حدثنا إسحاق، اخبرنا حبان، حدثنا همام، حدثنا قتادة، حدثنا انس بن مالك، قال: كان للنبي صلى الله عليه وسلم حاد يقال له: انجشة، وكان حسن الصوت، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" رويدك يا انجشة، لا تكسر القوارير"، قال قتادة: يعني ضعفة النساء.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَادٍ يُقَالُ لَهُ: أَنْجَشَةُ، وَكَانَ حَسَنَ الصَّوْتِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُوَيْدَكَ يَا أَنْجَشَةُ، لَا تَكْسِرِ الْقَوَارِيرَ"، قَالَ قَتَادَةُ: يَعْنِي ضَعَفَةَ النِّسَاءِ.
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو حبان نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حدی خواں تھے انجشہ نامی ان کی آواز بڑی اچھی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ”انجشہ! آہستہ چال اختیار کر، ان شیشوں کو مت توڑ۔“ قتادہ نے بیان کیا کہ مراد کمزور عورتیں تھیں (کہ سواری سے گر نہ جائیں)۔
Narrated Anas bin Malik: The Prophet had a Had (a camel driver) called Anjasha, and he had a nice voice. The Prophet said to him, "(Drive) slowly, O Anjasha! Do not break the glass vessels!" And Qatada said, "(By vessels') he meant the weak women."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 230
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6211
6211. حضرت انس بن مالک ؓ سے ایک اور روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کا ایک حدی خواں تھا جسے انجشہ کہا جاتا تھا۔ اس کی آواز بہت سریلی تھی۔ نبی ﷺ نے اے فرمایا: ”اے انجشہ! نرمی کرو، آبگینوں کو چورنہ کرو۔“ حضرت قتادہ نے کہا: اس سے مراد کمزور عورتیں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6211]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہری طور پر شیشے کے الفاظ استعمال کیے لیکن اس سے مراد یہ تھی کہ عورتیں کمزور ہیں۔ اور شیشوں کو توڑنے سے مراد ان کا نیچے گر کر چوٹ کھانا ہے، لیکن درحقیقت آپ کی مراد یہ تھی کہ جس طرح چوٹ لگنے سے شیشہ ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اس کی اصلاح نہیں ہوتی، اسی طرح حُدِی کی آواز سے عورتوں کے دل میں گانے کی محبت پیدا ہو گی اور اس سے ان کے اخلاق بگڑنے کا اندیشہ ہے پھر ان کی اصلاح بہت مشکل ہو گی۔ (2) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الفاظ بول کر ظاہری معنی کے بجائے باطنی معنی مراد لیے، اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6211