الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
16. بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ:
16. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان۔
(16) Chapter. The Prophet (p.b.u.h.) mentioned and recommended that the religious learned men should not differ. What common opinions the people of the two Haram (sanctuaries) of Makkah and Al-Madina had.
حدیث نمبر: 7331
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" اللهم بارك لهم في مكيالهم، وبارك لهم في صاعهم ومدهم"، يعني: اهل المدينة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي مِكْيَالِهِمْ، وَبَارِكْ لَهُمْ فِي صَاعِهِمْ وَمُدِّهِمْ"، يَعْنِي: أَهْلَ الْمَدِينَةِ.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ان مدینہ والوں کے پیمانہ میں انہیں برکت دے اور ان کے صاع اور مد میں انہیں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اہل مدینہ (کے صاع و مد) سے تھی (مدنی صاع اور مد کو بھی تاریخی عظمت حاصل ہے)۔

Narrated Anas bin Malik: Allah's Apostle said, "O Allah! Bestow Your Blessings on their measures, and bestow Your Blessings on their Sa' and Mudd." He meant those of the people of Medina.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 431


   صحيح البخاري7331أنس بن مالكاللهم بارك لهم في مكيالهم وبارك لهم في صاعهم ومدهم
   صحيح البخاري6714أنس بن مالكاللهم بارك لهم في مكيالهم وصاعهم ومدهم
   صحيح البخاري2130أنس بن مالكاللهم بارك لهم في مكيالهم وبارك لهم في صاعهم ومدهم يعني أهل المدينة
   صحيح مسلم3325أنس بن مالكاللهم بارك لهم في مكيالهم وبارك لهم في صاعهم وبارك لهم في مدهم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم641أنس بن مالكاللهم بارك لهم فى مكيالهم وبارك لهم فى صاعهم وفي مدهم“ يعني اهل المدينة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 641  
´مکہ اور مدینہ کو دوسرے تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اللهم بارك لهم فى مكيالهم وبارك لهم فى صاعهم وفي مدهم يعني اهل المدينة . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے میرے اللہ! ان یعنی مدینے والوں کے اوزان میں برکت ڈال اور ان کے صاع و مد (تولنے کے پیمانوں) میں برکت ڈال . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 641]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2130، و مسلم 1368، من حديث مالك به]

تفقه:
صاع: غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ جو اہل حجاز کے حساب سے 4 مُد (4 پونڈ) یعنی گیارہ سو بیس درہم کے وزن کے بقدر ہوتا ہے۔ اور اہل عراق کے حساب سے 8 رطل کے برابر یا دو سیر چودہ چھٹانک چار تولہ کے برابر۔ [القاموس الوحيد ص951]
شریعت میں اہل عراق کے صاع کا کوئی اعتبار نہیں صرف اہل مکہ اور اہلِ مدینہ جو اہل حجاز ہیں کے صاع کا اعتبار ہے۔
مُد: اہل حجاز کے نزدیک یہ ایک رطل اور ثلث رطل ہے۔ [القاموس الوحيد ص1532]
➌ مکہ اور مدینہ کو دوسرے تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے۔
➍ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور یمن کے لئے کئی دفعہ برکت کی دعا فرمائی۔ تیسری یا چوتھی دفعہ لوگوں نے کہا: «یا رسول اللہ! وفي عراقنا» اے اللہ کے رسول! اور ہمارے عراق (کے بارے) میں (برکت کی دعا فرمائیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور یہاں شیطان کا سینگ نکلے گا۔ [المعجم الكبير للطبراني 12/384 ح13422]
معلوم ہوا کہ (مدینے کے مشرق کی طرف) عراق کی سرزمین فتنوں اور گمراہ فرقوں کا مسکن ہے اور یہی وہ نجد ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی لہٰذا مکے و مدینے کے اوزان کے مقابلے میں عراقی اوزان پیش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [ح: 293]
➎ ایسی روایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عراق کے سارے لوگ غلط اور خراب ہیں بلکہ عراق میں بہت اچھے اور جلیل القدر لوگ بھی تھے اور ہیں۔ ان روایت میں عام حالات میں اکثریت کی مذمت مقصود ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 120   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7331  
7331. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اہل مدینہ کے پیمانے میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ان کے صاع اور مد میں بھی برکت عنایت کر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7331]
حدیث حاشیہ:

حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں نے مُد کی مقدار میں اضافہ کر دیا تھا لیکن احکام شرعیہ فطرانہ وغیرہ کی ادائیگی کے لیے صاع اور مُد کا اعتبار کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل مدینہ کے ہاں رائج تھا۔
اس کے متعلق ہم ذرا تفصیل بیان کرتے ہیں:
ایک صاع میں چار مَد ہوتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مَد کی مقدار ایک صحیح ایک بٹا تین رطل تھی، اس اعتبار سے صاع نبوی کی مقدار 5صحیح 1بٹا تین رطل بنتی ہے۔
بنوامیہ کے دور میں ہشام نے ایک دوسرا مد رائج کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے دو تہائی بڑا تھا لیکن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد ہی سے فطرانہ ادا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، کفارات الأیمان، حدیث: 6713)
اس کامطلب یہ ہے کہ انھوں نے حضرت ہشام کے ایجاد کردہ مدکو درخور اعتناء نہ سمجھا بلکہ پہلے مد ہی کو استعمال کرتے تھے اور ہشام کا مد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے دو تہائی بڑا تھا، اس کے بعد مزید اضافہ ہوا جیسا کہ مذکورہ حدیث میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان سے واضح ہوتا ہے۔

اس کامطلب یہ ہے کہ جب حضرت سائب نے یہ حدیث بیان کی، اس وقت مد میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا گیا تھا، یعنی اس وقت مد کی مقدار چار رطل تھی، جس میں بقول حضرت سائب ایک تہائی بڑھانے سے 5صحیح 1بٹا تین رطل بن جاتاہے جو صاع نبوی کی مقدار کے برابر ہے، یعنی اس میں تین گنا اضافہ کر دیا گیا تھا اورمد اور صاع کے ارتقائی مراحل پر نظر ڈالنے سے مندرجہ ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں:
الف۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صاع کی مقدار 5 صحیح ایک بٹا تین رطل تھی۔
ب۔
بنوامیہ کے دور میں مد کی مقدار 2رطل اور صاع کی مقدار8 رطل ہوگئی۔
ج۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں مد کی مقدار چاررطل اور صاع کی مقدار سولہ رطل تھی۔

عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع کو صاع حجازی اور بنوامیہ کے صاع کو صاع بغدادی یا عراقی کہا جاتا ہے اور صاع عراقی، صاع حجازی سے ایک تہائی بڑا ہے۔

صاع نبوی میں برکت کا تقاضا یہ ہے کہ شرعی واجبات کی ادائیگی میں اہل مدینہ کا صاع پیش نظر رکھنا چاہیے کیونکہ ابتدائی طور پر قانون سازی میں اسی صاع نبوی کا اعتبار کیا گیاتھا۔
اس کی تفصیل ہم کتاب کفارات الایمان حدیث 6713 کے تحت بیان کر آئے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7331   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.