سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
Divorce (Kitab Al-Talaq)
10. باب نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلاَثِ
10. باب: تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان۔
Chapter: The Abrogation Of Taking Back A Wife After The Third Divorce.
حدیث نمبر: 2198
Save to word مکررات اعراب English
وصار قول وصار قول ابن عباس فيما حدثنا احمد بن صالح، ومحمد بن يحيى، وهذا حديث احمد، قالا: حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف، ومحمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، عن محمد بن إياس، ان ابن عباس، وابا هريرة، وعبد الله بن عمرو بن العاص سئلوا عن البكر يطلقها زوجها ثلاثا، فكلهم قالوا:" لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره". قال ابو داود: روى مالك، عن يحيى بن سعيد، عن بكير بن الاشج، عن معاوية بن ابي عياش، انه شهد هذه القصة حين جاء محمد بن إياس بن البكير إلى ابن الزبير و عاصم بن عمر، فسالهما عن ذلك. فقالا: اذهب إلى ابن عباس و ابي هريرة، فإني تركتهما عند عائشة رضي الله عنها، ثم ساق هذا الخبر. قال ابو داود: وقول ابن عباس هو:" ان الطلاق الثلاث تبين من زوجها مدخولا بها وغير مدخول بها، لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره". هذا مثل خبر الصرف، قال فيه: ثم إنه رجع عنه يعني ابن عباس.
وَصَارَ قَوْلُ وَصَارَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سُئِلُوا عَنِ الْبِكْرِ يُطَلِّقُهَا زَوْجُهَا ثَلَاثًا، فَكُلُّهُمْ قَالُوا:" لَا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ". قالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، أَنَّهُ شَهِدَ هَذِهِ الْقِصَّةَ حِينَ جَاءَ مُحَمَّدُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ وَ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، فَسَأَلَهُمَا عَنْ ذَلِكَ. فَقَالَا: اذْهَبْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَإِنِّي تَرَكْتُهُمَا عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ثُمَّ سَاقَ هَذَا الْخَبَرَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ هُوَ:" أَنَّ الطَّلَاقَ الثَّلَاثَ تَبِينُ مِنْ زَوْجِهَا مَدْخُولًا بِهَا وَغَيْرَ مَدْخُولٍ بِهَا، لَا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ". هَذَا مِثْلُ خَبَرِ الصَّرْفِ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ إِنَّهُ رَجَعَ عَنْهُ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ.
ابوداؤد کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول اگلی والی حدیث میں ہے جسے محمد بن ایاس نے روایت کیا ہے کہ ابن عباس، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے باکرہ (کنواری) کے بارے میں جسے اس کے شوہر نے تین طلاق دے دی ہو، دریافت کیا گیا تو ان سب نے کہا کہ وہ اپنے اس شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتی، جب تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کر لے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور مالک نے یحییٰ بن سعید سے یحییٰ نے بکیر بن اشبح سے بکیر نے معاویہ بن ابی عیاش سے روایت کیا ہے کہ وہ اس واقعہ میں موجود تھے جس وقت محمد بن ایاس بن بکیر، ابن زبیر اور عاصم بن عمر کے پاس آئے، اور ان دونوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو ان دونوں نے ہی کہا کہ تم ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ میں انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں، پھر انہوں نے یہ پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول کہ تین طلاق سے عورت اپنے شوہر کے لیے بائنہ ہو جائے گی، چاہے وہ اس کا دخول ہو چکا ہو، یا ابھی دخول نہ ہوا ہو، اور وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو گی، جب تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کر لے اس کی مثال «صَرْف» والی حدیث کی طرح ہے ۱؎ اس میں ہے کہ پھر انہوں یعنی ابن عباس نے اس سے رجوع کر لیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6434)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المغازی 10 (3991 تعلیقًا) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی جس طرح وہ نقدی کو نقدی سے بیچنے کے متعلق کہتے تھے کہ اس میں ربا صرف ادھار کی صورت میں ہے نقد کی صورت میں نہیں پھر انہوں نے اس سے رجوع کر لیا تھا اسی طرح یہ معاملہ بھی ہے اس سے بھی انہوں نے بعد میں رجوع کر لیا تھا۔

Abu Dawud said “The opinion of Ibn Abbas has been mentioned in the following tradition. “Ahmad bin Salih and Muhammad bin Yahya narrated this is the version of Ahmad (bin Salih)” from Abd Ar Razzaq from Mamar from Al Zuhri from Abu Salamah din Abd Al Rahman bin Awf and Muhammad bin Abd Al Rahman bin Thawban from Muhammad bin Iyas that Ibn Abbas, Abu Hurairah and Abd Alah bin Amr bin Al ‘As were asked about a virgin who is divorced three times by her husband. They all said “She is not lawful for him until she marries a man other than her former husband. ”Abu Dawud said “Malik narrated from Yahya bin Saeed from Bukair bin Al Ashajj from Muawiyah bin Abi Ayyash who was present on this occasion when Muhammad bin Iyas bin Al Bukair came to Ibn Al Zubair and Asim in Umar. He asked them about this matter. They replied “Go to Ibn Abbas and Abu Hurairah, I have left them with Aishah (may Allaah be pleased with her). He then narrated the rest of the tradition. ” Abu Dawud said “The statement of Ibn Abbas goes “The divorce by three pronouncements separates the wife from husband whether the marriage has been consummated or not, the previous husband is not lawful for her until she marries a man other than her husband”. This statement is like the tradition which deals with the exchange of money. In this tradition the narrator said “Ibn Abbas withdrew his opinion. ”"
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2192


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
الزھري صرح بالسماع في المصنف عبد الرزاق (11070)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2198 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2198  
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے تین طلاق کے مسئلے میں دو قول وارد ہیں جیسے کہ بیع صرف (سونے چاندی کی بیع) میں پہلے وہ ایک درہم کے بدلے دو درہم اور ایک دینار کے بدلے دو دینار لینا دینا(نقد میں) جائز سمجھتے تھے پھر جب انہیں اس بیع کی نہی کی موثوق کبر مل گئی تو انہوں نے اپنا فتوی بدل لیا اور اس کے ناجائز ہونے کا فتوی دینے لگے۔
اسی طرح اس مسئلہ طلاق میں بھی ان کے دو قول ہیں: ایک یہ کہ تین طلاق کے لفظ سے طلاق ہوجاتی ہے (یعنی تین) اور اکثر روایات اسی طرح ہیں اور دوسرا یہ کہ واقع نہیں ہوتی (بلکہ ایک ہوتی ہے) جیسے کہ عکرمہ نے ان سے روایات کیا ہے۔
اور یہی صحیح ہے باوجودیکہ اس کے برعکس کی اسانید زیادہ ہیں۔
طاؤس کی ان سے مرفوع روایات اسی کی مؤید ہے اور اسی کو اختیار کرنا ہمارے نزدیک واجب ہے کیونکہ یہ حدیث کئی ایک اسانید سے ان سے ثابت ہے امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ رشید ابن قیم ؒ اور بعض دیگر علماءاسی کے قائل ہیں۔
(ماخوذاز ارواءالغلیل:1227)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2198   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.