سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے شدت سے مذی آتی تھی جس کی وجہ سے میں کثرت سے غسل کیا کرتا تھا، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”اس سے وضو کافی ہے“، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! جو کپڑے میں لگ جائے اس کا حکم کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایک چلو پانی لو، اور جہاں پہ دیکھو کہ مذی لگ گئی ہے وہاں پہ چھڑک دو، بس یہ تمہارے لیے کافی ہو گا“۱؎۔
It was narrated that Sahl bin Hunaif said:
"I used to suffer from a great deal of prostatic fluid, and I took many baths because of that. I asked the messenger of Allah about that, and he said: 'Ablution is sufficient for you in this case.' I said: 'O Messenger of Allah! What about the prostatic fluid that gets onto my clothes?' he said: 'it is sufficient for you to pour a handful of water on the part of your clothes wherever you see it has reached.'"
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 210
´مذی کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا` «. . . قَالَ: إِنَّمَا يُجْزِيكَ مِنْ ذَلِكَ الْوُضُوءُ . . .» ”. . . آپ نے فرمایا: اس میں صرف وضو کافی ہے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 210]
فوائد و مسائل: ➊ اس سے معلوم ہوا کہ مذی کے نکلنے سے وضو تو ٹوٹ جائے گا، لیکن کپڑے کو دھونا ضروری نہیں، بلکہ اس جگہ پر چھینٹے مار لینا ہی کافی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 210
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 115
´کپڑے میں مذی لگ جانے کا بیان۔` سہل بن حنیف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے مذی کی وجہ سے پریشانی اور تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا تھا، میں اس کی وجہ سے کثرت سے غسل کیا کرتا تھا، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کیا اور اس سلسلے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”اس کے لیے تمہیں وضو کافی ہے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ کپڑے میں لگ جائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: تو ایک چلو پانی لے اور اسے کپڑے پر جہاں جہاں دیکھے کہ وہ لگی ہے چھڑک لے یہ تمہارے لیے کافی ہو گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 115]
اردو حاشہ: 1؎: اور یہی راجح ہے کیونکہ حدیث میں ((نَضْحُ))”چھڑکنا“ ہی آیاہے، ہاں بطور نظافت کوئی دھولے تو یہ اس کی اپنی پسندہے، واجب نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 115