الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
3. بَابُ تَفْسِيرِ الْمُشَبَّهَاتِ:
3. باب: ملتی جلتی چیزیں یعنی شبہ والے امور کیا ہیں؟
(3) Chapter. Explanation of doubtful (unclear) things.
حدیث نمبر: 2053
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى بن قزعة، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" كان عتبة بن ابي وقاص عهد إلى اخيه سعد بن ابي وقاص، ان ابن وليدة زمعة مني، فاقبضه، قالت: فلما كان عام الفتح، اخذه سعد بن ابي وقاص، وقال ابن اخي: قد عهد إلي فيه، فقام عبد بن زمعة، فقال: اخي، وابن وليدة ابي، ولد على فراشه، فتساوقا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال سعد: يا رسول الله، ابن اخي كان قد عهد إلي فيه، فقال عبد بن زمعة: اخي، وابن وليدة ابي، ولد على فراشه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هو لك يا عبد بن زمعة، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم:" الولد للفراش وللعاهر الحجر"، ثم قال لسودة بنت زمعة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: احتجبي منه لما راى من شبهه بعتبة، فما رآها حتى لقي الله.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، أَنَّ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ مِنِّي، فَاقْبِضْهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عَامَ الْفَتْحِ، أَخَذَهُ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَقَالَ ابْنُ أَخِي: قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ، فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَتَسَاوَقَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي كَانَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ"، ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْتَجِبِي مِنْهُ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ، فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ.
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص (کافر) نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص (مسلمان) کو (مرتے وقت) وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرا ہے۔ اس لیے اسے تم اپنے قبضہ میں لے لینا۔ انہوں نے کہا کہ فتح مکہ کے سال سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے اسے لے لیا، اور کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور وہ اس کے متعلق مجھے وصیت کر گئے ہیں، لیکن عبد بن زمعہ نے اٹھ کر کہا کہ میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے، میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر دونوں یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور مجھے اس کی انہوں نے وصیت کی تھی۔ اور عبد بن زمعہ نے عرض کیا، یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے۔ انہیں کے بستر پر اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبد بن زمعہ! لڑکا تو تمہارے ہی ساتھ رہے گا۔ اس کے بعد فرمایا، بچہ اسی کا ہوتا ہے جو جائز شوہر یا مالک ہو جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہو۔ اور حرام کار کے حصہ میں پتھروں کی سزا ہے۔ پھر سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں، فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کیا کر، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کی شباہت اس لڑکے میں محسوس کر لی تھی۔ اس کے بعد اس لڑکے نے سودہ رضی اللہ عنہ کو کبھی نہ دیکھا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملا۔

Narrated Aisha: `Utba bin Abu Waqqas took a firm promise from his brother Sa`d bin Abu Waqqas to take the son of the slave-girl of Zam`a into his custody as he was his (i.e. `Utba's) son. In the year of the Conquest (of Mecca) Sa`d bin Abu Waqqas took him, and said that he was his brother's son, and his brother took a promise from him to that effect. 'Abu bin Zam`a got up and said, "He is my brother and the son of the slave-girl of my father and was born on my father's bed." Then they both went to the Prophet Sa`d said, "O Allah's Apostle! He is the son of my brother and he has taken a promise from me that I will take him." 'Abu bin Zam`a said, "(He is) my brother and the son of my father's slave-girl and was born on my father's bed." Allah's Apostle said, "The boy is for you. O 'Abu bin Zam`a." Then the Prophet said, "The son is for the bed (i.e. the man on whose bed he was born) and stones (disappointment and deprivation) for the one who has done illegal sexual intercourse." The Prophet told his wife Sauda bint Zam`a to screen herself from that boy as he noticed a similarity between the boy and `Utba. So, the boy did not see her till he died.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 269

   صحيح البخاري2533عائشة بنت عبد اللهإن عتبة بن أبي وقاص عهد إلى أخيه سعد بن أبي وقاص أن يقبض إليه ابن وليدة زمعة قال عتبة إنه ابني فلما قدم رسول الله زمن الفتح أخذ سعد ابن وليدة زمعة فأقبل به إلى رسول الله وأقبل معه بعبد بن زمعة فقال سعد يا رسول الله
   صحيح البخاري2218عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة فلم تره سودة قط
   صحيح البخاري2421عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاري6749عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاري2745عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه
   صحيح البخاري6765عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاري6817عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاري7182عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه لما رأى من شبهه بعتبة فما رآها حتى لقي الله
   صحيح البخاري2053عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح مسلم3613عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن أبي داود2273عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي عنه يا سودة
   سنن النسائى الصغرى3514عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن النسائى الصغرى3517عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   سنن ابن ماجه2004عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي عنه يا سودة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم360عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش وللعاهر الحجر
   مسندالحميدي240عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش واحتجبي منه يا سودة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 360  
´بچہ صاحب بستر کا ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولد للفراش وللعاهر الحجر . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارے سپرد ہے، اولاد اسی کی شمار ہو گی جس کے بستر پر پیدا ہو، اور زانی کے لئے پتھر (سنگسار کرنا) ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 360]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6749، من حديث مالك به ورواه مسلم 1457 من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ ایک آدمی کی ایک عورت سے شادی ہوئی پھر اس کے (نو مہینے) بعد اس عورت کا بچہ یا بچی پیدا ہوئی۔ یہ بچہ یا بچی اس آدمی کے بستر پر پیدا ہوئی ہے لہٰذا اس حدیث کی رو سے ثابت ہوا کہ یہ اسی آدمی کا بچہ یا بچی ہے الا یہ کہ باپ اس کا انکار کر دے یا کوئی شرعی قرینہ پایا جائے۔
● بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں آدمی کا بیٹا ہے، اس کا ثبوت تقلید کرنے سے ہی ملتا ہے۔‏‏‏‏ ان لوگوں کا یہ قول باطل ہے کیونکہ بیٹے یا بیٹی کا ثبوت اس صحیح حدیث (اور دوسری احادیث) سے ملتا ہے۔ جب نکاح ثابت ہو جائے تو اولاد خود بخود ثابت ہو جاتی ہے جو اس نکاح کے بعد باپ کے بستر پر پیدا ہوئی ہے۔ باپ کے بستر سے مراد یہ ہے کہ وہ فلاں عورت کا شوہر ہے۔
➋ احتیاط کرنا اور مشتبہ اشیاء سے بچنا افضل ہے۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: «دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ» جس چیز کے بارے میں تمہیں شک و شبہ ہو تو اسے چھوڑ دو اور جس چیز کے بارے میں شک و شبہ نہ ہو (یقین ہو) اسے لے لو۔ [سنن الترمذي: 2518 وسنده صحيح، وقال الترمذي: هٰذا حديث صحيح و صححه ابن خزيمة: 2348 وابن حبان، الموارد:512 والحاكم 13/2 والذهبي]
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں امہات المومنین اور صحابہ کرام ہر وقت پیش پیش اور مستعد رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
➍ بغیر کسی شری قرینے کے تمام نصوص شرعیہ کے ظاہر پر عمل ہو گا۔
➎ زنا کی سزا رجم (سنگسار / پتھر مار مار کر مار دینا) ہے بشرطیکہ زنا کرنے والا شادی شدہ ہو۔ «الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ» والی حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار المتناثره فى الاخبار المتواتره 82 و نظم المتناثر من الحديث المتواتر 181]
● اسی طرح یہ بھی متواتر ہے کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو زنا کی وجہ سے سنگسار کیا گیا تھا۔ دیکھئے: [قطف الازهار 83 ولفظ الآلي المتناثره فى الأحاديث المتواتره 47 ونظم المتناثر 182]
◄ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ شادی شدہ زانی کو سزائے رجم دینا متواتر، قطعی اور یقینی احادیث سے ثابت ہے۔ بعض منکرین حدیث کا سزائے رجم کا انکار کرنا باطل اور مردود ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 54، البخاري: 6633, 6634]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 41   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2004  
´بچے کا حقدار بستر والا (شوہر) ہے اور پتھر کا مستحق زانی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبد بن زمعہ اور سعد رضی اللہ عنہما دونوں زمعہ کی لونڈی کے بچے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بھائی (عتبہ بن ابی وقاص) نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں، اور اس کو لے لوں، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے، میرے باپ کے بستر پہ پیدا ہوا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچہ کی مشابہت عتبہ سے پائی تو فرمایا: عبد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2004]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دور جاہلیت میں کسی کی لونڈی سے ناجائز تعلق قائم کرنا برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اسلام میں صرف اپنی بیوی اور اپنی مملوکہ سے صنفی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔
باقی ہر قسم کا صنفی تعلق قابل سزا جرم ہے۔ (دیکھئے: سورۃ مومنون، آیت: 5، 6، 7)
جس طرح بیوی سے پیدا ہونے والا لڑکا مرد کا بیٹا ہوتا ہے، اسی طرح اپنی مملوکہ لونڈی سے پیدا ہونے والا لڑکا بھی مرد کا آزاد بیٹا ہوتاہے، غلام نہیں۔

(3)
جاہلیت میں ناجائز تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ اسی شخص کا بیٹا سمجھا جاتا تھا جس کے تعلقات کے نتیجے میں وہ پیدا ہوا۔
جاہلیت کے اسی رواج کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاص، زمعہ کی لونڈی سے پیدا ہونےوالے بچے کو اپنے بھا ئی کا بچہ قرار دیتے ہوئے اسے اپنی کفالت میں رکھنا چاہتے تھے۔

(4)
حضرت عبد بن زمعہ کا موقف یہ تھا کہ وہ بچہ قانونی طور پر ان کا بھائی ہے کیونکہ ان کے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کا حقیقی باپ کوئی بھی ہو۔

(5)
  بچے کی ظاہری شکل و شباہت سے یہی ثابت ہورہا تھا کہ وہ حضرت سعد کے بھائی سے پیدا ہوا ہے لیکن قانونی طور پر وہ حضرت عبد بن زمعہ کا بھائی قرار پایا۔

(6)
چونکہ واضح ہورہاتھا کہ وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا قانونی بھائی ہونے کے باوجود اصل میں بھائی نہیں، اس لیے رسول اللہﷺ نے ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔

(7)
  بعض اوقات ایک مسئلے کے دو پہلو ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے دو مختلف حکم مرتب ہوتےہیں۔
ایک معاملے میں ایک پہلو کو ترجیح دی جاتی ہے اور دوسرے معاملے میں دوسرے پہلو کو، جیسے اس لڑکے کو زمعہ کا بیٹا قرار دیے جانے کے باوجود اس کی بہن حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2004   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2273  
´بچہ صاحب فراش کا ہو گا (یعنی جس کی بیوی یا لونڈی ہو گی بچہ اسی کو ملے گا)۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا جھگڑا لے آئے، سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں تو اس کو لے لوں کیونکہ وہ انہیں کا بیٹا ہے، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، اور میرے والد کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2273]
فوائد ومسائل:

چونکہ یہ معاملات جاہلیت کے تھے اور وہ لوگ اس انداز کے اعمال میں ملوث تھے تو ان بچوں سے بھی کوئی عار نہ سمجھتے تھے مگر اسلام نے یہ قائدہ قانون دیا ہے۔
کہ بچہ بستر والے کا ہوتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بچے کی شکل سے نمایاں تھا کہ یہ ولد الزنا ہےاور عتبہ کا لڑکا ہے مگر قاعدہ اور اصول کو ترجیح دی گئی اور اسے صاحب فراش کے ساتھ ملحق کردیا گیا۔
قانونئ اعتبار سے یہ اگرچہ حضرت سودہ کا بھائی بنا مگر دعوی اور شکل وصورت زانی کے ساتھ ملتی تھی اس لیے اس کا نسب مشتبہ ٹھرا۔
تو نبی ﷺ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو پردے کا حکم دیا کیونکہ اس کا بھائی ہونا مشکوک تھا۔
اگرچہ قاعدے کی رو سے ان کے خاندان کا فرد بنا دیا گیا تھا۔


(وللعاهرِ الحجرُ) کا ایک ترجمہ زانی کے لیے محرومی ہے اس صورت میں جیم پر زبر کے بجائے سکون یعنی جزم آئے گی۔
مطلب دونوں صورتوں میں یہی ہوگا کہ اولاد کا مستحق زانی نہیں ہوگا بلکہ اس کے حصے میں سزا آئے گی۔
حد رجم یا سو کوڑے اور بچے سے وہ محروم ہی رہے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2273   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2053  
2053. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے ا پنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والا بیٹا میرے نطفے سے ہے، لہذا تم اسے اپنے قبضے میں لے لینا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے قبضے میں لے لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے اور میرے بھائی نے اسے لینے کی مجھے وصیت کی تھی۔ (اس وقت) عبد بن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یہ تو میرا بھائی ہے یعنی میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر دونوں جھگڑتے جھگڑتے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھتیجا ہے۔ میرے بھائی نے اسے تحویل میں لینے کی مجھے وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2053]
حدیث حاشیہ:
روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ عتبہ بن ابی وقاص حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ مشہور صحابی کا بھائی تھا۔
عتبہ اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں سے تھا اور کفر ہی پر اس کی موت ہوئی، زمعہ نامی ایک شخص کی لونڈی سے اسی عتبہ نے زنا کیا اور وہ حاملہ ہو گئی۔
عتبہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے بھائی حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل مجھ سے ہے۔
لہٰذا اس کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہو اس کو تم اپنی تحویل میں لے لینا، چنانچہ زمعہ کی لونڈی کے بطن سے لڑکا پیدا ہوا۔
اور وہ ان ہی کے ہاں پرورش پاتا رہا۔
جب مکہ فتح ہوا تو حضرت سعد بن ابی وقاص ؓنے چاہا کہ اپنے بھائی کی وصیت کے تحت اس بچہ کو اپنی پرورش میں لے لیں۔
مگر زمعہ کا بیٹا عبد بن زمعہ کہنے لگا کہ یہ میرے والد کی لونڈی کا بچہ ہے۔
اس لیے اس کا وارث میں ہوں جب یہ مقدمہ عدالت نبوی میں پیش ہوا تو آپ ﷺ نے یہ قانون پیش فرمایا کہ الولدُ للفراشِ و للعاهرِ الحجرُ بچہ اسی کا گردانا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہے اگرچہ وہ کسی دوسرے فرد کے زنا کا نتیجہ ہے۔
اس فرد کے حصہ میں شرعی سنگساری ہے۔
اس قانون کے تحت آنحضرت ﷺ نے وہ بچہ عبد بن زمعہ ہی کو دے دیا، مگر بچہ کی مشابہت عتبہ بن ابی وقاص ہی سے تھی، اس لیے اس شبہ کی بناءپر آنحضرت ﷺ نے حضرت ام المومنین سودہ ؓ کو حکم فرمایا کہ وہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناطے بظاہر اس لڑکے کی بہن تھیں۔
مگر لڑکا مشتبہ ہو گیا لہٰذا مناسب ہوا کہ وہ اس سے غیروں کی طرح پردہ کریں۔
حضرت امام بخاری ؒ کے نزدیک سودہ ؓ کو پردہ کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطا دیا گیا تھا کہ باندی کے ناجائز تعلقات عتبہ سے تھے اور بچے میں اسی کی شباہت تھی۔
امام بخاری ؒ کا مقصد مشتبہات کی تفسیر اور ان سے بچنے کا حکم ثابت فرمانا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
و وجه الدلالة منه قوله صلی اللہ علیه وسلم احتجبي منه یا سودة مع حکمه بأنه أخوها لأبیها لکن لما رأی الشبه البین فیه من غیر زمعة أمر سودة بالاحتجاب منه احتیاطا في قول الأکثر۔
(فتح الباري)
یعنی یہاں مشتبہات کی دلیل آنحضرت ﷺ کا وہ ارشاد مبارک ہے جو آپ نے حضرت سودہ ؓ کو فرمایا کہ بظاہر تمہارا بھائی ہے اور اسلامی قانون بھی اسی کو ثابت کرتا ہے مگر شبہ یقینا ہے کہ یہ عتبہ کا ہی لڑکا ہو جیسا کہ اس میں اس سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔
پس بہتر ہے کہ تم اس سے پردہ کرو۔
حضرت سودہ ؓ نے اس ارشاد نبوی پر عمل کیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔
الولد للفراش کا مطلب الوالد لصاحب الفراش یعنی بچہ قانوناً اسی کا تسلیم کیا جائے گا جو اس بستر کا مالک ہے جس پر بچہ پیدا ہوا ہے یعنی جو اس کا شرعی و قانونی مالک یا خاوند ہے۔
بچہ اسی کا مانا جائے گا اگرچہ وہ کسی دوسرے کے نطفہ ہی سے کیوں نہ ہو اگر ایسا مقدمہ ثابت ہو جائے تو پھر زانی کے لیے محض سنگساری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2053   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2053  
2053. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے ا پنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والا بیٹا میرے نطفے سے ہے، لہذا تم اسے اپنے قبضے میں لے لینا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے قبضے میں لے لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے اور میرے بھائی نے اسے لینے کی مجھے وصیت کی تھی۔ (اس وقت) عبد بن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یہ تو میرا بھائی ہے یعنی میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر دونوں جھگڑتے جھگڑتے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھتیجا ہے۔ میرے بھائی نے اسے تحویل میں لینے کی مجھے وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2053]
حدیث حاشیہ:
(1)
دور جاہلیت میں لونڈیاں زنا کرتی تھیں اور بڑے بڑے امراء ان کے پاس آتے تھے، جب کوئی لونڈی اس غلط کاری کے نتیجے میں حاملہ ہوجاتی تو کبھی اس کا مالک دعوی کرتا اور کبھی زانی اقرار کرتا کہ یہ حمل اس کا ہے۔
حضرت ام المومنین سودہ ؓ کے والد زمعہ کی لونڈی کا معاملہ بھی کچھ ایسا تھا، اس سے عقبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا جس سے وہ حاملہ ہوگئی۔
اس نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل میرے نطفے سے ہے۔
جب وہ بچہ جنم لے تو اسے اپنی تحویل میں لے لینا۔
فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے اپنے قبضے میں لے لینا چاہا لیکن زمعہ کا بیٹا آڑے آیا کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جاہلیت کا قانون باطل قرار دیتے ہوئے عبد بن زمعہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا:
بچہ صاحب فراش(بستر والے)
کا ہے اور زانی اس سے محروم ہے۔
مگر بچے کی مشابہت عقبہ بن ابی وقاص سے تھی، اس شبہے کی بنیاد پر آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس لڑکے سے پردہ کریں اگرچہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناتے سے اس لڑکے کی بہن تھیں۔
(2)
امام بخاری ؒ کے نزدیک حضرت سودہ ؓ کو پردے کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطاً دیا گیا کیونکہ باندی کے ناجائز تعلقات عقبہ کے ساتھ تھے اور بچے کی شکل و صورت بھی اس سے ملتی جلتی تھی۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے اشتباہ کی تفسیر فرمائی اور اس سے اجتناب کرنے کا حکم ثابت کیا۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کا حضرت سودہ ؓ کو اس بچے سے پردہ کرنے کا حکم دینا ہے،حالانکہ نبی ﷺ نے قانون اور شرعی اعتبار سے اسے ان کا بھائی قرار دیا تھا مگر اس بات کا قومی شبہ تھا کہ وہ عقبہ ہی کا لڑکا ہو جیسا کہ شکل وصورت کی ہم آہنگی سے پتہ چلتا تھا،اس لیے احتیاط کے پیش نظر آپ نے پردے کا حکم دیا۔
(فتح الباري: 371/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2053   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.