7. باب: ایک شخص نے آزاد کرنے کی نیت سے اپنے غلام سے کہہ دیا کہ وہ اللہ کے لیے ہے (تو وہ آزاد ہو گیا) اور آزادی کے ثبوت کے لیے گواہ (ضروری ہیں)۔
(7) Chapter. If somebody says to his slave that he is for Allah; and by that he intends to manumit him (the slave is manumitted). And the witness for manumission.
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، عن محمد بن بشر، عن إسماعيل، عن قيس، عن ابي هريرة رضي الله عنه، انه لما اقبل يريد الإسلام ومعه غلامه ضل كل واحد منهما من صاحبه، فاقبل بعد ذلك وابو هريرة جالس مع النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا ابا هريرة، هذا غلامك قد اتاك، فقال: اما إني اشهدك انه حر، قال: فهو حين يقول: يا ليلة من طولها وعنائها على انها من دارة الكفر نجت".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ لَمَّا أَقْبَلَ يُرِيدُ الْإِسْلَامَ وَمَعَهُ غُلَامُهُ ضَلَّ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ، فَأَقْبَلَ بَعْدَ ذَلِكَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ جَالِسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، هَذَا غُلَامُكَ قَدْ أَتَاكَ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّهُ حُرٌّ، قَالَ: فَهُوَ حِينَ يَقُولُ: يَا لَيْلَةً مِنْ طُولِهَا وَعَنَائِهَا عَلَى أَنَّهَا مِنْ دَارَةِ الْكُفْرِ نَجَّتِ".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، ان سے محمد بن بشر نے، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ جب وہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے (مدینہ کے لیے) نکلے تو ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا۔ (راستے میں) وہ دونوں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ پھر جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (مدینہ پہنچنے کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے تو ان کا غلام بھی اچانک آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابوہریرہ! یہ لو تمہارا غلام بھی آ گیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ غلام اب آزاد ہے۔ راوی نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ پہنچ کر یہ شعر کہے تھے۔ ہے پیاری گو کٹھن ہے اور لمبی میری رات، پر دلائی اس نے دارالکفر سے مجھ کو نجات۔
Narrated Qais: When Abu Huraira accompanied by his slave set out intending to embrace Islam they lost each other on the way. The slave then came while Abu Huraira was sitting with the Prophet. The Prophet said, "O Abu Huraira! Your slave has come back." Abu Huraira said, "Indeed, I would like you to witness that I have manumitted him." That happened at the time when Abu Huraira recited (the following poetic verse):-- 'What a long tedious tiresome night! Nevertheless, it has delivered us From the land of Kufr (disbelief).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 707
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2530
حدیث حاشیہ: حالانکہ آزادی کے لیے گواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر امام بخاری ؒ نے اس کو اس لیے بیان کیا کہ باب کی حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ نے آنحضرت ﷺ کو گواہ کرکے اپنے غلام کو آزاد کیا تھا۔ بعضوں نے کہا امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ غلام کو یوں کہنا ”وہ اللہ کا ہے“ اس وقت آزاد ہوگا جب کہنے والے کی نیت آزاد کرنے کی ہو اگر کچھ اور مطلب مراد رکھے تو وہ آزاد نہ ہوگا۔ آزاد کرنے کے لیے بعض الفاظ تو صریح ہیں جیسے کہ وہ آزاد ہے یا میں نے تجھ کو آزادکردیا۔ بعضے کنایہ ہیں جیسے وہ اللہ کا ہے یعنی اب میری ملک اس پر نہیں رہی، وہ اللہ کی ملک ہوگیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2530
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2531
2531. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آتے ہوئے راستے میں یہ شعر کہا: میں رات کی درازی اور اس کی سختیوں کی شکایت کرتا ہوں، البتہ اس نے مجھے دارالکفر سے نجات دلائی ہے۔ حضرت ابوہریرۃ ؓ نے کہا کہ راستے میں میرا غلام مجھ سے جدا ہوگیا تھا۔ جب میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کی بیعت کرلی، ابھی میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک وہ غلام بھی آگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابوہریرہ ؓ! یہ تیرا غلام بھی آپہنچا ہے۔“ میں نے عرض کیا: یہ اللہ کے لیے آزاد ہے۔ پھر میں نے اسے آزاد کردیا۔ ابوعبداللہ (امام [صحيح بخاري، حديث نمبر:2531]
حدیث حاشیہ: بعض کہتے ہیں کہ یہ شعر ابوہریرہ ؓ کے غلام نے کہا تھا۔ بعض نے اسے ابومرثد غنوی کا بتلایا ہے۔ ابواسامہ کی روایت میں اتنا ہی ہے کہ وہ اللہ کے لیے ہے۔ ابو کریب والی روایت کو خود امام بخاری ؒ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2531
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4393
4393. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا تو راستے میں یہ شعر کہتا تھا: ”کیسی ہے تکلیف کی لمبی یہ رات۔۔۔ خیر اس نے کفر سے دی ہے نجات“ راستے میں میرا ایک غلام بھاگ گیا تھا۔ جب میں نبی ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور بیعت کر لی تو میں آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہ غلام مجھے دکھائی دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ! یہ ہے تمہارا غلام۔“ میں نے کہا: اب یہ اللہ کے لیے ہے اور میں نے اسے آزاد کر دیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4393]
حدیث حاشیہ: حضرت طفیل بن عمرو ؓ کی تبلیغ سے حضرت ابوہریرہ ؓ مسلمان ہوئے۔ بعد میں اللہ نے ان کو ایسا فدائے رسول ﷺ بنایا کہ یہ ہزاروں احادیث کے حافظ قرار پائے۔ آج کتب احادیث میں جگہ جگہ زیادہ تر انہیں کی روایات پائی جاتی ہیں۔ تاحیات ایک دن کے لیے بھی آنحضرت ﷺ کے دارالعلوم سے غیر حاضری نہیں کی۔ بھوکے پیاسے چوبیس گھنٹے خدمت نبوی میں موجود رہے، رضي اللہ عنه وأر ضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4393
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4393
4393. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا تو راستے میں یہ شعر کہتا تھا: ”کیسی ہے تکلیف کی لمبی یہ رات۔۔۔ خیر اس نے کفر سے دی ہے نجات“ راستے میں میرا ایک غلام بھاگ گیا تھا۔ جب میں نبی ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور بیعت کر لی تو میں آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہ غلام مجھے دکھائی دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ! یہ ہے تمہارا غلام۔“ میں نے کہا: اب یہ اللہ کے لیے ہے اور میں نے اسے آزاد کر دیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4393]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ اور ان کا غلام دونوں ایک دوسرے سے گم ہوگئے۔ (صحیح البخاري، العتق، حدیث: 2530) مذکورہ روایت اس کے منافی نہیں کیونکہ غلام کے بھاگنے کی وجہ سے حضر ت ابوہریرہ ؓ اس سے بھٹک گئے، آخر کار حضرت ابوہریرہ ؓ کے اسلام لانے کی برکت سے وہ غلام واپس آگیا جسے ابوہریرہ ؓ نے اللہ کی رضا کی خاطر آزادکردیا۔ (فتح الباري: 128/8) 2۔ حضرت طفیل بن عمرو ؓ کی تبلیغ سے حضرت ابوہریرہ ؓ مسلمان ہوئے۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کا ایسا جاں نثار بنایا کہ تاحیات رسول اللہ ﷺ کے دارالعلوم میں حاضر رہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی غیر حاضری نہیں کی۔ بھوکے پیاسے چوبیس گھنٹے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں موجود رہتے۔ اس ملازمت کی برکت سے ہزاروں احادیث کے حافظ قرارپائے۔ آج کتب احادیث میں جگہ جگہ زیادہ ترانھی کی روایات ملتی ہیں۔ رضي اللہ عنه وأرضانا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4393