ہمیں محمد بن عبداللہ بن نمیر، زہیر بن حرب اور ابوسعید اشج نے حدیث بیان کی، الفاظ سب کے ملتے جلتے ہیں، (تینوں نے) کہا: ہمیں وکیع نے اعمش سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، انہوں نے ابو عبدالرحمٰن سے، انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور انصار میں سے ایک آدمی کو ان کا امیر بنایا اور لشکر کو یہ حکم دیا کہ وہ اس کے احکام سنیں اور اس کی اطاعت کریں، (اتفاق سے) اہل لشکر نے کسی بات میں امیر کو ناراض کر دیا، اس نے کہا: میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ لشکر نے لکڑیاں جمع کیں، پھر اس نے کہا: آگ جلاؤ، انہوں نے آگ جلائی، پھر کہا: کیا تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا حکم سننے اور ماننے کا حکم نہیں دیا تھا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اس نے کہا: آگ میں داخل ہو جاؤ، انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا: ہم آگ ہی سے بھاگ کر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔ وہ اسی موقف پر قائم رہے حتی کہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور آگ بجھا دی گئی، جب وہ لوٹے تو یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی، آپ نے فرمایا: اگر یہ لوگ اس (آگ) میں داخل ہو جاتے تو پھر اس سے باہر نہ نکلتے، اطاعت صرف معروف (قابل قبول کاموں) میں ہے
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ روانہ فرمایا اور ان پر ایک انصاری آدمی کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں اس کی بات سننے اور ماننے کا حکم دیا، تو انہوں نے اسے کسی وجہ سے ناراض کر ڈالا، تو اس نے کہا، میرے لیے لکڑیاں جمع کرو، انہوں نے لکڑیاں جمع کر دیں، پھر کہا، آگ روشن کرو، انہوں نے آگ جلائی، پھر کہا، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات سننے اور ماننے کا حکم نہیں دیا تھا؟ انہوں نے کہا، کیوں نہیں، اس نے کہا، تو اس میں داخل ہو جاؤ، تو وہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کہنے لگے، ہم آگ ہی سے تو بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے ہیں وہ اس طرح پس و پیش میں تھے اور اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور آگ بجھ گئی، جب وہ واپس آئے تو انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ اس میں داخل ہو جاتے تو اس سے نہ نکلتے، اطاعت تو بس معروف میں ہے۔“