قرآن مجید کی سورۃ الاعراف میں لفظ «بياتا» اور سورۃ النمل میں لفظ «لنبيتنه» اور سورۃ نساء میں لفظ «يبيت» آیا ہے۔ ان سب لفظوں کا وہی مادہ ہے جو «يبيتون» کا ہے، مراد سب سے رات کا وقت ہے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، عن عبيد الله، عن ابن عباس، عن الصعب بن جثامة رضي الله عنهم، قال: مر بي النبي صلى الله عليه وسلم بالابواء او بودان وسئل عن اهل الدار يبيتون من المشركين فيصاب من نسائهم وذراريهم، قال: هم منهم وسمعته، يقول: لا حمى إلا لله ولرسوله صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ: مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ وَسُئِلَ عَنْ أَهْلِ الدَّارِ يُبَيَّتُونَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَيُصَابُ مِنْ نِسَائِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ، قَالَ: هُمْ مِنْهُمْ وَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: لَا حِمَى إِلَّا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہری نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے ‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اور ان سے صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابواء یا مقام ودان میں میرے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مشرکین کے جس قبیلے پر شب خون مارا جائے گا کیا ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرنا درست ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بھی انہیں میں سے ہیں اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے اللہ اور اس کے رسول کے سوا اور کسی کی چراگاہ نہیں ہے۔
Narrated As-Sab bin Jaththama: The Prophet passed by me at a place called Al-Abwa or Waddan, and was asked whether it was permissible to attack the pagan warriors at night with the probability of exposing their women and children to danger. The Prophet replied, "They (i.e. women and children) are from them (i.e. pagans)." I also heard the Prophet saying, "The institution of Hima is invalid except for Allah and His Apostle."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 256
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3083
´امام یا کوئی اور شخص زمین (چراگاہ اور پانی) اپنے لیے گھیر لے تو کیسا ہے؟` صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی اور کے لیے چراگاہ نہیں ہے۔“ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع (ایک جگہ کا نام ہے) کو «حمی»(چراگاہ) بنایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3083]
فوائد ومسائل: حاکم اعلیٰ یا کوئی شخص اپنے لئے بطور چراگاہ مخصوص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہو کہ وہاں کی گھاس پانی اور لکڑی وغیرہ سے دوسروں کو روک دے اوراسے آباد یا کاشت بھی نہ کرے۔ دور جاہلیت میں ایسے ہوتا تھا کہ کوئی زورآور کسی اونچی جگہ پر اپنے کتے کو بھونکواتا اور اطراف میں اپنے آدمی مقرر کردیتا۔ تو جہاں جہاں تک کتے کی آواز پہنچتی وہ رقبہ اپنے اور اپنے جانوروں کےلئے خاص کرلیتا تھا۔ دوسروں کو اس سے استفادے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ اسلام میں اس کی اجازت نہیں الا یہ کہ عام مسلمانوں کی مصلحت کےلئے ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3083