الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جمعہ کے بیان میں
The Book of Al-Jumuah (Friday)
39. بَابُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْجُمُعَةِ وَقَبْلَهَا:
39. باب: جمعہ کے بعد اور اس سے پہلے سنت پڑھنا۔
(39) Chapter. To offer As-Salat (the Prayer) before and after the Jumuah prayer.
حدیث نمبر: 937
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي قبل الظهر ركعتين وبعدها ركعتين، وبعد المغرب ركعتين في بيته، وبعد العشاء ركعتين وكان لا يصلي بعد الجمعة حتى ينصرف فيصلي ركعتين".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ، وَبَعْدَ الْعِشَاءِ رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ لَا يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ حَتَّى يَنْصَرِفَ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے نافع سے خبر دی، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے دو رکعت، اس کے بعد دو رکعت اور مغرب کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے اور عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے اور جمعہ کے بعد دو رکعتیں جب گھر واپس ہوتے تب پڑھا کرتے تھے۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle used to pray two rak`at before the Zuhr prayer and two rak`at after it. He also used to pray two rak`at after the Maghrib prayer in his house, and two rak`at after the `Isha' prayer. He never prayed after Jumua prayer till he departed (from the Mosque), and then he would pray two rak`at at home.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 59


   صحيح البخاري937عبد الله بن عمريصلي قبل الظهر ركعتين وبعدها ركعتين بعد المغرب ركعتين في بيته وبعد العشاء ركعتين لا يصلي بعد الجمعة حتى ينصرف فيصلي ركعتين
   صحيح البخاري1165عبد الله بن عمرصليت مع رسول الله ركعتين قبل الظهر وركعتين بعد الظهر ركعتين بعد الجمعة ركعتين بعد المغرب ركعتين بعد العشاء
   صحيح البخاري1172عبد الله بن عمرصليت مع النبي سجدتين قبل الظهر وسجدتين بعد الظهر سجدتين بعد المغرب سجدتين بعد العشاء سجدتين بعد الجمعة
   صحيح البخاري1180عبد الله بن عمرعشر ركعات ركعتين قبل الظهر ركعتين بعدها ركعتين بعد المغرب في بيته ركعتين بعد العشاء في بيته ركعتين قبل صلاة الصبح كانت ساعة لا يدخل على النبي
   صحيح مسلم1698عبد الله بن عمرصليت مع رسول الله قبل الظهر سجدتين وبعدها سجدتين بعد المغرب سجدتين بعد العشاء سجدتين بعد الجمعة سجدتين
   جامع الترمذي425عبد الله بن عمرصليت مع النبي ركعتين قبل الظهر وركعتين بعدها
   جامع الترمذي433عبد الله بن عمرعشر ركعات كان يصليها بالليل والنهار ركعتين قبل الظهر وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب وركعتين بعد العشاء الآخرة
   سنن أبي داود1252عبد الله بن عمريصلي قبل الظهر ركعتين وبعدها ركعتين وبعد المغرب ركعتين في بيته وبعد صلاة العشاء ركعتين لا يصلي بعد الجمعة حتى ينصرف فيصلي ركعتين
   سنن النسائى الصغرى874عبد الله بن عمريصلي قبل الظهر ركعتين وبعدها ركعتين وكان يصلي بعد المغرب ركعتين في بيته وبعد العشاء ركعتين لا يصلي بعد الجمعة حتى ينصرف فيصلي ركعتين
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم149عبد الله بن عمريصلي قبل الظهر ركعتين، وبعدها ركعتين، وبعد المغرب ركعتين فى بيته
   بلوغ المرام281عبد الله بن عمرركعتين قبل الظهر وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب في بيته وركعتين بعد العشاء في بيته وركعتين قبل الصبح

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 149  
´ظہر، مغرب، عشاء اور جمعہ کی سنتیں`
«. . . وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي قبل الظهر ركعتين، وبعدها ركعتين، وبعد المغرب ركعتين فى بيته، وبعد صلاة العشاء ركعتين، وكان لا يصلي بعد الجمعة حتى ينصرف فيصلي ركعتين . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے دو رکعتیں اور بعد میں دو رکعتیں پڑھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کے بعد اپنے گھر میں دو رکعتیں پڑھتے تھے اور عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ جمعہ (پڑھنے) کے بعد (گھر) واپس آنے تک کچھ بھی نہیں پڑھتے تھے پھر (گھر آ کر) دو رکعتیں پڑھتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 149]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 937، ومسلم 882، من حديث مالك به]
تفقه:
① اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کا ذکر ہے اور امت کے لئے یہ نمازیں سنت ہیں۔
② ظہر کی فرض نماز سے پہلے چار سنتیں بھی ثابت ہیں۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 730، ترقيم دارالسلام 1699]
جو شخص ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور بعد میں چار رکعتیں پڑھے گا تو الله تعالیٰ اس کے جسم کو (جہنم کی) آگ پر حرام قرار دے گا۔ [سنن النسائي 264/3، 265 ح 1813، وسنده حسن]
③ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله اس آدمی پر رحم کرے جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتا ہے۔ [سنن ابي داود: 1271، وسنده حسن] عصر سے پہلے دو رکعتیں بھی ثابت ہیں۔ دیکھئے: [سنن ابي داود 1242، وسنده حسن لذاته]
④ دن ہو یا رات نفل و سنت نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنی چاہیئں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رات اور دن کی (نفل) نماز دو دو رکعتیں ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 487/2 وسنده صحيح]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات اور دن کی نماز دو دو رکعتیں ہے - [سنن ابي داود، 1295، وسنده حسن]
⑤ نافع سے روایت ہے کہ (سیدنا) عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ رات کو دو دو رکعتیں اور دن کو چار رکعتیں پڑھتے تھے پھر سلام پھیرتے تھے۔ [مصنف عبدالرزاق 5٠1/2 ح4225 وسنده حسن، الاوسط لابن المنذر 236/5 ح2773 وعنده: عبيد الله بن عمر!]
ابن عمر رضی اللہ عنہ دن کو چار چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 274/2 ح6634 وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ ایک سلام سے چار رکعتیں جائز ہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ دو دو رکعتیں پڑھی جائیں۔
⑥ نماز جمعہ سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا مسنون ہے اور جمعہ کے بعد دو پڑھیں یا چار دونوں طرح ثابت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 200   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 874  
´ظہر کے بعد سنت پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے تھے، اور اس کے بعد بھی دو رکعت پڑھتے تھے، اور مغرب کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے، اور عشاء کے بعد بھی دو رکعت پڑھتے، اور جمعہ کے بعد مسجد میں کچھ نہیں پڑھتے یہاں تک کہ جب گھر لوٹ آتے تو دو رکعت پڑھتے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 874]
874 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حدیث میں ظہر سے پہلے دو رکعت بھی منقول ہیں اور چار بھی، لہٰذا دونوں طرح جائز ہے، نیز جس روایت میں بارہ رکعت کی فضیلت کا ذکر ہے، اس میں ظہر سے پہلے چارہی بنتی ہیں۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 728، 730]
ممکن ہے کبھی کبھار دو بھی پڑھ لیتے ہوں۔ یا اگر پہلے دو پڑھتے ہوں تو بعد میں چار پڑھ لیتے ہوں کیونکہ بعض روایات میں ظہر کے بعد چار رکعت کا بھی ذکر ہے۔ گویا مجموعی طور پر بارہ ہونی چاہئیں۔ بہتر یہ ہے کہ جس جس طرح ان کا طریقہ احادیث میں مروی ہے، اس طرح ادا کی جائیں۔
➋ جمعے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔ [صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 882]
اور ایک قولی روایت میں چار رکعت کا ذکر ہے کہ جسے جمعے کے بعد نماز پڑھنی ہو، وہ چار رکعت پڑھے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 881]
ان روایات کی رو سے بعض علماء نے چار کو مسجد سے اور دوکو گھر سے خاص کیا ہے۔ لیکن اس تخصیص کی ضرورت نہیں، مرضی پر موقوف ہے، چاہے چار پڑھے اور چاہے تو دو، لیکن چار کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ بعض علماء دونوں کو جمع کرنے کے قائل ہیں، یعنی مسجد میں چار پڑھے اور گھر میں جاکر مزید دو پڑھے۔ اگرچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے چھ رکعات کا عمل ملتا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طریقے کا ثبوت نہیں ملتا۔ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ذاتی اجتہاد یا ان کی رائے تھی جس کی حیثیت یقیناًً مرفوع حدیث کی نہیں، اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ بجائے دو اور چار کو جمع کرنے کے الگ الگ طور پر دونوں پر عمل کر لیا جائے، یعنی کسی جمعے دو پڑھ لیں اور کسی جمعے چار، ان شاء اللہ یہ سنت کے اقرب عمل ہو گا۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 874   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 281  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس رکعتیں یاد ہیں۔ دو رکعتیں ظہر کی نماز سے پہلے اور دو بعد میں اور مغرب کے بعد دو رکعتیں گھر پر ادا کرتے تھے۔ اسی طرح دو رکعتیں عشاء کی فرض نماز کے بعد گھر پر اور دو رکعتیں صبح سے پہلے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری و مسلم دونوں کی روایت میں یہ بھی ہے کہ دو رکعتیں نماز جمعہ کی (فرض) نماز کے بعد گھر پر پڑھتے تھے۔ اور مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ صبح صادق کے بعد صرف ہلکی سی دو رکعتیں ادا فرمایا کرتے تھے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 281»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التهجد، باب التطوع بعد المكتوبة، حديث:1172، ومسلم، صلاة المسافرين، باب فضل السنن الراتبة قبل الفرائض وبعدهن، حديث:729، وحديث "كان إذا طلع الفجر لا يصلي إلا ركعتين خفيفتين"، حديث:723.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ظہر کی صرف دو رکعتیں فرض نماز سے پہلے اور دو رکعتیں بعد کی ثابت ہوتی ہیں اور دوسری حدیث سے چار پہلے اور دو بعد میں پڑھنے کا ثبوت بھی موجود ہے۔
دیکھیے: (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۲۸.۷۳۰) 2. سنن نسائی اور بعض دوسری کتب حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ حدیث بھی موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز ظہر سے پہلے اور نماز ظہر کے بعد چار چار رکعتیں پڑھے‘ اللہ عزوجل نے جہنم کی آگ پر اس شخص کا گوشت حرام فرما دیا ہے۔
(سنن النسائي‘ قیام اللیل‘ حدیث:۱۸۱۳)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 281   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 425  
´ظہر کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعتیں ۱؎ اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 425]
اردو حاشہ:
 
1؎:
اس سے پہلے والی روایت میں ظہر سے پہلے چار رکعتوں کا ذکر ہے اور اس میں دو ہی رکعت کا ذکر ہے دونوں صحیح ہیں،
حالات و ظروف کے لحاظ سے ان دونوں میں سے کسی پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔
البتہ دونوں پرعمل زیادہ افضل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 425   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 937  
937. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر سے پہلے دو رکعتیں اور اس کے بعد دو رکعتیں، نیز مغرب کے بعد اپنے گھر میں دو رکعتیں اور نماز عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ جمعہ کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے تاآنکہ گھر لوٹ آتے، واپس آ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:937]
حدیث حاشیہ:
چونکہ ظہر کی جگہ جمعہ کی نماز ہے، اس لیے حضرت امام بخاری ؒ نے ارشاد فرمایا کہ جو سنتیں ظہر سے پہلے اور پیچھے مسنون ہیں، وہی جمعہ کے پہلے اور پیچھے بھی مسنون ہیں۔
بعض دوسری احادیث میں ان سنتوں کا ذکر بھی آیا ہے جمعہ کے بعد کی سنتیں اکثر آپ ﷺ گھر میں پڑھا کر تے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 937   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:937  
937. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر سے پہلے دو رکعتیں اور اس کے بعد دو رکعتیں، نیز مغرب کے بعد اپنے گھر میں دو رکعتیں اور نماز عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ جمعہ کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے تاآنکہ گھر لوٹ آتے، واپس آ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:937]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں جمعہ سے پہلے نماز کا ذکر کیا ہے لیکن پیش کردہ حدیث میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
اس کے متعلق علامہ ابن منیر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اصلاً ظہر و جمعہ کی حیثیت برابر ہونے کے اعتبار سے کسی دوسری دلیل کی ضرورت محسوس نہیں کی، اور بعد والی سنتوں کی اہمیت کے پیش نظر حدیث میں ان کے ذکر کا حوالہ دیا ہے۔
حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ جمعہ سے قبل لمبی نماز پڑھتے اور جمعہ کے بعد اپنے گھر میں دو رکعت ادا کرتے تھے اور پھر رسول اللہ ﷺ کے عمل کا حوالہ دیتے تھے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اگر اس سے مراد جمعہ کا وقت شروع ہونے کے بعد نماز پڑھنا ہے تو یہ درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ زوال شمس کے بعد تشریف لاتے تو خطبۂ جمعہ میں مشغول ہو جاتے تھے، اس لیے رسول اکرم ﷺ سے تو اس کا ثبوت نہیں ہے۔
اور اگر اس سے مراد وقت شروع ہونے سے پہلے نماز پڑھنا ہے تو یہ مطلق نوافل ہیں، سنن رواتبہ نہیں، نیز فرماتے ہیں کہ جمعہ سے پہلے دو رکعت کے متعلق سب سے زیادہ قوی روایت ابن حبان کی ہے جس میں عبداللہ بن زبیر ؓ مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں ہیں۔
(صحیح ابن حبان(الإحسان)
77/4، والصحیحة للألباني، حدیث: 232)

شیخ البانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث، یعنی ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے والی حدیث سے جمعہ سے پہلے دو سنتیں پڑھنے کا استدلال باطل ہے کیونکہ رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں ایک اذان اور اقامت ہوتی تھی اور اس دوران میں آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔
امام بوصیری سے بھی اسی طرح منقول ہے۔
اس بارے میں وارد تمام روایات ضعیف ہیں۔
اس حدیث سے فرضی نمازوں سے قبل اور اذان کے بعد نماز پڑھنا ثابت ہوتا ہے جبکہ جمعہ کی اذان کے بعد خطبہ ہے نہ کہ نماز۔
(سلسلة الأحادیث الصحیحة: 465/1)
یاد رہے کہ شیخ ؒ کا مقصود مطلق نوافل کی نفی نہیں بلکہ صرف سنت مؤکدہ کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔
(2)
ہمارے نزدیک جمعہ سے پہلے اور اس کے بعد نماز پڑھنے کے متعلق کچھ تفصیل ہے کہ خطبۂ جمعہ شروع ہونے سے قبل غیر محدود نوافل پڑھے جا سکتے ہیں کیونکہ حدیث میں ان کی حد مقرر نہیں، بلکہ انسان کی استطاعت پر موقوف ہیں، یعنی جس قدر اسے میسر ہو نوافل پڑھ سکتا ہے۔
(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 1987 (857)
اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ سے پہلے نوافل پڑھنے کی کوئی متعین حد نہیں۔
اگر کوئی دوران خطبہ میں آتا ہے تو اسے صرف دو رکعت پڑھنے کی اجازت ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں ادا کرے اور ان دونوں رکعات کو اختصار کے ساتھ پڑھے۔
(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 2018 (875)
جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھنے کے متعلق احادیث ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز جمعہ ادا کرے تو اس کے بعد چار رکعات ادا کرے۔
(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 2037،2038 (881)
لیکن رسول اللہ ﷺ گھر میں دو رکعت پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کی ترجمۃ الباب کے تحت حدیث میں ہے، (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 937)
اس لیے اگر مسجد میں جمعہ کے بعد نماز پڑھنی ہے تو دو، دو کر کے چار رکعت پڑھنا افضل ہے۔
اور اگر گھر میں پڑھنی ہے تو دو رکعت ادا کی جائیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 937   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.