الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: لباس کے بیان میں
The Book of Dress
3. بَابُ التَّشْمِيرِ فِي الثِّيَابِ:
3. باب: کپڑا اوپر اٹھانا۔
(3) Chapter. To tuck up or roll up the clothes.
حدیث نمبر: 5786
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إسحاق، اخبرنا ابن شميل، اخبرنا عمر بن ابي زائدة، اخبرنا عون بن ابي جحيفة، عن ابيه ابي جحيفة، قال:" فرايت بلالا جاء بعنزة فركزها، ثم اقام الصلاة، فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج في حلة مشمرا فصلى ركعتين إلى العنزة، ورايت الناس والدواب يمرون بين يديه من وراء العنزة".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنَا عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ:" فَرَأَيْتُ بِلَالًا جَاءَ بِعَنَزَةٍ فَرَكَزَهَا، ثُمَّ أَقَامَ الصَّلَاةَ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فِي حُلَّةٍ مُشَمِّرًا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ إِلَى الْعَنَزَةِ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ يَمُرُّونَ بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ وَرَاءِ الْعَنَزَةِ".
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن شمیل نے خبر دی، کہا ہم کو عمر بن ابی زائدہ نے خبر دی، کہا ہم کو عون بن ابی جحیفہ نے خبر دی، ان سے ان کے والد ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ ایک نیزہ لے کر آئے اور اسے زمین میں گاڑ دیا پھر نماز کے لیے تکبیر کہی گئی۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جوڑا پہنے ہوئے باہر تشریف لائے جسے آپ نے سمیٹ رکھا تھا۔ پھر آپ نے نیزہ کے سامنے کھڑے ہو کر دو رکعت نماز عید پڑھائی اور میں نے دیکھا کہ انسان اور جانور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نیزہ کے باہر کی طرف سے گزر رہے تھے۔

Narrated Abu Juhaifa: I saw Bilal bringing a short spear (or stick) and fixing it in the ground, and then he proclaimed the Iqama of the prayer, and I saw Allah's Apostle coming out, wearing a cloak with its sleeves rolled up. He then offered a two-rak`at prayer while facing the stick, and I saw the people and animals passing in front of him beyond the stick.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 677


   صحيح البخاري495وهب بن عبد اللهصلى بهم بالبطحاء وبين يديه عنزة الظهر ركعتين والعصر ركعتين تمر بين يديه المرأة والحمار
   صحيح البخاري5786وهب بن عبد اللهخرج في حلة مشمرا فصلى ركعتين إلى العنزة ورأيت الناس والدواب يمرون بين يديه من وراء العنزة
   صحيح البخاري633وهب بن عبد اللهخرج بلال بالعنزة حتى ركزها بين يدي رسول الله بالأبطح وأقام الصلاة
   صحيح البخاري499وهب بن عبد اللهصلى بنا الظهر والعصر وبين يديه عنزة والمرأة والحمار يمرون من ورائها
   صحيح البخاري501وهب بن عبد اللهصلى بالبطحاء الظهر والعصر ركعتين ونصب بين يديه عنزة وتوضأ فجعل الناس يتمسحون بوضوئه
   جامع الترمذي197وهب بن عبد اللهخرج بلال بين يديه بالعنزة فركزها بالبطحاء فصلى إليها رسول الله يمر بين يديه الكلب والحمار وعليه حلة حمراء كأني أنظر إلى بريق ساقيه
   سنن أبي داود688وهب بن عبد اللهصلى بهم بالبطحاء وبين يديه عنزة الظهر ركعتين والعصر ركعتين يمر خلف العنزة المرأة والحمار
   سنن النسائى الصغرى137وهب بن عبد اللهصلى بالناس والحمر والكلاب والمرأة يمرون بين يديه
   سنن النسائى الصغرى773وهب بن عبد اللهخرج في حلة حمراء فركز عنزة فصلى إليها يمر من ورائها الكلب والمرأة والحمار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 137  
´وضو کے بچے ہوئے پانی کو کام میں لانے کا بیان۔`
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بطحاء میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کے وضو کا پانی (جو برتن میں بچا تھا) نکالا، تو لوگ اسے لینے کے لیے جھپٹے، میں نے بھی اس میں سے کچھ لیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لکڑی نصب کی، تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور آپ کے سامنے سے گدھے، کتے اور عورتیں گزر رہی تھیں۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 137]
137۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب مذکورہ روایت اس باب کے تحت لا کر یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ ماء مستعمل پاک ہے اور اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ماء مستعمل کی بابت مزید تفصیل کے لیے کتاب المیاہ کا ابتدائیہ دیکھیے۔
➋ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت تھی جس کا اظہار اس حدیث سے بھی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو اپنے جسم وغیرہ پر بطور تبرک ملتے تھے۔ یہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے کیونکہ آپ کے بعد قرون اولیٰ میں سے کسی سے بھی یہ نہیں ملتاکہ کسی نے کسی صحابی یا تابعی سے بطور تبرک یہ عمل کیا ہو۔
➌ سترے کے آگے سے کسی چیز کا گزرنا نماز کے لیے نقصان دہ نہیں، سترے کے بغیر مذکورہ چیزوں کا گزرنا نقصان دہ ہے، اس لیے سترے کا اہتمام کرنا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور مذکورہ چیزوں سے بچاؤ کا ایک عمدہ تحفظ بھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 137   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 773  
´سرخ کپڑوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سرخ جوڑے میں نکلے، اور آپ نے اپنے سامنے ایک برچھی گاڑی، پھر اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، اور اس کے پیچھے سے کتے، عورتیں اور گدھے گزرتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 773]
773 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق وہ حلہ خالص سرخ نہ تھا بلکہ اس میں سرخ دھاریاں تھیں، سطح سفید تھی۔ دیکھیے: [زاد المعاد: 137/1]
لہٰذا اس روایت کا ان روایات سے تعارض نہ ہو گا جن میں سرخ کپڑا پہننے سے روکا گیا ہے۔
➋ حلے سے مراد ہے، دو چادریں ایک رنگ کی اور ایک جیسی۔ ایک ازار اور دوسری ردا۔
➌ برچھایا چھوٹا نیزہ بطور سترہ گاڑا گیا تھا۔ اس کی بحث حدیث 748 میں گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 773   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 688  
´نمازی کے سترہ کا بیان۔`
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھائیں اور آپ کے سامنے برچھی (بطور سترہ) تھی، اور برچھی کے پیچھے سے عورتیں اور گدھے گزرتے تھے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 688]
688۔ اردو حاشیہ:
➊ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔
➋ سترے کے آگے سے کوئی بھی گزرے تو اس میں نمازی کا نقصان نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 688   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 197  
´اذان کے وقت شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرنے کا بیان۔`
ابوجحیفہ (وہب بن عبداللہ) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بلال کو اذان دیتے دیکھا، وہ گھوم رہے تھے ۱؎ اپنا چہرہ ادھر اور ادھر پھیر رہے تھے اور ان کی انگلیاں ان کے دونوں کانوں میں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سرخ خیمے میں تھے، وہ چمڑے کا تھا، بلال آپ کے سامنے سے نیزہ لے کر نکلے اور اسے بطحاء (میدان) میں گاڑ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی۔ اس نیزے کے آگے سے ۲؎ کتے اور گدھے گزر رہے تھے۔ آپ ایک سرخ چادر پہنے ہوئے تھے، میں گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 197]
اردو حاشہ:
1؎:
قیس بن ربیع کی روایت میں جو عون ہی سے مروی ہے یوں ہے ((فَلَمَّا بَلَغَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ،
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ لَوَى عُنُقَهُ يَمِينًا وَشِمَالًا وَلَمْ يَسْتَدِرْ)
)
 یعنی:
بلال جب حي الصلاة حي على الفلاح پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی اور خود نہیں گھومے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جنہوں نے گھومنے کا اثبات کیا ہے انہوں نے اس سے مراد سر کا گھومنا لیا ہے اور جنہوں نے اس کی نفی کی ہے انہوں نے پورے جسم کے گھومنے کی نفی کی ہے۔

2؎:
یعنی نیزہ اور قبلہ کے درمیان سے نہ کہ آپ کے اور نیز ے کے درمیان سے کیونکہ عمر بن ابی زائدہ کی روایت میں  ((وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ يَمُرُّونَ بَيْنَ يَدَيْ الْعَنَزَةِ)) ہے،
میں نے دیکھا کہ لوگ اور جانور نیزہ کے آگے سے گزر رہے تھے۔

3؎:
اس پر سنت سے کوئی دلیل نہیں،
رہا اسے اذان پر قیاس کرنا تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 197   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5786  
5786. حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت بلال ؓ کو دیکھا کہ وہ ایک چھوٹا سا نیزہ اٹھا کر لائے اور اسے زمین میں گاڑ دیا۔ پھر انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ سرخ رنگ کا جوڑا زیب تن کئے ہوئے باہر تشریف لائے جسے آپ نے سمیٹ رکھا تھا پھر آپ نے نیزے کے سامنے کھڑے ہو کر دورکعت نماز(عید) پڑھائی میں نے انسانوں اور چوپائیوں کو دیکھا کہ وہ نیزے کے پیچھے سے اور آپ کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5786]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوڑے کو سمیٹ رکھا تھا تاکہ زمین پر خاک آلود نہ ہو۔
باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
امام کے آگے نیزہ کا سترہ گاڑنا بھی ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5786   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5786  
5786. حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت بلال ؓ کو دیکھا کہ وہ ایک چھوٹا سا نیزہ اٹھا کر لائے اور اسے زمین میں گاڑ دیا۔ پھر انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ سرخ رنگ کا جوڑا زیب تن کئے ہوئے باہر تشریف لائے جسے آپ نے سمیٹ رکھا تھا پھر آپ نے نیزے کے سامنے کھڑے ہو کر دورکعت نماز(عید) پڑھائی میں نے انسانوں اور چوپائیوں کو دیکھا کہ وہ نیزے کے پیچھے سے اور آپ کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5786]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد حضرات بھی سرخ رنگ کا لباس پہن سکتے ہیں لیکن جس علاقے میں یہ رنگ عورتوں کے لیے مخصوص ہو چکا ہو وہاں مردوں کو اس رنگ کا لباس پہننے سے بچنا چاہیے کیونکہ لباس وغیرہ میں عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا ممنوع ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کپڑے کو سمیٹنا منع ہے لیکن اس کا محل یہ ہے کہ وہ چادر کے دامن کے علاوہ ہو کیونکہ اسے دفع مضرت کے لیے سمیٹا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 316/10)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں خلاف شریعت ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5786   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.