الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل
The Book on As-Shw
202. باب مَا جَاءَ فِي إِعَادَتِهِمَا بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ
202. باب: سورج نکلنے کے بعد فجر کی سنت پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 423
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عقبة بن مكرم العمي البصري، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، عن قتادة، عن النضر بن انس، عن بشير بن نهيك، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من لم يصل ركعتي الفجر فليصلهما بعد ما تطلع الشمس ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد روي عن ابن عمر انه فعله، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، وبه يقول: سفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق، قال: ولا نعلم احدا روى هذا الحديث عن همام بهذا الإسناد نحو هذا إلا عمرو بن عاصم الكلابي، والمعروف من حديث قتادة، عن النضر بن انس، عن بشير بن نهيك، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من ادرك ركعة من صلاة الصبح قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح.حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ فَعَلَهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ: سفيان الثوري , وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، قَالَ: وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ هَمَّامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ هَذَا إِلَّا عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ الْكِلَابِيَّ، وَالْمَعْرُوفُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو فجر کی دونوں سنتیں نہ پڑھ سکے تو انہیں سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- ابن عمر سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے ایسا کیا ہے،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،
۴- ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے ھمام سے یہ حدیث اس سند سے اس طرح روایت کی ہو سوائے عمرو بن عاصم کلابی کے۔ اور بطریق: «قتادة عن النضر بن أنس عن بشير بن نهيك عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مشہور یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے فجر کی ایک رکعت بھی سورج طلوع ہونے سے پہلے پالی تو اس نے فجر پالی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12217) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث کی سند میں ایک راوی قتادہ ہیں جو مدلس ہیں، انہوں نے نصر بن انس سے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے، نیز یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ غیر محفوظ ہے، عمرو بن عاصم جو ہمام سے روایت کر رہے ہیں، ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں، ہمام کے دیگر تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے اور اسے ان لفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے اور وہ الفاظ یہ ہیں «من أدرك ركعة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبحَ» جس آدمی نے سورج طلوع ہونے سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی اس نے صبح کی نماز پا لی (یعنی صبح کے وقت اور اس کے ثواب کو) نیز یہ حدیث اس بات پر بصراحت دلالت نہیں کرتی ہے کہ جو اسے صبح کی نماز سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد ہی لازماً پڑھے، کیونکہ اس میں صرف یہ ہے کہ جو اسے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو اسے وقت ادا میں نہ پڑھ سکا ہو یعنی سورج نکلنے سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو تو وہ اسے وقت قضاء میں یعنی سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے، اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے صبح کی نماز کے بعد ان دو رکعت کو پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اس کی تائید دارقطنی، حاکم اور بیہقی کی اس روایت سے ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «من لم يصل ركعتي الفجرحتى تطلع الشمس فليصلهما» جو آدمی سورج طلوع ہونے تک فجر کی دو رکعت سنت نہ پڑھ سکے وہ ان کو (سورج نکلنے کے بعد) پڑھ لے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2361)

قال الشيخ زبير على زئي: (423) إسناده ضعيف
قتادة عنعن (تقدم:30)
حدیث نمبر: 401
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة، ومحمد بن المثنى، قالا: حدثنا غندر محمد بن جعفر، عن شعبة، عن عمرو بن مرة، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن البراء بن عازب، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يقنت في صلاة الصبح والمغرب " قال: وفي الباب عن علي , وانس , وابي هريرة , وابن عباس , وخفاف بن ايماء بن رحضة الغفاري، قال ابو عيسى: حديث البراء حديث حسن صحيح، واختلف اهل العلم في القنوت في صلاة الفجر، فراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم القنوت في صلاة الفجر، وهو قول مالك , والشافعي، وقال احمد , وإسحاق: لا يقنت في الفجر إلا عند نازلة تنزل بالمسلمين، فإذا نزلت نازلة فللإمام ان يدعو لجيوش المسلمين.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَقْنُتُ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ وَالْمَغْرِبِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَأَنَسٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَخُفَافِ بْنِ أَيْمَاءَ بْنِ رَحْضَةَ الْغِفَارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُنُوتِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْقُنُوتَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ , وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: لَا يُقْنَتُ فِي الْفَجْرِ إِلَّا عِنْدَ نَازِلَةٍ تَنْزِلُ بِالْمُسْلِمِينَ، فَإِذَا نَزَلَتْ نَازِلَةٌ فَلِلْإِمَامِ أَنْ يَدْعُوَ لِجُيُوشِ الْمُسْلِمِينَ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فجر اور مغرب میں قنوت پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- براء کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، انس، ابوہریرہ، ابن عباس، اور خفاف بن ایماء بن رحضہ غفاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- فجر میں قنوت پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے فجر میں قنوت پڑھنے کی ہے، یہی مالک اور شافعی کا قول ہے،
۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ فجر میں قنوت نہ پڑھے، الا یہ کہ مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہوئی ہو تو ایسی صورت میں امام کو چاہیئے کہ مسلمانوں کے لشکر کے لیے دعا کرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 54 (678)، سنن ابی داود/ الصلاة 345 (1441)، سنن النسائی/التطبیق 29 (1077)، (تحفة الأشراف: 1782)، مسند احمد (4/299)، سنن الدارمی/الصلاة 216 (1638) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے شوافع نے فجر میں قنوت پڑھنا ثابت کیا ہے اور برابر پڑھتے ہیں، لیکن اس میں تو مغرب کا تذکرہ بھی ہے، اس میں کیوں نہیں پڑھتے؟ دراصل یہاں قنوت سے مراد قنوت نازلہ ہے جو بوقت مصیبت پڑھی جاتی ہے (اس سے مراد وتر والی قنوت نہیں ہے) رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم بوقت مصیبت خاص طور پر فجر میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے تھے، بلکہ بقیہ نمازوں میں بھی پڑھتے تھے، اور جب ضرورت ختم ہو جاتی تھی تو چھوڑ دیتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 543
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة، حدثنا هشيم، عن محمد بن إسحاق، عن حفص بن عبيد الله بن انس، عن انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يفطر على تمرات يوم الفطر قبل ان يخرج إلى المصلى ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُفْطِرُ عَلَى تَمَرَاتٍ يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ إِلَى الْمُصَلَّى ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں کھا لیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر صحیح البخاری/العیدین 4 (953)، وسنن ابن ماجہ/الصوم 49 (1753)، (تحفة الأشراف: 548) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1754)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.