الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
17. باب
باب
حدیث نمبر: 3676
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، قال: حدثنا ابي، عن ابيه، قال: اخبرني محمد بن جبير بن مطعم، عن ابيه جبير بن مطعم، اخبره ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتته امراة , فكلمته في شيء , وامرها بامر، فقالت: ارايت يا رسول الله إن لم اجدك؟ قال: " فإن لم تجديني فائتي ابا بكر ". قال ابو عيسى: هذا صحيح غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَخْبَرَهُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ , فَكَلَّمَتْهُ فِي شَيْءٍ , وَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ، فَقَالَتْ: أَرَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ لَمْ أَجِدْكَ؟ قَالَ: " فَإِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَائْتِي أَبَا بَكْرٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر کسی مسئلہ میں آپ سے بات کی اور آپ نے اسے کسی بات کا حکم دیا تو وہ بولی: مجھے بتائیے اللہ کے رسول! اگر میں آپ کو نہ پاؤں؟ (تو کس کے پاس جاؤں) آپ نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پانا تو ابوبکر کے پاس جانا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 5 (3659)، والأحکام 51 (7220)، والاعتصام 25 (7360)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 1 (2386) (تحفة الأشراف: 3192) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے جانشین ابوبکر رضی الله عنہ کے ہونے کی پیشین گوئی، اور ان کو اپنا جانشین بنانے کا لوگوں کو اشارہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3677
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: انبانا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، قال: سمعت ابا سلمة بن عبد الرحمن يحدث، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بينما رجل راكب بقرة إذ قالت: لم اخلق لهذا إنما خلقت للحرث "، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " آمنت بذلك انا , وابو بكر , وعمر ". قال ابو سلمة: وما هما في القوم يومئذ والله اعلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَمَا رَجُلٌ رَاكِبٌ بَقَرَةً إِذْ قَالَتْ: لَمْ أُخْلَقْ لِهَذَا إِنَّمَا خُلِقْتُ لِلْحَرْثِ "، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آمَنْتُ بِذَلِكَ أَنَا , وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ ". قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَمَا هُمَا فِي الْقَوْمِ يَوْمَئِذٍ وَاللهُ أَعْلَمُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دوران کہ ایک شخص ایک گائے پر سوار تھا اچانک وہ گائے بول پڑی کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا کی گئی ہوں، میں تو کھیت جوتنے کے لیے پیدا کی گئی ہوں (یہ کہہ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا اس پر ایمان ہے اور ابوبکر و عمر کا بھی، ابوسلمہ کہتے ہیں: حالانکہ وہ دونوں اس دن وہاں لوگوں میں موجود نہیں تھے، واللہ اعلم ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث والمزارعة 4 (2324)، وأحادیث الأنبیاء 52 (3471)، وفضائل الصحابة 5 (3663)، و6 (3690)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 1 (2388) (تحفة الأشراف: 14951) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں کے سلسلہ میں اتنا مضبوط یقین تھا کہ جو میں کہوں گا وہ دونوں اس پر آمنا و صدقنا کہیں گے، اسی لیے ان کے غیر موجودگی میں بھی آپ نے ان کی طرف سے تصدیق کر دی، یہ ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (247)
حدیث نمبر: 3677M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة بهذا الإسناد نحوه. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے شعبہ نے اسی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (247)
حدیث نمبر: 3678
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد، حدثنا إبراهيم بن المختار، عن إسحاق بن راشد، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " امر بسد الابواب إلا باب ابي بكر ". هذا غريب هذا الوجه، وفي الباب، عن ابي سعيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمَرَ بِسَدِّ الْأَبْوَابِ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ ". هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسجد کی طرف کھلنے والے) سارے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا سوائے ابوبکر رضی الله عنہ کے دروازہ کے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے
۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16410) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر الحديث (3922)
حدیث نمبر: 3679
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا إسحاق بن يحيى بن طلحة، عن عمه إسحاق بن طلحة، عن عائشة، ان ابا بكر دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " انت عتيق الله من النار " فيومئذ سمي عتيقا. هذا غريب، وروى بعضهم هذا الحديث، عن معن، وقال: عن موسى بن طلحة، عن عائشة.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ إِسْحَاق بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: " أَنْتَ عَتِيقُ اللَّهِ مِنَ النَّارِ " فَيَوْمَئِذٍ سُمِّيَ عَتِيقًا. هَذَا غَرِيبٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مَعْنٍ، وَقَالَ: عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: تم جہنم سے اللہ کے آزاد کردہ ہو تو اسی دن سے ان کا نام عتیق رکھ دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- بعض راویوں نے یہ حدیث معن سے روایت کی ہے اور سند میں «عن موسى بن طلحة عن عائشة» کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15921) (صحیح) (الصحیحة 1574)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6022 / التحقيق الثانى)
حدیث نمبر: 3680
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا تليد بن سليمان، عن ابي الجحاف، عن عطية، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من نبي إلا له وزيران من اهل السماء ووزيران من اهل الارض، فاما وزيراي من اهل السماء: فجبريل وميكائيل، واما وزيراي من اهل الارض: فابو بكر وعمر ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، وابو الجحاف اسمه: داود بن ابي عوف، ويروى عن سفيان الثوري، حدثنا ابو الجحاف وكان مرضيا , وتليد بن سليمان يكنى: ابا إدريس وهو شيعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا تَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا لَهُ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ وَوَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ: فَجِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ: فَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو الْجَحَّافِ اسْمُهُ: دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَوْفٍ، وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَحَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا , وَتَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ يكنى: أبا إدريس وهو شيعي.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے نہ ہوں اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں، رہے میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے تو وہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حدیث حسن غریب ہے،
۲- اور ابوالجحاف کا نام داود بن ابوعوف ہے، سفیان ثوری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے ابوالجحاف نے بیان کیا (اور وہ ایک پسندیدہ شخص تھے)
۳- اور تلید بن سلیمان کی کنیت ابوادریس ہے اور یہ اہل تشیع میں سے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4196) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت:
۱؎: اس کے باوجود ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کی منقبت میں حدیث روایت کی، اس سے اس روایت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، «الفضل ما شہدت بہ أعداء» ۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6056) // ضعيف الجامع الصغير (5223) //

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.