الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
21. باب
باب
حدیث نمبر: 3717
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا جعفر بن سليمان، عن ابي هارون، عن ابي سعيد الخدري، قال: " إنا كنا لنعرف المنافقين نحن معشر الانصار ببغضهم علي بن ابي طالب ". قال ابو عيسى: هذا غريب، إنما نعرفه من حديث ابي هارون، وقد تكلم شعبة في ابي هارون , وقد روي هذا عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: " إِنَّا كُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هَارُونَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي أَبِي هَارُونَ , وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم گروہ انصار، منافقوں کو علی رضی الله عنہ سے ان کے بغض رکھنے کی وجہ سے خوب پہچانتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابوہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور شعبہ نے ابوہارون کے سلسلہ میں کلام کیا ہے،
۲- یہ حدیث اعمش سے بھی روایت کی گئی ہے، جسے انہوں نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4264) (ضعیف جداً) (سند میں ابو ہارون العبدی متروک راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: (حديث أبو سعيد) ضعيف الإسناد جدا، (حديث المساور الحميري عن أمه) ضعيف (حديث المساور الحميري عن أمه)، المشكاة (6091) // ضعيف الجامع الصغير (6330) //
حدیث نمبر: 3717M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا واصل بن عبد الاعلى، حدثنا محمد بن فضيل، عن عبد الله بن عبد الرحمن ابي نصر، عن المساور الحميري، عن امه، قالت: دخلت على ام سلمة فسمعتها تقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا يحب عليا منافق , ولا يبغضه مؤمن ". وفي الباب عن علي. قال ابو عيسى: وهذا حسن غريب هذا الوجه، وعبد الله بن عبد الرحمن هو ابو نصر الوراق، وروى عنه سفيان الثوري.(مرفوع) حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي نَصْرٍ، عَنِ الْمُسَاوِرِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَمِعْتُهَا تَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ , وَلَا يَبْغَضُهُ مُؤْمِنٌ ". وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ أَبُو نَصْرٍ الْوَرَّاقُ، وَرَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ.
مساور حمیری اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس آئی تو میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: علی سے کوئی منافق دوستی نہیں کرتا اور نہ کوئی مومن ان سے بغض رکھتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- عبداللہ بن عبدالرحمٰن سے مراد ابونصر وراق ہیں اور ان سے سفیان ثوری نے روایت کی ہے،
۳- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4264) (ضعیف) (سند میں مساور حمیری اور اس کی ماں دونوں مجہول راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: (حديث أبو سعيد) ضعيف الإسناد جدا، (حديث المساور الحميري عن أمه) ضعيف (حديث المساور الحميري عن أمه)، المشكاة (6091) // ضعيف الجامع الصغير (6330) //
حدیث نمبر: 3718
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى الفزاري ابن بنت السدي، حدثنا شريك، عن ابي ربيعة، عن ابن بريدة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله امرني بحب اربعة , واخبرني انه يحبهم "، قيل: يا رسول الله سمهم لنا؟ قال: " علي منهم يقول ذلك ثلاثا، وابو ذر، والمقداد، وسلمان، امرني بحبهم واخبرني انه يحبهم ". قال: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث شريك.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ ابْنُ بِنْتِ السُّدِّيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ , وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ "، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ سَمِّهِمْ لَنَا؟ قَالَ: " عَلِيٌّ مِنْهُمْ يَقُولُ ذَلِكَ ثَلَاثًا، وَأَبُو ذَرٍّ، وَالْمِقْدَادُ، وَسَلْمَانُ، أَمَرَنِي بِحُبِّهِمْ وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے چار شخصوں سے محبت کا حکم دیا ہے، اور مجھے بتایا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ہمیں ان کا نام بتا دیجئیے، آپ نے فرمایا: علی انہیں میں سے ہیں، آپ اس جملہ کو تین بار دہرا رہے تھے اور باقی تین: ابوذر، مقداد اور سلمان ہیں، مجھے اللہ نے ان لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے، اور مجھے اس نے بتایا ہے کہ وہ بھی ان لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (149) (تحفة الأشراف: 2008)، و مسند احمد (5/356) (ضعیف) (سند میں ابو ربیعہ ایادی لین الحدیث، اور شریک القاضی ضعیف الحفظ ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (149) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (28)، ضعيف الجامع الصغير (1566) //
حدیث نمبر: 3719
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى، حدثنا شريك، عن ابي إسحاق، عن حبشي بن جنادة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " علي مني , وانا من علي، ولا يؤدي عني إلا انا او علي ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلِيٌّ مِنِّي , وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
حبشی بن جنادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور میری جانب سے نقض عہد کی بات میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کرے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (119) (تحفة الأشراف: 3290)، و مسند احمد (4/164، 95) (حسن) (سند میں شریک القاضی ضعیف الحفظ اور ابواسحاق سبیعی مدلس وصاحب اختلاط راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة رقم 1980، وتراجع الالبانی 378)»

وضاحت:
۱؎: اہل عرب کا یہ طریقہ تھا کہ نقض عہد یا صلح کی تنفیذ کا اعلان جب تک قوم کے سردار یا اس کے کسی خاص قریبی فرد کی طرف سے نہ ہوتا وہ اسے قبول نہ کرتے تھے، اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی الله عنہ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا اور پھر بعد میں اللہ کے اس فرمان «إنما المشركون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا» (سورة التوبة: 28) کے ذریعہ اعلان برأت کی خاطر علی رضی الله عنہ کو بھیجا تو آپ نے علی کی تکریم میں اسی موقع پر یہ بات فرمائی: «علی منی و أنا من علی و لا یؤدی عنی الا أنا أو علی» ۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (119)
حدیث نمبر: 3720
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن موسى القطان البغدادي، حدثنا علي بن قادم، حدثنا علي بن صالح بن حي، عن حكيم بن جبير، عن جميع بن عمير التيمي، عن ابن عمر، قال: آخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اصحابه فجاء علي تدمع عيناه، فقال: يا رسول الله آخيت بين اصحابك ولم تؤاخ بيني وبين احد، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انت اخي في الدنيا والآخرة ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، وفي الباب عن زيد بن ابي اوفى.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِكَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أَوْفَى.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے درمیان باہمی بھائی چارا کرایا تو علی رضی الله عنہ روتے ہوئے آئے اور کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان بھائی چارا کرایا ہے اور میری بھائی چارگی کسی سے نہیں کرائی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم میرے بھائی ہو دنیا اور آخرت دونوں میں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں زید بن ابی اوفی سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6677) (ضعیف) (سند میں حکیم بن جبیر ضعیف رافضی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6084) // ضعيف الجامع الصغير (1325) //
حدیث نمبر: 3721
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن عيسى بن عمر، عن السدي، عن انس بن مالك، قال: كان عند النبي صلى الله عليه وسلم طير، فقال: " اللهم ائتني باحب خلقك إليك ياكل معي هذا الطير "، فجاء علي فاكل معه. قال ابو عيسى: هذا غريب، لا نعرفه من حديث السدي إلا من هذا الوجه، وقد روي من غير وجه عن انس، وعيسى بن عمر هو كوفي، والسدي اسمه: إسماعيل بن عبد الرحمن، وقد ادرك انس بن مالك وراى الحسين بن علي، وثقه شعبة، وسفيان الثوري , وزائدة , ووثقه يحيى بن سعيد القطان.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ عِيسَى بْنِ عُمَرَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَيْرٌ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِكَ إِلَيْكَ يَأْكُلُ مَعِي هَذَا الطَّيْرَ "، فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَكَلَ مَعَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ السُّدِّيِّ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ، وَعِيسَى بْنُ عُمَرَ هُوَ كُوفِيٌّ، وَالسُّدِّيُّ اسْمُهُ: إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَقَدْ أَدْرَكَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَرَأَى الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ، وَثَّقَهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَزَائِدَةُ , وَوَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پرندہ تھا، آپ نے دعا فرمائی کہ اے للہ! میرے پاس ایک ایسے شخص کو لے آ جو تیری مخلوق میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوتا کہ وہ میرے ساتھ اس پرندہ کا گوشت کھائے، تو علی آئے اور انہوں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے سدی کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- یہ حدیث انس سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،
۳- عیسیٰ بن عمر کوفی ہیں
۴- اور سدی کا نام اسماعیل بن عبدالرحمٰن ہے، اور ان کا سماع انس بن مالک سے ہے، اور حسین بن علی کی رؤیت بھی انہیں حاصل ہے، شعبہ، سفیان ثوری اور زائدہ نے ان کی توثیق کی ہے، نیز یحییٰ بن سعید القطان نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 228) (ضعیف) (سند میں سفیان بن وکیع ضعیف اور ساقط الحدیث ہیں، اور اسماعیل بن عبد الرحمن السدی الکبیر روایت میں وہم کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ تشیع سے متہم، اور اس روایت میں تشیع ہے بھی)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6085)
حدیث نمبر: 3722
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا خلاد بن اسلم البغدادي، حدثنا النضر بن شميل، اخبرنا عوف، عن عبد الله بن عمرو بن هند الجملي، قال: قال علي: " كنت إذا سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطاني، وإذا سكت ابتداني ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: " كُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي، وَإِذَا سَكَتُّ ابْتَدَأَنِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگتا تو آپ مجھے دیتے تھے اور جب میں چپ رہتا تو خود ہی پہل کرتے (دینے میں یا بولنے میں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10200) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عمرو بن ہند جملی کا علی رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے، یعنی: سند میں انقطاع ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6086)
حدیث نمبر: 3723
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى، حدثنا محمد بن عمر بن الرومي، حدثنا شريك، عن سلمة بن كهيل، عن سويد بن غفلة، عن الصنابحي، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انا دار الحكمة وعلي بابها ". قال ابو عيسى: هذا غريب منكر، وروى بعضهم هذا الحديث عن شريك، ولم يذكروا فيه عن الصنابحي، ولا نعرف هذا الحديث عن واحد من الثقات، عن شريك، وفي الباب عن ابن عباس.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الرُّومِيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ مُنْكَرٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَرِيكٍ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ وَاحِدٍ مِنَ الثِّقَاتِ، عَنْ شَرِيكٍ، وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب، اور منکر ہے،
۲- بعض راویوں نے اس حدیث کو شریک سے روایت کیا ہے، اور انہوں نے اس میں صنابحی کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ یہ حدیث کسی ثقہ راوی کے واسطہ سے شریک سے آئی ہو، اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10209) (موضوع) (سند میں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف ہیں اور شریک کے سوا کسی نے سند میں صنابحی کا ذکر نہیں کیا ہے، جس سے پتہ چلا کہ سند میں انقطاع بھی ہوا ہے، اس حدیث پر ابن الجوزی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے موضوع کا حکم لگایا ہے، ابن تیمیہ کہتے ہیں: یہ حدیث ضعیف بلکہ عارفین حدیث کے یہاں موضوع ہے، لیکن ترمذی وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے بایں ہمہ یہ جھوٹ ہے، اس حدیث کی مفصل تخریج ہم نے اپنی کتاب شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ میں کی ہے حدیث نمبر 376)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6087) // ضعيف الجامع الصغير (6087) //
حدیث نمبر: 3724
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن بكير بن مسمار، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص، عن ابيه، قال: امر معاوية بن ابي سفيان سعدا , فقال: ما يمنعك ان تسب ابا تراب؟ قال: اما ما ذكرت ثلاثا قالهن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلن اسبه لان تكون لي واحدة منهن احب إلي من حمر النعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لعلي وخلفه في بعض مغازيه، فقال له علي: يا رسول الله تخلفني مع النساء والصبيان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى، إلا انه لا نبوة بعدي "، وسمعته يقول يوم خيبر: " لاعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله "، قال: فتطاولنا لها، فقال: " ادعوا لي عليا " , فاتاه وبه رمد فبصق في عينه، فدفع الراية إليه ففتح الله عليه، وانزلت هذه الآية ندع ابناءنا وابناءكم ونساءنا ونساءكم سورة آل عمران آية 61 الآية، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا , وفاطمة , وحسنا , وحسينا , فقال: " اللهم هؤلاء اهلي ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَمَّرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا , فَقَالَ: مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتَ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَنْ أَسُبَّهُ لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَلِيٍّ وَخَلَفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَخْلُفُنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي "، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ: " لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ "، قَالَ: فَتَطَاوَلْنَا لَهَا، فَقَالَ: " ادْعُوا لِي عَلِيًّا " , فَأَتَاهُ وَبِهِ رَمَدٌ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ، فَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ سورة آل عمران آية 61 الْآيَةَ، دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا , وَفَاطِمَةَ , وَحَسَنًا , وَحُسَيْنًا , فَقَالَ: " اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ نے ان کو امیر بنایا تو پوچھا کہ تم ابوتراب (علی) کو برا بھلا کیوں نہیں کہتے؟ انہوں نے کہا: جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد رہیں گی جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں انہیں ہرگز برا نہیں کہہ سکتا، اور ان میں سے ایک کا بھی میرے لیے ہونا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میرے لیے سرخ اونٹ ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی رضی الله عنہ سے فرماتے ہوئے سنا ہے (آپ نے انہیں اپنے کسی غزوہ میں مدینہ میں اپنا جانشیں مقرر کیا تھا تو آپ سے علی رضی الله عنہ نے کہا تھا: اللہ کے رسول! آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں)، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم میرے لیے اسی طرح ہو جس طرح ہارون موسیٰ کے لیے تھے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد نبوت نہیں ۱؎، اور دوسری یہ کہ میں نے آپ کو خیبر کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ آج میں پرچم ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اس سے اللہ اور اس کے رسول بھی محبت کرتے ہیں، سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں تو ہم سب نے اس کے لیے اپنی گردنیں بلند کیں، یعنی ہم سب کو اس کی خواہش ہوئی، آپ نے فرمایا: علی کو بلاؤ، چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور انہیں آشوب چشم کی شکایت تھی تو آپ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھ میں لگایا اور پرچم انہیں دے دیا چنانچہ اللہ نے انہیں فتح دی، تیسری بات یہ ہے کہ جب آیت کریمہ «ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم» اتری۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی الله عنہم کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ! یہ میرے اہل ہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 9 (3706)، والمغازي 78 (4416)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 4 (2404/32)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (121)، (تحفة الأشراف: 3872)، و مسند احمد (1/170، 177) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ علی رضی الله عنہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت قریب ہونے کی دلیل ہے، نیز یہ ختم نبوت کی ایک واضح دلیل ہے۔
۲؎: اس آیت مباہلہ میں جن لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل مراد لیا گیا ان میں علی رضی الله عنہ بھی شامل کئے گئے، «ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء» (الجمعة: ۴)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3725
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا الاحوص بن جواب ابو الجواب، عن يونس بن ابي إسحاق، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم جيشين , وامر على احدهما علي بن ابي طالب، وعلى الآخر خالد بن الوليد، وقال: " إذا كان القتال فعلي "، قال: فافتتح علي حصنا فاخذ منه جارية، فكتب معي خالد كتابا إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشي به، قال: فقدمت على النبي صلى الله عليه وسلم فقرا الكتاب فتغير لونه، ثم قال: " ما ترى في رجل يحب الله ورسوله , ويحبه الله ورسوله "، قال: قلت: اعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله، وإنما انا رسول فسكت. قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ أَبُو الْجَوَّابِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَيْنِ , وَأَمَّرَ عَلَى أَحَدِهِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَعَلَى الْآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَقَالَ: " إِذَا كَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ "، قَالَ: فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْنًا فَأَخَذَ مِنْهُ جَارِيَةً، فَكَتَبَ مَعِي خَالِدٌ كِتَابًا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشِي بِهِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ الْكِتَابَ فَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ، ثُمَّ قَالَ: " مَا تَرَى فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ , وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ "، قَالَ: قُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ، وَإِنَّمَا أَنَا رَسُولٌ فَسَكَتَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو لشکر بھیجے اور ان دونوں میں سے ایک کا امیر علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کو اور دوسرے کا خالد بن ولید رضی الله عنہ کو بنایا اور فرمایا: جب لڑائی ہو تو علی امیر رہیں گے چنانچہ علی رضی الله عنہ نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس سے (مال غنیمت میں سے) ایک لونڈی لے لی، تو میرے ساتھ خالد رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھ کر بھیجا جس میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی الله عنہ کی شکایت کر رہے تھے، وہ کہتے ہیں: چنانچہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیر ہو گیا پھر آپ نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو ایک ایسے شخص کے سلسلے میں جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، میں تو صرف ایک قاصد ہوں، پھر آپ خاموش ہو گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر رقم: 1704 (ضعیف الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد ومضى برقم (1756) // (286 / 1772) //
حدیث نمبر: 3726
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن المنذر الكوفي، حدثنا محمد بن فضيل، عن الاجلح، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا يوم الطائف فانتجاه، فقال الناس: لقد طال نجواه مع ابن عمه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما انتجيته ولكن الله انتجاه ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث الاجلح، وقد رواه غير ابن فضيل ايضا، عن الاجلح، ومعنى قوله: ولكن الله انتجاه يقول: الله امرني ان انتجي معه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَجْلَحِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَجَاهُ، فَقَالَ النَّاسُ: لَقَدْ طَالَ نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا انْتَجَيْتُهُ وَلَكِنَّ اللَّهَ انْتَجَاهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَجْلَحِ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ ابْنِ فُضَيْلٍ أَيْضًا، عَنِ الْأَجْلَحِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: وَلَكِنَّ اللَّهَ انتجاه يَقُولُ: اللَّهُ أَمَرَنِي أَنْ أَنْتَجِيَ مَعَهُ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ طائف کے دن علی رضی الله عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کے انداز میں کچھ باتیں کیں، لوگ کہنے لگے: آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ بڑی دیر تک سرگوشی کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ان سے سرگوشی نہیں کی ہے بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اجلح کی روایت سے جانتے ہیں، اور اسے ابن فضیل کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی اجلح سے روایت کیا ہے،
۲- آپ کے قول بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مجھے ان کے ساتھ سرگوشی کا حکم دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2654) (ضعیف) (سند میں ابوالزبیر مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6088)، الضعيفة (3084) // ضعيف الجامع الصغير (5022) //
حدیث نمبر: 3727
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن المنذر، حدثنا محمد بن فضيل، عن سالم بن ابي حفصة، عن عطية، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي: " يا علي لا يحل لاحد ان يجنب في هذا المسجد غيري وغيرك ". قال علي بن المنذر: قلت لضرار بن صرد: ما معنى هذا الحديث؟ قال: لا يحل لاحد يستطرقه جنبا غيري وغيرك. قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه وقد سمع مني محمد بن إسماعيل هذا الحديث فاستغربه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: " يَا عَلِيُّ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُجْنِبَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ غَيْرِي وَغَيْرِكَ ". قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ: قُلْتُ لِضِرَارِ بْنِ صُرَدٍ: مَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ؟ قَالَ: لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَسْتَطْرِقُهُ جُنُبًا غَيْرِي وَغَيْرِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ سَمِعَ مِنِّي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل هَذَا الْحَدِيثَ فَاسْتَغْرَبَهُ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ سے فرمایا: علی! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس مسجد میں جنبی رہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- علی بن منذر کہتے ہیں: میں نے ضرار بن صرد سے پوچھا: اس حدیث کا مفہوم کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ حالت جنابت میں وہ اس مسجد میں سے گزرے،
۳- مجھ سے محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سنا تو وہ اچنبھے میں پڑ گئے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4203) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف ہیں، اور سالم بن ابی حفصہ غالی شیعہ ہے، اور روایت میں تشیع ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6089)، الضعيفة (4973) // ضعيف الجامع الصغير (6402) //
حدیث نمبر: 3728
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى، حدثنا علي بن عابس، عن مسلم الملائي، عن انس بن مالك، قال: " بعث النبي صلى الله عليه وسلم يوم الاثنين , وصلى علي يوم الثلاثاء ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن علي، وهذا غريب، لا نعرفه إلا من حديث مسلم الاعور، ومسلم الاعور ليس عندهم بذلك القوي، وقد روي هذا عن مسلم، عن حبة، عن علي نحو هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَابِسٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْمُلَائِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ , وَصَلَّى عَلِيٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَهَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ، وَمُسْلِمٌ الْأَعْوَرُ لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ حَبَّةَ، عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَ هَذَا.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوشنبہ کو مبعوث کیا گیا اور علی نے منگل کو نماز پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اور یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف مسلم اعور کی روایت سے جانتے ہیں اور مسلم اعور محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں،
۲- اسی طرح یہ حدیث مسلم اعور سے بھی آئی ہے اور مسلم نے حبہ کے واسطہ سے اسی طرح علی سے روایت کی ہے،
۳- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1589) (ضعیف الإسناد) (سند میں علی بن عابس اور مسلم بن کیسان اعور دونوں ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
حدیث نمبر: 3729
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا خلاد بن اسلم البغدادي، حدثنا النضر بن شميل، اخبرنا عوف، عن عبد الله بن عمرو بن هند الجملي قال: قال علي: كنت إذا سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطاني وإذا سكت ابتداني. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا خَلادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: كُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي وَإِذَا سَكَتُّ ابْتَدَأَنِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عمرو بن ہند جملی سے روایت ہے کہ علی رضی الله عنہ کہتے تھے: جب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگتا تو آپ مجھے دیتے تھے اور جب میں چپ رہتا تو خود ہی پہل کرتے (دینے میں یا بولنے میں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3722 (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
حدیث نمبر: 3730
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا شريك، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن جابر بن عبد الله، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لعلي: " انت مني بمنزلة هارون من موسى إلا انه لا نبي بعدي ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب هذا الوجه، وفي الباب عن سعد، وزيد بن ارقم، وابي هريرة، وام سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِيٍّ: " أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَابِ عَنْ سَعْدٍ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ سے فرمایا: تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لیے تھے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (اور ہارون علیہ السلام اللہ کے نبی تھے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں سعد، زید بن ارقم، ابوہریرہ اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2370) (صحیح) (سند میں شریک القاضی ضعیف الحفظ ہیں، مگر سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کی حدیث (3724) سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (3729)
حدیث نمبر: 3731
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا القاسم بن دينار الكوفي، حدثنا ابو نعيم، عن عبد السلام بن حرب، عن يحيى بن سعيد، عن سعيد بن المسيب، عن سعد بن ابي وقاص، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لعلي: " انت مني بمنزلة هارون من موسى إلا انه لا نبي بعدي ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن سعد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ويستغرب هذا الحديث من حديث يحيى بن سعيد الانصاري.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِيٍّ: " أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُسْتَغْرَبُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ سے فرمایا: تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے ہارون، موسیٰ کے لیے تھے، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے
۲- اور یہ سعد بن ابی وقاص کے واسطہ سے جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کئی سندوں سے آئی ہے،
۳- اور یحییٰ بن سعید انصاری کی سند سے یہ حدیث غریب سمجھی جاتی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2830 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (121)
حدیث نمبر: 3732
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد الرازي، حدثنا إبراهيم بن المختار، عن شعبة، عن ابي بلج، عن عمرو بن ميمون، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " امر بسد الابواب إلا باب علي ". قال ابو عيسى: هذا غريب، لا نعرفه عن شعبة بهذا الإسناد إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمَرَ بِسَدِّ الْأَبْوَابِ إِلَّا بَابَ عَلِيٍّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ کے دروازے کے علاوہ (مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام) دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے شعبہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6314) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مناقب ابی بکر رضی الله عنہ میں یہ حدیث گزری کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی الله عنہ کے دروازے کے سوا مسجد نبوی میں کھلنے والے سارے دروازوں کو بند کر دینے کا حکم دیا ان دونوں حدیثوں کے درمیان بظاہر نظر آنے والے تعارض کو اس طرح دور کیا گیا ہے، کہ شروع میں مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے سوائے علی رضی الله عنہ کے بند کر دینے کا حکم ہوا، تو لوگوں نے دروازے بند کر کے روشندان کھول لیے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کے ایام میں آپ نے ابوبکر رضی الله عنہ کے روشندان کے سوا سارے لوگوں کے روشندان بند کر دیئے، (یہ روشندان اوپر بھی ہوتے تھے اور نیچے بھی، نیچے والے سے لوگ آمدورفت بھی کرتے تھے، مسجد کی طرف دروازوں کے بند ہو جانے کے بعد مسجد میں آنے جانے کے لیے لوگوں نے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا، «کما فی کتب مشکل الحدیث» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الضعيفة تحت الحديث (4932 و 4951)
حدیث نمبر: 3733
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا علي بن جعفر بن محمد بن علي، اخبرني اخي موسى بن جعفر بن محمد، عن ابيه جعفر بن محمد، عن ابيه محمد بن علي، عن ابيه علي بن الحسين، عن ابيه، عن جده علي بن ابي طالب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذ بيد حسن , وحسين , فقال: " من احبني واحب هذين , واباهما , وامهما كان معي في درجتي يوم القيامة ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه من حديث جعفر بن محمد إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَخِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ , وَحُسَيْنٍ , فَقَالَ: " مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ , وَأَبَاهُمَا , وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین رضی الله عنہما کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: جو مجھ سے محبت کرے، اور ان دونوں سے، اور ان دونوں کے باپ اور ان دونوں کی ماں سے محبت کرے، تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے جعفر بن محمد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10073)، و مسند احمد (1/77) (ضعیف) (سند میں علی بن جعفر مجہول ہیں، اور حدیث کا متن منکر ہے، ملاحظہ ہو الضعیفة رقم: 3122)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (3122)، تخريج المختارة (392 - 397) // ضعيف الجامع الصغير (5344) //
حدیث نمبر: 3734
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد، حدثنا إبراهيم بن المختار، عن شعبة، عن ابي بلج، عن عمرو بن ميمون، عن ابن عباس، قال: " اول من صلى علي ". قال: هذا غريب هذا الوجه، لا نعرفه من حديث شعبة، عن ابي بلج إلا من حديث محمد بن حميد، وابو بلج اسمه: يحيى بن سليم، وقد اختلف اهل العلم في هذا، فقال بعضهم: اول من اسلم ابو بكر الصديق، وقال بعضهم: اول من اسلم علي، وقال بعض اهل العلم: اول من اسلم من الرجال ابو بكر، واسلم علي وهو غلام ابن ثمان سنين، واول من اسلم من النساء خديجة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " أَوَّلُ مَنْ صَلَّى عَلِيٌّ ". قَالَ: هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ حُمَيْدٍ، وَأَبُو بَلْجٍ اسْمُهُ: يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ أَبُو بَكْرٍ، وَأَسْلَمَ عَلِيٌّ وَهُوَ غُلَامٌ ابْنُ ثَمَانِ سِنِينَ، وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النِّسَاءِ خَدِيجَةُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ پہلے پہل جس نے نماز پڑھی وہ علی رضی الله عنہ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، شعبہ کی یہ حدیث جسے وہ ابوبلج سے روایت کرتے ہیں ہم اسے صرف محمد بن حمید کی روایت سے جانتے ہیں اور ابوبلج کا نام یحییٰ بن سلیم ہے،
۲- اہل علم نے اس سلسلہ میں اختلاف کیا ہے، بعض راویوں نے کہا ہے کہ پہلے پہل جس نے اسلام قبول کیا ہے وہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ ہیں، اور بعضوں نے کہا ہے کہ پہلے پہل جو اسلام لائے ہیں وہ علی رضی الله عنہ ہیں، اور بعض اہل علم نے کہا ہے: بڑے مردوں میں جو پہلے پہل اسلام لائے ہیں وہ ابوبکر رضی الله عنہ ہیں اور علی رضی الله عنہ جب اسلام لائے تو وہ آٹھ سال کی عمر کے لڑکے تھے، اور عورتوں میں جو سب سے پہلے اسلام لائی ہیں وہ خدیجہ رضی الله عنہا ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (6315) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور یہی قول سب سے بہتر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الضعيفة تحت الحديث م (4932)
حدیث نمبر: 3735
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، ومحمد بن المثنى , قالا: حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، عن ابي حمزة رجل من الانصار، قال: سمعت زيد بن ارقم، يقول: " اول من اسلم علي، قال عمرو بن مرة: فذكرت ذلك لإبراهيم النخعي، فانكره فقال: اول من اسلم ابو بكر الصديق ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح وابو حمزة اسمه: طلحة بن زيد.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى , قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَال: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، يَقُولُ: " أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ، قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، فَأَنْكَرَهُ فَقَالَ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَمْزَةَ اسْمُهُ: طَلْحَةُ بْنُ زَيْدٍ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ علی رضی الله عنہ ہیں۔ عمرو بن مرہ کہتے ہیں: میں نے اسے ابراہیم نخعی سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کا انکار کیا اور کہا: سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 3664) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد عن زيد، متصل عن النخعى
حدیث نمبر: 3736
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عيسى بن عثمان ابن اخي يحيى بن عيسى، حدثنا ابو عيسى الرملي، عن الاعمش، عن عدي بن ثابت، عن زر بن حبيش، عن علي، قال: " لقد عهد إلي النبي الامي صلى الله عليه وسلم انه لا يحبك إلا مؤمن، ولا يبغضك إلا منافق ". قال عدي بن ثابت: انا من القرن الذين دعا لهم النبي صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عُثْمَانَ ابْنِ أَخِي يَحْيَى بْنِ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عِيسَى الرَّمْلِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يَبْغَضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ ". قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَا مِنَ الْقَرْنِ الَّذِينَ دَعَا لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم سے صرف مومن ہی محبت کرتا ہے اور منافق ہی بغض رکھتا ہے ۱؎۔ عدی بن ثابت کہتے ہیں: میں اس طبقے کے لوگوں میں سے ہوں، جن کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 33 (78)، سنن النسائی/الإیمان 19 (5021)، و20 (5025)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (114) (تحفة الأشراف: 10092) و مسند احمد (1/84، 95) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے شرعی محبت اور عداوت مراد ہے، مثلاً ایک آدمی علی سے تو محبت رکھتا ہے مگر ابوبکر و عمر رضی الله عنہما سے بغض رکھتا ہے تو اس کی محبت ایمان کی علامت نہیں ہو گی، اور جہاں تک بغض کا معاملہ ہے، تو صرف علی رضی الله عنہ سے بھی بغض ایمان کی نفی کے لیے کافی ہے، خواہ وہ ابوبکر و عمر و عثمان رضی الله عنہم سے محبت ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔
۲؎: یعنی: ارشاد نبوی اے اللہ تو اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھتا ہے، کہ مصداق میں اس دعائے نبوی کے افراد میں شامل ہوں کیونکہ میں علی رضی الله عنہ سے محبت رکھتا ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (114)
حدیث نمبر: 3737
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، ويعقوب بن إبراهيم , وغير واحد , قالوا: اخبرنا ابو عاصم، عن ابي الجراح، حدثني جابر بن صبيح، قال: حدثتني ام شراحيل، قالت: حدثتني ام عطية، قالت: بعث النبي صلى الله عليه وسلم جيشا فيهم علي، قالت: فسمعت النبي صلى الله عليه وسلم وهو رافع يديه يقول: " اللهم لا تمتني حتى تريني عليا ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، إنما نعرفه من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ صُبَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ شَرَاحِيلَ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا فِيهِمْ عَلِيٌّ، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ لَا تُمِتْنِي حَتَّى تُرِيَنِي عَلِيًّا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا جس میں علی رضی الله عنہ بھی تھے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے یہ دعا فرما رہے تھے: «اللهم لا تمتني حتى تريني عليا» اے اللہ! تو مجھے مارنا نہیں جب تک کہ مجھے علی کو دکھا نہ دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18142) (ضعیف) (سند میں ام شراحیل مجہول راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6090)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.