الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
The Book of The Beginning of Creation
5. بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِهِ: {وَهْوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ نُشُرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ} :
5. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الاعراف میں) یہ ارشاد کہ ”وہ اللہ ہی ہے جو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے“۔
(5) Chapter. Allah’s Statement: “And it is He Who sends the winds as heralds of glad tidings, going before his Mercy (rain)...” (V.25:48)
حدیث نمبر: 3206
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مكي بن إبراهيم، حدثنا ابن جريج، عن عطاء، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم" إذا راى مخيلة في السماء اقبل وادبر ودخل وخرج وتغير وجهه، فإذا امطرت السماء سري عنه فعرفته عائشة ذلك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما ادري لعله كما قال قوم فلما راوه عارضا مستقبل اوديتهم سورة الاحقاف آية 24 الآية.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا رَأَى مَخِيلَةً فِي السَّمَاءِ أَقْبَلَ وَأَدْبَرَ وَدَخَلَ وَخَرَجَ وَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ، فَإِذَا أَمْطَرَتِ السَّمَاءُ سُرِّيَ عَنْهُ فَعَرَّفَتْهُ عَائِشَةُ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَدْرِي لَعَلَّهُ كَمَا قَالَ قَوْمٌ فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ سورة الأحقاف آية 24 الْآيَةَ.
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے، ان سے عطاء نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابر کا کوئی ایسا ٹکڑا دیکھتے جس سے بارش کی امید ہوتی تو آپ کبھی آگے آتے، کبھی پیچھے جاتے، کبھی گھر کے اندر تشریف لاتے، کبھی باہر آ جاتے اور چہرہ مبارک کا رنگ بدل جاتا۔ لیکن جب بارش ہونے لگتی تو پھر یہ کیفیت باقی نہ رہتی۔ ایک مرتبہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کے متعلق آپ سے پوچھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں نہیں جانتا ممکن ہے یہ بادل بھی ویسا ہی ہو جس کے بارے میں قوم عاد نے کہا تھا، جب انہوں نے بادل کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تھا۔ آخر آیت تک (کہ ان کے لیے رحمت کا بادل آیا ہے، حالانکہ وہ عذاب کا بادل تھا)۔

Narrated Ata: `Aisha said If the Prophet saw a cloud In the sky, he would walk to and fro in agitation, go out and come in, and the color of his face would change, and if it rained, he would feel relaxed." So `Aisha knew that state of his. So the Prophet said, I don't know (am afraid), it may be similar to what happened to some people referred to in the Holy Qur'an in the following Verse: -- "Then when they saw it as a dense cloud coming towards their valleys, they said, 'This is a cloud bringing us rain!' Nay, but, it is that (torment) which you were asking to be hastened a wind wherein is severe torment." (46.24)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 428


   صحيح البخاري3206عائشة بنت عبد اللهما أدري لعله كما قال قوم فلما رأوه عارضا مستقبل أوديتهم
   صحيح البخاري4829عائشة بنت عبد اللهما يؤمني أن يكون فيه عذاب عذب قوم بالريح وقد رأى قوم العذاب فقالوا هذا عارض ممطرنا
   صحيح البخاري1032عائشة بنت عبد اللهاللهم صيبا نافعا
   صحيح مسلم2084عائشة بنت عبد اللهإذا كان يوم الريح والغيم عرف ذلك في وجهه وأقبل وأدبر إذا مطرت سر به وذهب عنه ذلك قالت عائشة فسألته فقال إني خشيت أن يكون عذابا سلط على أمتي يقول إذا رأى المطر رحمة
   صحيح مسلم2085عائشة بنت عبد اللهاللهم إني أسألك خيرها وخير ما فيها وخير ما أرسلت به وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها وشر ما أرسلت به قالت وإذا تخيلت السماء تغير لونه وخرج ودخل وأقبل وأدبر فإذا مطرت سري عنه
   صحيح مسلم2086عائشة بنت عبد اللهما يؤمنني أن يكون فيه عذاب قد عذب قوم بالريح وقد رأى قوم العذاب فقالوا هذا عارض ممطرنا
   جامع الترمذي3449عائشة بنت عبد اللهاللهم إني أسألك من خيرها وخير ما فيها وخير ما أرسلت به وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها وشر ما أرسلت به
   جامع الترمذي3257عائشة بنت عبد اللهما أدري لعله كما قال الله فلما رأوه عارضا مستقبل أوديتهم قالوا هذا عارض ممطرنا
   سنن أبي داود5099عائشة بنت عبد اللهإذا رأى ناشئا في أفق السماء ترك العمل وإن كان في صلاة ثم يقول اللهم إني أعوذ بك من شرها فإن مطر قال اللهم صيبا هنيئا
   سنن أبي داود5098عائشة بنت عبد اللهما يؤمنني أن يكون فيه عذاب قد عذب قوم بالريح وقد رأى قوم العذاب فقالوا هذا عارض ممطرنا
   سنن النسائى الصغرى1524عائشة بنت عبد اللهإذا أمطر قال اللهم اجعله صيبا نافعا
   سنن ابن ماجه3891عائشة بنت عبد اللهما يدريك لعله كما قال قوم هود فلما رأوه عارضا مستقبل أوديتهم قالوا هذا عارض ممطرنا بل هو ما استعجلتم به
   سنن ابن ماجه3889عائشة بنت عبد اللهاللهم سيبا نافعا
   سنن ابن ماجه3890عائشة بنت عبد اللهاللهم اجعله صيبا هنيئا
   بلوغ المرام411عائشة بنت عبد الله اللهم صيبا نافعا
   مسندالحميدي272عائشة بنت عبد اللهاللهم سيبا نافعا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3889  
´بادل اور بارش دیکھنے کے وقت کیا دعا پڑھے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب آسمان کے کسی کنارے سے اٹھتے بادل کو دیکھتے تو جس کام میں مشغول ہوتے اسے چھوڑ دیتے، یہاں تک کہ اگر نماز میں (بھی) ہوتے تو بادل کی طرف چہرہ مبارک کرتے، اور یہ دعا ما نگتے: «اللهم إنا نعوذ بك من شر ما أرسل به» اے اللہ ہم تیری پناہ مانگتے ہیں اس چیز کے شر سے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے پھر اگر بارش شروع ہو جاتی تو فرماتے: «اللهم سيبا نافعا» اے اللہ جاری اور فائدہ دینے والا پانی عنایت فرما، دو یا تین مرتبہ یہی الفاظ دہراتے اور اگر اللہ تعالیٰ بادل ہٹا دیتا اور بار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3889]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بارش اللہ کی ر حمت ہے لیکن اللہ کا عذاب بھی ہوسکتی ہے۔
اس لئے بادل دیکھ کر اللہ کی رحمت کی اُمید کے ساتھ ساتھ اس کے عذاب سے پناہ بھی مانگنی چاہیے۔

(2)
بارش انسان کےلئے انتہائی ضروری ہونے کے باجود اس میں نقصان کا پہلو بھی موجود ہے۔
اس لئے بارش کے نفع مند ہونے کی دعا کرنا ضروری ہے۔

(3)
بادل کا برسے بغیر چھٹ جانا اس لئے اللہ کا انعام ہے۔
کہ اس کے عذاب ہونے کا خطرہ ٹل گیا-
(4)
بندے کوہر حال میں اللہ سے امید کے ساتھ ساتھ اللہ کا خوف بھی رکھنا چاہیے اور ان مواقع پر یہ عایئں پڑھنے کاالتزام کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3889   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3257  
´سورۃ الاحقاف سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب برسنے والا کوئی بادل دیکھتے تو آگے بڑھتے پیچھے ہٹتے (اندر آتے باہر جاتے) مگر جب بارش ہونے لگتی تو اسے دیکھ خوش ہو جاتے، میں نے عرض کیا: ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں (صحیح) جانتا تو نہیں شاید وہ کچھ ایسا ہی نہ ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «فلما رأوه عارضا مستقبل أوديتهم قالوا هذا عارض ممطرنا» جب انہوں نے اسے بحیثیت بادل اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا: یہ بادل ہم پر برسنے آ رہا ہے، بلکہ یہ وہ عذاب ہے جس کی تم ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3257]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جب انہوں نے اسے بحیثیت بادل اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا:
یہ بادل ہم پر برسنے آ رہا ہے،
بلکہ یہ وہ عذاب ہے جس کی تم نے جلدی مچا رکھی تھی (آندھی ہے کہ جس میں نہایت دردناک عذاب ہے) (الأحقاف: 24)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3257   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5098  
´جب آندھی آئے تو کیا پڑھے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کھلکھلا کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کے کوے کو دیکھ سکوں، آپ تو صرف تبسم فرماتے (ہلکا سا مسکراتے) تھے، آپ جب بدلی یا آندھی دیکھتے تو اس کا اثر آپ کے چہرے پر دیکھا جاتا (آپ تردد اور تشویش میں مبتلا ہو جاتے) تو (ایک بار) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگ تو جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہو گی، اور آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے سے ناگواری (گھبراہٹ اور پریشانی) جھلکتی ہے (اس کی وجہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا: اے عائشہ! مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5098]
فوائد ومسائل:

زور سے کھل کھلا کر اور ازحد منہ کھول کر ہنسنا نامناسب اور وقار کے منافی ہے۔
چاہیے کہ ایسے مسکرانے کو اپنی عادت بنایا جائے جو سنت ہے۔


تیز ہوا (آندھی) یا بادل کو دیکھ کر اس کی خیر کی دعا کرنی چاہیے اور عذاب سے پناہ مانگنی چاہیے۔
جیسے کہ اوپر بیان ہوا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5098   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3206  
3206. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب آسمان پر بادل دیکھتے تو آپ کبھی آگے آتے اور کبھی پیچھے جاتے، کبھی گھر کے اندر داخل ہوتے اورکبھی باہر تشریف لے جاتے۔ اور آپ کے چہرہ انور کا رنگ فق ہوجاتا لیکن جب بارش ہونے لگتی تو پھر یہ کیفیت باقی نہ رہتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کیفیت کو بھانپا (تو آپ سے عرض کیا) آپ نے فرمایا: کیا پتہ شاید یہ بادل اس طرح کا ہو جس کے متعلق قوم (عاد) نے کہا تھا: پھر جب انھوں نے بادل کو اپنے میدانوں کی طرف بڑھتے دیکھا (تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا بلکہ یہ وہ چیز تھی جس کے لیے تم جلدی مچارہے تھے، یعنی ایسی آندھی جس میں دردناک عذاب تھا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3206]
حدیث حاشیہ:
ہوا بھی اللہ کی ایک مخلوق ہے جو مختلف تاثیر رکھتی ہے اور مخلوقات کی زندگی میں جس کا قدرت نے بڑا دخل رکھا ہے۔
قوم عاد پر اللہ نے قحط کا عذاب نازل کیا۔
انہوں نے اپنے کچھ لوگوں کو مکہ شریف بھیجا کہ وہاں جاکر بارش کی دعا کریں۔
مگر وہاں وہ لوگ عیش و عشرت میں پڑ کر دعا کرنا بھول گئے۔
ادھر قوم کی بستیوں پر بادل چھائے۔
قوم نے سمجھا کہ یہ ہمارے ان آدمیوں کی دعاؤں کا اثر ہے۔
مگر اس بادل نے عذاب کی شکل اختیار کرکے اس قوم کو تباہ کردیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3206   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3206  
3206. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب آسمان پر بادل دیکھتے تو آپ کبھی آگے آتے اور کبھی پیچھے جاتے، کبھی گھر کے اندر داخل ہوتے اورکبھی باہر تشریف لے جاتے۔ اور آپ کے چہرہ انور کا رنگ فق ہوجاتا لیکن جب بارش ہونے لگتی تو پھر یہ کیفیت باقی نہ رہتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کیفیت کو بھانپا (تو آپ سے عرض کیا) آپ نے فرمایا: کیا پتہ شاید یہ بادل اس طرح کا ہو جس کے متعلق قوم (عاد) نے کہا تھا: پھر جب انھوں نے بادل کو اپنے میدانوں کی طرف بڑھتے دیکھا (تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا بلکہ یہ وہ چیز تھی جس کے لیے تم جلدی مچارہے تھے، یعنی ایسی آندھی جس میں دردناک عذاب تھا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3206]
حدیث حاشیہ:

ہوا بھی اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہ جو مختلف تاثیررکھتی ہے اور قوموں کے عروج وزوال میں اس کا بڑا دخل ہے۔
قوم عاد پر اللہ تعالیٰ نے قحط نازل فرمایا۔
یہ لوگ بہت بڑی مدت سے بارش کو ترس رہے تھے۔
انھوں نے اس دوران میں ایک کالی گھٹا کو دیکھا جو ان کے علاقے کی طرف بڑھ رہی تھی۔
وہ خوشی سے جھوم اٹھے کہ اب خوشحالی آئے گی۔
انھیں کیا خبر تھی کہ یہ گھٹا بارانِ رحمت کی گھٹا ہے یا انھیں نیست و نابود کرنے کے لیے اللہ کا عذاب ہے۔
یہ آندھی انتہائی تیز رفتار اور سخت ٹھنڈی تھی جو آٹھ دن اور سات راتیں مسلسل ان پر چلتی رہی۔

اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کسی چیز کی ظاہری شکل وصورت پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہروقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔
اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الفاظ میں تسلی دے رکھی تھی:
﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ﴾ جب تک آپ ان میں موجود ہیں اللہ انھیں عذاب نہیں دے گا۔
(الأنفال: 33/8)
اس کے باوجود آپ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ جن لوگوں میں میری شخصیت نہیں ہوگی انھیں یہ بادل، عذاب کی شکل اختیار کرکے نیست ونابود کردے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3206   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.