الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر
مسند الحميدي
سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما سے منقول روایات
حدیث نمبر: 611
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
611 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا الزهري، قال: سمعت حميد بن عبد الرحمن بن عوف، يقول: سمعت معاوية بن ابي سفيان في يوم عاشوراء وهو علي منبر رسول الله صلي الله عليه وسلم وقد اخرج من كمه قصته من شعر، فقال: اين علماؤكم يا اهل المدينة؟ سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم ينهي عن مثل هذه، وقال: «إنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذها نساؤهم» 611 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَهُوَ عَلَي مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَخْرَجَ مِنْ كُمِّهِ قُصَّتَهً مِنْ شَعْرٍ، فَقَالَ: أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَي عَنْ مِثْلِ هَذِهِ، وَقَالَ: «إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَهَا نِسَاؤُهُمْ»
611- حمید بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں:میں نے عاشورہ کے دن سیدنا معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر سنا۔انہوں نے اپنی آستین میں سے بالوں کی وگ نکالی۔اور بولے: اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے استعمال کرنے سے منع کرتے ہوۓ سناہے:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: بنی اسرائیل اس وقت ہلاکت کا شکار ہوگئےجب ان کی خواتین نے اسے استعمال کرنا شروع کیا۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2003، 3468، 5932، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1129، 2127، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1053، 3487، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2085، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3626، 5512، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2370، 5260، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2692، 2866، 2867، 2868، 2869، 2870، 9314، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4167، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2781، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4297، 8505، 8506، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 17140»

   صحيح البخاري3468معاوية بن صخرهلكت بنو إسرائيل حين اتخذها نساؤهم
   صحيح مسلم5578معاوية بن صخرهلكت بنو إسرائيل حين اتخذ هذه نساؤهم
   جامع الترمذي2781معاوية بن صخرهلكت بنو إسرائيل حين اتخذها نساؤهم
   سنن أبي داود4167معاوية بن صخرهلكت بنو إسرائيل حين اتخذ هذه نساؤهم
   سنن النسائى الصغرى5247معاوية بن صخرهلكت بنو إسرائيل حين اتخذ نساؤهم مثل هذا
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم606معاوية بن صخرهلكت بنو إسرائيل حين اتخذ هذه نساؤهم
   مسندالحميدي611معاوية بن صخرإنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذها نساؤهم
   مسندالحميدي612معاوية بن صخرإني صائم فمن شاء منكم أن يصومه فليصمه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:611  
611- حمید بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں:میں نے عاشورہ کے دن سیدنا معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر سنا۔انہوں نے اپنی آستین میں سے بالوں کی وگ نکالی۔اور بولے: اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے استعمال کرنے سے منع کرتے ہوۓ سناہے:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: بنی اسرائیل اس وقت ہلاکت کا شکار ہوگئےجب ان کی خواتین نے اسے استعمال کرنا شروع کیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:611]
فائدہ:
اس حدیث میں وگ سے منع کیا گیا ہے، اور یہ حکم ہے، عورت اور مرد تمام اس ممانعت میں شامل ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لـعـن الـلـه الـواصـلة والمستوصلة۔۔۔۔» ‏‏‏‏اللہ تعالیٰ نے بالوں کے ساتھ بال پیوند کر نے والی اور کروانے والی پرلعنت فرمائی ہے۔ [صحيح البخاري: 5933]
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا: میں نے اپنی بیٹی کا نکاح کیا تھا، پھر اس کو بیماری لاحق ہوئی اور سر کے بال گر گئے، اس کا خاوند خواہش مند ہے کہ میں اس کے بالوں میں مصنوعی بال (موجودہ نام وگ) جوڑ دوں، آپ کی فرمائیے کہ کیا میں اس کے مصنوعی بال لگا سکتی ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مصنوعی بال لگانے اور لگوانے والی پر لعنت فرمائی۔ [صحيح البخاري: 5935 صحيح مسلم: 2122]
حمید بن عبدالرحمن بن عوف رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے اس سال سنا جب انہوں نے حج کیا اور وہ منبر پر تھے، وہ غلام کے ہاتھ سے بالوں کا ایک جوڑا (وگ) لے کر کہہ رہے تھے: اے مدینہ والو تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جوڑے (وگ) سے منع کرتے تھے اور کہتے تھے: جب بنی اسرائیل کی عورتوں نے اس طرح بنانا شروع کیا تو اس وقت بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے۔ [صحيح البخاري: 5932 صحيح مسلم: 2127]
ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ وگ لگانا مطلقاً حرام ہے، اور یہ ملعون فعل ہے جس سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
ڈاکٹر صالح بن فوزان رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جس طرح خواتین کو بلا ضرورت سر کے بالوں کو منڈوانے یا چھوٹا کرانے سے روکا گیا ہے، اسی طرح انھیں اپنے بالوں میں مزید دوسرے بالوں کو جوڑ کر اضافہ کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے، (خواتین کے دینی مسائل ص: 30)
افسوس! اس حرام کام کے مرتکب بہت سے مرد اور عورتیں پائے جاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ کو ممنوع کاموں کے ذریعے خوبصورت بنانا حماقت ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے تحت رہ کر جائز کاموں کے ذریعے خوبصورتی حاصل کرنے میں ہی کا میابی ہے، ورنہ دنیا اور آخرت میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
اگر مکمل سر گنجا ہو جائے تو وگ کا استعمال کیسا ہے؟ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وگ وغیرہ کا پہننا حرام ہے اور یہ’واصلہ‘ والی حدیث میں داخل ہے، اگر چہ یہ صریح طور پر وصل نہیں لیکن اس میں چونکہ عورت کا سر اصل حقیقت سے دور دکھائی دیتا ہے، اس لیے وصل سے ایک حد تک اس کی مشابہت ہو جاتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واصلہ (بالوں کے ساتھ اور بال ملانے والی عورت) اور مستوصلہ (بالوں کے ساتھ اور بال ملانے کا کام کرنے والی عورت) پر لعنت کی ہے، البتہ اگر عورت کے سر پر بال موجود ہی نہ ہوں یا اسے گنجا پن کا مرض لاحق ہو جائے تو پھر اس عیب کو چھپانے کے لیے وگ وغیرہ کا استعمال جائز ہے، کیونکہ کسی بھی عیب کا ازالہ جائز ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو سونے کی ناک لگوانے کی اجازت دی تھی جس کی ناک ایک جنگ میں کٹ گئی تھی، بلکہ اس مسئلہ (ازالہ عیب) میں اس سے کہیں زیادہ توسع پایا جاتا ہے اور تحسین و جمیل اور پلاسٹک سرجری وغیرہ سے متعلقہ بہت سے مسائل اس میں زیر بحث آ سکتے ہیں مثلا پلاسٹک سرجری کی مدد سے ناک چھوٹی کروانا۔۔۔ وغیرہ، ان سب صورتوں میں سے جن صورتوں کا تعلق ازالہ عیب کے ساتھ ہو، وہ جائز ہے، مثلاً کسی کی ناک ٹیڑھی ہو تو وہ اسے سیدھی کروا سکتا ہے، اس طرح اگر کسی کے جسم پر سیاہ دھبے ہوں تو انھیں صاف کروانے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اگر یہ چیزیں ازالہ عیب کی بجائے مخض فیشن کی خاطر اپنائی جائیں مثلاً بھنویں بار یک کروانا جسم میں گودائی کروانا۔۔۔ تو پھر یہ صریح طور پر ممنوع ہیں، اسی طرح ازالہ غیب سے ہٹ کر اگر وگ وغیرہ استعمال کی جائے تو وہ بھی حرام ہے، اگر چہ عورت اپنے خاوند کی اجازت و رضامندی کے ساتھ ہی ایسا کرے، کیونکہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ حرام قرار ے دیں، وہ کسی اور کی اجازت و رضا مندی سے حلال نہیں ہو سکتی۔ (فتاوی المراة المسلمة: 2/ 518، بحوالہ سہ ماہی فکر ونظر، جلد: 41، شمارہ: 3 صفحہ: 104، 105، سن: 2004ء) نیز دیکھیں: (زیبائش نسواں ص: 151)
راقم الحروف کے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ اگر کسی کے سر کے مکمل بال ختم ہو گئے ہوں تو وہ ازالہ عیب کے لیے مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر وگ نہیں لگا سکتا:
① احادیث میں بالصراحت بالوں کے ساتھ اور بال جوڑ نے (یعنی وگ) سے منع کیا گیا ہے۔
② قطعی نص کی موجودگی میں قیاس سے مسئلہ اخذ کر نامحل نظر ہے، جب نص موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو مصنوعی بال (وگ) لگانے سے منع کر دیا تھا، حالانکہ اس کے سر کے سارے بال گر گئے تھے، اب اس حدیث کی موجودگی میں اس حدیث پر قیاس کرنا جس میں ہے کہ رسول اللہ سی نے ایک صحابی کو سونے کی ناک لگانے کی اجازت دی تھی، جبکہ اس کی ناک جنگ میں کٹ گئی تھی محل نظر ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کی ناک کٹ جائے تو نئی بناوٹی ناک لگوانا جائز ہے کیونکہ اس کا جواز مل رہا ہے، اور اس سے منع بھی نہیں کیا گیا، لیکن مصنوعی بال لگوانے کی ممانعت موجود ہے، اب وہ دلیل مطلوب ہے جس میں مصنوعی بال لگوانے کی اجازت ہو۔
③ فیشن کی شرط لگانا بھی محل نظر ہے کیونکہ اس کے لیے بھی نص صریح چاہیے، کیونکہ کہا جا تا ہے کہ اگر وگ لگانا فیشن کی وجہ سے ہو تو حرام ہے، اور یہی وگ اگر فیشن کی وجہ سے نہ ہو تو جائز ہے، یہ (تفریق) قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟
④ جب گنجے پن کوختم کرنے کا علاج موجود ہے جس کا جواز بھی معلوم ہوتا ہے تو اس علاج کی موجودگی میں حرام اور ممنوع فعل مصنوعی بال (وگ) لگوانے یا جواز کا فتویٰ دینا بہر حال درست نہیں ہے۔ (بالوں کا معاملہ، ص: 44 تا 47)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 611   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.