الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
63. بَابُ : تَرْكِ الصَّلاَةِ عَلَى الْمَرْجُومِ
63. باب: رجم کئے ہوئے شخص کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Not Offering The Funeral Prayer For One Who Has Been Stoned To Death
حدیث نمبر: 1958
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن يحيى، ونوح بن حبيب , قالا: حدثنا عبد الرزاق، قال: حدثنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد الله، ان رجلا من اسلم جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاعترف بالزنا فاعرض عنه، ثم اعترف فاعرض عنه، ثم اعترف فاعرض عنه، حتى شهد على نفسه اربع مرات، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ابك جنون؟" , قال: لا , قال:" احصنت" , قال: نعم , فامر به النبي صلى الله عليه وسلم فرجم، فلما اذلقته الحجارة فر فادرك فرجم فمات، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم خيرا ولم يصل عليه.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَنُوحُ بْنُ حَبِيبٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قال: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ اعْتَرَفَ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ اعْتَرَفَ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، حَتَّى شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبِكَ جُنُونٌ؟" , قَالَ: لَا , قَالَ:" أَحْصَنْتَ" , قَالَ: نَعَمْ , فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَ، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ فَرَّ فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ فَمَاتَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے (اپنا منہ) پھیر لیا، اس نے دوبارہ اعتراف کیا تو آپ نے (پھر) اپنا منہ پھیر لیا، اس نے پھر تیسری دفعہ اعتراف کیا، تو آپ نے (پھر) اپنا منہ پھیر لیا، یہاں تک کہ اس نے اپنے خلاف چار مرتبہ گواہیاں دیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے جنون ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کو رجم کر دیا گیا، جب اسے پتھر لگا تو بھاگ کھڑا ہوا، پھر وہ پکڑا گیا تو پتھروں سے مارا گیا، تو اور مر گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں اچھی بات کہی، اور اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 11 (5270)، والحدود 21 (6814)، 25 (6820) (المحاربین 7، 11)، صحیح مسلم/الحدود 5 (1691)، سنن ابی داود/الحدود 24 (4430)، سنن الترمذی/الحدود 5 (14529)، (تحفة الأشراف: 3149)، مسند احمد 3/323، سنن الدارمی/الحدود 12 (2361) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: رجم کئے جانے والے پر نماز جنازہ پڑھنے نہ پڑھنے کی بابت روایات مختلف ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ رجم کے دن نہیں پڑھی دوسرے دن پڑھی، جیسا کہ سنن ابو قرہ میں ہے، نیز امام وقت کو یہ اختیار ہے، جس کے حالات جیسے ہوں اسی کے حساب پڑھے یا نہ پڑھے، ماعز اور غامدیہ رضی الله عنہما نے سچی توبہ کی تھی، تو ان کی نماز جنازہ پڑھی، اور جو بغیر توبہ کے گواہی کی وجہ سے رجم کیا جائے اس پر نہ پڑھنا ہی بہتر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاري5270جابر بن عبد اللهيرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة جمز حتى أدرك بالحرة فقتل
   صحيح البخاري6820جابر بن عبد اللهاعترف بالزنا فأعرض عنه النبي حتى شهد على نفسه أربع مرات قال له النبي أبك جنون قال لا قال آحصنت قال نعم فأمر به فرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات فقال له النبي خير
   صحيح البخاري6814جابر بن عبد اللهرجلا من أسلم أتى رسول الله فحدثه أنه قد زنى فشهد على نفسه أربع شهادات فأمر به رسول الله فرجم وكان قد أحصن
   جامع الترمذي1429جابر بن عبد اللهأحصنت قال نعم قال فأمر به فرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات فقال له رسول الله خيرا ولم يصل عليه
   سنن أبي داود4438جابر بن عبد اللهأمر به النبي فجلد الحد ثم أخبر أنه محصن فأمر به فرجم
   سنن أبي داود4420جابر بن عبد اللهإنا لما خرجنا به فرجمناه فوجد مس الحجارة صرخ بنا يا قوم ردوني إلى رسول الله فإن قومي قتلوني وغروني من نفسي وأخبروني أن رسول الله غير قاتلي فلم ننزع عنه حتى قتلناه فلما رجعنا إلى رسول الله وأخبرناه
   سنن أبي داود4430جابر بن عبد اللهأبك جنون قال لا قال أحصنت قال نعم قال فأمر به النبي فرجم في المصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات فقال له النبي خيرا ولم يصل عليه
   سنن النسائى الصغرى1958جابر بن عبد اللهأمر به النبي فرجم فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم فمات فقال له النبي خيرا ولم يصل عليه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1958  
´رجم کئے ہوئے شخص کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے (اپنا منہ) پھیر لیا، اس نے دوبارہ اعتراف کیا تو آپ نے (پھر) اپنا منہ پھیر لیا، اس نے پھر تیسری دفعہ اعتراف کیا، تو آپ نے (پھر) اپنا منہ پھیر لیا، یہاں تک کہ اس نے اپنے خلاف چار مرتبہ گواہیاں دیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے جنون ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کو رجم کر دیا گیا، جب اسے پتھر لگا تو بھاگ کھڑا ہوا، پھر وہ پکڑا گیا تو پتھروں سے مارا گیا، تو اور مر گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں اچھی بات کہی، اور اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1958]
1958۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ شخص حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ تھے۔
منہ موڑ لیا اس میں اشارہ ہے کہ گناہ ہو جائے اور گواہ نہ ہوں تو اعتراف کے بجائے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی جائے اور توبہ کر لی جائے، توبہ بھی گناہ کو مٹا دیتی ہے، البتہ اگر وہ شخص قاضی کے سامنے زنا کا اعتراف کر لے یا اسے چار آدمی عین حالت زنا میں دیکھ لیں تو اس پر حد نافذ ہو گی۔
جنون تو نہیں؟ معلوم ہوا مجنون پر حد نہیں ہے۔
شادی شدہ ہے؟ شادی شدہ نہ ہو تو سزا کوڑے ہیں، رجم نہیں۔
تعریفی کلمات کہے کیونکہ اس نے سچی توبہ کرلی حتی کہ جان قربان کر دی۔
جنازہ نہیں پڑھا مگر دیگر روایات میں ہے کہ آپ نے جنازہ پڑھا۔ (صحیح البخاري، حدیث: 6820) دراصل اس وقت نہیں پڑھا تھا، دوسرے دن پڑھا تھا جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابوقرہ کی سنن کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (فتح الباري، حدیث: 6820-131/12) معلوم ہوا اس قسم کے شخص کا جنازہ پڑھا جائے گا مگر اہتمام کے ساتھ نہیں بلکہ چند لوگوں کے ساتھ پڑھ لیا جائے تاکہ مجرموں کی حوصلہ شکنی ہو اور میت جنازے سے محروم بھی نہ رہے۔
➐ جب تک پوری طرح بات واضح نہ ہو جائے، حد قائم نہیں کی جائے گی۔
➑ امام اپنی طرف سے کسی کو حد لگانے کی ذمہ داری سونپ سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1958   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1429  
´مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو اس سے حد ساقط کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر اس نے اقرار کیا، آپ نے پھر منہ پھیر لیا، حتیٰ کہ اس نے خود چار مرتبہ اقرار کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم پاگل ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہا ہاں: پھر آپ نے رجم کا حکم دیا، چنانچہ اسے عید گاہ میں رجم کیا گیا، جب اسے پتھروں نے نڈھال کر دیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے پکڑا گیا اور رج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1429]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی ہے،
تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی،
جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی،
اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھراسے رجم کیا گیا،
اور نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
أَتُصَلِّي عَلَيْهَا وَقَدْ زَنَتْ؟ کیا اس زانیہ عورت کی صلاۃِ جنازہ آپ پڑھیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا:
  «لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَة لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِيْنَ لَوَسعَتْهُم» یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تووہ ان سب کے لیے کافی ہوگی،
عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے،
دیکھئے:
كتاب الحدود،
باب تربص الرجم بالحبلى حتى تضع،
حدیث رقم 1435۔

2؎:
اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی وذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہوبصورت دیگر حد جاری کرنے کے لئے صرف ایک اقرار کافی ہے،
پوری حدیث باب الرجم علی الثیب کے تحت آگے آرہی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1429   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4420  
´ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم کا بیان۔`
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھ سے حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں: مجھے قبیلہ اسلم کے کچھ لوگوں نے جو تمہیں محبوب ہیں اور جنہیں میں متہم نہیں قرار دیتا بتایا ہے کہ «فهلا تركتموه» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے، حسن کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث سمجھی نہ تھی، تو میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اور ان سے کہا کہ قبیلہ اسلم کے کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے پتھر پڑنے سے ماعز کی گھبراہٹ کا جب رسول الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4420]
فوائد ومسائل:
احادیث رسول میں کسی ایک متن کولے کرحکم لگانے سے پیشتر اس کی تمام روایات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور طلبہ حدیث کو اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4420   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.