الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
55. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ} :
55. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البروج میں) فرمان ”بلکہ وہ عظیم قرآن ہے جو لوح محفوظ میں ہے“۔
(55) Chapter. The Statement of Allah: “Nay! This is a Glorious Quran (Inscribed), in Al-Lauh Al-Mahfuz (The Preserved Tablet).” (V.85:21,22)
حدیث نمبر: 7554
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(قدسي) حدثني محمد بن ابي غالب، حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا معتمر، سمعت ابي، يقول: حدثنا قتادة، ان ابا رافع، حدثه، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الله كتب كتابا قبل ان يخلق الخلق، إن رحمتي سبقت غضبي فهو مكتوب عنده فوق العرش".(قدسي) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي غَالِبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ، إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي فَهُوَ مَكْتُوبٌ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ".
مجھ سے محمد بن غالب نے بیان کیا، ان سے محمد بن اسماعیل بصریٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے ابورافع نے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ایک تحریر لکھی کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھ کر ہے، چنانچہ یہ اس کے پاس عرش کے اوپر لکھا ہوا ہے۔

Narrated Abu Hurairah (ra): I heard Allah's Messenger (saws) saying: "Before Allah created the creations, He wrote a Book (wherein He has written): "My Mercy has preceded my Anger.' And that is written with Him over the Throne." (see Hadith 3194)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 643


   صحيح البخاري7422عبد الرحمن بن صخرالله لما قضى الخلق كتب عنده فوق عرشه إن رحمتي سبقت غضبي
   صحيح البخاري3194عبد الرحمن بن صخرلما قضى الله الخلق كتب في كتابه فهو عنده فوق العرش إن رحمتي غلبت غضبي
   صحيح البخاري7453عبد الرحمن بن صخرلما قضى الله الخلق كتب عنده فوق عرشه إن رحمتي سبقت غضبي
   صحيح البخاري7554عبد الرحمن بن صخرالله كتب كتابا قبل أن يخلق الخلق إن رحمتي سبقت غضبي فهو مكتوب عنده فوق العرش
   صحيح البخاري7553عبد الرحمن بن صخرلما قضى الله الخلق كتب كتابا عنده غلبت أو قال سبقت رحمتي غضبي فهو عنده فوق العرش
   صحيح البخاري7404عبد الرحمن بن صخرلما خلق الله الخلق كتب في كتابه وهو يكتب على نفسه وهو وضع عنده على العرش إن رحمتي تغلب غضبي
   صحيح مسلم6971عبد الرحمن بن صخرلما قضى الله الخلق كتب في كتابه على نفسه فهو موضوع عنده إن رحمتي تغلب غضبي
   صحيح مسلم6969عبد الرحمن بن صخرلما خلق الله الخلق كتب في كتابه فهو عنده فوق العرش إن رحمتي تغلب غضبي
   صحيح مسلم6970عبد الرحمن بن صخرسبقت رحمتي غضبي
   جامع الترمذي3543عبد الرحمن بن صخرالله حين خلق الخلق كتب بيده على نفسه إن رحمتي تغلب غضبي
   سنن ابن ماجه4295عبد الرحمن بن صخرالله لما خلق الخلق كتب بيده على نفسه إن رحمتي تغلب غضبي
   سنن ابن ماجه189عبد الرحمن بن صخركتب ربكم على نفسه بيده قبل أن يخلق الخلق رحمتي سبقت غضبي
   صحيفة همام بن منبه15عبد الرحمن بن صخرلما قضى الله الخلق كتب كتابا فهو عنده فوق العرش إن رحمتي سبقت غضبي
   مسندالحميدي1160عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7554  
´اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے`
«. . . رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ، إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي فَهُوَ مَكْتُوبٌ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ . . .»
. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ایک تحریر لکھی کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھ کر ہے، چنانچہ یہ اس کے پاس عرش کے اوپر لکھا ہوا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7554]

فوائد و مسائل
اللہ تعالیٰ کے متعلق محدثین و سلف صالحین کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«الرَّحْمَـنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى» رحمن عرش پر مستوی ہوا۔ [20-طه:5]
↰ مستوی ہونے کا مفہوم بلند ہونا اور مرتفع ہونا ہے جیسا کہ:
❀ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن الله كتب كتابا قبل ان يخلق الخلق إن رحمتي سبقت غضبي فهو مكتوب عنده فوق العرش»
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے . . . جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے۔ [صحيح بخاري 7554]
↰ لیکن اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اسی طرح وہ عرش پر مستوی ہے، ہمارے عقلیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے البتہ اس کا علم اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے، اس کی معیت ہر کسی کو حاصل ہے جیسا کہ یہ بات عقائد کی کتب میں واضح طور پر موجود ہے۔
   احکام و مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 22   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث189  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ذمہ لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 189]
اردو حاشہ:
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت اور صفت غضب کا ثبوت ہے اور اللہ تعالی کے ہاتھ مبارک کا ذکر ہے۔
ان تمام پر بلا تشبیہ ایمان لانا ضروری ہے۔
اور ہاتھ کا مطلب قدرت لینا بھی درست نہیں کیونکہ اس طرح دو صفات کو ایک صفت کے معنی میں لینے سے دوسری صفت کا انکار ہوتا ہے۔
اللہ کے دو ہاتھوں کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔
ارشاد ہے:
﴿قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾  (ص: 75)
 فرمایا:
اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 189   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7554  
7554. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کرنے سے پہلے ایک نوشتہ تحریر کیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھ کر ہے، اور وہ نوشتہ عرش کے اوپر اس کے پاس لکھا ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7554]
حدیث حاشیہ:
اگلی روایت میں یہ گزرا کہ خلقت پیدا کرنے کے بعد یہ کتاب لکھی تودونوں میں اختلاف ہوا۔
اس کا جواب یہ دیا کہ قضی الخلق سے یہی مراد ہے کہ پہلے خلقت کا پیدا کرنا ٹھان لیا اگر یہ مراد ہو کہ پیدا کرچکا تب بھی موافقت اس طرح ہوگی کہ اس حدیث میں پیدا کرنے سے پہلے کتاب لکھنے سے یہ مراد ہے کہ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا سووہ تو اللہ تعالیٰ ازل میں کرچکا تھا اور خلقت پیدا کرنے سے پہلے وہ موجود تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7554   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7554  
7554. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کرنے سے پہلے ایک نوشتہ تحریر کیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھ کر ہے، اور وہ نوشتہ عرش کے اوپر اس کے پاس لکھا ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7554]
حدیث حاشیہ:

ان دونوں روایات میں بظاہر تضاد ہے۔
ایک میں ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد نوشتہ لکھا اور دوسری میں ہےکہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے اسے تحریر کیا۔
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ قضی الخلق کا مطلب ہے کہ اس نے پہلے خلقت کا پیدا کرنا ٹھان لیا۔
اگر اس سے مراد یہ ہو کہ وہ پیدا کر چکاتھا تو موافقت کی صورت یہ ہوگی کہ خلقت کی تخلیق سےپہلے تحریر لکھنے سے مراد کتاب لکھنے کا ارادہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ ازل میں کر چکا تھا۔
اور خلقت کی تخلیق سے پہلے وہ ارادہ موجود تھا۔
واللہ أعلم۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا نام مصاحف میں لکھا ہوتا ہے۔
قرآن اللہ اتعالیٰ کا کلام ہے اور کلام متکلم کی ایسی صفت ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے اس سے الگ نہیں ہوتی۔
کلام کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ ذات سے الگ ہو کر کسی دوسری چیز میں حلول کر گئی ہے مخلوق میں سے جب کوئی کلام کرتا ہے تو وہ بھی ذات سے الگ نہیں ہوتی اور کسی دوسری چیز میں حلول نہیں کرتی۔
چہ جائیکہ کلام الٰہی کے متعلق یہ تصور کیا جائے کہ وہ ذات باری تعالیٰ سے الگ ہو کر کسی دوسری چیز میں حلول ہوئی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وہ بہت خطرناک بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔
(الکهف: 18۔
5)

اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ خطرناک بات ان کے منہ سے نکلتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی ذات سے الگ نہیں ہوتی۔

پیش کردہ احادیث سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کچھ ایسی فعلی صفات بھی ہیں جو اصل کے اعتبار سے قدیم ہوتی ہے لیکن مخلوق سے تعلق حادث ہوتا ہے جیسا کہ غضب اور رحمت ہے حدیث میں سبقت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تعلق اس کے غضب کے تعلق سے مقدم ہے۔
اگر یہ معنی نہ کیے جائیں تو رحمت کا غضب سے سبقت لے جانا متصور نہیں ہوتا کیونکہ غضب صفت قدیمہ ہے اور قدیم وہ ہوتا ہے جو مسبوق بالعدم نہ ہو اور نہ کوئی اس کے آگے ہی ہو اسی طرح کلام الٰہی قدیم ہے لیکن اس کا لوح محفوظ سے تعلق حادث ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7554   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.