الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
Chapters on Supplication
100. باب خَلْقِ اللَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ
100. باب: اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کیں۔
حدیث نمبر: 3543
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(قدسي) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله حين خلق الخلق كتب بيده على نفسه إن رحمتي تغلب غضبي ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(قدسي) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ حِينَ خَلَقَ الْخَلْقَ كَتَبَ بِيَدِهِ عَلَى نَفْسِهِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنے آپ سے اپنی ذات پر لکھ دیا (یعنی اپنے آپ پر فرض کر لیا) کہ میری رحمت میرے غضب (غصہ) پر غالب رہے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 1 (3194)، والتوحید 15 (7404)، و27 (7453)، و54 (7553، 7554)، صحیح مسلم/التوبة 4 (2751)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (189)، والزہد 35 (4295) (تحفة الأشراف: 14139)، و مسند احمد (2/242، 258، 260، 313، 358، 381، 397) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (189)

   صحيح البخاري7422عبد الرحمن بن صخرالله لما قضى الخلق كتب عنده فوق عرشه إن رحمتي سبقت غضبي
   صحيح البخاري3194عبد الرحمن بن صخرلما قضى الله الخلق كتب في كتابه فهو عنده فوق العرش إن رحمتي غلبت غضبي
   صحيح البخاري7453عبد الرحمن بن صخرلما قضى الله الخلق كتب عنده فوق عرشه إن رحمتي سبقت غضبي
   صحيح البخاري7554عبد الرحمن بن صخرالله كتب كتابا قبل أن يخلق الخلق إن رحمتي سبقت غضبي فهو مكتوب عنده فوق العرش
   صحيح البخاري7553عبد الرحمن بن صخرلما قضى الله الخلق كتب كتابا عنده غلبت أو قال سبقت رحمتي غضبي فهو عنده فوق العرش
   صحيح البخاري7404عبد الرحمن بن صخرلما خلق الله الخلق كتب في كتابه وهو يكتب على نفسه وهو وضع عنده على العرش إن رحمتي تغلب غضبي
   صحيح مسلم6971عبد الرحمن بن صخرلما قضى الله الخلق كتب في كتابه على نفسه فهو موضوع عنده إن رحمتي تغلب غضبي
   صحيح مسلم6969عبد الرحمن بن صخرلما خلق الله الخلق كتب في كتابه فهو عنده فوق العرش إن رحمتي تغلب غضبي
   صحيح مسلم6970عبد الرحمن بن صخرسبقت رحمتي غضبي
   جامع الترمذي3543عبد الرحمن بن صخرالله حين خلق الخلق كتب بيده على نفسه إن رحمتي تغلب غضبي
   سنن ابن ماجه4295عبد الرحمن بن صخرالله لما خلق الخلق كتب بيده على نفسه إن رحمتي تغلب غضبي
   سنن ابن ماجه189عبد الرحمن بن صخركتب ربكم على نفسه بيده قبل أن يخلق الخلق رحمتي سبقت غضبي
   صحيفة همام بن منبه15عبد الرحمن بن صخرلما قضى الله الخلق كتب كتابا فهو عنده فوق العرش إن رحمتي سبقت غضبي
   مسندالحميدي1160عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7554  
´اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے`
«. . . رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ، إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي فَهُوَ مَكْتُوبٌ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ . . .»
. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ایک تحریر لکھی کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھ کر ہے، چنانچہ یہ اس کے پاس عرش کے اوپر لکھا ہوا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7554]

فوائد و مسائل
اللہ تعالیٰ کے متعلق محدثین و سلف صالحین کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«الرَّحْمَـنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى» رحمن عرش پر مستوی ہوا۔ [20-طه:5]
↰ مستوی ہونے کا مفہوم بلند ہونا اور مرتفع ہونا ہے جیسا کہ:
❀ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن الله كتب كتابا قبل ان يخلق الخلق إن رحمتي سبقت غضبي فهو مكتوب عنده فوق العرش»
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے . . . جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے۔ [صحيح بخاري 7554]
↰ لیکن اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اسی طرح وہ عرش پر مستوی ہے، ہمارے عقلیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے البتہ اس کا علم اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے، اس کی معیت ہر کسی کو حاصل ہے جیسا کہ یہ بات عقائد کی کتب میں واضح طور پر موجود ہے۔
   احکام و مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 22   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث189  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ذمہ لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 189]
اردو حاشہ:
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت اور صفت غضب کا ثبوت ہے اور اللہ تعالی کے ہاتھ مبارک کا ذکر ہے۔
ان تمام پر بلا تشبیہ ایمان لانا ضروری ہے۔
اور ہاتھ کا مطلب قدرت لینا بھی درست نہیں کیونکہ اس طرح دو صفات کو ایک صفت کے معنی میں لینے سے دوسری صفت کا انکار ہوتا ہے۔
اللہ کے دو ہاتھوں کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔
ارشاد ہے:
﴿قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾  (ص: 75)
 فرمایا:
اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 189   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.