الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
26. بَابُ كَرَاهِيَةِ الْخِلاَفِ:
26. باب: احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان۔
(26) Chapter. It is disliked to differ.
حدیث نمبر: 7366
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام، عن معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال:" لما حضر النبي صلى الله عليه وسلم، قال وفي البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب، قال: هلم اكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده، قال عمر: إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندكم القرآن، فحسبنا كتاب الله واختلف اهل البيت واختصموا، فمنهم من يقول: قربوا يكتب لكم رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا لن تضلوا بعده، ومنهم من يقول: ما قال عمر، فلما اكثروا اللغط والاختلاف عند النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قوموا عني، قال عبيد الله: فكان ابن عباس، يقول: إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين ان يكتب لهم ذلك الكتاب من اختلافهم ولغطهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" لَمَّا حُضِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ، فَحَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا، فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: مَا قَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغَطَ وَالِاخْتِلَافَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ مِنَ اخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سے صحابہ موجود تھے، جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں مبتلا ہیں، تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے۔ گھر کے لوگوں میں بھی اختلاف ہو گیا اور آپس میں بحث کرنے لگے۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب (لکھنے کا سامان) کر دو۔ وہ تمہارے لیے ایسی چیز لکھ دیں گے کہ اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے اور بعض نے وہی بات کہی جو عمر رضی اللہ عنہ کہہ چکے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ اختلاف و بحث زیادہ کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ۔ عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ سب سے بھاری مصیبت تو وہ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس نوشت لکھوانے کے درمیان حائل ہوئے، یعنی جھگڑا اور شور۔

Narrated Ibn `Abbas: When the time of the death of the Prophet approached while there were some men in the house, and among them was `Umar bin Al-Khatttab, the Prophet said, "Come near let me write for you a writing after which you will never go astray." `Umar said, "The Prophet is seriously ill, and you have the Qur'an, so Allah's Book is sufficient for us." The people in the house differed and disputed. Some of them said, "Come near so that Allah's Apostle may write for you a writing after which you will not go astray," while some of them said what `Umar said. When they made much noise and differed greatly before the Prophet, he said to them, "Go away and leave me." Ibn `Abbas used to say, "It was a great disaster that their difference and noise prevented Allah's Apostle from writing that writing for them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 468


   صحيح البخاري3168عبد الله بن عباسائتوني بكتف أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أمرهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري4431عبد الله بن عباسائتوني أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أوصاهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري4432عبد الله بن عباسهلموا أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده فقال بعضهم إن رسول الله قد غلبه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ومنهم من يقول غير ذلك
   صحيح البخاري7366عبد الله بن عباسهلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده قال عمر إن النبي غلبه الوجع وعندكم القرآن فحسبنا كتاب الله واختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح البخاري3053عبد الله بن عباسائتوني بكتاب أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع فقالوا هجر رسول الله قال دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه أوصى عند موته بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري114عبد الله بن عباسقوموا عني ولا ينبغي عندي التنازع خرج ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله وبين كتابه
   صحيح مسلم4232عبد الله بن عباسائتوني أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعدي فتنازعوا وما ينبغي عند نبي تنازع أوصيكم بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح مسلم4234عبد الله بن عباسهلم أكتب لكم كتابا لا تضلون بعده فقال عمر إن رسول الله قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت فاختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح مسلم4233عبد الله بن عباسائتوني بالكتف والدواة أو اللوح والدواة أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فقالوا إن رسول الله يهجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 114  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ " . . . .»
. . . ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 114]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چار روز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد كان عمر افقه من ابن عباس حيث اكتفي بالقرآن على انه يحتمل ان يكون صلى الله عليه وسلم كان ظهرله حين هم بالكتاب انه مصلحة ثم ظهر له اواوحي اليه بعد ان المصلحة فى تركه ولو كان واجبا لم يتركه عليه الصلوٰة والسلام لاختلافهم لانه لم يترك التكليف بمخالفة من خالف وقد عاش بعدذلك اياما ولم يعاود امرهم بذلك .»
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے، انہوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھا مگر بعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگر یہ حکم واجب ہوتا تو آپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 114   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7366  
7366. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: نبی ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سےصحابہ کرام موجود تھے۔ ان میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ بھی تھے۔ (اس وقت) آپ ﷺ نے فرمایا: آؤ، میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہں ہو گے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: نبیﷺ اس وقت تکلیف میں مبتلا ہیں، تمہارے پاس قرآن موجود ہے اور ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے گھر کے لوگوں میں بھی اختلاف ہوگیا اور وہ آپس میں جھگڑنے لگے۔ کچھ کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ کے قریب (لکھنے کا سامان) کر دو، وہ تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دیں کہ اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے اور کچھ حضرات نے وہی بات کہی جو سیدنا عمر ؓ کہہ چکے تھے۔ جب نبی ﷺ کے پاس شور وغل اور اختلاف زیادہ ہوگیا تو آپ نےفرمایا: میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ سیدنا ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے: سب سے بھاری مصیبت تو یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ اور اس نوشت لکھوانے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7366]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جھگڑے اور شور اور اختلاف کو دیکھ کر اپنا ارادہ بدل دیا جو عین منشائے الٰہی کے تحت ہوا۔
بعد میں آپ کا فی وقت تک باہوش رہے مگر یہ خیال مکرر ظاہر نہیں فرمایا۔
بعد میں امر خلافت میں جو کچھ ہوا وہ عین اللہ ورسول کی منشا کے مطابق ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مطلب تھا۔
حدیث اور بات میں وجہ مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف باہمی کو پسند نہیں فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7366   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7366  
7366. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: نبی ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سےصحابہ کرام موجود تھے۔ ان میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ بھی تھے۔ (اس وقت) آپ ﷺ نے فرمایا: آؤ، میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہں ہو گے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: نبیﷺ اس وقت تکلیف میں مبتلا ہیں، تمہارے پاس قرآن موجود ہے اور ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے گھر کے لوگوں میں بھی اختلاف ہوگیا اور وہ آپس میں جھگڑنے لگے۔ کچھ کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ کے قریب (لکھنے کا سامان) کر دو، وہ تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دیں کہ اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے اور کچھ حضرات نے وہی بات کہی جو سیدنا عمر ؓ کہہ چکے تھے۔ جب نبی ﷺ کے پاس شور وغل اور اختلاف زیادہ ہوگیا تو آپ نےفرمایا: میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ سیدنا ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے: سب سے بھاری مصیبت تو یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ اور اس نوشت لکھوانے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7366]
حدیث حاشیہ:
جب لوگ بار بار اصرار کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے چھوڑ دو۔
میں جس حالت میں ہوں اس حالت سے بہتر ہوں جس کی تم مجھے دعوت دیتے ہو۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اختلاف اور جھگڑا کرنا اچھا نہیں۔
یہ جمعرات کے دن کا واقعہ ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4431)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیر کے دن ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھ دن اس واقعے کے بعد زندہ رہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جزیرہ عرب سے مشرکین کونکال دینے کا حکم دیا اور باہر سے آنے والے مہمانوں کی خاطر و مدارات کرنے کا حکم بھی جاری فرمایا۔
(صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3168)
اگر تحریر کا معاملہ اتنا ہی اہم اور ضروری ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھوا سکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس موضوع پر کوئی گفتگو نہیں فرمائی۔
دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جھگڑے شور و غل اور باہمی اختلاف کو دیکھ کر اپنا ارادہ بدل دیا جو عین منشائے الٰہی کے مطابق ہوا اس کے بعد امر خلافت کے متعلق جو کچھ ہوا وہ بھی عین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق ہوا۔
آثار و قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلافت کے متعلق کچھ تحریر کرانا تھا۔
واللہ أعلم۔
حدیث اور عنوان میں مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپس میں اختلاف اور جھگڑے کو پسند نہیں فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7366   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.