الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جمعہ کے بیان میں
The Book of Al-Jumuah (Friday)
33. بَابُ مَنْ جَاءَ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ:
33. باب: جب امام خطبہ دے رہا ہو اور کوئی مسجد میں آئے تو ہلکی سی دو رکعت نماز پڑھ لے۔
(33) Chapter. Whoever comes when the Imam is delivering the Khutba (religious talk) should offer a light two Raka Salat (prayer) (Tahayyat-ul-Masjid).
حدیث نمبر: 931
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا سفيان، عن عمرو، سمع جابرا، قال: دخل رجل يوم الجمعة والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب، فقال" اصليت؟ قال: لا، قال: قم فصل ركعتين".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ جَابِرًا، قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، فَقَالَ" أَصَلَّيْتَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: قُمْ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو سے بیان کیا، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے (تحیۃ المسجد کی) نماز پڑھ لی ہے؟ آنے والے نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اٹھو اور دو رکعت نماز (تحیۃ المسجد) پڑھ لو۔

Narrated Jabir: A man entered the Mosque while the Prophet was delivering the Khutba. The Prophet said to him, "Have you prayed?" The man replied in the negative. The Prophet said, "Pray two rak`at."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 53


   صحيح البخاري931جابر بن عبد اللهأصليت قال لا قال قم فصل ركعتين
   صحيح البخاري3087جابر بن عبد اللهادخل المسجد فصل ركعتين
   صحيح البخاري930جابر بن عبد اللهأصليت يا فلان قال لا قال قم فاركع
   صحيح البخاري1166جابر بن عبد اللهإذا جاء أحدكم والإمام يخطب أو قد خرج فليصل ركعتين
   صحيح مسلم2020جابر بن عبد اللهأصليت قال لا قال قم فصل الركعتين وفي رواية قتيبة قال صل ركعتين
   صحيح مسلم2024جابر بن عبد اللهقم فاركع ركعتين وتجوز فيهما ثم قال إذا جاء أحدكم يوم الجمعة والإمام يخطب فليركع ركعتين وليتجوز فيهما
   صحيح مسلم1656جابر بن عبد اللهصل ركعتين
   صحيح مسلم2018جابر بن عبد اللهأصليت يا فلان قال لا قال قم فاركع
   صحيح مسلم2021جابر بن عبد اللهأركعت ركعتين قال لا فقال اركع
   صحيح مسلم2022جابر بن عبد اللهإذا جاء أحدكم يوم الجمعة وقد خرج الإمام فليصل ركعتين
   صحيح مسلم2023جابر بن عبد اللهأركعت ركعتين قال لا قال قم فاركعهما
   جامع الترمذي510جابر بن عبد اللهقم فاركع
   سنن أبي داود1115جابر بن عبد اللهأصليت يا فلان قال لا قال قم فاركع
   سنن النسائى الصغرى1410جابر بن عبد اللهصليت قال لا قال قم فاركع
   سنن النسائى الصغرى1401جابر بن عبد اللهأركعت ركعتين قال لا قال فاركع
   سنن النسائى الصغرى1396جابر بن عبد اللهإذا جاء أحدكم وقد خرج الإمام فليصل ركعتين
   سنن ابن ماجه1112جابر بن عبد اللهأصليت قال لا قال فصل ركعتين
   بلوغ المرام364جابر بن عبد الله«‏‏‏‏صليت؟» ‏‏‏‏ قال: لا قال: «‏‏‏‏قم فصل ركعتين»
   مسندالحميدي1257جابر بن عبد اللهأصليت؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1112  
´دوران خطبہ مسجد میں آنے والا کیا کرے؟`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے پوچھا: کیا تم نے نماز ادا کر لی؟ انہوں نے کہا: جی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو رکعت پڑھ لو ۱؎۔ عمرو بن دینار نے سلیک کا ذکر نہیں کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1112]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کی خطبے دوران میں آنے والے کو بھی دو رکعت پڑھ کر بیٹھنا چاہیے تو دوسرے اوقات میں آنے والے کو بدرجہ اولیٰ دو رکعت پڑھ کر بیٹھنا چاہیے۔

(2)
ان دو رکعتوں کو تحیۃ المسجد بھی قرار دیا گیا ہے۔
اور جمعے کی سنتیں بھی تاہم مذکورہ بالا صورت میں دو رکعت سے زیادہ پڑھنا درست نہیں۔
ہاں خطبہ شروع ہونے سے پہلے (دودو رکعت کرکے)
جتنی چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، باب الدھن للجمعة، حدیث: 883)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1112   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 364  
´نماز جمعہ کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جمعہ کے روز ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے سے دریافت فرمایا نماز (تحیۃ المسجد) پڑھی ہے؟ وہ بولا نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اٹھو اور دو رکعت نماز ادا کر۔ (بخاری ومسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 364»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الجمعة، باب من جاء والإمام يخطب صلي ركعتين، حديث:931، ومسلم، الجمعة، باب التحية والإمام يخطب، حديث:875.»
تشریح:
1. معلوم ہوا کہ خطبۂجمعہ کے دوران میں دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔
اس میں استماع خطبہ کے عام حکم کی تخصیص ہے۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خطیب خطبۂجمعہ کے علاوہ بھی ضرورت کے وقت بات چیت کر سکتا ہے بلکہ نئے آنے والے کو دو رکعت نماز پڑھنے کی تلقین بھی کر سکتا ہے۔
3.احناف ان دو رکعتوں کے قائل نہیں۔
یہ حدیث ان کی تردید کرتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 364   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 931  
931. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک شخص اس وقت آیا جب نبی ﷺ خطبہ ارشاد فر رہے تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا: کیا تو نے نماز پڑھی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: (کھڑے ہو کر) دو رکعتیں پڑھو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:931]
حدیث حاشیہ:
جمعہ کے دن حالت خطبہ میں کوئی شخص آئے تو اسے خطبہ ہی کی حالت میں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے بغیر نہیں بیٹھنا چاہیے۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو حدیث جابر بن عبد اللہ سے جسے حضرت امام المحدثین ؒ نے یہاں نقل فرمایا ہےروز روشن کی طرح ثابت ہے۔
حضرت امام ترمذی ؒ نے باب في الرکعتین إذا جاءالرجل والإمام یخطب کے تحت اسی حدیث کو نقل فرمایا ہے، آخر میں فرماتے ہیں کہ ھذا حدیث حسن صحیح یہ حدیث بالکل حسن صحیح ہے، اس میں صاف بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خطبہ کی ہی حالت میں ایک آنے والے شخص (سلیک نامی)
کو دو رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔
بعض ضعیف روایتوں میں مذکور ہے کہ جس حالت میں اس شخص نے دو رکعت ادا کیں آنحضرت ﷺ نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔
یہ روایت سند کے اعتبار سے لائق حجت نہیں ہے اور بخاری شریف کی مذکورہ حدیث حسن صحیح ہے جس میں آنحضرت ﷺ کی حالت خطبہ ہی میں اس کے دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔
لہذا اس کے مقابلے پر یہ روایت قابل حجت نہیں۔
دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ آنے والے شخص کو آنحضرت ﷺ نے دو رکعت نماز کا حکم بے شک فرمایا مگر ابھی آپ نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ ؓ جو صاف لفظوں میں النبی ﷺ یخطب الناس یوم الجمعة (یعنی آنحضرت ﷺ لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے)
نقل فرمارہے ہیں۔
نعوذباللہ ان کا یہ بیان غلط ہے اور ابھی آنحضرت ﷺ نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔
یہ کس قدر جرات ہے کہ ایک صحابی رسول کو غلط بیانی کامرتکب گردانا جائے اور بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر محدثین کرام کی فقاہت حدیث اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے بیان کی نہایت بے باکی کے ساتھ تغلیط کی جائے۔
حضرت امام ترمذی ؒ نے اس سلسلہ کی دوسری حدیث عبد اللہ بن ابی مسرح سے یوں نقل فرمائی ہے:
أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، دَخَلَ يَوْمَ الجُمُعَةِ وَمَرْوَانُ يَخْطُبُ، فَقَامَ يُصَلِّي، فَجَاءَ الحَرَسُ لِيُجْلِسُوهُ، فَأَبَى حَتَّى صَلَّى، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا:
رَحِمَكَ اللَّهُ، إِنْ كَادُوا لَيَقَعُوا بِكَ، فَقَالَ:
مَا كُنْتُ لأَتْرُكَهُمَا بَعْدَ شَيْءٍ رَأَيْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَكَرَ أَنَّ رَجُلاً جَاءَ يَوْمَ الجُمُعَةِ فِي هَيْئَةٍ بَذَّةٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الجُمُعَةِ، فَأَمَرَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ.یعنی ابو سعید خدری ؓ صحابی رسول اللہ ؓ جمعہ کے دن مسجد میں اس حالت میں آئے کہ مروان خطبہ دے رہا تھا یہ نماز (تحیۃ المسجد)
پڑھنے کھڑے ہوگئے۔
یہ دیکھ کر سپاہی آئے اور ان کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر یہ نہ مانے اور پڑھ کر ہی سلام پھیرا، عبد اللہ بن ابی مسرح کہتے ہیں کہ نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے ملا قات کی اور کہا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔
آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعتوں کو چھوڑنے والاہی نہیں تھا۔
خواہ سپاہی لوگ کچھ بھی کرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی پریشان شکل میں داخل مسجد ہوا۔
آنحضرت ﷺ نے اس کو اسی حالت میں دو رکعت پڑھ لینے کا حکم فرمایا۔
وہ نماز پڑھتا رہا اور آنحضرت ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔
دو عادل گواہ!حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ ہر دو عادل گواہوں کا بیان قارئین کے سامنے ہے۔
اس کے بعد مختلف تاویلات یا کمزور روایات کا سہارا لے کر ان ہر دو صحابیوں کی تغلیط کے درپے ہونا کسی بھی اہل علم کی شان کے خلاف ہے۔
حضرت امام ترمذی ؒ آگے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عیینہ اور حضرت عبد الرحمن مقری ہر دو بزرگوں کا یہی معمول تھا کہ وہ اس حالت مذکورہ میں ان ہر دو رکعتوں کو ترک نہیں کیاکرتے تھے۔
حضرت امام ترمذی ؒ نے اس سلسلے کی دیگر روایات کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جن میں حضرت جابر کی ایک اور روایت طبرانی میں یوں مذکور ہے:
عن جابر قال دخل النعمان بن نوفل ورسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم علی المنبر یخطب یوم الجمعة فقال له النبي صلی اللہ علیه وسلم رکعتین وتجوز فیھما فإذا أتی أحدکم یوم الجمعة والإمام یخطب فلیصل رکعتین ولیخففھما کذا في قوت المعتذي وتحفة الأحوذي، ج: 2ص: 264 یعنی ایک بزرگ نعمان بن نوفل نامی مسجد میں داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔
آپ نے ان کو حکم فرمایا کہ اٹھ کر دو رکعت پڑھ کر بیٹھیں اور ان کو ہلکا کر کے پڑھیں اور جب بھی کوئی تمہارا اس حالت میں مسجد میں آئے کہ امام خطبہ دے رہاہو تو وہ ہلکی دو رکعتیں پڑھ کر ہی بیٹھے اور ان کو ہلکا پڑھے۔
حضرت علامہ نووی ؒ شارح مسلم شریف فرماتے ہیں:
هَذِهِ الْأَحَادِيثُ كُلُّهَا يَعْنِي الَّتِي رَوَاهَا مُسْلِمٌ صَرِيحَةٌ فِي الدَّلَالَةِ لِمَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وَفُقَهَاءِ الْمُحَدِّثِينَ أَنَّهُ إِذَا دَخَلَ الْجَامِعَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ يُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ تَحِيَّةَ الْمَسْجِدِ وَيُكْرَهُ الْجُلُوسُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَهُمَا وَأَنَّهُ يُسْتَحَبُّ أَنْ يَتَجَوَّزَ فِيهِمَا لِيَسْمَعَ بَعْدَهُمَا الْخُطْبَةَ وَحُكِيَ هَذَا الْمَذْهَبُ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَغَيْرِهِ مِنَ الْمُتَقَدِّمِينَ۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی ان جملہ احادیث سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے کہ امام جب خطبہ جمعہ دے رہا ہو اور کوئی آنے والا آئے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کر کے ہی بیٹھے۔
بغیر ان دو رکعتوں کے اس کا بیٹھنا مکروہ ہے اور مستحب ہے کہ ہلکا پڑھے تاکہ پھرخطبہ سنے۔
یہی مسلک امام حسن بصری وغیرہ متقدمین کا ہے۔
حضرت امام ترمذی ؒ نے دوسرے حضرات کا مسلک بھی ذکر فرمایا ہے جو ان دو رکعتوں کے قائل نہیں ہیں پھر حضرت امام ترمذی ؒ نے اپنا فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے:
والقول الأول أصح۔
یعنی ان ہی حضرات کا مسلک صحیح ہے جو ان دو رکعتوں کے پڑھنے کے قائل ہیں۔
اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی شخص ان دورکعتوں کو ناجائز تصور کرے تو یہ خود اس کی ذمہ داری ہے۔
آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا ارشاد گرامی بھی سن لیجیے آپ فرماتے ہیں:
فَإِذا جاءو الإِمَام يخْطب فليركع رَكْعَتَيْنِ، وليتجوز فيهمَا رِعَايَة لسنة الرَّاتِبَة وأدب الْخطْبَة جَمِيعًا بِقدر الْإِمْكَان، وَلَا تغتر فِي هَذِه الْمَسْأَلَة بِمَا يلهج بِهِ أهل بلدك فَإِن الحَدِيث صَحِيح وَاجِب اتِّبَاعه. (حجة اللہ البالغة، جلد:
دومص: 101)

یعنی جب کوئی نماز ی ایسے حال میں مسجد میں داخل ہو کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت ہلکی خفیف پڑھ لے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے اور اس مسئلہ کے بارے میں تمہارے شہر کے لوگ جو شور کرتے ہیں اور ان رکعتوں کے پڑھنے سے روکتے ہیں؟ ان کے دھوکا میں نہ آنا کیونکہ اس مسئلہ کے حق میں حدیث صحیح وارد ہے جس کا اتباع واجب ہے۔
وبا للّٰہ التوفیق۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 931   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:931  
931. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک شخص اس وقت آیا جب نبی ﷺ خطبہ ارشاد فر رہے تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا: کیا تو نے نماز پڑھی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: (کھڑے ہو کر) دو رکعتیں پڑھو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:931]
حدیث حاشیہ:
(1)
علامہ زین بن منیر ؒ مذکورہ عنوانات میں بایں الفاظ فرق بیان کرتے ہیں کہ پہلے عنوان میں آنے والے کو دو رکعت ادا کرنے کا حکم دینا اس بات سے مشروط ہے کہ امام اسے دوران خطبہ میں دیکھے اور اس سے پوچھے کہ تو نے نماز پڑھی ہے یا نہیں اور یہ سب معاملات خطیب کے ساتھ خاص ہیں۔
دوسرا عنوان مسجد میں آنے والے سے متعلق ہے کہ اسے چاہیے کہ دوران خطبہ میں دو رکعت پڑھ کر خطبہ سننے کے لیے بیٹھے۔
امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوانات میں ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھا ہے، حالانکہ دونوں میں حدیث ایک ہی بیان کی ہے، (فتح الباري: 530/2)
نیز اس عنوان میں ہلکی پھلکی دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ پیش کردہ حدیث میں اس قسم کی کوئی وضاحت نہیں ہے؟ اصل میں امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ عنوان کے ذریعے سے کسی ایسی حدیث کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہے لیکن ان کی شرائط کے مطابق نہیں ہوتی، چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے ہلکی پھلکی دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا۔
(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 2018 (875) (2)
دوران خطبہ میں آنے والا شخص سلیک بن ہدیہ غطفانی تھا جیسا کہ صحیح مسلم کی روایات میں اس کی صراحت ہے۔
بعض روایات میں آنے والے کا نام نعمان بن نوفل بتایا گیا ہے لیکن محدثین نے اسے کسی راوی کا وہم قرار دیا ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دوران خطبہ میں حضرت ابوذر ؓ آئے تھے تو آپ نے انہیں دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا۔
اس روایت میں ابن لبیعہ راوی نے دوران خطبہ میں کے الفاظ شاذ طور پر بیان کر دیے ہیں کیونکہ محفوظ الفاظ یہ ہیں کہ حضرت ابوذر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جبکہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ قیس قبیلے کا ایک شخص آپ کے پاس آیا تھا۔
اس سے مراد بھی سلیک ہے کیونکہ قبیلۂ غطفان قیس کی ایک شاخ ہے۔
ابن بشکوال نے اس آدمی کا نام ابو ہدیہ لکھا ہے۔
اگر یہ الفاظ محفوظ ہیں تو ممکن ہے کہ سلیک ؓ کی کنیت ابو ہدیہ ہو۔
اتفاق سے اس کے باب کا نام بھی ہدیہ ہے۔
(فتح الباري: 524/2)
واللہ أعلم (3)
یہ احادیث اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جمعہ کے دن دوران خطبہ میں اگر کوئی شخص آئے تو اسے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھنا چاہیے لیکن فقہائے کوفہ نے بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر اس موقف کی تردید کی ہے۔
کبھی کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ان تمام حیلوں بہانوں کا ذکر کیا ہے جن کے سہارے یہ حضرات اس سنت کا انکار کرتے ہیں، پھر دلائل و براہین سے محدثین کے موقف کو ثابت کیا ہے۔
یہ قابل قدر بحث، صفحہ 526 سے 529 تک پھیلی ہوئی ہے۔
ہم اس سلسلے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا فیصلہ نقل کر کے اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں:
جب کوئی نمازی ایسے حالات میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے۔
اور اس مسئلے کے متعلق تمہارے شہر کے لوگ جو شوروغوغا کرتے ہیں ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ اس مسئلے کے متعلق صحیح احادیث ہیں جن کی اتباع ضروری ہے۔
(حجة اللہ البالغة: 29/2، طبع المکتبة السلفیة، لاھور)
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کا واقعہ بھی بیان کر دیا جائے جسے امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے:
عبداللہ بن ابی سرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ جمعہ کے دن مسجد میں اس وقت آئے جب مروان بن حکم خطبہ دینے میں مصروف تھا۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو مروان کے سپاہی آئے اور آپ کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر حضرت ابو سعید ؓ نے نماز توڑنے سے انکار کر دیا اور مکمل کر کے سلام پھیرا۔
نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید ؓ سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔
آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعات کو چھوڑنے والا نہیں تھا، خواہ سپاہی کچھ بھی کر گزرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، ایک پراگندہ حال آدمی مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، وہ نماز پڑھتا رہا جبکہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے میں مصروف رہے۔
(جامع الترمذي، الجمعة، حدیث: 511)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 931   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.