ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو محمد بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ انہیں عبایہ بن رافع بن خدیج نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے ابوعبس رضی اللہ عنہ نے خبر دی ‘ آپ کا نام عبدالرحمٰن بن جبیر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس بندے کے بھی قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہو گئے ‘ انہیں (جہنم کی) آگ چھوئے؟ (یہ نا ممکن ہے)۔“
Narrated Abu `Abs: (who is `Abdur-Rahman bin Jabir) Allah's Apostle said," Anyone whose both feet get covered with dust in Allah's Cause will not be touched by the (Hell) fire."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 66
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2811
حدیث حاشیہ: پوری آیات باب کا ترجمہ یہ ہے ” مدینہ والوں کو اور جو ان کے آس پاس گنوار رہتے ہیں‘ یہ مناسب نہ تھا کہ اللہ کے پیغمبر کے پیچھے بیٹھ رہیں اور اس کی جان کی فکر نہ کرکے اپنی جان بچانے کی فکر میں رہیں۔ اس لئے کہ لوگوں کو یعنی جہاد کرنے والوں کو خدا کی راہ میں پیاس ہو‘ بھوک ہو‘ اس مقام پر چلیں جس سے کافر خفا ہوں‘ دشمن کو کچھ بھی نقصان پہنچائیں‘ ہر ہر کے بدل ان پانچوں کاموں میں ان کا نیک عمل خدا کے پاس لکھ لیا جاتا ہے‘ بے شک اللہ نیکوں کی محنت برباد نہیں کرتا۔ “ اس آیت سے امام بخاری نے باب کا مطلب نکالا کہ اللہ کی راہ میں اگر آدمی ذرا بھی چلے اور پاؤں پر گرد پڑے تو بھی ثواب ملے گا‘ جب اللہ کی راہ میں پاؤں گرد آلود ہونے سے یہ اثر ہو کہ دوزخ کی آگ چھوئے بھی نہیں تو وہ لوگ کیسے دوزخ میں جائیں گے جنہوں نے اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں کوشش کی ہوگی۔ اگر ان سے کچھ قصور بھی ہوگئے ہیں تو اللہ جل جلالہ سے امید معافی ہے۔ اس حدیث سے مجاہدین کو خوش ہونا چاہئے کہ وہ دوزخ سے محفوظ رہیں گے (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2811
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2811
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2811 کا باب: «بَابُ مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے اور اس کے ذیل میں جو حدیث پیش کی ہے اس میں تو یقینا لفظی مناسبت موجود ہے، مگر جو آیت پیش فرمائی ہے اس میں مناسبت کا پہلو مشکل نظر آتا ہے، لہذا اس کی مناسبت کچھ اس طرح سے ہو گی کہ آیت میں اللہ کے رستے میں مقام طے کرنے کا ذکر موجود ہے، لازما جب وہ کوئی مقام اللہ کے رستے میں طے کریں گے تو گرد و غبار ان کے جسم پر لازم اڑے گی، اور جب جسم پر غبار اڑی تو جسم کی وہ جگہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہی۔ امام ابن بطال رحمہ اللہ فر ماتے ہیں: آیت کی ترجمۃ الباب سے مطابقت آیت کے جزء میں ہے: « ﴿وَلَا يَطَئُوْنَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ . . . . .﴾ »[التوبة: 120] چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل صالح کی یہ تفسیر بیان فرمائی کہ ”جس شخص کے قدم اللہ کے رستے میں غبار آلود ہوں گے اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔“[شرح ابن بطال، ج 5، ص: 26] ابن المنیر رحمہ اللہ بھی یہی مطابقت فرماتے ہیں: «المطابقة بين الآية و الترجمة فى آخر الآية عند قوله: ﴿وَلَا يَطَئُوْنَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ﴾ فأثابهم الله بخطواتهم و ان لم يلقوا قتالاً»[المتواري، ص: 157] ”آیت اور ترجمۃ الباب میں مطابقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رستے میں اٹھنے والے قدموں پر بھی ثواب کا وعدہ فرمایا ہے اگرچہ وہ قتال نہ کریں۔“ ابن الملقن رحمہ اللہ بھی اسی مناسبت کی طرف گئے ہیں۔ چنانچہ ابن الملقن رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آیت اور ترجمۃ الباب میں مطابقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رستے میں اٹھنے والے قدموں پر ثواب رکھا ہے، اگرچہ وہ قتال نہ کریں۔ پس اس کی تفسیر ہے عمل صالح اور یقینا اسے آگ نہ چھوئے گی جس کے قدم غبار آلود ہوں گے اللہ کے رستے میں۔ [التوضيح لشرح الجامع الصحيح، ج 17، ص: 297]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2811
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مذکورہ بالا آیت کریمہ میں"عمل صالح"کی تفسیر کی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ان قدموں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جو اللہ کی راہ میں غبار آلود ہوئے ہوں نیز آیت کریمہ کے مطابق لوگوں کو ان کے قدموں کے آثار پر بھی ثواب ملتا ہےلڑائی کریں یا نہ کریں۔ 2۔ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس بندے کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہو جائیں اللہ تعالیٰ اس پرجہنم کی آگ حرام کردیتا ہے وہ لڑیں یا نہ لڑیں صحیح ابن حبان کے حوالے سے یہ اضافہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی تو اکثر لوگ اپنی سواریوں سے اتر کر پیدل چلنے لگے تاکہ ان کے قدموں پر گرد غبار پڑے اور وہ اس فضیلت کے حق دار ہوں۔ (صحیح ابن حبان: 10/4764)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2811
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3118
´اللہ کے راستے میں جس کے قدم گرد آلود ہو جائیں اس کے ثواب کا بیان۔` یزید بن ابی مریم کہتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کے لیے جا رہا تھا کہ (راستے میں) مجھے عبایہ بن رافع ملے، کہا: خوش ہو جاؤ! آپ کے یہ قدم اللہ کے راستے میں اٹھ رہے ہیں (کیونکہ) میں نے ابوعبس بن جبر انصاری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے دونوں قدم اللہ کے راستے میں گرد آلود ہو جائیں تو وہ آگ یعنی جہنم کے لیے حرام ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3118]
اردو حاشہ: (1) اس روایت میں فی سبیل اللہ عام معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے، یعنی ہر نیکی کا کام۔ لغت کے لحاظ سے یہی درست ہے مگر شرعی اصطلاح لغت سے زیادہ معتبر ہوتی ہے اور قرآن وحدیث میں فی سبیل اللہ کا لفظ بالعموم جہاد کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ (2)”حرام ہے“ بشرطیکہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہ کیا ہو جو قابل معافی نہ ہو یا وہ حقوق العباد میں گرفتار نہ ہو کیونکہ حقوق العباد نیکیوں کو ختم کردیتے ہیں۔ ممکن ہے جہاد کا ثواب اس قدر زیادہ ہو کہ وہ تمام حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد بھی نجات اولیں کے لیے کافی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آگ سے ابدی آگ مراد ہے نہ کہ وقتی اور عارضی جیسے کہ گناہ گار مومنین کے لیے ہے‘ یعنی وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3118
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 907
907. حضرت عبایہ بن رفاعہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نماز جمعہ کے لیے جا رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے حضرت ابوعبس (عبدالرحمٰن بن جبر) ؓ کر ملے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہو گئے اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:907]
حدیث حاشیہ: حدیث اور ترجمہ میں مطابقت لفظ في سبیل اللہ سے ہوتی ہے اس لیے جمعہ کے لیے چلنا في سبیل اللہ ہی میں چلنا ہے گویا حضرت ابو عبس عبد الرحمن انصاری بدری صحابی مشہور نے جمعہ کو بھی جہاد کے حکم میں داخل فرمایا۔ پھر افسوس ہے ان حضرات پر جنہوں نے کتنے ہی دیہات میں جمعہ نہ ہونے کا فتوی دے کر دیہاتی مسلمانوں کو جمعہ کے ثواب سے محروم کر دیا۔ دیہات میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو شہروں میں جمعہ ادا کرنے کے لیے جائیں۔ وہ نماز پنج وقتہ تک میں سستی کرتے ہیں۔ نماز جمعہ کے لیے ان حضرات علماء نے چھوٹ دے دی جس سے ان کو کافی سہارا مل گیا۔ انا للّٰہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 907
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:907
907. حضرت عبایہ بن رفاعہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نماز جمعہ کے لیے جا رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے حضرت ابوعبس (عبدالرحمٰن بن جبر) ؓ کر ملے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہو گئے اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:907]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ اس حدیث سے جمعہ کے لیے پیدل جانے کی فضیلت ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صحابئ رسول حضرت ابو عبس ؓ نے اسے جہاد فی سبیل اللہ کے مترادف قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک اس میں عموم ہے، یعنی فی سبیل اللہ میں ہر قسم کی طاعت آ جاتی ہے لیکن ہمارے نزدیک اس قسم کی طاعات کو مجاہدہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن اسے جہاد سے تعبیر کرنا محل نظر ہے، کیونکہ جہاد تو اپنے نفس اور نفیس اشیاء کو قربان کر دینے کا نام ہے، ذیلی طاعات اس کے برابر کیسے ہو سکتی ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کو امام ترمذی ؒ نے کتاب الجهاد میں بیان کیا ہے لیکن امام بخاری ؒ نے جمعہ کو جہاد کے ساتھ ملحق کیا ہے، تاہم جہاد کے خاص فضائل عالیہ دوسری طاعات پر حاصل نہ ہوں گے۔ (2) صحیح بخاری کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ واقعہ عبایہ بن رفاعہ کو حضرت ابی عبس کے ہمراہ پیش آیا۔ سنن نسائی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ یزید بن ابی مریم کو عبایہ کے ساتھ پیش آیا۔ یزید کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے لیے پیدل جا رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے عبایہ بن رفاعہ ملے جبکہ وہ سوار تھے تو آپ نے فرمایا کہ تجھے مبارک ہو، تیرے یہ قدم اللہ کے راستے میں شمار ہوں گے کیونکہ میں نے ابو عبس بن جبر سے سنا ہے، آگے انہوں نے مذکورہ حدیث بیان کی۔ ممکن ہے کہ یہ واقعہ ہر ایک کے ساتھ پیش آیا ہو۔ اس پر مکمل بحث تو کتاب الجهاد میں آئے گی، تاہم امام بخاری ؒ نے "في سبیل اللہ" کے عموم کے پیش نظر اسے بیان کر دیا ہے جس میں جمعہ بھی شامل ہے۔ (فتح الباري: 503/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 907