الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
39. بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:
39. باب: (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں۔
(39) Chapter. The writing of knowledge.
حدیث نمبر: 114
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن سليمان، قال: حدثني ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال:" لما اشتد بالنبي صلى الله عليه وسلم وجعه، قال: ائتوني بكتاب اكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده، قال عمر: إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندنا كتاب الله حسبنا، فاختلفوا وكثر اللغط، قال: قوموا عني ولا ينبغي عندي التنازع، فخرج ابن عباس، يقول: إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين كتابه".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے، انہیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ سے، وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔


Hum se Yahya bin Sulaiman ne bayan kiya, un se Ibn-e-Wahb ne, unhein Younus ne Ibn-e-Shihaab se khabar di, woh Ubaidullah bin Abdullah se, woh Ibne-e-Abbas se riwayat karte hain ke jab Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ke marz mein shiddat ho gayi to Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke mere paas samaan-e-kitaabat laao taake tumhaare liye ek tehreer likh dun, taake baad mein tum gumraah na ho sako, is par Umar Radhiallahu Anhu ne (logon se) kaha ke is waqt Aap Sallallahu Alaihi Wasallam par takleef ka ghalba hai aur hamaare paas Allah ki kitaab Quran maujood hai jo hamein (hidaayat ke liye) kaafi hai. Is par logon ki raaye mukhtalif ho gayi aur shor-o-ghul ziyada hone laga. Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya mere paas se uth khade ho, mere paas jhagadna theek nahi, is par Ibne-e-Abbas Radhiallahu Anhuma yeh kehte huwe nikal aaye ke be-shak museebat badi sakht museebat hai (woh cheez jo) hamaare aur Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ke aur Aap ki tehreer ke darmiyaan haail ho gayi.

Narrated 'Ubaidullah bin `Abdullah: Ibn `Abbas said, "When the ailment of the Prophet became worse, he said, 'Bring for me (writing) paper and I will write for you a statement after which you will not go astray.' But `Umar said, 'The Prophet is seriously ill, and we have got Allah's Book with us and that is sufficient for us.' But the companions of the Prophet differed about this and there was a hue and cry. On that the Prophet said to them, 'Go away (and leave me alone). It is not right that you should quarrel in front of me." Ibn `Abbas came out saying, "It was most unfortunate (a great disaster) that Allah's Apostle was prevented from writing that statement for them because of their disagreement and noise. (Note: It is apparent from this Hadith that Ibn `Abbas had witnessed the event and came out saying this statement. The truth is not so, for Ibn `Abbas used to say this statement on narrating the Hadith and he had not witnessed the event personally. See Fath Al-Bari Vol. 1, p.220 footnote.) (See Hadith No. 228, Vol. 4).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 114


   صحيح البخاري3168عبد الله بن عباسائتوني بكتف أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أمرهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري4431عبد الله بن عباسائتوني أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع أوصاهم بثلاث قال أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري4432عبد الله بن عباسهلموا أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده فقال بعضهم إن رسول الله قد غلبه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ومنهم من يقول غير ذلك
   صحيح البخاري7366عبد الله بن عباسهلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده قال عمر إن النبي غلبه الوجع وعندكم القرآن فحسبنا كتاب الله واختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح البخاري3053عبد الله بن عباسائتوني بكتاب أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع فقالوا هجر رسول الله قال دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه أوصى عند موته بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح البخاري114عبد الله بن عباسقوموا عني ولا ينبغي عندي التنازع خرج ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله وبين كتابه
   صحيح مسلم4232عبد الله بن عباسائتوني أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعدي فتنازعوا وما ينبغي عند نبي تنازع أوصيكم بثلاث أخرجوا المشركين من جزيرة العرب أجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم
   صحيح مسلم4234عبد الله بن عباسهلم أكتب لكم كتابا لا تضلون بعده فقال عمر إن رسول الله قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت فاختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمر
   صحيح مسلم4233عبد الله بن عباسائتوني بالكتف والدواة أو اللوح والدواة أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا فقالوا إن رسول الله يهجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 114  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ " . . . .»
. . . ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 114]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چار روز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد كان عمر افقه من ابن عباس حيث اكتفي بالقرآن على انه يحتمل ان يكون صلى الله عليه وسلم كان ظهرله حين هم بالكتاب انه مصلحة ثم ظهر له اواوحي اليه بعد ان المصلحة فى تركه ولو كان واجبا لم يتركه عليه الصلوٰة والسلام لاختلافهم لانه لم يترك التكليف بمخالفة من خالف وقد عاش بعدذلك اياما ولم يعاود امرهم بذلك .»
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے، انہوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھا مگر بعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگر یہ حکم واجب ہوتا تو آپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 114   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:114  
114. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بہت بیمار ہو گئے تو آپ نے فرمایا: لکھنے کا سامان لاؤ تاکہ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: نبی ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے، وہ ہمیں کافی ہے۔ لوگوں نے اختلاف شروع کر دیا اور شوروغل مچ گیا۔ تب آپ نے فرمایا: میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے ہاں لڑائی جھگڑے کا کیا کام ہے؟ پھر حضرت ابن عباس ؓ نکلے، فرماتے تھے: تمام مصائب سے بڑی مصیبت وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:114]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتابت حدیث دردور نبوی ثابت کرناچاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرکے بالکل آخری حصے میں کچھ تحریر فرمانے کا ارادہ فرمایا لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی اختلاف کی وجہ سے اسے عملی شکل دینے کی نوبت نہ آئی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقصد کے اثبات کے لیے چار حدیثیں پیش کی ہیں:
پہلی حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے کہ ان کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں کچھ احکام لکھے ہوئے تھے لیکن اس میں بدرجہ امکان یہ احتمال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نوشتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تحریر فرمایا ہو یا انھیں نہی کی حدیث نہ پہنچی ہو، اس لیے دوسری حدیث پیش کی جس میں ابوشاہ یمنی کی درخواست پر آپ نے خطبہ لکھنے کی اجازت دی، مگر اس میں بھی خصوصیت کا یہ احتمال موجود ہے کہ شاید نابینا اور امی حضرات کے لیے یہ حکم ہو، اس لیے تیسری حدیث لائے جس میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا عمل کتابت منقول ہے جو آپ کی اجازت سے ہوا۔
اس میں خصوصیت نہیں بلکہ عموم ہے۔
لیکن ان تینوں احادیث میں کہیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قصد کتابت کا ذکر نہیں، اس لیے یہ آخری روایت پیش کرکے آپ کے ارادہ کتابت کا بھی ثبوت فراہم کردیا۔
اورظاہر ہے کہ آپ کا ارادہ حق اور درست ہی ہوسکتا ہے اس لیے بہترین دلائل کے ساتھ کتابت حدیث کا عمل ثابت ہو گیا۔
(فتح الباري: 277/1)

یہ حدیث، حدیث قرطاس کے نام سے مشہور ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چار دن قبل جمعرات کے دن یہ واقعہ ہوا۔
مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ شانے کی ہڈی لائیں تاکہ میں اس پر امت کو گمراہی کے تدارک کے لیے کچھ لکھوا دوں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد آپ کے حکم سے گریز نہ تھا بلکہ آپ نے ایسا ازراہ محبت فرمایا، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد چار روز تک زندہ رہے اور دوسرے احکام نافذ فرماتے رہے جبکہ تحریر کے متعلق آپ نے سکوت اختیار فرمایا۔
معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے آپ کو اتفاق تھا۔
بنیادی طور پر یہ حکم تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا تھا، کم از کم ان سے اس کوتاہی کی توقع نہ تھی۔
اگر یہ حکم ضروری ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ تحریر کی نوبت ہی نہ آئی اور باہمی اختلاف اس سے محرومی کا باعث ہوا۔
اس گفتگو سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس واقعہ کے وقت وہاں شریک مجلس تھے اور وہاں سے نکلتے ہوئے ان کلمات افسوس کا اظہار فرمایا، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مختلف شواہد کی بنا پر اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب اپنے تلامذہ کے سامنے حدیث بیان فرماتے تو آخر میں یہ کلمات کہتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
(فتح الباري: 277/1)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس تحریر کو مؤخر کرانے میں اکیلے نہ تھے بلکہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے ساتھ تھے۔
ان حضرات کو اس بات کا یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات واجب التعمیل ہیں لیکن یہ حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ منافقین کو باتیں بنانے کے لیے ایک ثبوت مل جائے گا کہ خاکم بدہن، لیجئے شدت مرض کے ایام میں جبکہ ہوش وحواس میں اختلال کا امکان تھا، ایک تحریر لکھوالی۔
منافقین کی اس زبان بندی اور یاوہ گوئی کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوردیگرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا کیا۔
(فتح الباري: 276/1)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے ہاں لڑائی جھگڑے کا کیا کام ہے؟ آپ کا یہ خطاب تمام شرکائے مجلس کو تھا جس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔
اس حکم کی تعمیل میں سب لوگ گھروں کو چلے گئے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق تھی، بصورت دیگر وہی کاغذ وغیرہ لے آتے، پھر آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد بھی تھے، گھر آنا جانا رہتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر چلے جانے کے بعد یہ کام بخوبی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ان کی رائے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 114   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.