الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
کتاب العلل کتاب: کتاب العلل 17. (باب) (زیادت ثقہ کے مقبول ہونے کی شروط)
الفاظ کی زیادتی اس وقت صحیح ہو گی جب یہ حفظ کے اعتبار سے قابل اعتماد راوی کی روایت سے ہو جیسے مالک بن انس کی بسند «نافع عن ابن عمر» روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں زکاۃ فطر ہر مسلمان آزاد اور غلام مرد اور عورت سب پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض ہے۔
تخریج الحدیث: «0»
مالک نے اس حدیث میں «من المسلمین» کا لفظ زیادہ روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «0»
ایوب سختیانی، عبیداللہ بن عمر اور کئی ائمہ حدیث نے اس حدیث کو بسند «نافع عن ابن عمر» روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اس میں «من المسلمین» کا لفظ نہیں ذکر کیا۔
تخریج الحدیث: «0»
بعض رواۃ نے نافع سے مالک کی روایت کے ہم مثل روایت کی، جو حفظ میں قابل اعتماد نہیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «0»
کئی ائمہ حدیث نے مالک کی حدیث پر اعتماد کیا ہے جن میں شافعی اور احمد بن حنبل ہیں، یہ دونوں کہتے ہیں کہ آدمی کے پاس اگر غیر مسلم غلام ہوں تو ان کی طرف سے زکاۃ فطر نہیں نکالے گا۔ اور اس پر مالک کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «0»
اور اگر حفظ میں قابل اعتماد راوی حدیث میں کوئی لفظ زیادہ روایت کرے تو اس کی زیادتی قبول کی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «0»
۴- اور کبھی حدیث بہت سارے طرق سے مروی ہوتی ہے لیکن غرابت مخصوص سند کے اعتبار سے ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے ابوکریب، ابوہشام رفاعی، ابوالسائب، حسین بن الاسود نے روایت کی وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابواسامہ نے روایت کی، ابواسامہ بسند «برید بن عبداللہ بن ابی بردة عن جدہ ابی بردة» روایت کرتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں: ”مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، اور کافر سات آنت میں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، یہ متعدد طرق سے مرفوعاً مروی ہے،
تخریج الحدیث: «0»
غرابت صرف ابوموسیٰ کی روایت سے ہے۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کے بارے میں محمود بن غیلان سے پوچھا تو انہوں کہا: یہ صرف بروایت ابوکریب، ابواسامہ سے مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: میں نے بخاری سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: یہ حدیث بروایت ابوکریب ابواسامہ مروی ہے، یہ ہمیں صرف اسی طریق سے معلوم ہے، تو میں نے کہا: اس حدیث کو مجھ سے کئی آدمیوں نے بیان کیا وہ اس کی روایت ابواسامہ سے کرتے ہیں، تو آپ تعجب کرنے لگے، اور عرض کیا کہ ابوکریب کے علاوہ میرے علم کے مطابق اس حدیث کی روایت کسی اور نے نہیں کی ہے۔
تخریج الحدیث: «0»
بخاری کہتے ہیں: ہمارے خیال میں ابوکریب نے اس حدیث کو ابواسامہ سے مذاکرہ کے دوران لیا ہے۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن ابی زیاد اور کئی دوسرے رواۃ نے ہم سے بیان کیا کہ ہم سے شبابہ بن سوار نے بیان کیا، شبابہ کہتے ہیں کہ ہم سے شعبہ نے اور شعبہ نے بکیر بن عطاء سے اور بکیر عبدالرحمٰن بن یعمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء (تونبی) اور مزفت (تارکول) والے برتن کے استعمال سے منع کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے، ہمارے علم میں شبابہ کے علاوہ کسی اور نے اس حدیث کی روایت شعبہ سے نہیں کی ہے، جب کہ بہت سارے طرق سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء (تونبی) اور مزفت (تارکول) کے برتن میں نبیذ بنانے سے منع کیا ہے، شبابہ کی حدیث میں غرابت یہ ہے کہ وہ اس حدیث کی شعبہ سے روایت میں منفرد ہیں۔
تخریج الحدیث: «0»
شعبہ اور سفیان ثوری نے اس اسناد سے بسند «بکر بن عطاء عبدالرحمٰن» یعمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج عرفہ ہے“۔ یہ حدیث اہل حدیث کے یہاں اسی سند سے معروف ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے: ہیں ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، محمد بن بشار سے معاذ بن ہشام نے، معاذ نے اپنے والد ہشام سے، اور ہشام نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، یحییٰ سے ابومزاحم نے، ابومزاحم کہتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”جو جنازے کے پیچھے چلا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی تو اسے ایک قیراط ثواب ملے گا، اور جو جنازہ کے پیچھے آخر تک چلا حتیٰ کہ وہ دفنا دیا گیا تو اسے دو قیراط ثواب ملے گا، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! دو قیراط کیا ہے: فرمایا: ”دونوں میں کا چھوٹا احد پہاڑ کے برابر ہے“۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے دارمی نے بیان کیا، اور دارمی سے مروان بن محمد نے اور مروان سے معاویہ بن سلام نے اور معاویہ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، اور یحییٰ ابومزاحم سے روایت کرتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو جنازہ کے پیچھے چلا تو اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے ...“، سابقہ حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «0»
دارمی کہتے ہیں: ہم سے مروان نے بیان کیا وہ معاویہ بن سلام سے روایت کرتے ہیں کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا: اور ہم سے ابوسعید مولی المہری نے بیان کیا وہ حمزہ بن سفینہ سے روایت کرتے ہیں، اور حمزہ بن سفینہ سائب بن یزید سے روایت کرتے ہیں کہ سائب نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور سابقہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: میں نے دارمی سے پوچھا: کیا کہ عراق میں آپ کی کس حدیث کو لوگوں نے غریب قرار دیا تو جواب دیا: سائب کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ حدیث کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر حدیث ذکر کی۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا وہ اس حدیث کی روایت دارمی سے کر رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث کئی طرق سے بسند «عائشہ رضی اللہ عنہا» مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
تخریج الحدیث: «0»
اس حدیث میں غرابت صرف سند کے اعتبار سے ہے کہ اسے سائب نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے ابوحفص عمرو بن علی الفلاس نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: ہم سے یحییٰ بن سعید القطان نے بیان کیا، یحییٰ القطان کہتے ہیں کہ ہم مغیرہ بن ابی قرہ سدوسی نے بیان کیا، مغیرہ کہتے ہیں: میں نے انس مالک کو کہتے سنا کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اونٹنی باندھ لوں اور اللہ پر توکل کروں، یا اونٹنی چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا: ”اونٹنی باندھ لو، پھر اللہ پر توکل کرو“۔
تخریج الحدیث: «0»
فلاس کہتے ہیں: یحییٰ بن سعیدالقطان کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ حدیث منکر ہے۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے غریب ہے، ہمیں انس کی حدیث سے صرف اسی طریق کا علم ہے، اس طرح کی حدیث عمرو بن امیہ الضمری سے مرفوعاً مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «0»
ترمذی کہتے ہیں: ہم نے یہ کتاب ”سنن الترمذی“ مختصراً فائدہ کی امید سے مرتب کی ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس سے نفع ہو، اس کو ہمارے لیے اپنی رحمت سے نفع بخش بنائے اور اپنی ہی رحمت سے اس کو ہمارے حق میں وبال جان نہ بنائے، آمین۔
تخریج الحدیث: «0»
(۱) سنن الترمذی (۱۸۷) ( «وَلا سَفَرٍ» کا لفظ علل کے بعض نسخوں میں ہے، لیکن صحیحین اور ترمذی میں اس کے بغیر ہے)۔
(۲) سنن الترمذی (۱۴۴۴)۔ (۳) دونوں حدیثیں صحیح ہیں، امام ترمذی کا مقصد دونوں حدیثوں کی علت بیان کرنے سے یہ ہے کہ انہوں نے وہ دلائل ذکر کر دیے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں منسوخ ہیں۔ تخریج الحدیث: «0»
|