرباعه أنفع من أوله واٰخره، لأن الأخلاط فى اول الشهر تهيج وفي اٰخره تسكن فأولي ما يكون الاستفراغ فى اثنانه .» [ارشاد الساري: 15/10]
یعنی دن کے دوسرے تیسرے حصے میں پچھنے لگانا اطباء کے نزدیک اچھا ہے، غسل، جماع کے بعد صحیح نہیں، اسی طرح سے زیادہ بھوک یا زیادہ شکم سیری کی حالت میں بھی ٹھیک نہیں، مہینہ کے آخری پندرہ دنوں میں لگائے جائیں، چودہ تاریخ سے لے کر تئیس (۲۳) تاریخ تک کے دن سب سے زیادہ مناسبت ہیں، کیوں کے جسم کے اخلاط میں مہینے کی ابتداء میں ہیجان ہوتا ہے، جب کہ مہینے کے آخر میں یہ ساکن ہوتے ہیں، اس لیے درمیان کا عرصہ بہتر ہے، کیوں کہ وہ اخلاط کے اعتزال کا زمانہ ہوتا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 155   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1682  
´روزہ دار کے پچھنا لگوانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا جب کہ آپ روزے سے تھے، اور احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1682]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح ہے کہ روزے کی حالت میں سینگی لگوائی اور احرام کی حالت میں سینگی لگوائی۔ (یعنی حرام اور روزے کے واقعات الگ الگ ہیں۔
ایسا نہیں کہ بیک وقت احرام بھی ہو اور روزہ بھی اور اس حالت میں سینگی لگوائی ہو۔
دیکھئے: (الإرواء الغلیل، رقم: 932)

(2)
سینگی یا پچھنے لگانا ایک طریق علاج ہے۔
جس میں ایک خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔
مریض کےجسم پر کسی تیز دھار آلے سے زخم لگا کر ایک دوسری چیز کے ذریعے سے خون چوسا جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر کسی کو سینگی لگائے۔
یا کوئی روزہ دار سینگی لگوائے تو کیا ان کا روزہ ٹوٹ جائے گا یا قائم رہے گا؟ اس بارے میں علمائے کرام میں دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔
جو لوگ روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں ان کی دلیل یہی حدیث ہے۔
جو حضرت ثوبان، حضرت شداد بن اوس، حضرت رافع بن خدیج اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے اس کے برعکس حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے روزہ رکھ کر سینگی لگوائی اور ان کے نزدیک سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا۔
کیا آپ لوگ (عہد نبوی میں)
روزہ دار کے لئے سینگی لگونا نا پسند کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا نہیں صرف کمزوری کی وجہ سے مکروہ سمجھا جاتا تھا (صحیح البخاري، الصوم، باب الحجامة والقئ للصائم، حدیث: 1940)
حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی روزے کی حالت میں سینگی لگوا لیا کرتے تھے۔ (موطأ إمام مالك، الصیام، باب ماجاء فی حجامة الصائم، حدیث: 276، 275)
 امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا روزے دار کو سینگی لگوانا صرف اس لئے مکروہ کہ کمزوری کا اندیشہ ہوتا ہے۔ (موطا امام مالک حوالہ مذکورہ بالا)
شیخ عبد القادر ارنا ؤوط جامع الاصول کے حاشہ میں لکھتے ہیں۔
سینگی سے روزہ ٹوٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ (جامع الاصول: 295/6، حدیث: 4417، 4416)
 امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر بحث کرکے آخر میں فرمایا:
حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے۔
کہ سینگی لگوانا اس شخص کے لئے مکروہ ہے جسے کمزوری لاحق ہوتی ہو اور اگر کمزوری اس حد تک پہنچتی ہو کہ اس کی وجہ سے افطار کرنا پڑے تو اس صورت میں سینگی لگوانا زیادہ مکروہ ہے۔
اور جس شخص کو کمزوری نہیں ہوتی۔
اس کے حق میں (سینگی لگوانا)
مکروہ نہیں لہٰذا (أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوم)
 سینگی لگانے اور لگوانے والے نے روزہ کھول دیا۔
کو مجازی معنی میں لینا پڑے گا۔
کیونکہ مذکورہ بالا دلائل اسے حقیقی معنی پر محمول کرنے سے مانع ہیں۔ (نیل الأوطار: 228/4، ابواب ما یبطل الصوم وما یکرہ وما یمستحب وباب ماجاء فی الحجامة: 228/4)
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ اس قسم کے مسائل میں احتیاط کرنا مناسب ہے۔
جیسے حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت فرماتے ہیں۔
حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ روزے کی حالت میں سینگی لگوا لیا کرتے تھے۔
پھر انھوں نے یہ عمل ترک کردیا۔
چنانچہ وہ رات کو سینگی لگواتے تھے۔
اورحضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ر ات کو سینگی لگوائی (صحیح البخاري، الصوم، باب الحجامة والقئ للصائم، قبل حدیث: 1938)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1682   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 775  
´روزہ دار کے لیے پچھنا لگوانے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، آپ محرم تھے اور روزے سے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 775]
اردو حاشہ:
نوٹ:
((اِحْتَجَمَ وَھُوَ صَائِمٌ)) کے لفظ سے صحیح ہے جو بسند عبدالوارث صحیح بخاری میں موجود ہے،
اور ترمذی کا یہ سیاق سنن ابی داؤد میں بسند یزید عن مقسم عن ابن عباس موجود ہے،
جب کہ حکم اور حجاج نے مقسم سے روایت میں ((محرم)) کالفظ نہیں ذکر کیا ہے،
در اصل الگ الگ نبی اکرم ﷺ نے دونوں حالت میں حجامت کرائی،
جس کا ذکر صحیح بخاری میں بسند وہیب عن ایوب،
عن عکرمہ،
عن ابن عباس ہے کہ ((أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ احتجَمَ وهو مُحْرِمٌ،
 واحتجَمَ أيضًا وهو صائمٌ)
)
: 1835، 1938) پتہ چلا کہ پچھنا لگوانے کا یہ کام حالت صوم واحرام میں ایک ساتھ نہیں ہوا ہے،
بلکہ دو الگ الگ واقعات ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 775   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2373  
´روزے کی حالت میں سینگی (پچھنا) لگوانے کی اجازت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی (پچھنا) لگوایا، آپ روزے سے تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2373]
فوائد ومسائل:
الفاظ حدیث محل نظر ہیں۔
تفصیل کے لیے دیکھئے: (إرواء الغلیل، حدیث نمبر:932)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2373   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2103  
2103. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایاکہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ سینگی لگوائی اور لگانےوالے کو اجرت دی۔ اگر یہ (مزدوری) حرام ہوتی تو آپ اسے نہ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2103]
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت پچھنا لگوانا جائز ہے اور اس کی اجرت لینے والے اور دینے والے ہر دو کے لیے منع نہیں ہے۔
اصلاح خون کے لیے پچھنے لگوانے کا علاج بہت پرانا نسخہ ہے۔
عرب میں بھی یہی مروج تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2103   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2103  
2103. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایاکہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ سینگی لگوائی اور لگانےوالے کو اجرت دی۔ اگر یہ (مزدوری) حرام ہوتی تو آپ اسے نہ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2103]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو خید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میرے باپ نے ایک غلام خریدا جو سینگی لگاتا تھا۔
انھوں نے تمام آلات توڑ دیے جن کے ذریعے سے وہ سینگی لگاتا تھا۔
میرے دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے۔
(صحیح البخاری،البیوع،حدیث: 2238)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سینگی لگانے کا کاروبار درست نہیں جبکہ مذکورہ عنوان کے تحت پیش کردہ احادیث کا تقاضا ہے کہ اس پیشے میں کوئی قباحت نہیں؟دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے منع فرمایا کہ اس سے عام انسان کو گھن آتی ہے،نیز اس گندے خون کو منہ میں جمع کیا جاتا ہے جس سے یہ خطرہ بدستور قائم رہتا ہے کہ شاید یہ گندا خون حلق سے اتر کر پیٹ میں چلا جائے،اس لیے کراہت کہ پیش نظر اس سے منع فرمایا،تاہم سینگی لگانے اور اس پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیث کے آخر میں صراحت کی ہے کہ اگر یہ مزدوری حرام ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہ دیتے۔
(2)
واضح رہے کہ اصلاح خون کے لیے سینگی لگوانے کا علاج بہت قدیم اور مجرب ہے۔
عربوں کے ہاں اس کا عام رواج تھا۔
مفصل بحث كتاب الاحارة(حديث: 2278)
کے تحت بیان ہوگی۔
باذن الله. الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. حجامة رسول الله (العلم)
2. أجرة الحجام (المعاملات)
موضوعات 1. رسول اکرمﷺ کا سینگی لگوانا (علم)
2. سینگی لگانے والے کی اجرت (معاملات)
Topics 1. Prophet's cupping (The Knowledge)
2. Wages of the cupper (Matters)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/2103 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایاکہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ سینگی لگوائی اور لگانےوالے کو اجرت دی۔
اگر یہ (مزدوری)
حرام ہوتی تو آپ اسے نہ دیتے۔
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو خید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میرے باپ نے ایک غلام خریدا جو سینگی لگاتا تھا۔
انھوں نے تمام آلات توڑ دیے جن کے ذریعے سے وہ سینگی لگاتا تھا۔
میرے دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے۔
(صحیح البخاری،البیوع،حدیث: 2238)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سینگی لگانے کا کاروبار درست نہیں جبکہ مذکورہ عنوان کے تحت پیش کردہ احادیث کا تقاضا ہے کہ اس پیشے میں کوئی قباحت نہیں؟دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے منع فرمایا کہ اس سے عام انسان کو گھن آتی ہے،نیز اس گندے خون کو منہ میں جمع کیا جاتا ہے جس سے یہ خطرہ بدستور قائم رہتا ہے کہ شاید یہ گندا خون حلق سے اتر کر پیٹ میں چلا جائے،اس لیے کراہت کہ پیش نظر اس سے منع فرمایا،تاہم سینگی لگانے اور اس پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیث کے آخر میں صراحت کی ہے کہ اگر یہ مزدوری حرام ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہ دیتے۔
(2)
واضح رہے کہ اصلاح خون کے لیے سینگی لگوانے کا علاج بہت قدیم اور مجرب ہے۔
عربوں کے ہاں اس کا عام رواج تھا۔
مفصل بحث كتاب الاحارة(حديث: 2278)
کے تحت بیان ہوگی۔
باذن الله. حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد نے جو عبداللہ کے بیٹے ہیں بیان کیا، ان سے خالد حذاءنے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے پچھنا لگوایا اور جس نے پچھنا لگایا اسے آپ نے اس کی اجرت بھی دی، اگر اس کی اجرت حرام ہوتی تو آپ اس کو ہرگز نہ دیتے۔
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت پچھنا لگوانا جائز ہے اور اس کی اجرت لینے والے اور دینے والے ہر دو کے لیے منع نہیں ہے۔
اصلاح خون کے لیے پچھنے لگوانے کا علاج بہت پرانا نسخہ ہے۔
عرب میں بھی یہی مروج تھا۔
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA)
:
Once the Prophet (ﷺ) got his blood out (medically)
and paid that person who had done it. If it had been illegal, the Prophet (ﷺ) would not have paid him. حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت پچھنا لگوانا جائز ہے اور اس کی اجرت لینے والے اور دینے والے ہر دو کے لیے منع نہیں ہے۔
اصلاح خون کے لیے پچھنے لگوانے کا علاج بہت پرانا نسخہ ہے۔
عرب میں بھی یہی مروج تھا۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2121٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
2103٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
1961٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
2103٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
1997٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2042٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2103٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2103١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2103 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔
اور سود کو حرام قراردیا ہے۔
" نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)
" فائدہ:
سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔
جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔
اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔
اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔
اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔
دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔
انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔
معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔
الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔
لفظ بيوع بيع کی جمع ہے۔
اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔
بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔
شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔
یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں:
(1)
مشتری (خریدار) (2)
بائع (فروخت کار) (3)
بیع(مال تجارت) (4)
بیع (معاہدۂ تجارت)
۔
قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾ )
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔
"(النساء29: 4)
باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔
اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔
اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:
(1)
فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔
(2)
خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔
(3)
قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔
(4)
فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔
(5)
کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔
(6)
اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔
(7)
اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔
کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔
ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔
عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔
معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔
(عمدۃ القاری: 8/291)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔
(فتح الباری: 4/364)
امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔
ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔
مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔
ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔
قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔
اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔
آمين سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:
" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔
اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔
حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔
(عمدۃ القاری: 8/292)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2103   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.