الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
رضاعت کے احکام و مسائل
The Book of Suckling
12. باب قَدْرِ مَا تَسْتَحِقُّهُ الْبِكْرُ وَالثَّيِّبُ مِنْ إِقَامَةِ الزَّوْجِ عِنْدَهَا عَقِبَ الزِّفَافِ:
12. باب: باکرہ اور ثیبہ کے پاس زفاف کے بعد شوہر کے ٹھہرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3627
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن ايوب ، وخالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، عن انس ، قال: " من السنة ان يقيم عند البكر سبعا "، قال خالد: ولو شئت قلت: رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، وَخَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " مِنَ السُّنَّةِ أَنْ يُقِيمَ عَنْدَ الْبِكْرِ سَبْعًا "، قَالَ خَالِدٌ: وَلَوْ شِئْتُ قُلْتُ: رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سفیان نے ایوب اور خالد حذاء سے خبر دی، انہوں نے ابوقلابہ سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: سنت میں سے ہے کہ (دلہا) باکرہ کے ہاں سات راتیں قیام کرے۔ خالد نے کہا: اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں: انہوں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا بیان کیا ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، سنت یہ ہے کہ کنواری کے ہاں سات دن ٹھہرے، خالد کہتے ہیں، اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں۔ انہوں نے اس کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1461

   صحيح مسلم3626أنس بن مالكتزوج البكر على الثيب أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب على البكر أقام عندها ثلاثا
   صحيح مسلم3627أنس بن مالكيقيم عند البكر سبعا
   جامع الترمذي1139أنس بن مالكالسنة إذا تزوج الرجل البكر على امرأته أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب على امرأته أقام عندها ثلاثا
   سنن ابن ماجه1916أنس بن مالكللثيب ثلاثا وللبكر سبعا
   صحيح البخاري5214أنس بن مالكتزوج الرجل البكر على الثيب أقام عندها سبعا وقسم وإذا تزوج الثيب على البكر أقام عندها ثلاثا ثم قسم
   صحيح البخاري5213أنس بن مالكتزوج البكر أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب أقام عندها ثلاثا
   جامع الترمذي1139أنس بن مالكالسنة إذا تزوج الرجل البكر على امرأته أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب على امرأته أقام عندها ثلاثا
   صحيح مسلم3626أنس بن مالكتزوج البكر على الثيب أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب على البكر أقام عندها ثلاثا
   صحيح مسلم3627أنس بن مالكيقيم عند البكر سبعا
   سنن ابن ماجه1916أنس بن مالكللثيب ثلاثا وللبكر سبعا
   سنن أبي داود2124أنس بن مالكتزوج البكر على الثيب أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب أقام عندها ثلاثا
   بلوغ المرام907أنس بن مالكتزوج الرجل البكر على الثيب،‏‏‏‏ اقام عندها سبعا ثم قسم وإذا تزوج الثيب اقام عندها ثلاثا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1916  
´کنواری اور غیر کنواری کے پاس رہنے کی مدت۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیر کنواری (شوہر دیدہ) کے لیے تین دن، اور کنواری کے لیے سات دن ہیں، (پھر باری تقسیم کر دیں) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1916]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
پہلی بیوی یا بیویوں کی موجودگی میں جب نئی شادی کی جائے تو نئی دلہن کے پاس چند دن رہ کر پھر باری مقرر کرنی چاہیے۔

(2)
نئی آنے والی دلہن اگر بیوہ یا مطلقہ ہے یعنی یہ اس کا دوسرا نکاح ہے تو خاوند کو چاہیے کہ تین دن اس کے ہاں رہائش رکھے، یعنی اس کی رہائش کے لیے جو مکان یا کمرہ مقرر کیا ہے اس میں رہائش رکھے اور اگر نئی بیوی کنواری ہے تو پورا ایک ہفتہ اس کے ساتھ رہے۔

(3)
تین دن یا سات دن نئی بیوی کے پاس رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس دوران میں پہلی بیویوں کو فراموش ہی کر دے۔
مطلب یہ ہے کہ اسے زیادہ وقت دے اور رات اس کے ساتھ گزارے۔

(4)
یہ مدت ختم ہونے کے بعد نئی بیوی کے بھی اتنے ہی حقوق ہوں گے جتنے پہلی بیویوں کے ہیں۔
جس طرح دوسری بیویوں کی باری ہوگی، اسی طرح نئی بیوی کی بھی باری ہو گی۔
خاوند اخراجات اور شب باشی میں اس کے ساتھ دوسری بیویوں جیسا سلوک کرے گا۔
اس کے ہاں وہی رات گزارے گا جب اس کی باری ہو گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1916   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 907  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ جب مرد شوہر دیدہ پر کنواری بیاہ کر لائے تو اس نئی دلہن کے پاس پہلے سات روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے اور جب شوہر دیدہ سے نکاح کرے تو اس کے پاس تین روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 907»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب إذا تزوج الثيب علي البكر، حديث:5214، مسلم، الرضاع، باب قدر ما تستحقه البكر والثيب من إقامة الزوج عندها عقبالزفاف، حديث:1461.»
تشریح:
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ نئی بیوی کے ساتھ زفاف کی راتیں بسر کرنا اس کا حق ہے اور دوسری بیویوں پر اسے ترجیح دی جائے گی۔
یہ مدت ختم ہونے کے بعد پھر نئی اور پرانی بیویاں باریوں کی تقسیم میں مساوی استحقاق رکھتی ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 907   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1139  
´کنواری اور غیر کنواری بیوی کے درمیان باری تقسیم کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو کہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا: سنت ۱؎ یہ ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات رات ٹھہرے، اور جب غیر کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین رات ٹھہرے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1139]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
صحابی کا سنت یہ ہے کہنا بھی حدیث کے مرفوع ہونے کا اشارہ ہے،
تمام ائمہ کا یہی قول ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1139   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2124  
´کنواری عورت سے نکاح کرنے پر کتنے دن اس کے ساتھ رہے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب کوئی ثیبہ کے رہتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات رات رہے، اور جب ثیبہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات رہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے تو سچ ہے لیکن انہوں نے کہا کہ سنت اسی طرح ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2124]
فوائد ومسائل:
1: صحابی کا کسی عمل کے بارے میں سنت کہہ دینا اس کے مرفوع ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔

2: تین یا سات دن کی خصوصیت ابتدائی دنوں کی ہے اس کے بعد عدل سے باری مقرر کر لی جائے اور طے شدہ نظام کے مطابق عمل کیا جائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2124   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3627  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تین دن کوپسند کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تین دن باری میں شمار نہیں ہوں گے۔
اور پھر باری جلدی آ جائےگی۔
اوردوسری حدیثوں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نئی دلہن اگر کنواری ہو تو اس کو باری سے الگ سات دن ملیں گے،
پھر باری شروع ہو گی اوراگر شوہر دیدہ ہو تو تین دن کے بعد باری کا آغاز ہو جائےگا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
احمد رحمۃ اللہ علیہ۔
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ۔
شعبی رحمۃ اللہ علیہ۔
اورنخعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم جمہور علماء کا یہی مؤقف ہے۔
امام سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ۔
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ۔
نافع رحمۃ اللہ علیہ۔
اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کنواری کے لیے تین دن اور بیوہ کے لیے دو دن زائد ہوں گے۔
لیکن احناف کے نزدیک پہلے دن سے ہی باری ہو گی،
کوئی زائد دن نہیں ملے گا۔
پھر نئی دلہن کےپاس جتنے دن ٹھہرے گا بعد میں ہر بیوی کے ہاں اتنے ہی دن ٹھہرے گا۔
لیکن یہ بات حدیث کے منافی ہے نیز جب صحابی من السنۃ کا لفظ استعمال کرے تو یہ جمہور محدثین کے نزدیک حکماً مرفوع ہے اور خالد راوی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3627   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.